مارچ 2020ءکے پہلے ہفتے میں نیویارک کے گورنراینڈریوکیومونے تقریباًبڑھک کے سے اندازسے کہاتھا’’ہم نیویارکرزکی “رعونت”سے درگزر کیجیےکیونکہ روئے ارض پرصحتِ عامہ کابہترین نظام کہیں ہے تونیویارک میں ہے۔(کوروناکے ہاتھوں) دوسرے ممالک میں جوکچھ دکھائی دے رہاہے وہ یقیناًہمارے ہاں نہیں ہوگا۔ہمارے ہاں ہرمعاملے میں مکمل ہم آہنگی ہے ۔ہم پوری طرح متحرک ہیں‘‘۔
کچھ ہی دنوں کے بعدجب امریکامیں کوروناکی وباپھیلی تونیویارک ملک کاسب سے بڑاہاٹ اسپاٹ بن کرابھرا۔بلی تھیلے سے باہر آگئی یعنی ثابت ہوگیاکہ اینڈریوکیوموکی بڑھک کے برعکس نہ توہم آہنگی تھی اورنہ ہی پوری مشینری متحرک تھی۔ امریکامیں کوروناکے سب سے زیادہ مریض نیویارک میں سامنے آئے اورسب سے زیادہ ہلاکتیں بھی وہیں واقع ہوئیں۔صفِ اول کے طبی عملے کواس وباکے سامنے واضح تیاری کے بغیرکھڑاکردیاگیا۔لوگ بہت تیزی سے بھول گئے کہ اینڈریوکیومونے چندہفتے پہلے کیاکہاتھا۔ کوروناکی وباکے خلاف لڑنے والی ٹیم کے سربراہ کی حیثیت سے اینڈریوکیومونے ڈیلی بریفنگزاور دیگراقدامات کے ذریعے اپنی سیاسی پوزیشن مضبوط کرلی اوراب وہ قومی سطح کے سیاسی افق پرنئے ستارے کی حیثیت سے ابھرے ہیں۔
اینڈریوکیومونے اپنے ذاتی تجربے کی روشنی میں اورکچھ سیکھاہویانہ سیکھاہو،ایک بات ضرورسیکھ لی ہوگی…یہ کہ وبا صرف وباہوتی ہے۔یہ ایک جگہ پھوٹ پڑے توہرجگہ پھوٹ پڑتی ہے۔جب بھی کہیں کوئی وباپھوٹے تویہ سمجھ لیناچاہیے کہ کسی نہ کسی طورپھیل کررہے گی۔اینڈریوکیومواب کوروناکے خلاف ٹیم کی قیادت کررہے ہیں۔ٹھیک ہے مگرجوہوناتھاوہ توہوہی گیا۔
کورونااس اعتبارسے منفردہے کہ دنیاکاکوئی بھی کونامحفوظ نہیں رہا۔2003ءمیں سیویئرایکیوٹ ریسپیریٹری سنڈروم(سارس) آیا۔ اس کے بعد 2012ء میں مڈل ایسٹ ریسپیریٹری سنڈروم (مرس) ٓیا۔ 2014ءمیں مغربی افریقاکے طول وعرض میں ایبولا وائرس پھیلا۔یہ تمام وائرس ایک خاص حدتک تھے۔کورونانے پوری دنیامیں تباہی مچائی۔
کوروناکے ہاتھوں بہت کچھ بے نقاب ہواہے۔ قومی،علاقائی اورعالمی سطح پرصحتِ عامہ کے نظام کی کمزوری سامنے آچکی ہے۔عشروں سے جوسیاسی اورمعاشی پالیسیاں کام کررہی ہیں ان کے نتیجے میں دنیاکچھ کی کچھ ہوتی چلی گئی ہے۔وقت آگیاہے کہ ان پالیسیوں پرنظرثانی کی جائے،اصلاحِ احوال کی صورت پیداکی جائے۔کوروناوائرس کی وبانے یہ بھی سکھایاہے کہ اگر کسی معاشرے میں عوام کی واضح اکثریت ریاستی نظام پربھرپوراعتمادکی حامل نہ ہو توکسی بھی وباپرقابوپاناانتہائی دشوارہو جاتاہے۔صحتِ عامہ کے نظام میں پائی جانے والی کمزوریوں کے نتیجے میں عوام اورحکومت کے درمیان اعتماد کا رشتہ بُری طرح مجروح ہوتاہے۔کسی وباکی روک تھام اُسی وقت ممکن ہوپاتی ہے جب ہنگامی حالت میں سماجی سطح پر رابطے درست رہیں،اعتمادقائم رہے۔یہ اعتمادہی کوروناکی وباکوشکست دینے میں کلیدی کرداراداکرسکتے ہیں۔آج اگر مطلوبہ سطح پراعتمادنہیں پایاجارہاتواس میں حیرت کی کیابات ہے۔ہم اختلاف اورانحراف کے دورمیں جی رہے ہیں۔سیاسی نظام اورسیاسی قیادت پرسے عوام کااعتماداٹھ جانے کایہی نتیجہ نکلناتھا۔
2011ءمیں عرب دنیامیں بیداری کی لہردوڑی۔ اس کے بعدامریکامیں وال اسٹریٹ کے گھیراؤکاموسم آیا۔چندبرسوں کے دوران دنیا بھرمیں عوامیت کی لہراٹھی ہے۔ہجوم کی نفسیات نے زورپکڑاہے۔بھارت میں یہ لہربدترین شکل میں سامنے آئی ہے۔2019ءمیں الجزائر، سوڈان،لبنان اورعراق میں بہت بڑے پیمانے پرمظاہرے ہوئے۔حکومت سے مطالبہ کیا گیاکہ عوام کے بنیادی مسائل حل کرے۔ایران میں قیادت پرسے عوام کااعتماداٹھ چکاہے ۔ یہی سبب ہے کہ جب کوروناکی وباپھیلی اور حکومت نے کہاکہ سماجی فاصلہ رکھاجائے تب عوام نے زیادہ توجہ نہیں دی۔حکومت چاہتی ہے کہ لوگ گھروں میں رہیں اورایک موبائل ایپ کے ذریعے اپنی صحت کاجائزہ لیں۔حکومت چاہتی ہے کہ لوگ اسپتالوں میں بھیڑنہ لگائیں۔ 2019ء میں دنیا بھر میں ہنگامے پھوٹے۔ سوال کسی لیڈرکوہٹانے کانہیں تھابلکہ لیڈرشپ کوتبدیل کرنے کاتھا۔لوگ چاہتے تھے کہ سسٹم تبدیل ہو، معاملات درست ہوں، بنیادی مسائل حل ہوں اورزندگی ڈھنگ سے بسرکرنے کیلئےجو کچھ بھی درکار ہے وہ حکومتیں فراہم کریں۔
کوروناکی وباکے پھیلنے سے دنیابھرمیں مظاہرے رک گئے ہیں۔عام لوگوں کی طرح مظاہرین بھی دبکے ہوئے ہیں مگروہ پھر ابھریں گے اوراس باروہ صحتِ عامہ کامعیاربلندکرنے پرزیادہ زوردیں گے۔سیاسی قائدین اپنے ذاتی سیاسی اہداف کوپوراکرنے پر زیادہ توجہ دیتے آئے ہیں۔اب ان سے یہ سوال لازمی طورپرکیاجائے گاکہ انہوں نے صحتِ عامہ کامعیاربلندکرنے کیلئےکیا اقدامات کیے اورملک کومعاشی بحران سے نکالنے کے حوالے سے ان کے پاس کون سے منصوبے ہیں۔وہ وقت زیادہ دورنہیں جب صحتِ عامہ کے حوالے سے برتی جانے والی غفلت کوجنگ کے زمانے میں ڈھائے جانے والے انسانیت سوزمظالم کے مترادف قراردیاجائے گا!
اب یہ بات پایۂ ثبوت کوپہنچ چکی ہے کہ صحتِ عامہ کامعیاربلندکرنے کیلئےجو کچھ خرچ کیاجاناچاہیے وہ خرچ نہ کیے جانے سے ہونے والا نقصان کئی گنا ہوتا ہے۔اب دنیابھرمیں صحتِ عامہ کامعیاربلندکرنے پرغیرمعمولی توجہ دینے پرغورکیاجائے گا۔ جنگوں اورخانہ جنگیوں کے نتیجے میں تباہی سے دوچارہونے والے ممالک (افغانستان،شام،یمن،لیبیا،یوکرین،نگورنوکاباراخ، میانمار، جمہوریہ کانگو وغیرہ) کونظراندازکرنے کے شدید منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔لاکھوں پناہ گزینوں کوغیرمعیاری حالات میں رکھنے کے بھی بہت سے نقصانات ہیں،جواب ابھرکرسامنے آئیں گے۔
کوروناکے ہاتھوں جہاں بہت سی خرابیاں پھیلی ہیں وہیں چند ایک اچھائیاں بھی سامنے آسکتی ہیں۔ہوسکتاہے اب دنیابھر میں صحتِ عامہ کامعیاربلندکرنے پرغیرمعمولی توجہ دی جانے لگے۔امریکادنیا کا امیر ترین ملک ہونے کادعویدارہے۔اُسے اس حوالے سے کلیدی کرداراداکرناہوگااوردنیابھرمیں جنگوں پرخرچ ہونے والے وسائل کی روک تھام کیلئے عالمی مسائل پر انصاف کاساتھ دیناہوگاوگرنہ یہ خاموش وائرس کسی نہ کسی شکل میں بالآخردنیاکاخاتمہ کر دے گا۔