امت مسلمہ اس وقت جس صورتحال سے دوچارہےاس کی تفصیل میں جانے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ہرصاحبِ نگاہ آگاہ ہے کہ عزت، وقاراورسربلندی گویاکہ ہم سے چھین لی گئی ہے اوربعض اوقات یہ لکھتے ہوئے بھی خوف محسوس ہوتاہے جو”مغضوب علیھم”قوموں کا نقشہ قرآن مجیدمیں کھینچاگیاہے،مختلف اعتبارسے وہی نقشہ آج ہمیں اپنے اوپرمنطبق ہوتانظرآرہاہے ،افتراق ہے،باہمی خانہ جنگیاں ہیں،اختلافات ہیں۔ وحدتِ امت جومطلوب ہے،اس کاتوشیرازہ بکھرچکاہے۔سوال یہ ہے کہ اس صورتحال کاحل کیاہے؟اس کیلئے ہم کس سے رجوع کریں ؟اس کا جواب اگرایک لفظ میں جانناچاہیں تووہ یہ ہے کہ خلوص اوراخلاق کارشتہ اوروفاداری کاتعلق ازسرِنو اللہ سے،اس کی کتاب سے،اس کے رسول اکرمﷺسےصحیح بنیادوں پرقائم کیاجائے۔ایک حدیث کی روسے نبی اکرمﷺنے فرمایا:”دین توبس خیرخواہی،اخلاص اوروفاداری کانام ہے”۔پوچھاگیاکہ”حضورﷺکس کی وفاداری،کس سے اخلاص؟”حضوراکرمﷺ نے ارشادفرمایا”اللہ ،اس کی کتاب،اس کے رسول اورمسلمانوں کے رہنماؤں اورقائدین سے،اورعامتہ المسلمین سے” ۔اللہ تعالیٰ کے ساتھ خلوص واخلاص کاجہاں تک تعلق ہے،وہ ایک لفظ میں اداکیاجاسکتاہے۔التزام توحیداورشرک کی ہرنوعیت سے اجتناب اللہ تعالیٰ کے ساتھ وفاداری ہے،اگرچہ یہ کام آسان نہیں ،بقول حکیم الامت علامہ اقبال:
براہمی نظرپیدامگرمشکل سے ہوتی ہے
ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنالیتی ہے تصویریں
جہاں تک قرآن اورحضوراکرم ﷺکے ساتھ خلوص واخلاص کامعاملہ ہے تویہ درحقیقت دوچیزیں نہیں ہیں،جیسے کہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ سے فرمائش کی گئی کہ ہمیں حضوراکر مﷺکی سیرت واخلاق کے بارے میں بتائیں توآپ نے سوال کیا”کیاتم قرآن نہیں پڑھتے؟”اورجواب اثبات میں آیاتوآپ نے فرمایاکہ” کان خُلُقُ القران،حضوراکرم ﷺکی سیرت اوراخلاق قرآن ہی توہے”۔
غورکرنے سے معلوم ہوتاہے کہ نبی اکرمﷺسے ہمارے تعلقات کی بنیادیں چارہیں۔سورة الاعراف کی آیت157کاپس منظربڑاعجیب ہے،حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب اپنے اوراپنی قوم کیلئے بارگاہِ خداوندی میں رحمت کاسوال کیاتواللہ تعالیٰ نے جواباً ارشادفرمایا:”میری ایک رحمت عام ہے جوتمام مخلوقات کیلئے کھلی ہوئی ہے اورجومیری رحمتِ خصوصی ہے تواسے میں نے مخصوص کردیاہے ان لوگوں کیلئے جومیرے نبی امی سے اپناصحیح تعلق قائم کریں گے۔وہ تعلق کیاہے؟اس کومذکورہ آیت کے آخری حصے میں بیان کردیاگیاہے: پس آج یہ رحمت ان لوگوں کاحصہ ہے)جواس پیغمبرنبی امی کی پیروی اختیارکریں ……….لہنداجولوگ ان پرایمان لائیں گے،ان کی تعظیم کریں گے،ان کی نصرت وحمائت کریں گے اوراس روشنی کی پیروی اختیارکریں گے جوان کے ساتھ نازل کی گئی ہے وہی فلاح پانے والے ہیں(اصل معنی میں کامیاب اورمیری رحمتِ خصوصی انہی لوگوں کے حصے میں آئے گی)”۔
اس آیت مبارکہ کی روشنی میں غورکیاجائے توحضوراکرم ﷺکے ساتھ ہمارے تعلق کی چاربنیادیں واضح طورپرسامنے آتی ہیں۔سب سے پہلی بنیادہے تصدیق وایمان،یہ تصدیق کرناکہ آپ اللہ کے رسول ہیں،آپ ﷺنے جوکچھ فرمایااپنی طرف سے نہیں فرمایا،جیساکہ قرآن میں ارشادفرمایاگیاہے: اورہمارانبیﷺاپنی خواہش نفس سے نہیں بولتا،یہ توایک وحی ہے جوان پرکی جاتی ہے،اسے زبردست قوت والے نے تعلیم دی ہے”۔(سورة النجم(5-3)
اب اس ضمن میں یہ جانناچاہئے کہ اس ایمان اورتصدیق کے دودرجے ہیں،ایک زبانی اقرارجس سے انسان اسلام کے دائرے میں آجاتاہے،وہ قانونی ضرورت پوری ہوجاتی ہے جوامتِ محمدی میں شامل ہونے کیلئے لازمی اورضروری ہے لیکن اصلی ایمان دل سے تصدیق کاہے جبکہ آنحضرت رسول اکرمﷺ کی رسالت ونبوت پردل میں یقین کی کیفیت پیداہوجائے تویہ ہے ایمانِ مطلوب،اس کے بغیرجودوسرے حقوق ہیں نبی اکرمﷺ کے وہ ہم ادانہیں کرسکتے،پھرزبانی کلامی تعلق رہے گاجیسا کہ اللہ معاف فرمائے ہماری ایک عظیم اکثریت کاہے۔دوسراتعلق ہے تعظیم ومحبت،یہ لازمی تقاضہ ہے یقینِ قلبی کا۔اگریہ یقین ہوکہ آپ ﷺ اللہ کے رسول ہیں توآپ کی عظمت کانقش قلب پرقائم ہوجائےگا،آپ کی محبت دل میں جاگزیں ہوگی۔جیسے کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا”تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتاجب تک میں اسے محبوب ترنہ ہوجاؤں اس کے اپنے بیٹے سے،اس کے اپنے باپ سے اورتمام انسانوں سے”(بخاری، الصحيح، حب الرسولﷺ من الايمان، 14:1،رقم:14) ۔یہ حدیث مبارکہ اس امر کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ایمان کامعیاراس کے سوااورکچھ نہیں کہ دنیاومافیہاکی ہر شے سے بڑھ کرحضورنبی اکرم ﷺکی ذات سے محبت کی جائے اورجب تک یہ کیفیت پیدانہ ہوکوئی شخص نام کامسلمان توہوسکتاہے،مومن نہیں ہوسکتا۔
ایک دفعہ حضورنبیﷺکی بارگاہ اقدس میں سیدنافاروق اعظم رضی اللہ عنہ بیٹھے ہوئے تھے کہ حضور نبی اکرم ﷺنے پوچھا:اے عمر!تمہیں مجھ سے کتنی محبت ہے؟حضرت عمررضی اللہ عنہ جوابھی مرحلۂ تربیت سےگزررہے تھے،عرض کرنے لگے:’’حضور!مجھے سب سے بڑھ کرآپ کی ذات سے محبت ہے مگرگاہے بگاہے محسوس ہوتاہے کہ اولادکی محبت آپ کی محبت سے قدرے زیادہ ہے‘‘حضورنبی اکر ﷺفرمانے لگے:’’اے عمر!اگریہ بات ہے توتمہاراایمان ابھی مکمل نہیں ہوا۔‘‘اس فرمان کے بعدحضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے دل کی کایاپلٹ گئی،یہاں تک کہ ان کے دل میں حضورنبی اکرم ﷺکی محبت دیگرتمام محبتوں پرغالب آگئی اوروہ بے ساختہ پکاراٹھے:رب ذوالجلال کی قسم! اب حضورنبی اکرم ﷺکی محبت مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ ہے اورمرتے دم تک کبھی کم نہیں ہوگی”۔اس پرآپ ﷺنے حضرت عمرکاہاتھ پکڑکرفرمایا:’’اب تمہاراایمان مکمل ہوا۔بخاري،الصحيح،کتاب الايمان، 2445:6،رقم:6257
یہاں یہ بات ملحوظ خاطررہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم کاظاہروباطن ایک تھااوران کے کردارمیں منافقت کاشائبہ تک نہ تھا۔اسی لیے حضرت عمررضی اللہ عنہ نے حضورنبی اکرم ﷺکے استفسارپردل کی بات بتادی یعنی اگرمومن کے دل میں آنحضورﷺکی محبت اپنے تمام اعزاءاقرباءاورتمام انسانوں سے بڑھ کرجاگزیں ہوئی ہے تووہ حقیقتاًمؤمن ہے۔اس حدیث میں بیٹے اورباپ کے ذکرنے تمام عزیزوں،رشتہ داروں ،قبیلوں اورقوموں کااحاطہ کرلیاہے۔ان الفاظ میں کوئی ابہام نہیں ہے،ایسانہیں کہ بات واضح نہیں بلکہ صاف صاف اوردوٹوک اندازمیں ارشادہواہے کہ حقیقی ایمان کالازمی تقاضہ ہے کہ حضورﷺایک بندۂ مومن کودنیاکی تمام چیزوں سے محبوب ترین ہوجائیں اوران کی حرمت پرجان بھی چلی جائے تواس کوسعادت سمجھیں۔
تعظیم ظاہری بھی مطلوب ہے اورقلبی بھی،اس طرح محبت کازبانی اظہاربھی ہواوردل میں بھی محبت جاگزیں ہواوراس کاسب سے بڑامظہرہے حضوراکرمﷺ پردرودبھیجناجس کے بارے میں فرمایاگیا:اللہ اوراس کے فرشتے پیغمبرپردرودبھیجتے ہیں،مومنوتم بھی ان پردُروداورسلام بھیجاکرو۔اگرکوئی شخص اپنی دعاکُل کی کُل صرف حضورﷺ پردرودبھیجنے پرمشتمل کردے تواس کامقام اورمرتبہ کہیں زیادہ ہوگااس سے،کہ وہ خوداپنے لئے کوئی سوالات کرتارہے۔
تیسراتعلق حضورﷺکے ساتھ ہماراحضورﷺکی نصرت وحمائت ہے جولازمی نتیجہ ہے ان پہلی دوبنیادوں کا،وہ ہے حضوراکرمﷺکی اطاعت اور اتباع کا۔ ظاہر بات ہے کہ جب آپ ﷺ کواللہ کارسول ماناتواب آپﷺکے حکم سے سرتابی چہ معنی دارد۔ آپ ﷺکاہرحکم سرآنکھوں پرہوگا،اس میں البتہ انسان تحقیق کا حق رکھتاہے کہ واقعتا ًمحمدرسول اللہ ﷺنے یہ حکم دیاہے یانہیں،لیکن جب طے ہوجائے کہ یہ آپﷺکافرمان ہے تواب چوں چراں کاکوئی سوال نہیں،اب تو اطاعت کرنی ہوگی اوراطاعت بھی کیسی؟وہ اطاعت جس کے بارے میں قرآن مجیدمیں فرمایاگیا:پس نہیں تیرے رب کی قسم!یہ لوگ ہرگزمؤمن نہیں ہیں جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کوفیصلہ کرنے والانہ مان لیں،پھر جوکچھ تم فیصلہ کرواس پراپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی نہ محسوس کریں بلکہ آپﷺکے فیصلے کے آگے پوری دلی آمادگی اورخوشی کے ساتھ سرِ تسلیم خم نہ کردیں(سورة نساء۔65)
یہی بات آنحضورﷺنے فرمائی:تم میں سے کوئی شخص مؤمن نہیں ہوسکتاجب تک کہ اس کی خواہشِ نفس اس ہدائت کے تابع نہ ہوجائے جومیں لیکرآیاہوں۔جب اطاعت کے ساتھ محبت کی شیرینی شامل ہوجائے تواس طرزِ عمل کانام ہے اتباع۔اس کادائرہ بہت وسیع ہے۔ظاہرہے کہ اطاعت تو ان احکام کی ہوگی جوحضورﷺنے دیئے ہوں لیکن اتباع ان تمام اعمال وافعال کاہوگاجن کاصدوروظہورہوانبی اکرمﷺسے،چاہے اس کوکرنے کا حکم آپ ﷺنے بالفعل نہ دیاہو۔اس اتباع کاجو قرآن میں جومقام ہے وہ بھی سن لیجئے۔سورة آل عمران آیت132میں فرمایا: وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ:اوراللہ اوراس کے رسول کی اطاعت کروتاکہ تم پررحمت کی جائے”۔یعنی اے نبی ﷺان سے کہہ دیجئے کہ اگرتم اللہ سے محبت رکھتے ہوتوتم لوگ میرااتباع کرو،اللہ تم سے محبت کرے گااورتمہاری خطاؤں کوڈھانپ لے گا۔
اس آیت کریمہ سے اتباع رسولﷺکی یہ اہمیت سامنے آتی ہے کہ اللہ سے محبت کادعویٰ ہے توجنابﷺ کااتباع لازم ہے۔اس کاایک نتیجہ تویہ نکلے گاکہ اللہ ہم سے محبت فرمائے گااوردوسرانتیجہ یہ نکلے گاکہ ہم اس کی مغفرت کے مستحق قرارپائیں گے۔اس سے زیادہ ایک بندۂ مومن کی خوش بختی اورکیاہوسکتی ہے کہ وہ اللہ کا محبوب اوراس کی مغفرت کا سزا واربن جائے۔
چوتھااورآخری اوریوں کہئے کہ یہ عروج ہے حضورﷺکے ساتھ ہمارے تعلق کا،وہ ہے تائیدونصرت۔حضورﷺایک مشن لیکرتشریف لائے تھے۔ صحابہ کرام نے دورانِ خلافت ِ راشدہ اس عمل کوجہاں تک پہنچایاتھاہم اپنی بے عملیوں کے طفیل وہ اثرات بھی ختم کرچکے ہیں۔اب توازسرِ نو پیغام محمدی ﷺکی نشرواشاعت کرنی ہے۔پیغام محمدی ﷺکوپہنچاناہے تمام اقوام وملوک تک،اورازسرِنواللہ کے دین کوفی الواقع قائم ونافذ کرناہے کرّہ ارضی پراوراس کیلئے پہلے اللہ جہاں بھی توفیق دے، جس خطہ ارضی کی قسمت جاگے،عہدِحاضرمیں انقلابِ محمدی ﷺکاتواس ملک کی خوش بختی اورخوش نصیبی پرتوواقعتا ًرشک کرناچاہئے۔یہ ہے وہ فریضہ منصبی جوامت کے حوالے کیاگیاہے۔آنحضورﷺکامشن زندہ وتابندہ ہے ۔حضورﷺ گویاکہ اب بھی پکاررہے ہیں:”کون ہے اللہ کی راہ میں میرامددگار،یعنی کون ہے جومیرے پیغام کی نشرواشاعت کاکام کرے،میرے دین کاعلمبرداربن کر کھڑاہواورپورے کرۂ ارض پراس کاجھنڈا سر بلندکرنے کیلئے تن من دھن لگانے کیلئے آمادہ ہوجائے۔
اس ضمن میں آخری بات یہ ہے اس آیہ مبارکہ میں،کہ اس عمل کاذریعہ کیاہے۔محمدرسول اللہ ﷺنے جوانقلاب برپاکیاتوآلۂ انقلاب تھاقرآن حکیم،پس معلوم ہواآپﷺکی دعوت ک امرکزومحورقرآنِ حکیم تھا۔آپﷺنے قرآن کریم کے ذریعے لوگوں کے اذہان وقلوب بدل کررکھ دیئے۔اسی قرآن حکیم کی بدولت لوگوں کی سوچ میں انقلاب برپا کردیا۔اسی قرآن الفرقان کی آیاتِ بینات سے اذہان کی تطہیرفرمائی،یہی قرآنی آیات وبینات لوگوں کے تزکیہ نفس کاذریعہ بن گئیں ،اسی قرآن کریم کے نورسے خارج وباطن منورہوگئے۔وہ کتاب آج بھی اسی حالت میں اس امت کے پاس محفوظ ہے بس اس کے ساتھ اپنے تعلق کودرست کرناہو گا۔یہ آنحضورخاتم النبین ﷺکے ساتھ ہمارے صحیح تعلق کی آخری اوراہم ترین بنیادہے۔اس وراثتِ محمدی ﷺکومضبوطی کے ساتھ تھامنے کاحکم ہےاوراسی کو “حبل اللہ” قراردیاگیاہے۔یہی کتاب اللہ،امت کے اندرازسرنواتحادویکجہتی پیدا کرے گی،اسی سے وحدتِ فکرپیدا ہوگی، اسی سے وحدتِ عمل کی توفیق ملے گی،اسی سے ہماری جدوجہدیکجہتی کے ساتھ اپنے اصل ہدف کی طرف آگے بڑھے گی۔اس کتاب کے حقوق کوپہچانناہمارے حقیقی اورقلبی ایمان کیلئے ضروری ہے،یہی درحقیقت میلاد النبیﷺکااصل پیغام ہے۔ یہی اصل لمحہ فکریہ ہے،اس کتاب کومانیں جس طرح ماننے کاحق ہے،اسے پڑھیں جیساکہ پڑھنے کاحق ہے،اس کوسمجھیں جیسا کہ سمجھنے کاحق ہے،اس پرعمل کریں جیساکہ اس پرعمل کرنے کاحق ہے اورپھراس کے داعی،مبلغ اورمعلم بن جائیں جیسے کہ اس تبلیغ،دعوت،تعلیم اور تبین کاحق ہے کیونکہ
دل جس سے زندہ ہے وہ تمناتمہی توہو
ہم جس میں بس رہے ہیں وہ دنیاتمہیں توہو
اورجذبۂ عشق رسول اکرمﷺکا اصل تقاضہ یہی ہے کہ یہ کیفیت ہمارے فکروعمل کاپوری طرح احاطہ کرلے۔یہ بات ایمان کی ہے اورایمان کا ثبوت اعمال صالح کی صورت ہی میں فراہم کیاجاسکتاہے۔سیرت پاک کے سلسلے میں یہ حقیقت بھی ہماراجزوایمان ہونی چاہئے کہ دوررسالتِ مآبﷺتاریخ کاحصہ نہیں ہے بلکہ ساری نسلِ انسانی کیلئے قیامت تک ہدائت جاریہ ہے۔
ہمارے رسول کریمﷺنے اسلام کوایک مکمل معاشرتی نظام بناکرنسلِ انسانی کوعطافرمایاہےاورانسانی تاریخ کا حقیقی انقلاب وہی دورسعا دت آثار ہے۔رسول کریم ﷺکے وسیلے ہی سے انسانیت کودنیاکے ساتھ ساتھ حیات وکائنات کی وسعتوں کاشعوراورنسلِ انسانی کی عالمگیرمساوات کاپیغام ملا۔انسان انفرادی طورپرجس طرح مختلف مرحلوں سے گزرکرباشعورہونے کی منزل تک پہنچتاہے،نسلِ انسانی بھی مجموعی طورپرانہی مرحلوں سے گزری ہے۔ختم نبوت کااعلان پوری نسلِ انسانی کے باشعور ہونے کااعلان بھی ہے،اسی لئے ہمارے حضورﷺنے خطبہ حجتہ الوداع میں ساری نسل انسانی کومخاطب فرمایا۔
اس طرح پوری نسل انسانی کیلئے اللہ کی ہدائت حرفاًحرفاًمحفوظ ہوگئی اوراس کے مطابق پوری معاشرتی زندگی بسرکرنے کاایک مکمل عملی نمونہ سامنےآگیا۔آپ کی مثالی زندگی کومعاشرتی زندگی کی حقیقت بناکرپیش کردیاگیا،زندگی عملی نمونے میں ڈھل گئی۔انسان پریہ حقیقت واضح ہوگئی کہ کائنات کے نظام اورانسان کی انفرادی،اجتماعی زندگی اورسماجی زندگی سب اللہ کے قانون کی گرفت میں ہیں۔کائنات کے نظام میں اللہ کی حاکمیت براہِ راست ہے لیکن ارادے اوراختیارکی صفت کی وجہ سے انسانی زندگی پراللہ تعالیٰ کی حاکمیت کانفاذانسانی ایمان واعمال کے وسیلے سے ہوتاہے۔کائنات کانظام حیرت انگیزنظم وضبط کے تحت چل رہاہے۔وہاں کسی نوعیت کاکوئی فساد ممکن ہی نہیں،کیونکہ فسادشرک سے پیداہوتاہے اورکائنات میں شرک ممکن نہیں ۔سورة الانبیاءمیں ارشادہواہے:لَوۡکَانَ فِیۡہِمَاۤاٰلِہَۃٌ اِلَّااللّٰہُ لَفَسَدَتَا ۚ فَسُبۡحٰنَ اللّٰہِ رَبِّ الۡعَرۡشِ عَمَّایَصِفُوۡنَ: اگرآسمان وزمین میں ایک اللہ کے سوادوسرے خدابھی ہوتے تو﴿زمین اورآسمان﴾دونوں کانظام بگڑجاتا۔
فساد شرک سے پیداہوتاہے،شرک ناقابل معافی گناہ اسی لئے ہے کہ اس سے احترامِ آدمیت کی نفی ہوجاتی ہے۔انسان کے مشرکانہ افکارواعمال سےاللہ کی ذات پرکوئی اثرنہیں پڑتا۔ساری دنیاکے انسان بھی اگرمشرک ہوجائیں تواللہ اپنی ذات میں آپ محمودہے۔شرک سے انسانی فکرمیں، انسانی عمل میں اورانسانی معاشرے میں فساد پیدا ہوجاتاہے اورجہاں فسادہوتاہے وہاں امن وانصاف برقرارنہیں رہ سکتا۔انسانی معاشرے میں خیرو فلاح کیلئے اورہمہ جہت ارتقاءکیلئے امن وانصاف قائم رہنا ضروری ہے۔حریت،مساوات،اخوت،امانت،دیانت،صداقت اورعدالت،یہ صفات جنہیں ہم اخلاقی قدریں کہتے ہیں،یہ قدریں درحقیقت وہ قوانین قدرت ہیں جن کے نفاذسے انسانی معاشرے میں امن وانصاف کی ضمانت مہیاہوجاتی ہے۔
جس فردمیں جس حد تک یہ صفات زندہ وبیداراورمتحرک ہوں گی،وہ فرداسی نسبت سے خیروفلاح قائم کرنے کاباعث ہوگااوراورجس معاشرے میں ایسے صالح اعمال والے افرادکی کثرت ہوگی وہ معاشرہ امن وسلامتی اورانصاف کاگہوارہ بن جائے گا۔ بیج کوکھلی فضاملے توپوری طرح پھلتاپھولتاہے۔اس پرکوئی دباؤآجائے یاوہ کسی پتھر کے نیچےآجائے تووہ نشوونماسے محروم ہوجاتا ہے۔سرکاردوعالمﷺنےاس اوّلین اسلامی معاشرے سے انسانی جذبات،مفادات،خواہشات اورتعصبات کے سارے پتھرسمیٹ لئے تھے چنانچہ انسانی معاشرت کاوہ باغ ایسا لہلہایا، ایسے پھل پھول لایاکہ انسانی تاریخ میں اس کی دوسری مثال نہیں ملتی۔اس اعتبارسے دیکھئے توسیرت سرکار دوعالمﷺکی مثال واقعی بے مثال ہے۔حضوراکرمﷺسب سے زیادہ بااختیارتھے اورسب سے زیادہ قانون کے پابندتھے۔حضوراکرمﷺکے تصرف میں ہر شئے آسکتی تھی لیکن حضوراکرمﷺنے سب سے زیادہ سادہ زندگی بسرفرمائی حضوراکرمﷺ کاہر فرمان قانون تھااورحضوراکرم ﷺنے سب سے زیادہ خود احتسابی کی زندگی بسرفرمائی۔اس اعتبارسےاسلامی معاشرے کی خصوصیات بڑی منفردہیں۔اسلامی معاشرے میں تکریم کاواحد معیار شخصی کردارہے۔
اسلامی معاشرے میں دشمن اقوام کے افرادسے بھی انصاف کیاجائےگااورغلطی اورجرم کرنے والاسب سے پہلے خودہی اپنے جرم کااعتراف کرے گا۔اسلامی نظام میں انسانوں کی انسانوں پرحکومت کاکوئی تصورنہیں بلکہ معاشرتی زندگی میں معاملات اوراشیاءکاانتظام کرنے والاہر وقت ہرشخص کے سامنے اپنے اعمال اورطرزِانتظام کیلئے جوابدہ رہے گااورایسےنظام کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ خودانسان کی اپنی خواہشات نفسانی بن جاتی ہیں۔سورة فرقان میں ارشادہے:تم نے اس شخص کوبھی دیکھاجس نے اپنی خواہشات نفسانی کواپناالہٰ بنالیاہے،اب ایسے شخص کوتم راہِ راست پرکیسےلاسکتےہو۔”یہی خواہشاتِ نفسانی معاشرتی امن وانصاف کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ پیداکرتی ہیں۔
معاشرتی زندگی میں انصاف سے محرومی سے فتنہ وفسادپیدا ہوتاہے اورفتنہ وفسادکی کیفیت لوگوں کے جذبات اورتعصبات کومسلسل ابھارتی رہتی ہے۔جبر کے ذریعے لوگوں کووقتی طورپر خاموش رکھاجاسکتاہے لیکن جبرکی خاموشی پھربغاوت کاطوفان بن کرنمایاں ہوتی ہے۔انسانی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ وہ فانی نہیں ہے۔انسانی وجودکو،انسانی ذات کوموت کے بعدبھی باقی رہناہے،انسان کیلئے آنے والی زندگی ناگزیرہےاور اس آنے والی دائمی زندگی میں کامیابی یاناکامی کی بنیاداس دنیامیں ایمانی شعورکے تحت اختیاری عمل ہوں گے۔آخرت پر ایمان انسان میں خوداحتسابی کی صفت پیداکرتاہے۔انسانی معاشرت کے تعمیری اورتخریبی دونوں پہلو نسلوں،علاقوں یاملکوں تک محدودنہیں رہتے۔گزشتہ1445برسوں میں عالمگیرسطح پر جتنی بھی مثبت تبدیلیاں ہوئی ہیں،انسانی حقوق کاجتناشعوربھی بیدارہوا ہے، قوموں کواعلیٰ انسانی اقدارکے مطابق اپنانظام مرتب کرنے پرراغب کرنے کیلئے بین الاقوامی تنظیموں کے قیام کی جوکوششیں بھی ہوئی ہیں،ان ساری کوششوں کا حقیقی محورمرکزسرکاردوعالمﷺکادورسعادت آثارہی ہے۔حقیقت یہ ہےکہ توحید پرایمان سازی نسل انسانی کیلئےخیروفلاح کی راہیں کشادہ کرتا ہے۔
یہ پہلاسبق تھاکتابِ ہدیٰ کا
کہ ہے ساری مخلوق کنبہ خداکا
لیکن نسل انسانی کی وحدت اوراس کی فلاح وخیرکی راہ میں رکاوٹیں بھی مسلسل آتی رہتی ہیں اورحق وباطل اورخیروشرکے درمیان یہ آویزش انسانی معاشرے کی امتیازی صفت ہےچنانچہ امن وانصاف کی فضاکوفتنہ وفسادپیداکرنے والی طاقتیں برابرمکدرکرتی رہتی ہیں اورطرفہ تماشہ یہ کہ فسادپھیلانے والے بھی یہی دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اصلاح کرنے والے ہیں۔فتنہ وفسادکی صورتیں مختلف ہوتی ہیں۔قرآن پاک میں فتنہ پردازی کوانسانی قتل سے بھی زیادہ بڑاگناہ قراردیاگیاہے۔فرعون کومفسدکہاگیاہے اورفسادکی شدت کوانسانی بداعمالیوں کانتیجہ بتایاگیاہے۔تاریخ قوموں کاحافظہ اورواقعات کی ریاضی ہے۔تاریخ اپنے آپ کودہراتی رہتی ہے اوراس طرح ہم پریہ حقیقت واضح ہوتی رہتی ہے کہ اللہ کاقانون بدلانہیں کرتا۔حیات وکائنات کانظام انسانی معاشرے کے مختلف اجزاءپرمشتمل ہے،ان میں منقسم نہیں ہے،ہم نے عملًااسے منقسم کردیاہے۔
عبادات الگ،معاملات زندگی الگ اورہم اس ارشادِقرآنی کوبھول جاتے ہیں کہ ایک سے زیادہ الہٰ ہوں گے توفسادہوگا۔ہمارے ہادی برحقﷺنے خطبہ حجتہ الوداع میں ہم اہل ایمان پریہ ذمہ داری ڈالی تھی کہ جووہاں موجودتھے وہ اس پیغام کوان لوگوں تک پہنچائیں جووہاں موجودنہیں تھے۔یہ ایک عالمگیرذمہ داری تھی۔اس کے ساتھ قرآنِ کریم نے ہم پراجتماعی طورپر “خیرامت”اور”امتِ وسط”ہونے کی ذمہ داری بھی ڈالی ہے:مومنو)جتنی امتیں(یعنی قومیں)لوگوں میں پیداہوئیں،تم ان سب سےبہترہوکہ نیک کام کرنے کوکہتے ہواوربرے کاموں سے منع کرتے ہواوراللہ پرایمان رکھتے ہو۔(3-110)۔ایک اورجگہ سورہ انفال میں ارشادہوا: اور ان لوگوں سے لڑتے رہو یہاں تک کہ فتنہ (یعنی کفر کا فساد) باقی نہ رہے اور دین سب خدا ہی کا ہوجائے اور اگر باز آجائیں تو خدا ان کے کاموں کو دیکھ رہا ہے(39)
دنیاکوہے پھرمعرکۂ روح وبدن پیش
تہذیب نے پھراپنے درندوں کوہے ابھارا
اللہ کوپامردیٔ مومن پربھروسہ
ابلیس کویورپ کی مشینوں پربھروسہ
تقدیرِامم کیاہے کوئی کہہ نہیں سکتا
مومن کی فراست ہوتوکافی ہے اشارہ
ایمان کی توانائی فردمیں اورقوم میں ،دونوں میں خوداحتسابی کی صفت پیداکرتی ہے۔ہم اس صفت سے ایک طویل عرصے سےعالمگیرسطح پر محروم ہیں اوراس محرومی نے ہمیں اس توانائی سے بھی محروم کردیاہے جسے اقبال نے مومن کی فراست کی اصطلاح سے تعبیرکیاہے اس کے باوجودعالمی سطح پرامن وانصاف کے قیام کیلئے ہماراملی کردارکلیدی اہمیت رکھتاہے۔جب تک وہ کرداراداکرنے کے قابل نہیں ہوں گے ، عالمگیرسطح پرامن وانصاف قائم نہیں ہوسکتااوراپنی اس بے بسی کیلئے ہم اللہ کے حضورجوابدہ بھی ہوں گےاوراس کردارکی ادائیگی کی راہ صرف جذبہ حب رسول ﷺسے ہی منورہوسکتی ہے کیونکہ حضوراکرمﷺ کی ذات ہی حاصلِ حیات وکائنات ہے ۔
ہونہ یہ پھول توبلبل کاترنم بھی نہ ہو
چمن دہرمیں کلیوں کاتبسم بھی نہ ہو
نہ یہ ساقی ہوتوپھرمے بھی نہ ہوخم بھی نہ ہو
بزمِ توحیدبھی دنیامیں نہ ہوتم بھی نہ ہو
خیمہ افلاک کااستادہ اسی نام سے ہے
بزمِ ہستی تپش آمادۂ اسی نام سے ہے
درحقیقت عیدمیلادالنبی کاحقیقی پیغام یہی ہے جس کوسمجھنے اورعمل کرنے کی ضرورت ہے اوریہی وقت کااہم تقاضہ ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں ان جملہ امورپرعمل کرنے کی توفیق عطافرمائے کہ ہم نبی اکرمﷺکےمشن کی عالمی سطح پرتکمیل کیلئے راست سمت میں پیش قدمی کرسکیں ثم آمین
وہ دانائے سبل ختم الرسل مولائے کل جس نے
غبارِراہ کوبخشا فروغِ وادیٔ سینا
نگاہِ عشق ومستی میں وہی اوّل وہی آخر
وہی قرآں وہی فرقاں وہی یٰسین وہی طٰہ
رہے نام میرے رب کاجس نے میرے نبیﷺکو سب جہانوں کیلئے رحمت بناکر مبعوث فرمایا!