Double Standard And Hypocrisy For How Long?

دورنگی اورمنافقت کب تک؟

:Share

انسانی زندگی دومختلف شعبوں پرمنقسم ہے،ایک گھرکے اندراوردوسراگھرکے باہرکاشعبہ ہے-ان دونوں شعبوں کے ساتھ ہی معتدل اورمتوازن زندگی گزاری جا سکتی ہے-جہاں گھراورگھرکے باہرکاانتظام ضروری ہے وہاں کسب ِمعاش اورروزی کمانے کاانتظام بھی ضروری ہے-جب دونوں کام ایک ساتھ اپنی اپنی جگہ پرٹھیک ٹھیک چلیں گے تب انسان کی زندگی استوارہوگی اوراگران میں سے ایک انتظام بھی ختم یاناقص ہوگیاتواس سے انسان کی زندگی میں توازن ختم ہوجائے گا۔ان دونوں شعبوں میں ربِّ کریم نے یہ تقسیم فرمائی کہ مردکے ذمے گھرکے باہرکے کام لگائے،مثلاًکسب ِمعاش اورروزی کمانے کاکام اورسیاسی اور سماجی کام وغیرہ،یہ سارے کام درحقیقت مردکے ذمے عائدکئے ہیں جبکہ گھرکے اندرکاشعبہ اللہ اوراللہ کے رسول نے عورتوں کے حوالے کیاہے کہ وہ اس کوسنبھالیں -اگراللہ کی طرف سے یہ حکم آجاتاکہ عورت باہرکاانتظام کرے گی اور مردگھرکاانتظام کرے گا،توبھی کوئی چوں وچراکی مجال نہیں تھی لیکن اگرعقل کے ذریعے انسان کی فطری تخلیق کاجائزہ لیں تو بھی اس کے سوااورکوئی انتظام نہیں ہوسکتاکہ مردگھرکے باہرکاکام کرے اورعورت گھرکے کام کرے،اس لئے کہ مرداور عورت کے درمیان اگرتقابل کرکے دیکھاجائے توظاہرہوگاکہ جسمانی قوت جتنی مرد میں ہے ، اتنی عورت میں نہیں اورکوئی شخص بھی اس سے انکارنہیں کرسکتا-اللہ نے مردمیں عورت کی نسبت جسمانی قوت زیادہ رکھی ہے اورگھرکے باہرکے کام قوت اورمحنت کا تقاضاکرتے ہیں-وہ کام قوت اورمحنت کے بغیرانجام نہیں دیے جاسکتےلہٰذااس فطری تخلیق کابھی تقاضایہی تھاکہ گھرکے باہرکا کام مرد انجام دے اورگھرکے اندرکے کام عورت کے سپردہوں۔

لیکن جس ماحول میں معاشرے کی پاکیزگی کوئی قیمت نہ رکھتی ہواورجہاں عفت وعصمت کے بجائے اخلاق باختگی اورحیاسوزی کومنتہاے مقصود سمجھا جاتاہو، ظاہر ہے کہ وہاں اس تقسیم کاراورپردہ وحیاکونہ صرف غیرضروری بلکہ راستے کی رکاوٹ سمجھا جائے گاچنانچہ جب مغرب میں تمام اخلاقی اقدار سے آزادی کی ہواچلی تو مردنےعورت کے گھرمیں رہنے کواپنے لئے دوہری مصیبت سمجھا-ایک طرف تواس کی ہوسناک طبیعت عورت کی کوئی ذمہ داری قبول کئے بغیرقدم قدم پراس سے لطف اندوزہونا چاہتی تھی،اوردوسری طرف وہ اپنی قانونی بیوی کی معاشی کفالت کوبھی ایک بوجہ تصورکرتا تھا چنانچہ اس نے دونوں مشکلات کا جو عیارانہ حل نکالا،اس کاخوبصورت ومعصوم نام تحریک آزادیٴ نسواں ہے-عورت کویہ پڑھایاگیاکہ تم اب تک گھرکی چاردیواری میں قیدرہی ہو،اب آزادی کا دورہے اورتمہیں اس قیدسے باہرآکرمردوں کے شانہ بشانہ زندگی کے ہرکام میں حصہ لیناچاہئے-اب تک تمہیں حکومت وسیاست کے ایوانوں سے بھی محروم رکھاگیاہے،اب تم باہرآکرزندگی کی جدوجہدمیں برابرکاحصہ لوتودنیابھر کے اعزازات اوراونچے اونچے منصب تمہاراانتظارکررہے ہیں۔

عورت دل فریب نعروں سے متاثرہوکرگھرسے باہرآگئی اورپروپیگنڈے کے تمام وسائل کے ذریعے شورمچامچاکراسے یہ باورکرا دیاگیاکہ اسے صدیوں کی غلامی کے بعدآج آزادی ملی ہے،اوراب اس کے رنج ومحن کاخاتمہ ہوگیاہے-ان دل فریب نعروں کی آڑ میں عورت کوگھسیٹ کرسڑکوں پرلایاگیا، اسے دفتروں میں کلرکی عطاکی گئی،اسے اجنبی مردوں کی”پرائیویٹ سیکرٹری”کا منصب بخشاگیا،اسے”اسٹینو ٹائپسٹ’بننے کااعزازدیاگیا-اسے تجارت چمکانے کیلئے”سیلز گرل”اور”ماڈل گرل”بننے کا شرف بخشا گیا،اوراس کے ایک ایک عضوکوبرسربازاررُسواکرکے گاہکوں کودعوت دی گئی کہ آوٴاورہم سے مال خریدو،یہاں تک کہ وہ عورت جس کے سر پردین فطرت نے عزت وآبروکاتاج رکھاتھااورجس کے گلے میں عفت وعصمت کے ہارڈالے تھے، تجارتی اداروں کیلئےایک شوپیس اورمردکی تھکن دور کرنے کیلئےایک تفریح کاسامان بن کررھ گئی۔

نام یہ لیاگیاکہ عورت کو”آزادی”دے کرسیاست وحکومت کے ایوان اس کیلئےکھولے جارہے ہیں لیکن ذراجائزہ لے کرتودیکھئے کہ اس عرصے میں خودمغربی ممالک کی کتنی عورتیں صدریاوزیراعظم بن گئیں؟کتنی خواتین کوجج بنایاگیا؟کتنی عورتوں کودوسرے بلندمناصب کااعزازنصیب ہوا؟ اَعداد و شمارجمع کئے جائیں توایسی عورتوں کاتناسب بمشکل چندفی لاکھ ہوگا-ان گنی چنی خواتین کو کچھ مناصب دینے کے نام پرباقی لاکھوں عورتوں کوجس بیدردی کے ساتھ سڑکوں اوربازاروں میں گھسیٹ کرلایاگیاہے،وہ ‘آزادیٴ نسواں’ کے فراڈ کا المناک ترین پہلو ہے- آج یورپ اور امریکہ میں جاکر دیکھئے تو دنیا بھر کے تمام نچلے درجے کے کام ریستورانوں میں کوئی مرد ویٹرشاذونادرہی کہیں نظرآئے گاورنہ یہ خدمات تمام ترعورتیں انجام دے رہی ہیں-ہوٹلوں میں مسافروں کے کمرے صاف کرنے،ان کے بسترکی چادریں بدلنے اور”روم اٹنڈنٹ”کی خدمات تمام ترعورتوں کے سپردہیں-دوکانوں پرمال بیچنے کیلئےمردخال خال نظرآئیں گے،یہ کام بھی عورتوں ہی سے لیاجارہا ہے-دفاتر کے استقبالیوں پرعام طورپرعورتیں ہی تعینات ہیں اوربیرے سے لے کرکلرک تک کے تمام”مناصب”زیادہ تراسی صنف ِنازک کے حصے میں آئے ہیں جسے”گھرکی قید سے آزادی”عطاکی گئی ہے۔

پروپیگنڈے کی قوتوں نے یہ عجیب وغریب فلسفہ ذہنوں پرمسلط کردیاہے کہ عورت اگراپنے گھرمیں اپنے اوراپنے شوہر،اپنے ماں باپ،بہن بھائیوں اوراولاد کیلئے خانہ داری کاانتظام کرے تویہ قیداورذلت ہے لیکن وہی عورت اجنبی مردوں کیلئےکھاناپکائے،ان کے کمروں کی صفائی کرے،ہوٹلوں اور جہازوں میں ان کی میزبانی کرے،دوکانوں پراپنی مسکراہٹوں سے گاہکوں کومتوجہ کرے اور دفاتر میں اپنے افسروں کی نازبرداری کرے تویہ “آزادی ” اور”اعزاز”ہے۔ پھرستم ظریفی کی انتہایہ ہے کہ عورت کسب ِمعاش کے آٹھ آٹھ گھنٹے کی یہ سخت اورذلت آمیزڈیوٹیاں اداکرنے کے باوجوداپنے گھرکے کام دھندوں سے اب بھی فارغ نہیں ہوئی-گھرکی تمام خدمات آج بھی پہلے کی طرح اسی کے ذمے ہیں،اوریورپ اور امریکامیں اکثریت ان عورتوں کی ہے جن کوآٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی دینے کے بعداپنے گھرپہنچ کرکھاناپکانے،برتن دھونے اورگھر کی صفائی کاکام بھی کرناپڑتاہے۔

عورتوں کوگھرسے باہرنکالنے کیلئےآج کل ایک چلتاہوااستدلال یہ پیش کیاجاتاہے کہ ہم اپنی نصف آبادی کوعضو ِمعطل بناکرقومی تعمیروترقی کے کام میں نہیں ڈال سکے-یہ بات اس شان سے کہی جاتی ہے کہ گویاملک کے تمام مردوں کوکسی نہ کسی کام پرلگا کرمردوں کی حدتک”مکمل روزگار”کی منزل حاصل کرلی گئی ہے-اب نہ صرف یہ کہ کوئی مردبے روزگارنہیں رہابلکہ ہزارہاکام “مین پاور”کے انتظارمیں ہیں حالانکہ یہ بات ایک ایسے ملک میں کہی جارہی ہے جہاں اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل مردسڑکوں پرجوتیاں چٹخاتے پھررہے ہیں، جہاں کوئی چپڑاسی یاڈرائیورکی آسامی نکلتی ہے تواس کے دسیوں گریجویٹ اپنی درخواستیں پیش کر دیتے ہیں اوراگرکوئی کلرک کی جگہ نکلتی ہے تواس کیلئےدسیوں ماسٹراورڈاکٹرتک کی ڈگریاں رکھنے والے اپنی درخواستیں پیش کردیتے ہیں-پہلے مردوں کی”نصف آبادی”ہی کوملکی تعمیروترقی کے کام میں پورے طورپرلگالیجئے-اس کے بعدباقی نصف آبادی کے بارے میں سوچئے کہ وہ عضو ِمعطل ہے یانہیں؟

اللہ نے عورت کوگھرکی ذمہ داربنایاتھا،گھرکی منتظمہ بنایاتھاکہ وہ فیملی سسٹم استواررکھ سکے لیکن جب وہ گھرسے باہرآگئی تو یہ ہواکہ باپ بھی باہراورماں بھی باہر، اور بچے اسکول میں یانرسری میں،اورگھر پر تالا پڑ گیا،اب وہ فیملی سسٹم تباہ اور برباد ہو کر رہ گیا-عورت کو تو اس لئے بنایا تھاکہ جب وہ گھر میں رہے گی تو گھرکا انتظام بھی کرے گی اوربچے اس کی گودمیں تربیت پائیں گے، ماں کی گودبچے کی سب سے پہلی تربیت گاہ ہوتی ہے-وہیں سے وہ اخلاق وکردار سیکھتے ہیں،وہیں سے زندگی گزارنے کے صحیح طریقے سیکھتے ہیں لیکن آج مغربی معاشرے میں فیملی سسٹم تباہ ہوکررہ گیاہے،بچوں کوماں اورباپ کی شفقت میسرنہیں ہے،اورجب عورت دوسری جگہ کام کررہی ہے اورمرددوسری جگہ کام کررہاہے،اوردونوں کے درمیان دن بھرمیں کوئی رابطہ نہیں ہے،اوردونوں جگہ پرآزادسوسائٹی کاماحول ہے بسااوقات ان دونوں میں آپس کارشتہ کمزورپڑجاتااورٹوٹنے لگتاہے اوراس کی جگہ ناجائزرشتے پیداہونے شروع ہوجاتے ہیں،اوراس کی وجہ سے طلاق تک نوبت پہنچتی ہے اورگھر برباد ہوجاتاہے۔

اگریہ باتیں صرف میں کہتا تو کوئی کہہ سکتا تھا کہ یہ سب باتیں آپ تعصب کی بنا پر کہہ رہے ہیں لیکن چندسال پہلے سوویت یونین کے آخری صدرمیخائل گوربا چوف نے”پروسٹرائیکا”نام کی ایک کتاب لکھی ہے۔آج یہ کتاب ساری دنیا میں مشہور ہے۔اس کتاب میں ایک باب عورتوں کے بارے(خواتین کی حیثیت)میں لکھاہے جس میں انہوں نے واضح لفظوں میں یہ بات لکھی کہ”ہماری مغرب کی سوسائٹی میں عورت کوگھرسے باہرنکالاگیااوراس کوگھر سے باہر نکالنے کے نتیجے میں بے شک ہم نے کچھ معاشی فوائد تو حاصل کئے اور پیداوار میں کچھ اضافہ ہوا، اس لئے کہ مرد بھی کام کررہے ہیں اورعورتیں بھی کام کر رہی ہیں لیکن پیداوارکے زیادہ ہونے کے باوجوداس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارا فیملی سسٹم تباہ ہو گیااور اس فیملی سسٹم کے تباہ ہونے کے نتیجے میں ہمیں جو نقصان اُٹھانے پڑے ہیں،وہ نقصانات اُن فوائد سے زیادہ ہیں جوپروڈکشن کے اضافے کے نتیجے میں ہمیں حاصل ہوئے-لہٰذامیں اپنے ملک میں”پروسٹرائیکا”کے نام سے ایک تحریک شروع کررہاہوں،اس میں میرایک بڑابنیادی مقصدیہ ہے کہ وہ عورت جوگھر سے باہرنکل چکی ہے،اس کو واپس گھرمیں کیسے لایاجائے؟اس کے طریقے سوچنے پڑیں گے ورنہ جس طرح ہمارافیملی سسٹم تباہ ہوچکاہے،اسی طرح ہماری پوری قوم تباہ ہوجائے گی”۔

دراصل”حقوق نسواں کی آزدی”کے نام پردھوکہ دینے کیلئے سب سے پہلے اسلام پربھرپورتنقیدکی مہم چلائی گئی اورچندنعروں کاسہارالیکرپروپیگنڈہ کیاگیاکہ”اسلام کی سرشت میں عورت بے دخل ہے،حقوق آٹے میں نمک کہ برابر ہیں،عورت غلام ہے اور عورت بسترتک ہے”۔اب ضرورت اس امرکی ہے کہ اگران سے یہ پوچھاجائے کہ انجیل برناباس،یوحنااورتورہ کی موجودہ شکل میں عورت کیلئے گنتی کے کتنے حقوق درج ہیں؟

آدھی سے زائد دنیا پہ انگریزنے حکومت کی،کمپنی راج قائم کیا گیا،انہی کے بنائے ہوئے اصولوں کوکسی بھی عدالت میں چیلنج کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ انہوں نے اپنی ساری سلطنت میں اصول وضع کردیاکہ عورت کاجائدادمیں کسی بھی قسم کاکوئی حصہ نہیں ہوگا۔ برصغیرمیں جب انگریز آیا تو اس نے یہاں بھی پہلاکام یہی کیا کہ عورت کو جائیدادسے بے دخل کیا۔”مین ڈومیننٹ ایسٹ انڈیا کمپنی” کو یہ کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ اس نے اختیارصرف اور صرف مردکے ہاتھ میں رکھے۔انگریزکا18ویں صدی کادستور اٹھاکردیکھیں تواس میں واضح طور پرلکھا ہواہ ے کہ”عورت باپ کی وراثت میں کوئی حق نہیں رکھ سکتی”۔

انیسویں صدی کے اخیرمیں انہیں خیال آیاکہ عورت کابھی حصہ رکھاجائے کیونکہ یہ بھی توایک ہی باپ کے تخم سے ہے۔یہاں بھی مغرب نے اپنی مروجہ دھوکہ دہی سے کام لیتے ہوئے”حقوق نسواں کی آزادی”کے نام پربظاہربڑے خوشنمااصول بنائے اور عورت کومارکیٹ میں اس طرح متعارف کروایاگیاجس سے عزرائیل بھی پناہ مانگے۔ان کوپہلے یہ ذہن نشیں کروایا گیا کہ کس طرح مردنے عورت کے حقوق کااستحصال کرکے اسے برابری کے حقوق سے محروم کیا اوراب مغرب نئے قوانین کے تحت عورتوں کوگھروں سے نکال کرکھلی مارکیٹ اوربازارمیں تولے آیالیکن اس کی آڑمیں بھی عورت کو”مکمل خودمختاری”کایقین دلاکراپنی ذمہ داریوں کابوجھ ان پرڈال دیااوراب ایک لمبے عرصے کے بعدخواتین کوہوش آرہاہے اورایک مرتبہ پھرحقوق نسواں کی کئی تنظیمیں اپنے اس بیجاآزادی کی آڑمیں سلب کئے گئے حقوق کامطالبہ کرنے پرمجبورہوگئیں ہیں۔

ہم اگرمغرب کے ان سیکولراورحقوق نسواں کی آزادی کانعرہ لگانے والوں کوآئینہ دکھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ آپ انسانیت، نیوٹریلٹی،موریلٹی کے بلامقابلہ ٹھیکے دارتوبنتے ہیں لیکن اپنے ہاں مردوزن کے اختلاط کوان کے ذاتی حقوق میں شامل کرکے بچوں کے والدین کی طرف سے کسی نصیحت کوجرم کے زمرے میں شامل کرکے معاشرے کوبری طرح زوال کی طرف گامزن کس نےکردیاہے اوراس پرمستزادکہ اسقاط حمل کیلئے حکومتی اخراجات پرادویات اورعلاج معالجہ کی سہولتیں فراہم کرکےجس بے حیائی کادروازہ کھول رکھاہے،اب اس پرخودآپ کے ہاں ان قوانین کویکسرختم کرنے کی صدائیں بلندہورہی ہیں جبکہ اسلام نے توقدیم عرب معاشرے میں بچیوں کوزندہ گاڑدینے کی روایت کوختم کرکے اسلام کی یہ پہلی شق متعارف کروائی کہ”ا پنی اولاد کوافلاس کے اندیشے سے قتل نہ کرو۔ہم انہیں بھی رزق دیں گے اورتمہیں بھی۔درحقیقت اُن کاقتل ایک بڑی خطاہے”۔عورت کی توقیروعزت بڑھاتے ہوئے بچیوں کومبارک اور جنت کازینہ قراردیاگیا۔

شوہرکی موروثی جائدادمیں مغرب کی جانب سے50فیصدعورت کے بظاہربڑے خوش نماحق کاتذکرہ کرتے ہیں جبکہ اس قانون میں پوشیدہ ناانصافی کو تذکرہ بالکل نہیں کرتے۔اس خاندان میں بیوی کے علاوہ ماں باپ سمیت بچوں سب کوزمانے کی ٹھوکروں کیلئے بے سہاراچھوڑدیتے ہیں۔یہاں ایک کے ساتھ توبڑا انصاف ہوالیکن باقی اس مرحوم کی زندگی سے جڑے ہوئے تمام رشتوں کوکیوں لاوارث کردیاگیاجبکہ اسلام میں اگرمسلمان عورت کواس کے دیئے ہوئے حقوق پرعمل پیراہوں تواس کوحق مہر، باپ کی جائیدادسے ایک حصہ،شوہرکی طرف سے آٹھواں حصہ جمع کیاجائے تویہ بعض اوقات پچاس فیصدسے بھی زیادہ ہوجاتا ہے اور اولادکوبھی یہ کہہ کرپابندکردیاجاتاہے کہ وہ نہ صرف ان کے نان ونفقہ کے ذمہ دارہیں بلکہ سخت تنبیہ کی گئی ہے کہ ان کے سامنے”اف”تک نہ کرو۔

عجب ستم ظریفی تویہ ہے کہ مغرب نے آزادی اورفیشن کے نام پرعورت کوخودبےلباس کردیاجس کی بناءپرامریکاومغرب میں جبری ریپ اوربعدازاں ان کے بہیمانہ قتل کی سب سے بڑی وجہ یہی بتائی جارہی ہے لیکن اسلام میں عورت کی تقدیس کیلئے پردہ آپ کوناگوارگزرتاہے اوراس کے خلاف آپ نے قانون وضع کررکھے ہیں۔آخرکیاوجہ ہے کہ یہ دورنگی اورمنافقت کی پالیسیوں پر توخودآپ کے ہاں احتجاج شروع ہوچکاہے۔فیصلہ توآپ کے ہاتھ میں ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں