زندگی کی متاعِ عزیزکیاہے؟روپیہ پیسہ زروجواہرزمینیں اورجائدادمنصب جاہ وجلال ناموری واہ واہ داد وتحسین صلہ وستائش بیوی بچےعزیزواقرباء یاردوست…. کیایہی ہے زندگی کی متاعِ عزیز!توپھرنظریہ کیاہے،اصول کیاہے،حق وصداقت کیاہے،دار ورسن کیاہے،شہادت کیاہے،عشق کیا ہے،محبت کیاہے،بے غرضی کیاہے،جاں نثاری کیاہے،مرمٹناکیاہے؟؟؟ بتایئے پھریہ سب کیا ہیں؟کسے کہتے ہیں متاع عزیز؟کیاانکارمتاعِ عزیزنہیں ہے؟؟جبرکے سامنے انکار،فرعونیت کاانکار،صلہ کاانکار،سودے بازی سے انکار،دولت ِبے بہاکاانکار،باطل کاانکار،سر جھکانے سے انکار،ظلم وجبرکا انکار، رب کی حاکمیت کے سواسب کاانکار….
انکارمتاعِ عزیزنہیں ہےتوپھرکیاہے انکار؟انکاراوریکسرانکار،پورے شعورکے ساتھ انکار۔کوئی مصالحت نہیں بالکل بھی نہیں… مجسم انکار…باطل کے سامنے،طاغوت کے سامنے،رب کےباغیوں کے سامنے،نفس پرستوں کےسامنے،دنیائے حرص و تحریص کے سامنے،دھوکے کے سامنے،بے وفائی کے سامنے، خدائی لہجے میں بات کرنے والوں کے سامنے…. انکاراوریکسر انکار… پورے شعوراورپورے وجودکے ساتھ انکار،بس انکار۔جتناظلم بڑھتا ہے،انکارکی شدت میں اضافہ ہوتاچلاجاتاہے۔ کیاتم نے دیکھا نہیں،تاریخ توآج بھی اس کی گواہ ہے کہ جلتے انگاروں پرلٹایاگیا،جسم کی چربی نے جب دہکتے انگاروں کوشکست دی تودیکھنے والوں نے دیکھاکہ چہرے کی مسکراہٹ بھی توحیدکے نعرے کی گواہی دے رہی تھی کیونکہ آخرت کی کامیابی لپک لپک کران کے بوسے لے رہی تھی۔انکارکی یہ مومنانہ جرات نے زمین وآسام کوششدرکرکے رکھ دیاکہ ایک عورت جس کے عزم ویقین کوکفرو جہالت کے پہاڑشکست نہ دے سکے،اس کے نازک آبگینوں کوتیزدھارتلوارکے وارسے کاٹ کررکھ دیالیکن اس کی زبان سے آخری انکارنے جہالت کے منہ پرمالک مل دی جوقیامت تک کے آنے والوں کیلئے انکارِخداوندی لطف کاراستہ متعین کرگئی۔
دلیل چاہے کتنی بھی مضبوط ہو،رب کے سامنے کیاحیثیت رکھتی ہے!بس انکار۔ لیکن انکاراپنے نفس کوخوش کرنے کیلئےنہیں، نفس کوخوش کرنے کیلئے انکارتوانکارِابلیس ہے۔اپنے رب کیلئےانکار……..یہی ہے اصل اورکچھ نہیں۔نہیں مانیں گے کسی کی بھی۔کسی طاقت کی،کسی بھی نظام باطل کی نہیں مانیں گے چاہے لاکھ مادی دلیلیں دو۔بس مانیں گے توصرف رب اعلیٰ کی،بس اسی کی اورکسی کی بھی نہیں۔یہی توحیدہے اورہے کیاتوحید؟میرادین تو شروع ہی انکارسے ہوتاہے یعنی”لا”سے۔پہلے انکارکی منزل ہے پھرتسلیم کی۔میں انکار کیے بغیرتسلیم کیسے کرسکتاہوں!اگرمیں انکارنہ کروں اورتسلیم بھی کروں تویہ منافقت ہے جو قابلِ قبول نہیں ہے۔ملاوٹ نہیں خالص درکارہے بالکل خالص……..چاہے ذرہ ہی ہو۔ملاوٹ شدہ پہاڑدرکارنہیں ہے۔ یہی ہے اخلاص اورکیاہے؟
انکارروحِ اسلام ہے۔انکارروحِ حسینیت ہے۔انکار…….جا،نہیں مانیں گے۔تمہارے دھوکے تمہیں مبارک،ہماراسچ ہمیں۔انکارلکھنے میں بہت آسان ہے۔پنج حرفی لفظ بہت آسان ہے لکھنا،کرنابہت مشکل ہے۔جان لیواہے،بہت نقصان دہ،بہت قربانی چاہتاہے۔خودسے بھی لڑناپڑتاہے۔ اپناانکار بھی ، نہیں اپنی بھی نہیں مانوں گا۔بہت مشکل ہے یہ بہت کٹھن منزل۔معرکۂ خیروشرکیاہے؟معرکہ حق وباطل کیاہے؟یہی توہے حق کاساتھ دیناخیر، باطل کاساتھ دیناشر۔رب کے سامنے تسلیم خیراورابلیس کاپیروکاربنناشر۔معرکۂ خیروشریہی ہے،بس یہی ہے۔پورے عالم میں یہی کچھ ہوتاہے، ہوتا رہے گا۔نہیں رکے گایہ معرکہ۔جنگِ بدرکیاہے؟کربلا کادرس کیاہے؟جہاد کیا ہے؟یہی ہے بس۔سب کادرس ایک ہے: “بس انکار”۔انکارکروتوجان سے گزرناپڑتاہے۔خاندان نثارکرناپڑتاہے۔سب کچھ قربان کرنا پڑتاہے۔آگ وخون میں نہاناپڑتاہے۔خا ک آلودہوناپڑتاہے۔اپنی خواہشات کوذبح کرناپڑتاہے۔تیز دھارپرسے گزرناپڑتاہے۔لاشے اٹھانے پڑتے ہیں۔جب شعورکے ساتھ انکارہوتوہرلاشہ اٹھاتے ہوئے یقین بڑھتاہے۔پختگی آتی ہے۔رب اعلیٰ کیلئے سب کچھ قربان کرنے کا حوصلہ پیداہوتاہے۔اللہ کی اس دھرتی پرتم سے پہلےکئی فرعون،نمرود،شدادانکارکرنے والوں کو خوب آزماچکے،اگراس کے عبرتناک انجام سے کوئی سبق حاصل نہیں کیالیکن ان دیکھے جرثومے “کرونا”نے اوسان خطاکردیئے۔اب بھی کوئی ان دیکھاجرثومہ توبہرحال تعاقب میں ہے۔
میں غزہ کی منجمدکرنے والی سردی اوربارش میں ایک ریڑھی پرلدی لاش کوگھسیٹتے ہوئے اس بچے کوکیسے بھول جاؤں،انکار کایہ دکھ بھرامنظرمیری روح تک کوچھلنی کرگیاہے۔اسے نہیں معلوم کہ وہ اپنی ماں کی زندگی بچانے کیلئےجس ہسپتال کی طرف جارہاہے،اس ہسپتال کوکھنڈرات میں تبدیل کردیا گیا ہے اوروہاں کے مسیحاڈاکٹراسماعیل جواپنے خاندان کےافرادکی خیریت تک نہ پوچھ سکاکہ اسے پتہ چل گیاتھاکہ وہ ساراعلاقہ اپنے تمام مکینوں کے ساتھ رب اعلیٰ کے ہاں حاضرہوگئے ہیں جہاں اس کی تمام پونجی مقیم تھی،آج وہ بھی ہسپتال کے ملبے میں اپنے ان تمام شہداءکے پاس پہنچ گیاہے،تواس بچے کی دم توڑتی ماں بھی ان کے پاس پہنچادی گئی۔یہ وہی ڈاکٹراسماعیل تھاجس کے ہاتھ برسوں لندن کے ہسپتالوں میں لوگوں کی زندگیاں بچانے کیلئے آپریشن میں مصروف رہے،وہ چندبرس قبل اپنی آرام وستائش والی زندگی چھوڑکرغزہ میں دکھی انسانیت کی خدمت کیلئے پہنچ گیااوراپنی خواہش کے مطابق زندگی کاسارا سرمایہ اس دنیامیں ہارکرجنت کاخریداربن گیا۔
کیایہ وہی فلسطین نہیں جہاں تین اہل کتاب کی مشترکہ زیارت پر24گھنٹے محبت کرنے والوں کاہجوم رہتاتھا،اچانک وہاں ہیبرون کی ساری آبادی کودیس نکالادیکراس مسجد ابراہیمی کوتالا لگا کربندوق بردارجلادوں کوکھڑاکردیاگیاکہ اب کوئی بھی سیدناحضرت ابراہیم کواپنا”دادا”سمجھنے والااس کے اندرقدم رکھناتوکجا،اس کے آگے سے بھی گزرنہیں سکتا۔معاملہ صرف یہی ختم نہیں ہوا کہ اپنے خون سے اس گلشن کی آبیاری کرنے والوں کواس چمن کے مہکتے پھولوں سے محروم کردیاگیابلکہ ان پھولوں کے خاروں پربھی ان کاحق ختم کردیاگیا۔قصرسفیدمیں بیٹھے فرعون نے ہماری ہی امت کے امیرملکوں سے اسے “معاہدہ ابراہیم”کانام دیکر تسلیم کرواتے ہوئے جائزحقداروں کوبھی یہ پیغام دے دیاکہ بھول جاؤاب قبلہ اول کو،اب یہاں ہیکل سلیمانی کی تعمیر کو بھی کوئی روک نہ سکے گا۔
آج یہی انسانی حقوق کے سب سے بڑے چیمپئن اورمہذب دنیاکے دعویداراپنے” لے پالک”کواسلحے سے بھرے ہوئے جہازدیکرغزہ کے باسیوں کو دہشتگردقراردیتے ہوئے ان کوصفحہ ہستی سے مٹانے کاکام کررہے ہیں بلکہ اپنے ملکوں میں ان کے حق میں مظاہرے کرنے والوں کوکوفیہ پہننے سے یا جنگ بندی یاآزادی کے نعرے لگانے سے اپنے کرائے کے سپاہی کےجذبات مجروح ہونے سے خبردارکررہے ہیں۔
ادھرکشمیرکی صورتحال تباہ کن ہے اوربین الاقوامی برادری نے یہاں موجودلوگوں کوتنہاچھوڑدیاہے۔سفاک ہندوفوجی دوکانوں، مکانوں، ہسپتالوں ، اسکولوں اورمساجد یہاں تک کہ ہرچیزکونشانہ بناتے ہیں اورہرروزشہیدوں وزخمیوں کی دل دہلادینے اورسینہ چھلنی کرنے والی خبروں پربھی مکمل پابندی لگائی جاچکی ہے۔اب شائدآزادی کااستعارہ علی گیلانی بھی اپنی قبرمیں اپنےوکیل کی بے وفائی پراپنے رب کے حضورفریادکناں ہوگا۔اس ضعیف سید نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں کشمیرمیں جاری قیامت صغریٰ پرہمارے بدطینت اوربددیانت قیادت کےرویے کودیکھتے ہوئے یہ فیصلہ کرلیاتھا کہ اپنی اولاد کے معصوم بچوں کے چیتھڑے اڑانے کامقدمہ خودنبی اکرم ﷺ کے ہمراہ اپنے رب کے ہاں پیش کرے گا۔یقیناًاپنی درخواست میں جہاں ایک لاکھ سے زائداپنے جوان بیٹوں،بیٹیوں اورمعصوم شہداکے ٹکڑے اپنے پاکیزہ خون کے سامنے پیش کرے گاوہاں یہ فریادبھی شامل ہوگی کہ جب یہ ظلم وستم جاری تھاہمارے وکیل کی دھوکہ دہی کے ساتھ ساتھ خادمین حرمین اوردیگرعرب رہنماسفاک مودی کواپنے ہاں بلاکرملک کے اعلیِ اعزازات سے نوازرہے تھے۔وہاں منکرنکیرتمام معاملات کوکھول کھول کر جب سامنے رکھیں گے تویہ یقیناً اپنے سراورسینے کوپیٹ کردوبارہ دنیامیں جانے کی آرزوکریں گے۔
یہ الگ بات ہے کہ متعصب مودی حکومت 5/اگست جیسے غیرآئینی اورغیرقانونی فیصلوں کے باوجودایک مرتبہ پھروحشت ناک ظلم وستم وبربریت کے باوجودمقبوضہ کشمیرمیں جدوجہد آزادی کودبانے میں نہ صرف بری طرح بے بس بلکہ ناکام دکھائی دے رہی ہے بلکہ ایک مرتبہ پھراپنی مکاری و عیاری سے کام لیتے ہوئے جیلوں میں بندان کشمیریوں نوجوانوں پرٹارچر شروع کردیا ہے کہ ان سے ایک مرتبہ پھرجعلی”فالس فلیگ آپریشن”سازش کااعتراف کرواکےاپنے آئندہ انتخابات میں جیتنے کی راہ ہموارکی جائے جس کوخوداس کے اپنے سیاستدانوں نے قبل ازوقت طشت ازبام کردیاہے۔
یادرہے کہ مودی سرکارنے اسرائیل کی طرز پرجس طرح کینیڈاکے بعدامریکامیں بھی بدنام زمانہ”را”کے ایجنٹوں کے ذریعے اپنے مخالفین کاقتل شروع کرواناشروع کیااوراس کے فوری بعد کینیڈاکاساتھ دیتے ہوئے امریکاسمیت دیگریورپی ممالک نے مودی سرکارکوانتباہ کیاہے،اس سے توجہ ہٹانے کیلئے جلد ہی ایسی خبروں کاسلسلہ شروع ہونے والاہے۔
مودی حکومت کیلئے یہ امربھی بڑی پریشانی کاباعث بن چکا ہے کہ بھارت کی اب بہت سبکی ہورہی ہے اورکشمیری عوام کی بھارتی ظلم وستم کے خلاف شدید نفرت کاپیغام بھی پوری دنیاکو ملناشروع ہوگیاہے،اسی لئے کشمیرکی موجودہ صوتحال اور بھارتی فوج کی بدنامی سے اقوام عالم کی توجہ ہٹانے کیلئے بھارت جہاں سرحدوں پرکشیدگی پیداکرکے جنگی ماحول پیداکرنے کی کوشش کرے گا وہاں پاکستان میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے دہشتگردی کا ماحول پیداکرکے چینی فوج کے ہاتھوں لداخ میں ہونے والی چھترول سے اپنی قوم کی توجہ ہٹانے کی ناکام کوشش بھی کرے گا۔
جبکہ ہمارے حکمرانوں کی بے حسی اورغیرسنجیدگی کاعالم اورماتم یہ ہے کہ ہمارانگران وزیراعظم قوم کویہ پیغام دے رہاہے کہ قائداعظم کااسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کافیصلہ کوئی الہامی تونہیں کہ جس کی تعمیل کی جائے جبکہ لیکن کہنے والاکبھی یہ توسوچ لے کہ قوم کویہ بھی پتہ نہیں کہ ہماراآخری نگران وزیراعظم کون تھاجس کو جھنڈے والی گاڑی، پرائیویٹ جہازاورمحل نماگھرمیں انتہائی آرام دہ ریشمی بسترپرآرام کرنے باوجودایسے بیان دینے کی ہمت نہ ہوئی جبکہ وہ سب نگران تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیئے گئے اورآپ کے ساتھ بھی یہی ہوگالیکن پتانہیں کیوں موجودہ نگرانوں کودیکھ کر رشک کی بجائے رحم آتاہے کیونکہ وہ روزاپنے آپ کواورپھرہمیں یقین دلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ اپنی محنت اورلگن سے اس مقام تک پہنچے ہیں یاکچھ زیادہ عقلمنداُن کے کریئرکےگراف پرنظردوڑاکر مسکراکرخاموش ہوجاتے ہیں کیونکہ وہ اندرکی سب باتیں سمجھتے ہیں کہ اِس منزل تک پہنچنے کا راستہ کیاہے۔
لیکن اس کے باوجودمیڈیاکویہ بیان بھی جاری کیاجاتاہے کہ میں نے اپنی خواب گاہ سے اپنے بلوچ بہن بھائیوں کے خلاف کسی بھی قسم کی طاقت کو استعمال نہ کرنے اوران کوعزت و احترام کے ساتھ ان کے گھروں میں حفاظت کے ساتھ پہنچانے کاحکم دیا تھا۔لیکن بلوچستان سے لایاگیانگران محوِ خواب جب ریشمی رضائی اوڑھے دنیاومافیہاسے بے خبرایسی شاہانہ اور بے فکری کی نیندکے مزے لے رہاتھا،عین اس وقت اسلام آبادکی سڑکوں پر سخت سردی میں ان بلوچ بہن بھائیوں سے پانی والی توپ سے یخ اورگندے بدبودارپانی کی بوچھاڑاوران پر وحشیانہ لاٹھی چارج بھی کیاجارہاتھا۔نگران وزیراعظم کےاس شفیقانہ اورمحبت بھرے حکم کے بعدیہ ساراعمل دہرایاگیااورآخرمیں سڑکوں پرکھڑی بسوں میں بٹھاکرحکم دیاگیاکہ جہاں سے یہ آئے ہیں،وہاں ان کو چھوڑآؤاورخبردار!راستے میں کسی کو اتارنے کی اجازت نہیں۔میں سوچتاہوں کہ یہ پہلا موقع ہے کہ ملک میں نگران وزیراعظم کے ساتھ سینیٹ کاچئیرمین اورملک کی اعلیٰ عدلیہ کاسربراہ بھی اس مظلوم صوبے سے ہے توپھربھی ایساسلوک کیوں؟ان حالات میں جناب سیدعلی گیلانی ہم آپ سے شرمندہ ہیں کہ آپ کوزندگی کے آخری دنوں اور پیرانہ سالی میں کشمیرکے مقدمے میں وکیل کی دھوکہ دہی سے یہ دن دیکھناپڑے کہ پاکستانی جھنڈے میں سجائی میت کوہندودرندوں نے بزورطاقت چھین کرنہ صرف اس پاک جھنڈے کی بے حرمتی کی بلکہ وصیت کے مطابق شہداکے قرستان میں دفن کرنے کی بجائے عجلت میں حیدرآبادکے قبرستان میں دفن کردیااورآپ کے لواحقین کوپکڑکرجیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا ۔
تاہم سرشاری اسے ہی کہتے ہیں۔ہنستے کھیلتے لاشے اٹھانااورپھرآوازِبلندسے رب کی کبریائی بیان کرنا۔ یہی ہے دین اور ہے ہی کیا!اسے کہتے ہیں اپنی نذرپوری کرنا۔اپنے دعوے کی صداقت کومجسم کردینالیکن یہ ہے بہت مشکل،توفیق پرہے یہ۔ جانوں کا نذرانہ پیش کرنااوررب سے التجا کرناکہ قبول کرلیجیے ہماری قربانی……..اور پھر یقین کی منزل پرپہنچ کرپکارنا: کہہ دو بے شک میری نمازاورمیری قربانی اورمیراجینااورمیرامرنا اللہ ہی کیلئےہے جو سارے جہانوں کاپالنے والاہے” (سورة الانعام:162)
رب کیلئےخالص۔باطل ہمیشہ سے گھمنڈی ہوتاہے،دھوکے کاشکار۔میں دیکھ رہا ہوں کہ مسلم حکمرانوں سے میرے رب نے تعزیت کی توفیق بھی سلب کرلی ہے۔ نیامعرکۂ کربلاغزہ اور مقبوضہ کشمیرمیں برپاہے۔آج ملائکہ بھی انسان کی تخلیق پرنازاں ہیں،جب وہ دیکھتے ہیں کہ لاشہ اٹھتاہے توتکبیربلند ہوتی ہے۔ساری دنیادنگ،یہ کیاہیں،کیسے لوگ ہیں؟پتھرسے ٹینک، بندوق کامقابلہ کرنے والے۔ کوئی تخصیص نہیں،نوجوان،معصوم بچے اورعورت مرد، سب کے سب انکارِمجسم،نہیں مانتے۔سنو،غورسے سنو،یہ غزوۂ ہندکی نویدہے جس نے باطل پرلرزہ طاری کردیاہے۔فاسق برہمن طاقت کے بل بوتے پرایک بزرگ، ضعیف العمرمگرمستقل مزاج سید علی گیلانی کے انکارکواقرارمیں تبدیل نہیں کرواسکا،سیدہ آسیہ اندرابی اب بھی اپنے انکارپر ڈٹی ہوئی ہیں کیونکہ یہ سمجھ چکے ہیں کہ یہی انکارعقبیٰ وآخرت اور کشمیری قوم کی نجات کاوسیلہ ہے۔
سننے میں آیاہے کہ کشمیرکے بارے میں مودی اورٹرمپ میں 5/اگست کوہونے والی کاروائی پہلے سے طے پاچکی تھی جسے بعد ازاں ہمارے مقتدرحلقوں کواس سے نہ صرف آگاہ کیاگیا بلکہ ملک کی دوبڑی سیاسی جماعتوں کوبھی اس ڈرامے میں باقاعدہ ایک کرداراداکرنے کیلئے آمادہ کیاگیا۔ ٹرمپ کی پاک بھارت مصالحت کی آفراچانک سامنے نہیں آئی بلکہ عمران کے امریکی دورے کے فوری بعدمودی نے آرٹیکل370کوختم کرکے کشمیرکوضم کرنے کا اعلان کیا۔ہمارے ہاں وزیراعظم کے متضادبیانات خوداس بات کی چغلی کھاتے رہے کہ اس مرتبہ دال میں کچھ کالانہیں بلکہ ساری دال ہی کالی ہوگئی ہے۔ہرجمعہ کی دوپہرایک گھنٹے کے احتجاج کی کال اورخودکوکشمیرکاسب سے بڑاوکیل قراردیکرپاکستانی قوم کوکشمیرمیں جہادکوکشمیریوں سے دشمنی قرار دے دیا گیا۔قوم کی کشمیرسے توجہ ہٹانے کیلئے ملائشیاکے مہاتیرمحمدکادورہ پاکستان اوربعدازاں خودملائشیااورعرب ریاستوں کے دوروں کوگویامسئلہ کشمیر سے منسوب کرکے پاکستانی اورکشمیری قوم کو جھوٹے دلاسے دیئے گئےاوراب مودی نے اپنے انتخابات سے قبل سپریم کورٹ کواپنے ساتھ ملاتے ہوئے ان سے بھی اپنے فیصلے پرمہرلگوالی۔
پاکستان کے ایماء پرملائشیا،ایران اورترکی کے ساتھ مل کرملائشیامیں کشمیرکیلئے مشترکہ کانفرنس کے انعقادکااعلان کیاگیالیکن عین وقت پرسعودی عرب کادورہ کرکے سعودی ولی عہدکی طرف سے کانفرنس پرتحفظات کے نام پرکانفرنس میں شرکت سے معذوری کااظہارکردیاجس کی بناء پرانتہائی مخلص دوست ترکی کے اربکان نے شدیدصدمے کااظہارکرتے ہوئے عمران کے اس رویہ کوانتہائی غیرسنجیدہ قراردے دیااورآج تک ترکی سے ہماری دوستی میں وہ گرمجوشی کاسلسلہ رک گیاہے اوروہ ملائشیاجس نے پاکستان سے کشمیرکے معاملے پردوستی نبھاتے ہوئے انڈیاسے پندرہ ارب ڈالر کے پام آئل کی تجارت کوخطرہ میں ڈال دیا،وہ بھی ہمارے اس منافقانہ کردارسے دورہوگیا۔
یادرہے کہ مودی نے پاکستان کے انتہائی کمزوراوربزدل رویَہ کی بنیادپرہی اپنے آقاؤں کی شہہ پرسی پیک پراجیکٹ کوناکام بنانے کیلئے ایک اورنئی چال چلتے ہوئے گلگت وبلتستان کے علاقوں پربھی اپناحق جتاناشروع کردیاہےجس کیلئے اس نے آزادکشمیر کے علاوہ گلگت و بلتستان کے موسم کاحال اپنے قومی خبرنامے میں شامل کرکے یہ تاثردیناشروع کردیاکہ نہ صرف مستقبل میں ان علاقوں پراس کادعویٰ غیرقانونی نہیں بلکہ مقبوضہ کشمیراب انڈیاکااٹوٹ انگ بن چکاہے۔
یادرہے کہ 5/اگست کوآرٹیکل 370کومنسوخ کرنے کےبعداس نے لداخ کی اکائی کوبھی بھارتی اٹوٹ انگ قراردینے کااعلان بھی اسی سازش کاحصہ تھا کہ یہاں سے گلگت وبلتستان پرحملہ کرکے سی پیک منصوبے کوسبوتاژکیاجائے لیکن چین اس قدربے خبر نہیں کہ وہ انڈیاکوایسی جارحیت کی اجازت دیتے ہوئے اپنی بھاری سرمایہ کاری کوغرق ہونے کے ساتھ اس منصوبے سے منسلک “ون روڈون بیلٹ” کے مستقبل کوتاریک کرنے کی اجازت دیتا اور یہی وجہ ہے کہ اس کے بعدڈوکلام اورلداخ پرہونے والی جھڑپوں نے بھارت کوایساسبق سکھایا ہے کہ اس کامہابھارت بننے کاخواب کچل کررکھ دیا ہے۔
اس وقت پاکستان کودہشتگردملک قراردینے کی سازش کے پیچھے ٹرائیکاکی یہی سازش کارفرماہے کہ کسی طریقے سے پاکستان بھارت کو”موسٹ فیورٹ ملک”کادرجہ دینے کیلئے تیارہوجائے لیکن کیاموجودہ امریکی سرکاری دورہ میں اچانک امریکی دوستی کی وجوہات میں پنہاں کیاوجوہات ہیں،اس کوبھی قوم کے سامنے رکھنے کی اشدضرورت ہے۔
یارکھیں!انکارجتنی شدت اختیارکرتاچلاجائے انقلاب اسی شدت سے نمودارہوتاہے،فرعونی اورنمرودی طاقتوں کے سامنے سینہ سپرہونے کاحوصلہ عنائت کرتاہے،خودداری کے نشے میں مبتلاکرتاہے۔ہمارامسئلہ نتائج نہیں کارزارِخیروشر میں اپناکام سرانجام دیناہے، ۔ایسے ویسے چونکہ چنانچہ لیکن ویکن کچھ نہیں،یکسرانکار۔رب پرکامل یقین کے ساتھ باطل کاانکار… طاغوت کاانکار، جب خون رنگ لاتاہے،تب انقلاب آتاہے۔کب رکاتھامعرکہ حق وباطل؟نہیں رکے گایہ معرکۂ خیروشر،بس غالب وہی رہیں گے جو اپنے رب کے ساتھ جڑے رہیں گے۔ پورے یقین کے ساتھ پوری سرشاری کے ساتھ۔ انکارروحِ دین ہے،روحِ بدر،احداورکربلا کا درس ہے اورکچھ نہیں۔ طاغوت کی ہرشکل کاانکار……..یکسرانکار،کوئی مصالحت نہیں، بالکل بھی نہیں۔ قربانی ہی قربانی، سرشاری ہی سرشاری۔