عیدمحکوماں ہجومِ مومنیں

:Share

سوشل میڈیاپرعیدکی آمدے سے قبل ہی عیدکی مبارکبادکے ساتھ ڈھیروں دوسری خوشیوں کی دعاؤں کالامتناہی سلسلہ شروع ہوجاتاہے لیکن اس مرتبہ میرے بڑے ہی عزیزبھائی عامرغوری نے مسلمانوں بالخصوص فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم کی چیختی چنگھاڑتی تصاویر کے ساتھ اپنے عیدکے پیغام کی مبارکباددینے سے سرے سے انکارکردیااوربڑی تلخ سچائی کے ساتھ ان وجوہات کاذکربھی کردیااورایسے ہی تلخ حقائق پرمبنی گورنمنٹ کالج لاہور کے تاریخ کے استادپروفیسرمحمدحسین عالم کے دہکتے الفاظ پرمبنی صوتی تاثرات پرمبنی تجزیہ نے مجھ جیسے حساس آدمی کی عیدکوبھی مرجھاکررکھ دیااورمجھے علامہ اقبال کاشعرکچوکے لگانے کیلئے آن پہنچاکہ:
عیدآزاداں شکوہِ ملک ودیں
عیدمحکوماں ہجومِ مومنیں

ایک مرتبہ پھریہودیوں کی طرف سےقبلہ اوّل مسجداقصیِٰ میں جمعتہ الوداع کے دن سے شروع ہونے والے اسرائیلی مظالم نے بالآخر نہتے فلسطینیوں پروحشیانہ بمباری سےایسی قیامت برپاکردی کہ جب عالم اسلام جب بڑے سکون کے ساتھ عیدکی نمازاداکررہے تھے،اس وقت فلسطینی اپنے معصوم بچوں، عورتوں، ضعیف العمراورنوجوانوں کے خون آلودلاشوں کے بے گوروکفن ٹکڑے جمع کرکے جہاں اپنے پیاروں کی نمازجنازہ پڑھ رہے تھے وہاں عالم اسلام کے سربراہان کی غیرت کوبھی دفن کرنے کافریضہ سرانجام دے رہے تھے۔ عرب لیگ اوراوآئی سی جیسی مردہ اورمنافق تنظیمیں اپنے وجودکی یادہانی کے طورچندالفاظ پرمبنی اعلامیہ جاری کرکے دوبارہ خوابِ عذاب میں لوٹ گئی ہیں اوراب یقین ساہوگیاہے کہ میرے رب نے اسرائیل کے اردگردبسنے والے تمام دنیاوی وسائل سے لطف اندوزہونے والےمسلمان حکومتوں کے سربراہوں سے نہتےفلسطین اورمظلوم کشمیریوں کی عملی مددکرنے کی توایک عرصے سے توفیق ہی سلب کرکے ان کوکسی بڑے عذاب میں مبتلاکرنے کے قریب ترکردیاہے۔

لیکن ہزاروں میل دورامریکی ڈیمو کریٹ مسلم خاتون رکن کانگریس رشیدہ طلیب غزہ کی دُکھی ماں کی تحریرسناتے ہوئے آبدیدہ ہوگئیں۔جس میں ایک بہادر فلسطینی ماں نے امریکاسمیت تمام مغرب کومخاطب کرتے ہوئے یاددلایاکہ”فلسطینی بھی وجودرکھتے ہیں،ہم بھی انسان ہیں،ہمیں بھی خواب دیکھنےکی اجازت ہے،ہم مائیں،بیٹیاں اورپوتیاں ہیں۔ہم انصاف کے طالب ہیں،ہرقسم کے ظلم کے خلاف لڑتے ہوئے معذرت خواہ نہیں، فلسطینی کہیں نہیں جارہے،آپ اسرائیل کی نسلی حکومت کوخواہ جتنے پیسے بھیجیں۔یادرکھیں کہ اب غزہ کی مائیں بچوں کواپنے بیڈروم میں سلاتی ہیں تاکہ مریں توساتھ مریں،وہ نہیں چاہتی کہ کوئی زندہ رہے اوردوسرےکی موت کاغم سہے”۔

رشیدہ طلیب بلکتے اورآبدیدہ آوازمیں اس طرح فریادکناں تھی کہ اس ہال میں بیٹھے کئی ارکان پریشانی میں نظریں جھکائے یقیناً اس سوچ میں مبتلاہوں گے جب رشیدہ طلیب نے یہ کہاکہ یہ بیان مجھےاوربھی توڑدیتاہے جب میں اپنے ملک کی پالیسیاں دیکھتی ہوں،اسرائیل کو فنڈنگ اس ماں کے اپنے بچوں کوزندہ دیکھنے کے حق سے انکاری ہے۔رشیدہ طلیب نے یہ مطالبہ کیاکہ ہمیں اسرائیل کیلئے امدادعالمی انسانی حقوق کی پاسداری سے مشروط کرناہوگی،اسرائیلی کی غیرمشروط حمایت سے فلسطینیوں کی زندگیاں مٹ رہی ہیں اورہماری غیر مشروط حمایت لاکھوں پناہ گزینوں کے حقوق سے انکاری ہے۔

دوسری جانب الہان عُمرنے کہاکہ اسرائیل فلسطین تصادم میں ہرموت ایک سانحہ ہے اورعام شہریوں کونشانہ بنانے والاہرراکٹ اورہربم جنگی جرم ہے۔مجھے ہراس بچے کے دردکااحساس ہے جوخوف کے مارے بسترمیں چھپ جاتاہے۔اُنہوں نے خواہش ظاہرکرتے ہوئے کہا کہ کاش ہم بطور قوم اس درد سے مساوی طورپرنمٹیں،اس وقت ہم ایسانہیں کررہے جوکہ سراسرظلم کی حمائت کے مترادف ہے۔انسانیت کے خلاف سنگین جرائم اورانسانی حقوق کی پامالیوں کی مذمت کرنے کی بجائے ہمارے بہت سے کانگریس اراکین سیلف ڈیفنس کے نام پر اسرائیل کے فضائی حملوں کی حمایت کررہے ہیں۔

مغرب اورامریکانے عالم اسلام بالخصوص عالم عرب پرکڑی نگاہ رکھنے،مسلمانوں کے سینے میں خنجرگھونپنے،اپنے جارحانہ مفادات کی تکمیل کیلئے اس ناجائزریاست اسرائیل کواردان،لبنان،شام اورمصرکے عین درمیان ایک چھوٹے سے علاقہ میں قائم کیاجس کی روس نے بھی برملاحمائت کی اور اب اس کے بیشترحصے پر فلسطینیوں کی لاشوں پراسرائیل کی ریاست قائم ہوچکی ہے۔1948سے پہلے یہ تمام علاقہ فلسطین کہلاتاتھاجہاں اب اسرائیل نے قبضہ کیاہواہے۔اس کا دارالحکومت بیت المقدس تھاجس پر1967میں اسرائیل نے قبضہ کرلیا۔

یروشلم اسرائیل اورعرب ممالک کے درمیان کشیدگی کی بڑی وجہ بھی ہے۔یہ شہرمسلمانوں،یہودیوں اورمسیحیوں تینوں کے نزدیک اہمیت کا حامل ہے۔پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ اسلام سے اپناسلسلہ جوڑنے والے تینوں مذاہب یروشلم کومقدس شہرکہتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ صدیوں سے اس شہرکانام مسلمان،یہودیوں اورمسیحیوں کے دلوں میں آبادہے۔یہ شہرعبرانی زبان میں یروشلایم اورعربی میں القدس کے نام سے معروف ہے جبکہ یہ دنیاکے قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہے۔اس شہرپرکئی بارقبضہ کیاگیا،مسمارکیاگیااورپھرسے آبادکیاگیا۔یہی سبب ہے کہ اس سرزمین کی تہوں میں ایک تاریخ موجودہے۔پچھلی سات دہائیوں سے بیت المقدس مختلف مذاہب کے لوگوں کے درمیان جہاں تقسیم اورتنازعات کی وجہ سے سرخیوں میں رہتاہے جبکہ اب ماہِ رمضان کے آخری چنددنوں سے اسرائیل کی وحشیانہ بمباری سے غزہ کے گلی کوچے نہتے فلسطینیوں کے پاکیزہ خون سے نہلادیئے گئے ہیں تاہم دوسری طرف اس شہرکی تاریخ ان لوگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑتی بھی ہے۔

شہرکے مرکز میں ایک قدیمی شہرہے۔ تاریخی فن تعمیرکے نمونے سے مالامال بھول بھلیاں جیسی تنگ گلیوں کے درمیان یہ چارحصوں مسیحی، اسلامی،یہودی اورارمینیائی میں منقسم ہے۔اس کے چاروں جانب دیوارہے جس کے اندردنیاکے بہت سے مقدس مقامات ہیں اورہر حصے کی اپنی مخصوص آبادی ہے۔عیسائیوں کے دوعلاقے ہیں کیونکہ آرمینیائی بھی عیسائی ہیں۔تمام علاقوں میں قدیم ترین آرمینیاکاعلاقہ ہے۔یہ آرمینیائی نسل کا قدیم ترین مرکزبھی ہے۔سینٹ جیمزچرچ اورموناسٹری میں آرمینیائي باشندوں نے اپنی تاریخ اورثقافت کومحفوظ کر رکھاہے۔

مسیحی علاقے میں داچرچ آف دی ہولی سیپلکریعنی کنیسۃ القیامہ ہے جودنیابھرمیں مسیحیوں کیلئے باعث احترام ہے۔عیسائی روایات کے مطابق یہیں حضرت عیسیٰ کومصلوب کیاگیاتھا۔اسی کوکیلوری کاپہاڑکہاجاتاہے اوربعض روایت کے مطابق یہیں ان کامقبرہ ہے لیکن مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق وہ یہیں سے آسمان پراٹھالیے گئے تھے۔اس چرچ کاانتظام مسیحی برادری کے مختلف فرقوں بطورخاص یونانی آرتھوڈوکس پیٹريارک،رومن کیتھولک چرچ کے فرانسسکن فرايرس اورآرمینیائي پیٹرياركٹ کےعلاوہ ایتھوپیائی،قبطی اورشامی آرتھوڈوکس چرچ سے منسلک پادری بھی سنبھالتے ہیں۔ہرسال لاکھوں لوگ یہاں آتے ہیں اوردعاکے ساتھ توبہ کرتے ہیں۔

مسلمانوں کاعلاقہ چاروں علاقوں میں سب سے بڑاہے اوریہیں ڈوم آف داراک(قبۃ الصخرہ)اورمسجدالاقصیٰ واقع ہے۔ یہ ایک سطح مرتفع پر واقع ہے جسے مسلمان حرم الشریف قبلہ اوّل اوربیت المقدس کہتے ہیں۔مسجد الاقصی اسلام کاتیسراسب سے مقدس مقام ہے اورایک اسلامی ٹرسٹ یعنی وقف کے ذمے اس کا انتظام وانصرام ہے۔مسلمانوں کاایمان ہے کہ خاتم النبین نبی اکرم ﷺ نے اسی مقام پرتمام انبیاء کی امامت فرمائی اوربعدازاں یہی سےان کاسفرمعراج شروع ہواتھا۔ہرروزہزاروں مسلمان اس مقدس مقام پرآتے ہیں اورنمازاداکرتے ہیں۔رمضان کے مہینے اور جمعہ کے دن یہاں ان کی بہت زیادہ تعداد ہوتی ہے۔

یہودیوں کے علاقے میں کوٹیل یامغربی دیوارہے۔یہ وال آف داماؤنٹ کاباقی ماندہ حصہ ہے۔یہ کہاجاتاہے کہ یہودیوں کامقدس مقام کبھی اس جگہ تھا۔ کہاجاتاہے کہ اسی کے اندر”ہولی آف دا ہولیز”یعنی یہودیوں کامقدس ترین مقام تھا۔یہودیوں کایقین ہے کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں سے کائنات کی تخلیق ہوئی اوریہیں ابراہیم علیہ اسلام نے اپنے بیٹے حضرت اسحاق علیہ اسلام(اللہ کی آخری الہامی کتان قرآن کے مطابق حضرت اسماعیل علیہ اسلام) کی قربانی کی تیاری کی تھی۔کئی یہودیوں کاخیال ہے کہ ڈوم آف دا راک ہی ہولی آف داہولیزہے۔(بھارتی انتہاءپسندہندو ؤں نے ایودھیاکی بابری مسجدکوشہیدکرنے کیلئے یہودیوں کی اس پالیسی سے استفادہ کرتے ہوئے پہلے اسے رام کی جنم بھومی قرار دیا تھاجوخودوہاں کے ہندومؤرخین نے غلط ثابت کردیا)۔آج مغربی دیواریہودیوں کی نزدیک متبرک ترین مقام ہے جہاں سے یہودی ہولی آف دا ہولیزکاتقرب محسوس کرتے ہیں۔اس کا انتظام مغربی دویارکے ربائی کے ہاتھوں میں ہے جبکہ ہرسال وہاں دنیابھرسے یہودی پہنچتے ہیں۔

فلسطینی اوراسرائیلی تنازعے کے مرکز میں قدیم یروشلم شہرہی ہے۔یہاں کے حالات میں معمولی سی تبدیلی بھی کئی بارتشدداوربڑی کشیدگی کاباعث بن جاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ یروشلم میں رونماہونے والاہرواقعہ اہم ہوجاتاہے۔یہ شہرنہ صرف مذہبی طورپراہم ہے بلکہ سفارتی اور سیاسی طورپربھی بہت اہمیت کاحامل ہے۔زیادہ تراسرائیلی یروشلم کوغیرمنقسم اوربلاشرکت غیرے اپنادارالحکومت تسلیم کرتے ہیں۔ 1948ءمیں قیام اسرائیل کے وقت اسرائیلی پارلیمنٹ کوشہرکے مغربی حصے میں قائم کیاگیاتھاجبکہ1967ءکی جنگ میں اسرائیل نے مشرقی یروشلم پربھی قبضہ کرلیا۔اس کے ساتھ قدیمی شہربھی اسرائیل کے قبضے میں آگیا لیکن سابق امریکی صدرٹرمپ کے یروشلم میں امریکی امریکی سفارتخانہ منتقل کرنے کےحکم کے باوجودبین الاقوامی سطح پراس کے قبضے کوتسلیم نہیں کیاگیا۔یروشلم پراسرائیل کی مکمل حاکمیت کوکبھی تسلیم نہیں کیاگیاہے جس پراسرائیلی رہنمااپنی مایوسی کااظہارکرتے رہتے ہیں۔

فلسطینیوں کا مؤقف آج بھی اس کے برعکس ہے۔وہ مشرقی یروشلیم کومستقبل کااپنادارالحکومت کہتے ہیں اوراسرائیلی اورفلسطینی کے درمیان امن مذاکرات میں اس پررضامندی کی بات بھی شامل ہے۔اس امن پراسیس کودوقومی نظریے کے حل کے طورپربھی دیکھاجاتاہے۔اس کے تحت 1967سے قبل کی سرحد پرایک آزادفلسطینی ملک کی تعمیراقوام متحدہ کی قراردادوں میں بھی درج ہے۔آج بھی یروشلم کی نصف آبادی فلسطینیوں پرمشتمل ہے جن میں سے بہت سے خاندان صدیوں سے وہیں آبادہیں۔شہرکے مشرقی حصے میں یہودی بستیوں کی تعمیربھی تنازعے کابڑاسبب ہے۔بین الاقوامی قانون کے تحت یہ تعمیرات غیرقانونی ہیں لیکن اسرائیل اس سے انکارکرتا ہے۔بین الاقوامی برادری کئی دہائیوں سے کہہ رہی ہے کہ یروشلم کی حیثیت میں کوئی تبدیلی صرف امن مذاکرات سے ہی آسکتی ہے لہٰذا تمام ممالک کے اسرائیل میں سفارتخانے تل ابیب میں واقع ہیں اوریروشلم میں صرف قونصل خانے ہیں۔

اب ایک مرتبہ پھربیت المقدس اوریروشلم میں مظلوموں پرظلم وستم کے پہاڑتوڑدئیے گئے ہیں جبکہ دوسل قبل لاکھوں فلسطینیوں کے مظاہروں میں اپنی بے بسی اوربیت المقدس کی تعظیم کاواسطہ دیکرپاکستانی افواج کوپکاراگیاتھااوراب غزہ کے بے بس مسلمان پاکستان کی قیادت سے مایوس ہوکرپہلے سے زیادہ اپنی جانوں کانذرانہ دے رہے ہیں کیونکہ وہ جان چکے ہیں کہ مظلوم فلسطینیوں کو ایٹمی صلاحیت اورطاقت کے حامل مسلم دنیا کے اہم ملک پاکستان کی قیادت سے کوئی امید وابستہ نہیں کرنی چاہئےکیونکہ پاکستان کاشماراب ان ملکوں میں ہوگیاہے جوزکوٰۃ، صدقات اورفطرانہ کے حصول پرخوشی مناتاہےاورجس کاوزیراعظم برملااوربار بار یہ بیان دیکرپاکستانی قوم کوشرم کے سمندرمیں غرقاب کردیتاہے کہ سعودی عرب،متحدہ عرب امارات اورچین اگر ہماری مالی مددنہ کرتے توہم دیوالیہ ہوجاتے

وجہ مسلمانوں کی بے حسی،نااتفاقی،تقسیم،سائنس اورٹیکنالوجی سے دوری،کمزوری،معاشی مفادات یامنافقت،کوئی بھی ہو،فلسطین جل رہا ہے۔ان کے حقوق کی پامالی اورنسل کشی ہورہی ہے۔انسانی حقوق کی تنظیمیں اوراقوام متحدہ کی مجرمانہ خاموشی قابل مذمت ہی نہیں بلکہ قابل گرفت بھی ہے۔کیاطفل تسلیاں فلسطینیوں کی چیخ وپکار،آہوں اوردکھوں کامداوا کرسکیں گی؟یایہ کہ فلسطینی عوام وقت کے فرعونوں کا مقابلہ کرنے کیلئے کسی موسٰی کا انتظار کرتے رہیں گے؟

اپنا تبصرہ بھیجیں