Failed Foreign Policy And Begging

ناکام خارجہ پالیسی اورمنت ترلا

:Share

پچھلے کئی عشروں سے بھارت اوراسرائیل کے باہمی تعلقات کسی سے پوشیدہ نہیں اوراب توکھلم کھلایہ دونوں ریاستوں کاگلے ملنا اوران کی منافقانہ پالیسیوں کی مماثلت سے صا ف پتہ چل رہاہے کہ دنیامیں کس طرح اپنے ظلم وستم سے دنیاکے امن کوسبوتاژکرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔میں نے اپنے کالمز میں گزشتہ برس اکتوبر2021ءمیں انڈیا،اسرائیل،امریکااور متحدہ عرب امارات کے وزرائے خارجہ کی ملاقات کومشرق وسطیٰ میں ایک نئے سیاسی و سٹرٹیجک اتحادکی اطلاع دی تھی جبکہ انڈیاکے وزیرخارجہ ایس جے شنکرنے اپنےاسرائیل کے دورے میں اپنے ہم منصب یائیرلیپیڈسے یروشلم میں ملاقات کوایشیااورمشرق وسطٰیٰ میں معاشی ترقی ،سیاسی تعاون،دو طرفہ تجارت اورمیری ٹائم سکیورٹی کے امورپر تبادلہ خیال قراردیاتھا۔

اس ملاقات کے بعدجے شنکرنے اس حوالے سے اپنےٹویٹ میں اس کی اہمیت کے بارے میں بتادیاتھاکہ مستقبل قریب میں اس کے اہم نتائج نکلیں گے۔ اس ملاقات میں کہ کرتے ہوئے اس امیدکااظہارکیاکہ اس ملاقات میں جن امور پر تفصیل سے تبادلہ خیال کیا گیا مستقبل قریب میں ان پر کام بھی کیا جائے گا۔اس ملاقات میں امریکااورمتحدہ عرب امارات کے وزرائے خارجہ انٹونی بلنکن اورشیخ عبداللہ بن زید النہیان بھی شریک تھے۔اس ملاقات میں انڈیاکی شمولیت سے خطے کے ممالک کومتنبہ کردیاگیاکہ امریکانہ صرف اس خطے میں بلکہ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کی تنہائی ختم کرنے اوراس کی مزیدمعاونت کیلئے انڈیاکواہم کرداردیناچاہتاہے؟جلدہی بلی تھیلے سے باہرآگئی اوران چاروں ممالک کے ایک ساتھ بیٹھنے کے بعدچین کے خلاف محاصرہ قائم کرنے کیلئے “کواڈ” اتحادکانام سامنے آگیا۔

سٹریٹیجک اُمورکے ماہرین کاخیال ہے کہ انڈیانے مشرق وسطیٰ کے معاملات کولے کرماضی میں ہمیشہ امریکاسے ایک مناسب فاصلہ قائم رکھاتھاجس کی ایک بڑی وجہ سابقہ سوویت یونین کے ساتھ مختلف دفاعی معاہدے تھے۔افغانستان میں جارحیت کے بعد سوویت یونین کاشیرازہ بکھرنے کے بعدانڈیانے بھی فوری طورپراسرائیل کی مددسے امریکاکے منظورنظربننے میں دیرنہیں لگائی۔ سابق صدرڈونلڈ ٹرمپ کے دورصدارت کے دوران جونہی امریکانے اسرائیل اورمتعدد خلیجی ریاستوں کے درمیان”ابراہمک معاہدہ” کروانے میں اہم کرداراداکیا،اس معاہدے کے بعد متعدد خلیجی ریاستوں اورمتحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات قائم کر لیے تھے جبکہ انہی دنوں انڈیابھی عرب ممالک سے اپنے تعلقات میں کافی اضافہ کرچکاتھا۔

جب جوبائیڈن نے بطورصدراقتدارسنبھالاتوایسالگتاتھاکہ وہ ٹرمپ کی پالیسیوں اورفیصلوں سے خودکوالگ کرلیں گے لیکن جوبائیڈن نے بھی اسرائیل کے حوالے سے ہونے والے معاہدے کی پاسداری کرتے ہوئے اسے پرعملدرآمدکاکام جاری رکھاہے اوراب چاروں ممالک کے وزرائے خارجہ کی ملاقات اسی جانب ایک قدم ہے۔انڈیا کے متحدہ عرب امارات اوراسرائیل سے تعلقات بہت اچھے ہیں۔اسی لیے امریکاچاہتاہے کہ انڈیامشرق وسطیٰ میں ایک اہم کردار اداکرے۔انڈیابھی مشرق وسطیٰ میں ایک نیاکرداراداکرنے کیلئے موقع کی تلاش میں تھاجس کیلئے پچھلے چندبرسوں سے بڑی محنت کابعداسے یہ موقع مل گیاہے اوریقیناًاس کامیابی میں جہاں اسرائیل کابراعمل دخل ہے وہاں پاکستان کی وزارت خارجہ کاتساہل اورناکامی بھی سرفہرست ہے۔

اب ایک مرتبہ پھرگذشتہ کچھ برسوں سے اسرائیل اورعرب ممالک کے درمیان تعلقات میں مزیدبہتری کے نام پرچارعرب ممالک کی ایک اہم کانفرنس اسرائیل میں منعقد ہورہی ہے جس میں شرکت کیلئےامریکی وزیرِخارجہ انٹونی بلنکن بھی اسرائیل پہنچ چکے ہیں۔ اس مرتبہ متحدہ عرب امارات،بحرین،مراکش اورمصرکے وزرائے خارجہ بھی اس کانفرنس میں شریک ہورہے ہیں۔پہلی مرتبہ اسرائیل اتنے سارے عرب ممالک کے سینیئرعہدیداروں کے اجلاس کی میزبانی کررہاہے۔یہ اجلاس اسرائیل کے صحرائی خطے نیگیومیں ہو رہاہے اوراس اجلاس میں ایران سے جوہری مذاکرات اوریوکرین میں جاری جنگ پربات بھی متوقع ہے۔دراصل امریکاروس کوتنہا کرنے کی کوشش میں عرب ممالک کی حمایت چاہتاہےمگرمشرقِ وسطیٰ کے کئی ممالک روس پرسخت پابندیوں کے حق میں نہیں ہیں کیونکہ اُنہیں اس سے گندم کی درآمد متاثرہونے کاخدشہ ہے لیکن اس اہم کانفرنس سے مستقبل کے ارادوں کاپتہ چلتاہے کہ پہلی مرتبہ اسرائیل کی میزبانی میں اتنی اہم تاریخی کانفرنس میں مشترکہ مفادات کے تحفظ کیلئے امریکاکے ایماء پرمشرقِ وسطیٰ میں اتحادیوں کوخصوصی ٹاسک بھی دیاجائے گاجہاں روس یوکرائن کی جنگ میں آرپارکافیصلہ کیاجائے گاجبکہ برسلزمیں یورپی ممالک کے ساتھ بائیڈن کی ملاقات بھی اسی ضمن میں ہورہی ہے۔

اس اجلاس کی ٹائمنگ اس لئے بہت اہم ہے کہ اسرائیلی وزیرِخارجہ یائرلاپیدمتحدہ عرب امارات،بحرین،مراکش،مصراورامریکا کے وزرائے خارجہ کواعتمادمیں لیتے ہوئے مشرقِ وسطیٰ میں(تعلقات)کونئے خطوط پراستوارکرنےکی یقین دہانی کروائیں گے کیونکہ اس وقت امریکاکے تمام اتحادیوں میں افراتفری ہے، بالخصوص افغانستان سے متعلق امریکی فیصلے کے بعدیہ لوگ خودکوایک طرح سے غیرمحفوظ سمجھنے لگے ہیں۔ یہ اجلاس اس لئےبہت اہم ہے کہ امریکی وزیر خارجہ خودنفس بہ نفیس اس میں شامل ہوکران تمام ممالک کو یقین دہانی کرواتے دکھائی دیں گے کہ وہ ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔اس کے علاوہ اس اجلاس میں معاشی سرگرمیوں اورذرائعِ توانائی کے تحفظ پربھی بات ہوگی کیونکہ ایک طرح سے امریکامشرقِ وسطیٰ میں اپنی ساکھ کھورہاہے اوراس اجلاس سے لگتاہے کہ وہ تمام ممالک کومتحدکرکے اپنے مقاصدکے حصول کیلئے اس خطے میں دوبارہ اپنے کھوئے ہوئے تسلط کاتحفظ چاہتاہے۔

اس اجلاس کی تزویراتی اہمیت کونظراندازنہیں کیاجاسکتااوراسرائیل کیلئے یہ کانفرنس اس لئے بہت اہم ہے کہ وہ کئی دہائیوں سے اس خطے کے دیگرممالک کے ساتھ آزادانہ تعلقات کے قیام کی کوششیں کررہاہے جومسئلہ فلسطین سے بالاترہوں۔اگراس نقطہ نظرسے دیکھاجائے تواسرائیل نے اس میں زبردست کامیابی حاصل کی ہے اوراس وقت تمام اہم عرب ممالک فلسطین کوبھول چکے ہیں پھراس اجلاس کی علامتی اہمیت یہ بھی ہے کہ یہ نیگیوشہرمیں ہورہاہے جو اسرائیل کے پہلے وزیرِاعظم ڈیوڈ بن گوریان کی جائے پیدائش ہے ۔کہاجارہاہے کہ اسرائیل تمام مہمانوں کوڈیوڈبن گوریان کی یادگارپرلے جاناچاہتاہے تاہم یہ اب تک پروگرام میں شامل نہیں ہے۔

اس وقت روس یوکرین جنگ کے باعث توانائی کے بحران کاخدشہ کافی زیادہ ہے۔اس کے علاوہ عالمی منڈی میں تیل کی بڑھتی قیمتیں وہ معاملہ ہے جس پر مشرقِ وسطیٰ کے تمام ممالک بالخصوص سعودی عرب اوردیگراتحادی اہم کرداراداکرسکتے ہیں لیکن بھلے ہی اس وقت یوکرین اورروس کے معاملے پرسب سے زیادہ بحث ہورہی ہے تاہم ایران کامعاملہ بھی اسرائیل کیلئےبہت اہم ہے۔ایران اور اس سے ہونے والاجوہری معاہدہ اس اجلاس میں شریک تمام ممالک کیلئےاہم ہے کیونکہ وہ اسے سکیورٹی نقطہ نظرسے دیکھتے ہیں۔

کہاجارہاہے کہ امریکاجوہری معاہدے پرنرم پڑرہاہے مگراسرائیلی میڈیا کی رائے ہے کہ امریکاان ممالک کویقین دلائے گا کہ اتحادی اس سے پریشان نہ ہوں کیونکہ اس خطے میں اسرائیل اورامریکاویسے بھی جوہری پروگرام کوکامیاب نہیں ہونے دیں گے۔یہ کانفرنس اسرائیل کیلئےبھی بہت اہم ہے کیونکہ روس اور یوکرین کے معاملے میں اسرائیل انڈیاجیسے ہی بحران کاشکارہے۔دونوں ہی ممالک کیلئےاپناراستہ چننامشکل سے دشوارترہوتاجارہاہے۔امریکاکاقریبی اتحادی ہونے کے باوجوداسرائیل خودساختہ طورپرثالث کا کرداراداکرنے کی کوشش کررہاہے اوردوسری طرف مودی کاخریداہواہوامیڈیاشب وروزاس جھوٹے پروپیگنڈے میں مصروف ہے کہ مودی یوکرین اورروس کی جنگ میں بیک ڈورچینل سے مصالحتی کرداراداکرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں کیونکہ ان دونوں ممالک کومعلوم ہے کہ روس کونظراندازنہیں کیاجاسکتااورامریکی ومغربی میڈیابھی کھلے عام اسرائیل اورانڈیاکے اس منافقانہ اور دوغلی پالیسی کے متعلق بہت ہی سنجیدہ سوال اٹھارہے ہیں۔ابھی حال ہی میں برطانیہ میں وزارتِ خزانہ کے انڈیانژادبرطانوی چانسلر کی اہلیہ کے روس کے ساتھ تجارتی تعلقات کے آشکارہونے پرانہیں سیاسی اضطراب میں مبتلاکررکھاہے اوربرطانوی عوام اب کھلے عام اس پرسوال اٹھارہے ہیں۔

آج کی صورتحال کودیکھیں توروس کے پاس مشرقِ وسطیٰ کوغیرمستحکم کرنے کی پوری صلاحیت موجودہے۔جس طرح روس شام میں موجودرہاہے،اس کا اسرائیل پربہت برااثرپڑسکتاہے۔اسرائیل انڈیاجیسی ہی صورتحال سے دوچارہے مگروہ کوشش کررہاہے کہ کسی طرح امریکابھی ناراض نہ ہواوروہ ایساکچھ کر جائے کہ دونوں ممالک کے درمیان مثبت کرداراداہوسکے۔اسرائیل بظاہرامریکاکاحامی نظرآرہاہے مگریہ مکمل طورپرروس کے خلاف بھی نہیں اورانڈیا بھی اسرائیل کی معاونت سے ایساہی کرداراداکرنے کاپروپیگنڈہ کررہاہے لیکن صاف دکھائی دے رہاہے کہ یہ یہ منافقانہ پالیسی اب زیادہ دیرتک چل نہیں سکے گی ۔انہی مشکلات کامشترکہ طورپر مقابلہ کرنے کیلئےاسرائیلی وزیرِاعظم نفتالی انڈیاکادورہ کررہے ہیں مگراس سے قبل 30مارچ کواسرائیلی وزیرِدفاع کا انڈیا کا دورہ بھی اسی پریشانی کی طرف ایک اہم قدم ہے۔

یہودہنودمیڈیاان دنوں امریکی اورمغربی ممالک اورعوام کومطمئن کرنے کیلئے اپنےبھرپورپروپیگنڈے میں مصروف ہیں کہ اس اجلاس میں شریک دیگر ممالک اسرائیل اورانڈیاکواپنے وسیع تر پڑوسی ممالک میں پہلے نمبرپرشمارکرتے ہیں جس کیلئے وہ اپنے گزشتہ برس اکتوبرکے اجلاس حوالہ دیتے ہوئے اسے جہاں اقتصادی نقطہ نظرسے بہت اہم قراردے رہے ہیں بلکہ کواڈجیسااتحادبھی معرضِ وجودمیں آیاتھا۔یادرہے کہ اس اجلاس میں امریکی وزیرخارجہ انٹونی بلنکن اورمتحدہ عرب امارات کے وزیرِخارجہ عبداللہ بن زاید النہیان کی شرکت کے بعدہی کواڈ اتحاد میں امریکا،اسرائیل،انڈیااورمتحدہ عرب امارات شامل ہوئے تھے اورایک مرتبہ پھراس اجلاس کوانہی بنیادوں پرآگے بڑھانے کیلئے باہمی صلاح ومشورہ کیاجارہاہے۔اس میں شک نہیں کہ خلیجی ممالک کے حکمران اپنے اقتدارکو دوام دینے کیلئے امریکی ایماءپراسرائیل اورانڈیاکے ساتھ تعلقات کواہمیت دے رہے ہیں لیکن خطے میں تیزی سے بدلتے ہوئے حالات جلدہی ایسی کروٹ لینے کیلئے بے چین ہیں جہاں یہ تمام ہنودویہودکی چالیں ریت کی دیواروں کی طرح مسمارہوجائیں گے جس کیلئے افغانستان کی مثال ہم سب کویاد رکھنی چاہئیں۔

ادھرمودی حکومت لداخ میں بری طرح ہزیمت اٹھانے کے بعدمسلسل کوشاں ہے کہ اپنی افواج کامورال بلندکرنے کیلئے جہاں فوجی تیاریوں میں مزیداضافہ کیاجائے،وہاں چین کے ساتھ کشیدگی کے بعداب امریکااورمغرب کویہ تاثردینے کی کوشش کی جائے کہ انڈیا چین کے ساتھ ایک بڑی جنگ کی تیاری کررہاہے جس کیلئے تمام وسائل بروئے کارلائے جارہے ہیں۔اسی لئے انڈیا نےاسرائیل سے مزید دو”آواکس”خریدنے کی منظوری دی ہے تاکہ چین کی ساتھ سرحد پرمزیدنگرانی کاعمل بڑھایاجاسکے۔اس سلسلے میں کابینہ کی سکیورٹی کمیٹی کی جانب سے اس معاہدے کی منظوری بھی حاصل کرلی ہے۔ماہرین کے مطابق اسرائیل کے ساتھ آواکس کے اس معاہدے کی حتمی منظوری کی خبرکوبھی چین کے ساتھ موجودہ کشیدگی سے جوڑکربی جے پی کی حکومت عوام کویہ پیغام دینے کی کوشش کررہی ہے کہ وہ چین سے سرحدی تنازعے کیلئے فوجی تیاری میں زیادہ فعال ہورہی ہے۔یادرہے کہ اسرائیل سے آواکس خریدنے کے معاملے پر بات چیت توکافی عرصے سے چل رہی تھی اوریہ کہ انڈیا کے پاس اسرائیل کے اسی قسم کے تین آواکس پہلے سے موجودہیں۔

مودی حکومت نے بالاکوٹ پاکستان میں میں فضائی جارحیت کے بعدجہاں اپنے دوجدیدجہازوں کی بربادی کاصدمہ اٹھاناپڑاوہاں اس کے پائلٹ کی گرفتاری نے ساری دنیامیں مودی حکومت کی رسوائی میں اضافہ کردیاجس کے جواب میں انڈیانے فرانس سے جدیدترین رافیل طیاروں کاسودہ کرکے خطے میں توازن اپنے حق میں کرنے کی کوشش کی لیکن پاکستان جوپہلے ہی خودجے ایف تھنڈر17نہ صرف خودتیارکرتاہے بلکہ اس نےدنیابھرمیں اپنی صلاحیتوں کالوہامنوا لیا ہے۔یہ طیارہ ایک ہمہ جہت، کم وزن، فورتھ جنریشن ملٹی رول ایئرکرافٹ ہے۔اس طیارے کی تیاری،اپ گریڈیشن اور”اوورہالنگ”کی سہولیات بھی ملک کے اندرہی دستیاب ہیں اورپاکستان اس طیارے کی تیاری کے مراحل کویقینی بنانے کے لیے کسی بھی دوسرے ملک کامحتاج نہیں ہے۔عسکری حکام کے مطابق یہ طیارہ دنیابھرمیں کئی اہم شوزمیں بھی پذیرائی حاصل کرچکاہے اوردنیانے اس کی بہت اچھی اسسمینٹ کی ہے،یہی وجہ ہے کہ ہربڑے شومیں جے ایف17کیلئے دعوت نامہ ضرورآتاہے اورپاکستان اس وقت کئی ممالک کویہ طیارے فروخت کرکے زرمبادلہ بھی کمارہاہے لیکن اس کے باوجودحال ہی میں پاکستان نے اپنے فضائی بیڑے میں پڑوسی چین سے چھ “جے10سی”لڑاکا طیاروں کوپاکستانی فضائیہ میں شامل کرکے جہاں اپنی دفاعی صلاحیت میں اضافہ کرلیاہے وہاں بحیرہ عرب میں اس کوفضائی سبقت حاصل ہوگئی ہے۔فضائیہ کے ماہرین کے مطابق پاکستانی بحریہ نے اپنی”سٹریٹیجک تھنکنگ(جنگی حکمت عملی)کوازسرنو مرتب کیاہے تاکہ وہ بحیرۂ عرب کی گہرائیوں میں اپنا کرداراداکرسکے۔اس کردارکوبخوبی نبھانے میں جے-10نہایت موثراورکارگر کردار اداکرنے کی صلاحیت رکھتاہے۔

تاہم اس وقت ملک کے اندرسیاسی ہلچل اورابتری نے ہمارے تمام اداروں کوبری طرح متاثرکررکھاہے اورپاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں بھی عدم اعتمادکی تحریک پیش کردی گئی ہے جبکہ قومی اسمبلی میں پہلے سے عدم اعتماد کی تحریک کاموخر کرنے کیلئے حکومتی ہتھکنڈے استعمال کرنے کیلئے پوری کوششیں جاری ہیں۔عمران کان 27مارچ کے اجلاس میں بھی کوئی سرپرائزنہ دے سکے ماسوائے ایک خط لہراکرقوم کواپنے خلاف سازش کاانکشاف توکرتے رہے لیکن مندرجات بتانے سے قاصر رہے اورایک مرتبہ پھراپنے ضمیرفروش ممبران کی منت کرتے ہوئے انہیں دوبارہ جماعت میں واپس آنے کیلئے “ترلا منت”کرتے نظرآئے۔اقتدارکی اس ہولناک جنگ میں ارض وطن کے دشمن اپنی چالوں اوردبائومیں مسلسل اضافہ کررہے ہیں۔یادرہے جب ہمارے ہاں “اوآئی سی”کے وزرائے خارجہ کااجلاس ہورہاتھا،عین اسی دن بھارت مسلم عرب ممالک کی مقبوضہ کشمیرمیں سرمایہ کاری کانفرنس کاانعقاد کر رہاتھاجہاں ان ممالک کودوہزارایکڑاراضی دینے کااعلان کیاگیااوراب اسی اوآئی سی کے رکن ممالک اسرائیل میں اپنے آقاامریکاواسرائیل کی قیادت میں نئی سٹرٹیجک منصوبہ بندیوں میں شامل ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں