یوں محسوس ہورہاہے کہ تیسری دنیاکے ممالک کاسب سے بڑامسئلہ کرپشن کاوہ ناسورہے جس نے عوام کو زندگی کی بنیادی سہولتوں سے بھی محروم کررکھاہے۔یہی وجہ ہے کہ اب خطے میں پاک وہندکے بعدافغان حکمرانوں کانام بھی عالمی میڈیامیں بڑے زوروشورسے لیاجارہاہے۔افغانستان میں مسلح لڑائی کو 2018ء میں چالیسواں سال شروع ہو گیا اور ڈبلیو ایچ او کے مطابق ذہنی مسائل کا شکار افراد کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتاجارہاہے۔ اقوامِ متحدہ کے پاپولیشن فنڈ کے اندازوں کے مطابق 87فیصد افغان عورتوں جسمانی، جنسی یا نفسیاتی تشدد میں سے کسی نہ کسی کا شکار ہوتی ہیں جبکہ 62 فیصد کومختلف اقسام سے استحصال کا سامنا رہتا ہے۔یہاں عورتوں کے خلاف تشدد بھی بہت زیادہ ہے۔خواتین کے دباؤ کا شکار ہونے اور فرار کیلئے خودکشی کرنے کی ایک وجہ جبری شادیوں کو بھی قرار دیا جارہا ہے ۔ خواتین کی مرضی نہیں سنی جاتی اور انہیں تعلیم حاصل کرنے سے بھی روک دیا جاتا ہے ۔ ایک اطلاع کے مطابق مغربی صوبے ہرات میں خواتین کی خودکشی کا رجحان باقی افغان آبادی سے کہیں زیادہ ہے۔ ہرات میں طبی حکام کے مطابق صرف 2017ء میں ہی 1800 افراد نے خودکشی کی کوشش کی جن میں 1400خواتین تھیں۔ ان میں سے 35اپنی جان لینے میں کامیاب رہیں۔یہ تعداد گزشتہ سال کے مقابلے میں دوگنی ہے جب 1000 کوششیں کی گئیں۔یہ تعداد ان خواتین کی تعداد سے بھی بہت زیادہ ہے جو جنگ کا نشانہ بنیں۔ خواتین کے خودکشی کی وجہ استحصال جبری شادیاں ہے جو خاندان سے ہی شروع ہوتا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق گذشتہ برس مسلح لڑائی کاشکارہونے والی خواتین میں359ہلاک جبکہ 865زخمی ہوئیں۔افغان انڈی پینڈنٹ ہیومن رائٹس کمیشن اور مقامی میڈیا کے اعداد و شمار کے مطابق ہر سال 3000افغان خودکشی کی کوشش کرتے ہیں۔ ملک بھر میں پیش آنے والے ان واقعات میں سے نصف ہرات میں ہوتے ہیں۔ہرات بڑے اورروایتی صوبوں میں شامل ہے۔کمیشن نے خبردار کیا ہے کہ یہ تعداد اس سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے کیونکہ افغانستان میں زیادہ تر لوگ خود کشی کے معاملات کی حکام کو اطلاع نہیں کرتے کیونکہ افغانستان کے مذہبی دیہاتی علاقوں میں خود کشی کو بدنامی اور غیر اسلامی قرار دیا جاتا ہے۔ہرات کی خواتین خودکشیاں کیوں کر رہی ہیں اور ان کی شرح مقامی حکام کیلئے پریشان کن ہے ۔تعداد میں اضافے کی وجہ بڑھتے ہوئے ذہنی مسائل، گھریلوں تشدد، جبری شادیاں اور عورتوں کو درپیش کئی سماجی دبا ؤہیں جن میں اضافہ ہو رہا ہے تاہم عالمی ادار صحت کے اندازے کے مطابق 10 لاکھ افغانی ذہنی دبا ؤکے مسائل کا شکار ہیں جبکہ بارہ لاکھ افراد کو انزائٹی کے مسائل درپیش ہیں۔
انہی افغان مسائل کے پیش نظرافغان صدراشرف غنی کی اہلیہ نے امریکااورمغربی ممالک سے ان خواتین کی فلاح وبہبودکیلئے سینکڑوں ملین ڈالرز وصول کئے لیکن حال ہی میں افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی کی لبنان نژادعیسائی اہلیہ رولاغنی کے بھاری مالی کرپشن میں ملوث ہونے کی اطلاع موصول ہوئی ہے۔رونی چرچ سے وابستہ خاتون اوّل رولاغنی پر٧٥ ہزار خواتین کے مالی حقوق غصب کرنے کاالزام ہے۔افغان صدرنے اپنی اہلیہ کومالی کرپشن کے سیکنڈل سے بچانے اور مزید رپورٹس کو منظرعام سے روکنے کیلئے ان دنوں اپنی ساری مصروفیات ترک کردی ہیں۔رولاغنی افغانستان میں افغان خواتین کی ترقی کیلئے کام کرنیوالے ایک امریکی پراجیکٹ ”پروموٹ”کی سربراہ ہیں اورانہیں مغربی ممالک کی جانب سے خصوصی طورپر پروموٹ کی ذمہ داری دی گئی اورامریکاسمیت مغربی ممالک سے اس مہم کیلئے خاصی بھاری مالی مددفراہم کی جارہی ہے تاکہ افغان خواتین کواس قابل بنانے کے وعدے پرافغانستان میں سیاسی وسماجی سطح پرکرداراداکرنے کے قابل ہو سکیں اورخانہ جنگی اورجنگوں سے متاثرین میں عیسائیت کو فروغ دے سکیں۔
رولاغنی غیرملکی اعلیٰ تعلیمی اداروں سے تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ بیروت کے ایک مشہورعیسائی خانوادے سے وابستہ ہیں۔رولاغنی کی افغان خواتین تک رسائی صرف کابل کی اشرافیہ اورتعلیمی اداروں کے وابستہ طالبات وخواتین اوراساتذہ تک ہی محدود رہی لیکن عام افغان خواتین میں ان کی یہ مہم بری طرح ناکام ہوگئی۔تعلیم یافتہ اوردنیا دارہونے کے باوجودخواتین ان کے جھانسے میں نہ آسکیں لیکن دوسری جانب مغربی ممالک سے 75 ہزارافغان خواتین کے نام پر280ملین ڈالرزامدادحاصل کرکے ان خواتین پرخرچ کرنے کی بجائے اپنے ذاتی بینک اکاؤنٹ میں جمع کرکے اپنی عیاشیوں پرخرچ کرنے کوترجیح دی۔رولاغنی نے مغربی ممالک اورامریکا سے وعدہ کیاتھاکہ وہ چارسالہ دورِ اقتدارمیں75ہزار افغان خواتین کواپنے پیروں پرکھڑاکردیں گی تاہم تین سال گزرجانے کے بعدہونے والی تحقیقات نے ان تمام وعدوںکی قلعی کھول کررکھ دی۔
حالیہ تحقیقات سے یہ بات منکشف ہوئی ہے کہ انہوں نے خواتین کی تربیت کے نام پرمراکزکھولنے کاجودعویٰ کیاتھاوہ فراڈ اوردکھاوے کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ان تربیتی مراکزکے تحت اب تک صرف 55خواتین کوتربیت دلاکرآگے لانے کادعویٰ کیاگیاہے لیکن یہ55خواتین کاتعلق ایلیٹ کلاس طبقہ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والی ان 55پراس امدادی رقم میں سے کچھ خرچ نہیں کیاگیابلکہ رولاغنی نے اپنی زاتی دوستیوں اورپراجیکٹ کے دوران بننے والے تعلق کی بنیادپرجوکچھ خرچ کیاہے اسے بھی امدادی فنڈسے دیاجاناظاہرکیاگیاہے۔ واضح رہے کہ پروموٹ پروجیکٹ کاآغاز 2014ء میں کیاگیاتھااورامداددی جانے والی غریب خواتین کوتربیت دیکر انہیں روزگارفراہم کرناان کی ذمہ داری تھی۔یہ شرط بھی تھی کہ تمام غریب خواتین کی عمرکم ازکم 18سال اورزیادہ سے زیادہ35سال ہونی چاہئے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ رولاغنی کی اس مالی کرپشن ،فراڈاوردھوکہ دہی کو امریکاکے خصوصی انسپکٹرسیگار نے بے نقاب کیاہے۔
افغانستان کی بحالی کیلئے مامورانسپکٹرسیگارکی رپورٹ کے مطابق رولاغنی کی کرپشن میں امریکی تنظیمیں بھی شریک ہیں ۔ایک دوسری رپورٹ کے مطابق رولاغنی افغان خواتین میں عیسائیت کے فروغ کیلئے بھی مذہبی حلقوں اورحکومت سے بھاری امدادحاصل کرتی رہی ہیں۔اس فنڈ سے انہوں نے کابل کے صدارتی محل کے قرب وجوارمیں پورے شہرمیں300نئے گرجاگھر تعمیرکرالئے ہیں۔
Load/Hide Comments