ہلاکوخان کی بیٹی بغداد میں گشت کررہی تھی کہ ایک ہجوم پراس کی نظرپڑی۔ پوچھا لوگ یہاں کیوں اکٹھے ہیں؟جواب آیا:ایک عالم کے پاس کھڑے ہیں۔ اس نے عالم کواپنے سامنے پیش ہونے کاحکم دیا۔عالم کوتاتاری شہزادی کے سامنے لاحاضرکیاگیا۔شہزادی مسلمان عالم سے سوال کرنے لگی: کیا تم لوگ اللہ پرایمان نہیں رکھتے؟عالم نے جواب میں کہاکہ یقینًاہم ایمان رکھتے ہیں۔شہزادی نے کہاکہ کیاتمہاراایمان نہیں کہ اللہ جسے چاہے غالب کرتاہے؟عالم نے کہاکہ یقیناً ہمارا اس پرایمان ہے۔جواب میں شہزادی نے عالم سے پوچھاتوکیااللہ نے آج ہمیں تم لوگوں پر غالب نہیں کردیاہے،توکیایہ اس بات کی دلیل نہیں کہ اللہ ہمیں تم سے زیادہ چاہتاہے؟عالم نے نفی میں سرہلاکرشہزادی کومخاطب کرتے ہوئے کہا:
“تم نے کبھی چرواہے کودیکھاہے؟اس نے ریوڑکے پیچھے اپنے کچھ کتے رکھے ہوتے ہیں؟اگرکچھ بھیڑیں چرواہے کوچھوڑکوکسی دوسری طرف نکل کھڑی ہوں اورچرواہے کی سن کر واپس آنے کوتیارہی نہ ہوں،تو چرواہا ان کے پیچھے اپنے کتے دوڑاتاہے تاکہ وہ ان کوواپس اس کی کمان میں لے آئیں؟ وہ کتے تب تک ان بھیڑوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں جب تک وہ چرواہے کے اقتدار میں واپس نہ آجائیں۔تم تاتاری لوگ زمین میں ہم مسلمانوں کے حق میں اللہ کے چھوڑے ہوئے کتے ہوجب تک ہم اللہ کے در سے بھاگے رہیں گے اوراس کی اطاعت اوراس کے منہج پرنہیں آجائیں گے،تب تک اللہ تمہیں ہمارے پیچھے دوڑائے رکھے گا، اورہماری گردنوں پرمسلط رکھے گاجب ہم اللہ کے درپرواپس آ جائیں گے اس دن تمہاراکام ختم ہوجائے گا”۔سوچئے،آج پھروہی حال ہے،آج کتے ہم پرمسلط ہیں۔یہودیوں عیسائیوں اورلبرل کی صورت میں،جوہمیں دن رات کاٹ رہے ہیں ۔
اس وقت دنیابھرمیں سب سے زیادہ مصائب میں مبتلاامت مسلمہ ہے جس پرچاروں طرف سے ابتلا کی بارش کردی گئی ہے لیکن ہمارے تمام دشمن نہ صرف اکٹھے مل کرمسلمانوں کو نیست ونابودکرنے کی عملی سازشوں میں شریک ہیں بلکہ ہمیں بھی ایک دوسرے کادشمن بنانے میں انہوں نے کوئی کسرنہیں چھوڑی اورہم ایک دوسرے کاگلہ کاٹنے میں مصروف ہیں ۔ یوں تواس وقت امت مسلمہ کئی مسائل سے دوچارہے لیکن کشمیراور فلسطین دوایسی بڑی مقتل گاہیں بن چکی ہیں جہاں پچھلی سات دہائیوں سے انسانیت مسلسل چیخ وپکارکررہی ہے لیکن خودکومہذب کہلانے والی قومیں نہ صرف بہرے اورگونگے شیطان کاکردارادا کررہی ہیں بلکہ اس ظلم وستم میں برابرکے شریک ہیں۔امریکاتوافغانستان میں ہزیمت کے بعد پھن پھلائے پاکستان کوڈسنے کی تمام تدابیرپرعملدرآمدکیلئے ننگی دہمکیوں پراترآیاہے۔
کشمیریوں اورفلسطینیوں پر قیامت ابھی تھمی نہیں لیکن صدافسوس کہ یہاں ہماری مسلم حکومتوں کی محفلیں شگوفہ بنی ہوئی ہیں۔ دنیامیں سب سے بڑے ثقافتی میلے میں ناچ گانے پر تفاخرمحسوس کررہے ہیں۔یہ ہمیں کیاہوگیا ہے ؟بستی میں ایسی بے حسی توکبھی نہ تھی۔درست کہ ہم آج کمزورہیں اوران کی عملی مددسے قاصرہیں لیکن ہم اتناتوکرہی سکتے ہیں کہ یہ دکھ امانت کی طرح سنبھال کررکھیں اورنسلوں کووراثت میں دے جائیں۔ کیا عجب ہماری نسلیں ہماری طرح بے بس نہ ہوں۔وقت کاموسم بدل بھی توسکتا ہے۔ ہم اتناتوکرسکتے ہیں کہ موسموں کے بدلنے تک اپنے زخموں کوتازہ رکھیں۔ان سے رستے لہوکو جمنے نہ دیں۔ بھلے وقتوں کی بات ہے ابھی روشن خیالی کی مسندمسخروں کے ہاتھ میں نہیں آئی تھی۔ہمارا ادیب دائیں اوربائیں کی تقسیم سے بے نیازہوکریہ امانت نسلوں تک پہنچارہا تھا۔ اقبال ، قدرت اللہ شہاب،فیض،شورش کاشمیری، انتظار حسین ،حبیب جالب،احمدندیم قاسمی،ابن انشا،احمدفراز،رئیس امروہوی،ن م راشد،مستنصرحسین تارڑ ،قرۃالعین حیدر ، مظہرالاسلام،اداجعفری،یوسف ظفر، منظورعارف،ضمیرجعفری،خاطرغزنوی،محمودشام،نذیرقیصر،شورش ملک،سلطان رشک، طاہرحنفی،بلقیس محمود……میرے ملک کے کتنے ہی نام ہیں جنہوں نے اپنے افسانوں اورنظموں میں اس دکھ کوآئندہ نسلوں کیلئے امانت کے طورپر محفوظ کردیا۔ یہ مگرگزرے دنوں کی بات ہے،دکھ تویہ ہے کہ ہم نے توآج ان ناموں کوہی فراموش کردیااورہمارے قلمکاریاتوحکومت کے گن گانے میں مصروف ہیں یاان تک رسائی کے بہانے ڈھونڈتے پھررہے ہیں۔
فلسطین سے دھواں اٹھاتومستنصرحسین تارڑکاقلم نوحے لکھنے بیٹھ گیامگرآج باقی ادیب کیاہوئے؟ قلم ٹوٹ گئے،سیاہی خشک ہوگئی یااحساس نے دم توڑدیا؟برسوں پہلے انتظارحسین کےافسانہ’’شرم الحرم‘‘کےکچھ فقرے آج بھی دل میں ترازوہیں۔’’بیت المقدس میں کون ہے؟ بیت المقدس میں تو میں ہوں،سب ہیں،کوئی نہیں ہے۔ بچے کمہارکے بنائے پتلے کوزوں کی طرح توڑے گئے،کنواریاں کنویں میں گرتے ہوئے ڈول کی رسی کی مانندلرزتی ہیں۔ان کی پوشاکیں لیرلیرہیں۔بال کھلے ہیں۔انہیں توآفتاب نے بھی کھلے سرنہیں دیکھاتھا۔عرب کے بہادربیٹے بلندوبالاکھجوروں کی مانندمیدانوں میں پڑے ہیں۔ صحرا کی ہواؤں نے ان پر بین کیے‘‘۔
انتظار حسین ہی کے افسانے’’کانے دجال‘‘کومیں نے کتنی ہی بارپڑھا۔یہ پیراگراف ہردفعہ خون رلاتاہے۔’’پلنگ پہ بیٹھی اماں جی چھالیاں کاٹتے رونے لگیں ۔ انہوں نے سروتاتھالی میں رکھااورآنچل سے آنسوپونچھنے لگیں۔اباجان کی آوازبھرآئی تھی مگرضبط کرگئے۔اپنے پروقارلہجے میں شروع ہو گئے: ٓنحضور ﷺ دریاؤں،پہاڑوں، صحراؤں ،سے گزرتے چلے گئے۔مسجد اقصیٰ میں جاکرقیام کیا۔حضرت جبریلؑ نے عرض کیایاحضرت ﷺ تشریف لے چلیے،آپؐ نے پوچھاکہاں؟بولے کہ حضرتؐ زمین کاسفرتمام ہوا۔ یہ منزل آخرتھی۔اب عالم بالاکاسفردرپیش ہے۔تب حضورؐبلندہوئے اوربلند ہوتے چلے گئے……….. وَرَفَعْنَالَكَ ذِكْرَكَ…… اباجان کاسرجھک گیا۔پھرانہوں نے ٹھنڈاسانس بھرا۔ بولے’’جہاں ہمارے حضورؐ بلند ہوئے تھے، وہاں ہم پست ہو گئے‘‘۔
چلئے ایک اورکہانی سن لیں،جس کاعنوان ہے”آب حیات”شائداس میں ہمیں مطلوبہ جواب مل جائے:
مریدنے مرشدکواچھے موڈمیں دیکھاتوباادب ہوکرگویاہوا” میرے مرشدمجھے عرقِ حیات کے متعلق توکچھ بتائیے،کیااسی کوآبِ حیات کہتے ہیں؟اور اس پانی کاچشمہ پھوٹتاکہاں سے ہے؟؟؟مرشدنے گہری نظرسے مریدکی طرف دیکھااورسوچ میں ڈوب گیا،جب کافی دیرگزرگئی تومریدکویوں لگاجیسے اس نے اپنے مرشدکوناراض کردیا ہے۔وہ پھر ڈرتے ڈرتے بولا:حضرت جی اگرمیرے سوال سے آپ کوکوفت ہوئی ہے تومیں معافی کاطلبگارہوں۔ایک لمبی ہوکے بعدمرشدنرمی سے بولا،نہیں میں ناراض تو نہیں ہوامگرفکرمندضرورہوں۔میں نے جب یہ سوال اپنے مرشد سے کیاتھاتوہمارے درمیان12سال کی طویل جدائی پڑگئی،میں سوچ یہ رہاتھاکہ پتہ نہیں میں تمہاری یہ طویل جدائی برداشت کرسکوں گابھی یانہیں،اس دوران اگرمیری اجل آگئی توکہیں تمہاری محنت ضائع نہ ہوجائے بیٹا،یہ عرقِ حیات یاآبِ حیات “یہ الفاط میں نہیں سمجھایاجاسکتا”سمجھاؤتوسمجھ نہیں آتا!اس لئے میرامرشدتوآب حیات کے چشمے کے کنارے کھڑاکرکے اس میں انگلی ڈبوکردکھایاکرتاتھاکہ یہ ہے عرقِ حیات۔ میں نے یہ سوال اپنے مرشدسے ان کی جوانی میں پوچھ لیاتھا”۔
تم نے بہت دیرکردی ہے خیراللہ بہترکرے گا۔میں تمہیں ایک پودادکھاتاہوں،اس پودے کے پھول کاعرق تم نے ایک چھوٹی شیشی میں بھرناہے اور جب یہ شیشی بھر جائے تب میرے پاس واپس آنا،یہ عرق ہی ہماری آنکھوں میں عرقِ حیات کودیکھنے کی صلاحیت پیداکرے گا،یادرکھناایک پھول سے صرف ایک قطرہ رس نکلتاہے اوراگرشیشی فوراًبندنہ کروتوفوراًاڑبھی جاتاہےاوریہ پوداجنگل میں کہیں کہیں ملتاہے۔اس کے بعدمرشد نے ایک درمیانے سائز کی شیشی اپنے مریدکوپکڑائی اوراسے ڈھیرساری دعاؤں کے ساتھ رخصت کردیا!مریدبہت پرجوش تھا،آبِ حیات کامعمہ بس حل ہونے کوتھااوراسے آبِ حیات کودیکھنے اورچھونے کاموقع ملے گا۔
مگرایک تواس پودے کوڈھونڈناایک جوکھم تھا،ایک پودے کے ساتھ ایک پھول اورایک پھول میں ایک قطرہ،الغرض اسے بارہ سال لگ گئے بوتل بھرنے میں،جس دن اس کی بوتل بھری وہ دن اس کیلئے ایک نئی زندگی کی نویدتھا،ایک طرف وہ پھولے نہیں سمارہاتھاتودوسری طرف اسے بار باریہ خیال ستارہاتھاکہ اگر اس دوران مرشد اللہ کوپیارے ہوگئے تواس کی محنت ضائع چلی جائے گی کیونکہ آبِ حیات کاچشمہ توصرف مرشدکوہی پتہ تھا!وہ خیالات میں غلطاں و پیچاں کبھی چلتاتوکبھی دوڑتا اپنے مرشدکے ٹھکانے کی طرف رواں دواں تھا۔مرشدکے ڈیرے پہ نظرپڑتے ہی بیتابی میں دورسے چلایا:مرشد،میرے مرشد ، دیکھ میں اپنی تپسیامیں کامیاب رہا،میں بوتل بھرلایاہوں۔اس کی آوازپرمرشد اپنے کٹیاسے باہرنکلا،12 سالوں نے اس کی کمردھری کردی تھی مگروہ بھی مرید کی کامیابی پرخوش نظرآرہاتھا ۔
اپنے مرشدپرنظرپڑناتھی کہ مریدبے اختیاردوڑپڑااور یہی بے احتیاطی اسے مہنگی پڑی،ٹیڑھے میڑھے رستے پرقدم کاسٹکناتھا کہ مریدلڑکھڑایا اورعرق سے بھری شیشی اس کے ہاتھ سے چھوٹ کرٹھاہ سے پتھرپرلگی اورچوراچوراہوگئی،عرق کے کچھ چھینٹے مرشدکے پاؤں پرپڑے باقی کوجھٹ زمین نگل گئی۔بے اختیارمریدکی چیخ نکل گئی “میرے مرشدمیں لٹ گیا،میں بربادہوگیا،میری محنت ضائع ہوگئی،میرےبارہ سال کی مشقت مٹی بن گئی،میرے مرشد میں تباہ ہوگیا”۔مرشداپنے مریدکوچھوڑکراندر گیا،ایک اورچھوٹی سی شیشی لایاجس میں اس نے روتے سسکتے مریدکے آنسوبھرناشروع کردیئے اور وہ شیشی بھر لی !!اب مریدرورہاتھاتومرشدہنس رہاتھا”میرے مرشدمیری زندگی بربادہوگئی اورآپ مسکرارہے ہیں؟مریدنے تعجب سے پوچھا!!مرشداسے اندرلے گیا اوربکری کے دودھ کاپیالہ پینے کودیا۔پھراس نے اس چھوٹی شیشی کوکھولاجس میں مریدکے آنسوبھرے ہوئے تھے اوراپنی انگلی کوان سے گیلاکر کے کہا کہ “یہ ہے عرقِ حیات یاآبِ حیات،یا مقصدِحیات”اورپھرآنسوؤں میں ڈبڈباتی اس کی آنکھوں کوچھوکرکہایہ ہیں آبِ حیات کے چشمے!!یادرکھو !اللہ نے انسان کوان آنسوؤں کیلئے پیداکیاہے،ان میں ہی زندگی چھپی ہوئی ہے،کچھ اس کی محبت میں زار وقطارروتے ہیں جیسے انبیاء،اورکچھ اپنے عملوں کے بھرے مٹکے جب اپنی ذراسی غلطی سےگرتے اورٹوٹتے اوراپنی محنتیں ضائع ہوتے دیکھتے ہیں توتیری طرح بلبلاتے ہیں،جس طرح پانی نکلنے اورنکالنے کے مختلف طریقے ہیں اسی طرح انسانوں میں بھی ان کی طبائع کے تحت ان آنسوؤں کاسامان کیاگیاہے۔یادرکھوآسمان پر بھرنے والے بہت سارے ہیں مگرشیشی کسی کی نہیں ٹوٹتی،آسمان والوں کے مٹکے ہردم بھرے رہتے ہیں،وہاں مٹکے ٹوٹنے کے اسباب نہیں رکھے گئے،ان کے رونے میں تسبیح ہے، پچھتاوہ نہیں ہے۔
ہمیں اسی مقصد سے بنایاگیاہے،پھراس دنیاکے ٹیڑھے میڑھے رستوں پرہاتھ میں تقوے کی بوتل دے کردوڑایاجاتاہے،اورجب ذراسی بے احتیاطی سے تقوے کی وہ سالوں کی محنت کسی گناہ میں ڈوب جاتی ہے اورہم پچھتاتے ہیں اورزاروقطارروتے ہیں تواللہ فرشتوں کواسی طرح ہمارے آنسو سمیٹنے پرلگادیتاہے جس طرح آج میں نے تیرے آنسو شیشی میں جمع کئے ہیں!!یہ وہ پانی ہے جس سے جہنم کی آگ بھی ڈرتی ہے۔اللہ کے رسول ﷺ نے حشرکانقشہ کھینچاہے کہ جہنم کی آگ فرشتوں کے قابو میں نہیں آرہی ہوگی اورمیدانِ حشرمیں باغیوں کی طرف پھنکاریں مارتی ہوئی لپکے گی،فرشتے اپنی بے بسی کااظہارکریں گے تواللہ جبرئیل سے فرمائیں گے کہ وہ پانی لاؤ،اورپھرجبرئیل اس پانی کے چھنٹے مارتے جائیں گے اور آگ پیچھے سمٹتی جائے گی یہاں تک کہ اپنی حدمیں چلی جائے گی،صحابہ نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسولﷺ وہ کونساپانی ہوگا؟آپﷺ نے فرمایا:اللہ کے شوق میں اللہ کے خوف سے رونے والوں کے آنسوہوں گے جواللہ نے آگ پرحرام کررکھے ہیں!!یہی وہ روناہے جوامیر خسرو روتے ہیں کہ
بہت ہی کٹھن ڈگرپنگھٹ کی
کیسے بھرلاؤں میں جھٹ پٹ مٹکی؟
یہی وہ آبِ حیات ہے جس کی بشارت انسان کودی گئی ہے کہ اس کے چشمے اس کی اپنی ذات کے اندر ہیں۔
اے تن تیرارب سچے داحجرہ،پااندرول جھاتی ہو
نہ کرمنت خواج خضردی،تیرے اندرآب حیاتی ہو
اسی کی طرف میاں محمد بخش صاحب رحمتہ اللہ علیہ اشارہ کرتے ہیں:
سب سیاں رل پانی چلیاں تے کوئی کوئی مڑسی بھرکے
جنہاں بھریا،بھرسرتے دھریا،قدم رکھن جرجرکے
یعنی تمام روحیں اصل میں ان سہیلیوں کی طرح ہیں جوکنوئیں سے آبِ حیات بھرنے جاتی ہیں مگران میں سے کوئی کوئی بھرکرواپس آئے گی بہت ساریوں کے گھڑے رستے میں ٹوٹ جاتے ہیں لیکن جوبھرکرسرپررکھ لیتی ہیں ان کے قدم رکھنے کااندازبتاتاہے کہ ان کا گھڑابھراہواہے!وہ بہت ٹھہرٹھہرکر قدم رکھتی ہیں۔ اللہ نے اپنے بندوں کی تعریف میں فرمایاہے:رحمان کے بعض بندے زمین پربہت تھم تھم کر قدم رکھتے ہیں (یعنی پروقارچال چلتے ہیں ان کی چال بتاتی ہے کہ گھڑابھراہواہے) جاہل ان کے مُنہ آئیں تو کہہ دیتے ہیں کہ تم کو سلام!”(فرقان:63) میاں صاحب دوسری جگہ فرماتے ہیں!
لوئے لوئے بھرلے کُڑیئے جے تدھ بھانڈا بھرنا!
شام پئی بِن شام محمد گھرجاندی نے ڈرنا
یہ بھرے گھڑے تڑوانے والوں کاذکراللہ پاک نے قرآن حکیم سورہ التغابن میں بھی باربارکہاہے: اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمہاری بیویوں اور تمہاری اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن ہیں ، ان سے ہوشیار رہو۔اور اگر تم عفو و درگزر سے کام لو اور معاف کر دو تو اللہ غفور و رحیم ہے
میاں صاحب فرماتے ہیں
اکھیوں انَاتے تِلکَن رستہ کیوں کررہے سنبھالا؟
دھکے دیون والے بہتے توہتھ پکڑن والا
اے اللہ آنکھوں سے بھی میں اندھاہوں،ان مادی آنکھوں سے تونظرنہیں آتا،اوررستہ بھی پھسلن والاہے،دوسری جانب ہربندہ اس پھسلن رستے پر سہارا دینے کی بجائے دھکے دینے والاہے،جبکہ صرف تیری ذات ہاتھ پکڑنے والی ہے۔
کچھ لوگ ان بہتی آنکھوں کوولیوں کاٹھکانہ کہتے ہیں۔۔۔۔اگرکبھی موقع ملے یاپھرایسے موقع کی تلاش میں رہیں،جہاں ان کی زیارت ہوجائے تو فوری اس آب حیات سے وضوکرلیں۔قرآن کےتوہرورق سے آبِ حیات کے چشمے پھوٹتے ہیں اورہماری یہ بدقسمتی ہے کہ ہم نے ان چشموں کو بھاری اورریشمی غلافوں میں چھپاکرگھرکے ایسے اونچے کونوں میں سجارکھاہے جہاں آتے جاتے نظرتوپڑتی ہے لیکن اس قرآن کی فریادہمارے بہرے کانوں کوسنائی نہیں دیتی جس کی بناءپرہم آج رسواوذلیل ہو رہے ہیں۔