Darkness Returns As A Punishment For Arrogance

اندھیرے لوٹ آتے ہیں تکبرکی سزابن کر

:Share

اب تویوں محسوس ہورہاہے کہ امریکااوراس کے اتحادی یورپی یونین،پیوٹن کویوکرین میں پھنسانے میں کامیاب ہوگئے ہیں جیسے سوویت یونین افغانستان کو تر نوالہ سمجھ کرداخل ہوگیا تھالیکن دس سال کی جنگ کے بعد78سال تک نصف کرہ ارض پرکیمونزم کا چرچاکرنے والاخوداپنے بوجھ سے ٹوٹ کرروس بن گیا۔اب ایسی ہی فاش غلطی کا ارتکاب پیوٹن سے بھی سرزد ہو گیاہ ے۔جیسے جیسے پیوٹن کے یوکرین پر حملے میں پیش رفت ہو رہی ہے ویسے ویسے یہ واضح ہوتا جا رہاہ ے کہ تقریباکچھ بھی منصوبے کے مطابق نہیں ہواہے۔روسی افواج کاخیال تھاکہ ان کااستقبال ایک نادہندہ کے طور پر کیا جائے گا جیسا امریکا نے افغانستان اور عراق پریلغارکرتے ہوئے سوچا تھا لیکن اس کے برعکس ان دونوں طاقتوں کو نفرت اور دشمن جیسے سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔

یہاں کی عوام نے فوری طورپر سرتسلیم خم کرنے کی بجائے ثابت کیاکہ وہ اپنی جانوں کی پرواہ کئے بغیراس جارحیت کامقابلہ کریں گے اورآج بھی ان کے پختہ عزائم کی دنیاگواہ ہے۔ پیوٹن نے24رفروری2022 کویوکرین پرحملہ کیاتھایعنی تین ماہ سے زائدعرصہ گزرگیاہے،پیوٹن کواندازہ نہیں تھا کہ یہ جنگ اتنی طویل ہو جائے گی۔اس طرح کی اطلاعات موصول ہورہی ہیں کہ روسی فوج اسلحے اورخوراک کی ترسیل کے مسائل کاشکارہونے کی وجہ سے سخت مشکلات کاشکارہیں اوردن بدن ان کے حوصلے پست ہورہے ہیں۔امریکی خفیہ ایجنسی کے حکام کا کہناہے کہ ایک اندازے کے مطابق جنگ کے پہلے 20دنوں میں7 ہزار فوجی مارے گئے اورگزشتہ ماہ روسی فوج اپنے پانچ جرنیلوں سے بھی ہاتھ دھوبیٹھی ہے۔یہ تمام اشارے اس بات کی گواہی ے رہے ہیں کہ روس کے پاس فتح کی کوئی واضح منصوبہ بندی نہیں ہے اوریہ جنگ نہ صرف کریملن بلکہ پیوٹن کیلئے بھی خطرناک ثابت ہورہی ہے۔

وہ لوگ جنہیں سوویت یونین کی تاریخ یادہو،انہیں اندازہ ہوگاکہ آج کے اورماضی کے واقعات میں کافی مشابہت پائی جاتی ہے۔یوکرین کی طرح افغانستان پر بھی حملہ اسی سوچ کے تحت کیاگیاتھاکہ یہ خطہ ہمارے اثرورسوخ سے نکل رہاہے۔اس وقت کی قیادت نے بھی پیوٹن کی طرح یہ سوچاتھاکہ ہمای فوج کوکسی خاص مزاحمت کاسامنانہیں کرناپڑے گااور ہم تیزی سے افغانستان پرقبضہ کرلیں گے، امریکاویورپ بھی اپنی دیگرمصروفیات کی بناپراس طرف توجہ نہیں دے پائیں گے اورروسی حکمران اپنی مرضی کی حکومت تشکیل دیکرگرم پانیوں تک کی رسائی کیلئے اگلے اقدامات کی تکمیل کی طرف توجہ دیں گے۔

اس ساری منصوبہ بندی میں سے کچھ بھی ان کی خواہشات کے مطابق نہ ہوسکا۔جس طرح امریکانے افغانستان پرنائن الیون کی آڑمیں جارحیت کاارتکاب کیا تھا کہ روس کے ٹکڑے ہونے کے بعداب اس کیلئے اس خطے میں سیاہ وسفیدکامالک بن کران ممالک کے توانائی کے تمام خزائن کواپنے تصرف میں لاکر مستقل طورپراپنے اڈے قائم کرکے ان تمام ممالک کو اپنی کالونیز بنا لے گا اور خطے میں کسی کو بھی اس کی فرعونیت کے سامنے سر اٹھانے کی ہمت نہ ہو گی لیکن اس کی بجائے دونوں عالمی طاقتوں کیلئے افغانستان تباہ کن ایڈونچر میں تبدیل ہو گیا۔افغان مجاہدین کو جہاں پاکستانی افواج نے دل و جان سے معاونت فراہم کی وہاں30 لاکھ سے زائدافغان بھائیوں کیلئے دل وجاں فرشِ راہ کردیئے جس کی وجہ سے افغان مجاہدین نے اپنے آپ کومؤثرترین گوریلافوج کے طورپرمنظم کرکے دونوں ایٹمی طاقتوں کوخاک چاٹنے پرمجبورکردیا۔

افغانستان میں روسی جارحیت کے بعدامریکاکئی ماہ تک تذبذب میں مبتلارہالیکن جب اس نے دیکھاکہ افغان مجاہدین نے توڑے دار بندوقوں سے روسی افواج کی پیش قدمی کو بڑی کامیابی اوربہادری کے ساتھ روک دیاہے تواس کے بعدامریکی صدرجمی کارٹرنے پاکستان کوایک معمولی امدادکی پیشکش کی جس کوجنرل ضیا الحق نے مونگ پھلی کہہ کرمستردکر دیا جس کے چندہفتوں بعدجمی کارٹرنے پاکستان کے ساتھ اتحادتشکیل دیاجس میں پاکستان کی کوششوں سے چین، سعودی عرب اوران کے اتحادی عرب ریاستیں، مصرنے افغان مزاحمت کی حمائت کیلئے شمولیت اختیارکی۔سوویت یونین ایسی صورتحال کیلئے قطعاًتیارنہیں تھا۔نتیجتاًروسی فوج افغانستان میں بری طرح پھنس گئی اورملکی معیشت کابیڑہ غرق ہوگیا اور سوویت یونین کے طویل المدتی پلان بری طرح بکھرکررہ گئے اوراس کے نتائج سوویت یونین کے ٹوٹنے کی شکل میں سامنے آئے اوراسی کے نتیجے میں چھ ریاستوں کے ساتھ یوکرین بھی آزاد ملک بن کردنیاکے نقشے پرنمودارہوا۔

امریکانے بھی اپنی طاقت کے نشے میں اس خطے میں اپنی اجارہ داری قائم کرنے کیلئے یہی فاش غلطی کی اورکھربوں ڈالرکے خسارے اورشدیدہزیمت کے بعدپاکستان کے توسط سے اس کمبل سے جان چھڑائی۔بلاشبہ2022میں روس1979کاسوویت یونین نہیں ہے لیکن پیوٹن کے یوکرین ایڈونچراورافغان جنگ کے درمیان جوحیرت انگیزمماثلتیں ابھر کرسامنے آچکی ہیں،اس کے پیشِ نظراس سے پہلے کے تنازع کی وضاحتی خصوصیات اوراس کے دوررس اثرات کا جائزہ لیناضروری ہے۔اگریوکرین پرحملہ اسی طرح جاری رہتا ہے تویہ روس کیلئے21ویں صدی کاسب سے گہرااورمہلک زخم ثابت ہوگااورماضی کی طرح پیوٹن حکومت خودپیوٹن کی بقا کیلئے خطرہ بن سکتاہے۔

پیوٹن نے جس طرح یوکرین پرحملے سے قبل دہمکی آمیزبیانات دیئے اس کے برعکس سوویت یونین نے جب افغانستان پرحملہ کیاتھا تواسے مکمل طورپرخفیہ رکھنے کی پوری کوشش کی تھی ۔1979کے اواخرمیں کے جی بی کے خفیہ تجزیوں نے غلط نتیجہ اخذکیا تھاکہ افغانستان مغرب کے مدارمیں پھسل رہاہے اوراس ملک میں امریکی فوجی اڈہ امریکاکواس بات کی اجازت دینے کے مترادف ہو گاکہ وہ سوویت یونین کوایٹمی میزائلوں سے مکمل گھیرے میں لے لے۔سوویت رہنماں کویہ خدشہ بھی تھاکہ اگرافغانستان کوواشنگٹن کے اثرورسوخ کے دائرے میں کھینچ لیاگیاتویہ وارسامعاہدے کی اقوام میںاپنے اثرورسوخ کواستعمال کرے گا۔”برزنیف نظریے”کے مطابق،جس نے اعلان کیاتھاکہ سوویت بلاک کے کسی بھی ملک میں سوشلسٹ حکمرانی کوخطرہ تمام سوشلسٹ ریاستوں کیلئے خطرے کے برابر ہے۔ان خدشات نے فوجی مداخلت کاجوازپیش کیا۔اس طرح12دسمبر1979کو سوویت وزیردفاع دیمتری اوتینوف، کے جی بی کے سربراہ اورسوویت وزیرخارجہ آندرے گرومیکو نے مختصراورہدفی مداخلت کوذہن میں رکھتے ہوئے سوویت فوج کاایک ”محدو د دستہ” افغانستان روانہ کرنے کی تجویزکامسودہ تیارکیااوراس کے چنددن بعدافغانستان پرحملے کاآغازکردیاگیا۔

ابتدائی مرحلے میں افغان حملہ پیوٹن کے یوکرین حملے کے مقابلے میں کہیں زیادہ کامیاب رہاتھا۔کرسمس کی شام سوویت فوج کے ہوائی دستے اورخصوصی فوج کے دستے پیراشوٹ کی مددسے کابل اترے اوربہت تیزی سے انہوں نے کابل کے تقریباًتمام تزویراتی مقامات پرقبضہ کرلیااوروہاں کے حکمران حفیظ اللہ امین اوران کی کابینہ کے اہم لوگوں کوقتل کردیا اور اس کی جگہ اپنے خصوصی ایجنٹ نوازببرک کارمل کوحکمران نامزدکردیاگیاجوکہ روسی ٹینکوں پربیٹھ کرکابل میں داخل ہواتھا۔اس طرح سوویت فوج نے بہت تیزی سے افغانستان کے بڑے شہروں جلال آباد،قندھار،مزارشریف اوردیگرشہروں پرقبضہ کرلیا۔بگرام کاہوائی اڈہ سوویت یونین کے فوجی ہوائی اڈے میں تبدیل ہوگیا اوراگلے چندہفتوں میں افغانستان مکمل طورپرسوویت یونین کے زیرقبضہ آچکاتھا۔

کس قدرعجیب اتفاق ہے کہ نائن الیون کے بعد امریکی فورسز نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ سوویت یونین کے طریقہ کار پرعمل کیا۔پہلے فضائی حملوں سے افغانستان کوتورابورابنا دیا ،اس قدرخوفناک بمباری کی کہ دوہفتوں میں امریکی ریکارڈکے مطابق 57ہزارفضائی حملے کئے گئے جبکہ افغانستان کے پاس جواب دینے کیلئے کوئی ائیرفورس نہیں تھی اورنہ ہی زمینی طورپرکوئی ایسی توپیں تھیں جواس ناگہانی اورخوفناک حملوں کاجواب دیتی۔بعدازاں انہی شہروں پرجہاں بمباری کرکے انہیں تہس نہس کردیاتھا،آبادی کاانخلاء ہوچکاتھا،ان خالی شہروںپراپنی زمینی افواج کے ذریعے دھاوابول کراپناقبضہ مستحکم کرناشروع کردیا جس کے بعد ایسے ہی مکافات عمل کاظہورہوناضروری تھاجوسوویت یونین کے ساتھ ہوا۔تاہم پیوٹن کی طرح سوویت یونین نے بھی مغربی طرزعمل کاغلط اندازہ لگایاتھا۔جب افغانستان پرحملہ ہواتوکے جی بی کاتجزیہ تھاکہ ”اس بات کابہت کم امکان ہے کہ امریکااس حملے کوچیلنج کرے گا”۔اس حملے سے چندبرس قبل امریکاویت نام سے شکست کھاکرلوٹاتھا،اس لئے کے جی بی کاقوی خیال تھاکہ ایسے حاالات میں کمزورصدرجواس وقت ایران میں پھنسے امریکی سفارت کاروں کونکالنے کے بحران کاسامناکررہاتھا۔اس لئے وہ کسی صورت افغانستان کے معاملے میں ٹانگ نہیں اڑائے گا۔

لیکن یہاں جنرل ضیاالحق کی بصیرت کوداددیئے بغیرآگے نہیں بڑھ سکتے کہ انہوں نے ابتدائی مشکل حالات میں بڑی دلیری کے ساتھ افغان مجاہدین کو سوویت یونین کی فوج کے سامنے سیسہ پلائی دیواربناکرکھڑاکردیا،ان مجاہدین کی ثابت قدمی کے بعدجمی کارٹراورمغرب نے اس خوف سے کہیں ہمارے ردِ عمل میں کسی قسم کی کمی روسی حملے کوتقویت دے، روس کوگندم کی فروخت منسوخ کردی اورقونصلرمعاہدوں کوبھی منسوخ کردیا اورآئندہ برس1980 میں ہونے والے اولمپکس کے بائیکاٹ کااعلان کردیا۔جس کے فوری بعدافغان مجاہدین سے یکجہتی کا اظہارکرتے ہوئے براہ راست رابطہ کرنے کی خواہش کا اظہار کیا جس کے جواب میں پاکستان نے انتہائی دانشمندانہ فیصلہ کرتے ہوئے یہ سہولت دینے سے انکار کر دیا اور افغان مجاہدین بھی اس فیصلے میں شامل تھے اور انہوں نے امریکاسے براہِ راست رابطے سے صاف انکار کر دیا۔

اس فیصلے کے بعدامریکی صدرنے سی آئی اے کوخفیہ طورپرافغان مزاحمتی تحریک کومہلک مواد سمیت آلات کی فراہمی شروع کرنے کاحکم دیا۔چندہفتوں کے اندرسی آئی اے نے ہزاروں اینفیلڈ303رائفلیں مجاہدین میں تقسیم کرنے کیلئے پاکستان کے حوالے کردیں۔اگلی کھیپ میں راکٹ،مارٹراوردیگراسلحہ فراہم کردیااوران تمام اسلحے کی تربیت پاکستان نے فراہم کیں۔افغان مزاحمت کیلئے کل امریکی فنڈنگ پہلے سال تقریبا100ملین ڈالرسے بڑھ کرچوتھے سال میں500 ملین ڈالرتک پہنچ گئی۔جنگ کے آخری دوسالوں میں یہ فنڈنگ ایک ارب ڈالرسے زائدرہی۔یقیناایک عالمی ایٹمی قوت سے لڑنے کیلئے یہ رقم انتہائی ناکافی تھی لیکن مجاہدین کے جذبے اورپاکستان کے تعاون نے مل کریہ جنگ لڑی جبکہ تیس لاکھ افغان مہاجرین کابوجھ براشت کرنے کے علاوہ پہلی مرتبہ پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں بموں کے دہماکوں میں جہاں ہزاروں بے گناہ پاکستانی اس کاشکار ہوئے وہاں اربوں روپے کانقصان بھی برداشت کرناپڑا لیکن پاکستان کے جذبہ اخوت میں کوئی کمی نہیں آئی۔پاکستانی قوم نے یہ فیصلہ کرلیاتھاکہ وہ اس مصیبت اورآزمائش کی گھڑی میں اپنے افغان بھایوں کے شانہ بشانہ جہاد میں حصہ لیں گے۔تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ہزاروں پاکستانی نوجوانوں نے جہادافغانستان میں نہ صرف مالی طورپرحصہ لیابلکہ افغان مجاہدین کے شانہ بشانہ ہزاروں نوجوانوں نے اپنی جان کانذرانہ بھی دیااوراسی جذبے کودیکھتے ہوئے کئی اسلامی ملکوں کے نوجوانوں نے بھی اس جہادمیں حصہ لیا۔

دوسری طرف نائن الیون کے بعدافغانستان پرامریکی جارحیت میں بھی پاکستان کوجہاں 78ہزارجانوں کی قربانیاں دینی پڑیں وہاں 100 بلین ڈالرسے کہیں زیادہ نقصان بھی اٹھاناپڑاجس کے بعدابھی تک پاکستان کی معیشت سنبھل نہیں سکی اورامریکانے اس کے جواب میں پاکستان کوسزادینے کیلئے اس کے ازلی دشمن بھارت کواپنی نگرانی میں افغانستان میں اڈے فراہم کئے جہاں سے بھارت نے مسلسل پاکستان کوغیرمستحکم کرنے کیلئے دہشتگردی کے تربیتی کیمپ قائم کئے اورعلاوہ ازیں بھارت کواس علاقے کاتھانیداربنانے کیلئے نہ صرف سول ایٹمی معاہدے کرکے اس پرنوازشات کی بارش کردی بلکہ پاکستان کوغیرمستحکم کرنے کیلئے بلوچستان میں شورش پیداکرنے میں کوئی کسرنہیں چھوڑی جس کے جواب میں پاکستان کی افواج نے بڑی شجاعت سے اپنی جانوں کی قربانیوں سے ضربِ عضب اوررد الفسادکے ذریعے پاکستان کوان دہشتگردوں سے محفوظ کیاجس کوعالمی برادری بھی ناقابل یقین کارنامے سے تشبیہ دیتی ہے۔

سوویت یونین کاافغانستان کی مزاحمتی طاقت اورمغربی حمائت کاغلط اندازہ اس کیلئے تباہ کن ثابت ہوا۔سوویت راہنماں نے یہ تصور بھی نہیں کیاتھاکہ ایک آسان اورتیزترین فوجی مداخلت دہائیوں تک جاری رہنے والی خوں ریز جدوجہدمیں تبدیل ہوجائے گی۔اس تنازع کی انسانی تباہی کی گونج پورے خطے میں سنائی دی۔ تقریبادس لاکھ افغانوں نے جام شہادت نوش کیا،15لاکھ سے زائدافرادزخمی ہوئے جن میں نصف تعدادزندگی بھرکیلئے معذورہو گئے، تیس لاکھ افرادبے گھر ہو کر پاکستان اورایران میں پناہ لی اورنامعلوم تعداد داخلی طورپربے گھرہوگئی۔یہ سب کچھ2کروڑسے کم آبادی والے ملک کے ساتھ ظلم ہوا۔ سوویت یونین نے بالآخر یہ تسلیم کیاکہ اس تنازع میں اس کے 15ہزار فوجی مارے گئے حالانکہ یہ تعداد52ہزارکے لگ بھگ تھی۔

1985میں میخائل گورباچووف کے اقتدار کے آنے تک،سوویت یونین کے وہ رہنماجنہوں نے سرخ فوج کوافغانستان میں اتاراتھا، منظرسے ہٹ چکے تھے لیکن سوویت فوج جنگ میں خون،خزانہ اور اپنی بین الاقوامی ساکھ داغ دار کر رہی تھی۔بالآخر مارچ میں افغان مزاحمت تیز تر ہو گئی۔گورباچوف نے اپنے کمانڈروں کو حالات کا رخ موڑنے کیلئے ایک سال کا وقت دیا لیکن وہ ایسا نہ کر سکے ۔ بالآخر 15 فروری1989 کو سوویت فوج نے افغانستان کے کمبل سے جان چھڑا کر واپسی میں اپنی عافیت جانی۔تاہم کھربوں ڈالر کے جنگی نقصان نے سوویت یونین کی معیشت کا اس قدر کھوکھلا کر دیا کہ وہ نہ صرف سکڑ کر سوویت یونین سے روس بننے پرمجبور ہو گیا بلکہ عالمی قوت کا اعزاز بھی چھن گیا۔

جہاد افغانستاان کے دوران ہراعلیٰ سطحی حکومتی امریکی وفد پاکستان اور افغان مجاہدین کو اس بات کا یقین دلاتے رہے کہ امریکا اوراس کے تمام اتحادی سوویت افواج کے انخلاء کے بعد جنگ سے تباہ شدہ افغانستان اور پاکستان کی اکانومی اور زمینی اسٹرکچر کی بحالی کیلئے پورا ساتھ دے گی۔دوران جہاد جہاں پاکستانی کردارکی کھل کرتعریف کی گئی،پاکستان کے بغیراس جنگ کوجیتنے اوردنیاکی ایک سپرپاورکے دانت کھٹے کرناناممکن قراردیاگیا،افغان مجاہدین کواقوام متحدہ کے اجلاس میں اپنا مؤقف پیش کرنے کے مواقع فراہم کئے گئے ،وائٹ ہاؤس میں خصوصی ریڈکارپٹ استقبال کیا گیالیکن جونہی امریکاکے مقابلے میں سوویت یونین ٹوٹ کر بکھر گیا اور امریکا کو دنیا کی واحد سپر پاور بننے کا موقع مل گیا تو قصرسفید کے فرعون اور دیگرتمام اتحادیوں نے فوری اس خطے سے نہ صرف راہِ فرار اختیار کر لی بلکہ چشم پوشی کی انتہا تو یہ ہوئی کہ یہودی نژاد ہنری کسینجر نے ”ورلڈآرڈر” کا نظریہ پیش کرتے ہوئے ساری دنیا کو امریکا کے زیرنگیں کرنے کا پلان تخلیق کرکے دنیا میں تہلکہ مچا دیا اور اس پر عملدرآمد کیلئے” تہذیبوں کے تصادم” کی تھیوری پیش کرکے براہِ راست اسلام اور مسلمانوں کو چیلنج کر دیا۔انہوں نے ”ورلڈآرڈر”میں یہ واضح کیاکہ کیمونزم کے کامیاب اختتام کے بعد”اسلام”ہمارے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔دراصل امریکااور مغرب نے جہاد افغانستان کے اثرات اورنتائج کے بعدیہ فیصلہ کرلیا تھاکہ مسلمانوں کے اندر جذبہ جہاد ہی ایک ایسی قوت ہے جس نے سوویت یونین جیسی ایٹمی سپرپاور کو خاک چاٹنے پرمجبورکردیااور افغان جہادمیں ہزاروں مسلمان نوجوانوں نے جہادکی آوازپرلبیک کہتے ہوئے اپنی جانیں قربان کردینے میں فخرمحسوس کیا۔یہ جذبہ ورلڈ آرڈرکے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہوگا،نائن الیون کے بعدانہوں نے دیکھ لیاکہ بالآخرجہادہی کے جذبہ ایمانی نے انہیں بھی بیس سال بعد ناکام و نامراد کرکے رسوا کرکے نکالا۔

افغانستان سے انخلاسوویت یونین کے زوال کاآغازثابت ہوا،اس جنگ کے بعدایسے واقعات پیش آئے کہ دنیاکانقشہ ہی بدل گیا۔سوویت بلاک اوروارسا معاہدے کے اندر موجودممالک نے سوویت یونین کوافغانستان سے نکلتے دیکھاتویہ نتیجہ اخذکیاکہ سوویت وزیراعظم میخائل گورباچوف کے پاس کسی بھی نئی فوجی مہم کی ہمت اورگنجائش نہیں ہے اور انہیں شکست خوردہ روس نظرآنے لگا۔اسی طرح مئی1989میں ہنگری کی حکومت،جوکہ شائدسوویت شراکت داروں میں سب سے زیادہ قریبی تھی،اس نے اپنی سرحدپرلگی خار دارباڑہٹادی جس سے مشرقی جرمنی کے سیکڑوں افرادمغربی جرمنی کی طرف فرارہوگئے۔ اس کے اگلے ہی ماہ پولینڈکے لوگوں نے چھ دہائیوں میں پہلی مرتبہ آزادی کے ساتھ ووٹ ڈالا جس کے نتیجے میں حکومت مخالف نوبل امن یافتہ”لیچ ویلسیا” وزیراعظم بن گئیں اورچاردہائیوں پرمشتمل کیمونزم اختتام کوپہنچ گیا۔اسی سال موسم گرمامیں مشرقی جرمنی میں حکومت مخالف مظاہرے اپنے عروج کوپہنچے اورلوگوں نے دیواربرلن کوبھی عبورکرلیا۔ایک سال کے کم عرصے کے بعد،چیکوسلواکیہ اوررومانیہ نے نے بھی ماسکوکے ساتھ تعلقات سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔مشرقی اورمغربی جرمنی دوبارہ سے ایک ہوگئے اورنیٹوکے رکن بن گئے۔

1991 میں یوکرین نے آزادی کااعلان کردیا۔1991 کے باکسنگ ڈے پرروسی فوجیوں کے ایک چھوٹے سے گروہ نے کریملن کی دیوارپرمارچ کیا،سرخ اور سونے کے ہتھوڑے اوردرانتی کوآخری باررونددیا اورروسی سفید،نیلے اورسرخ پرچم کوہوامیں بلندکر دیا۔یہ وہ تکلیف دو واقعات تھے جوکم ازکم افغان تباہی کے نتائج کے طورپرسامنے آئے اور پیوٹن نے ان واقعات کومشرقی جرمنی میں تعینات کے جی بی کے ایک نوجوان افسرکے طورپرقریب سے دیکھا۔یہی وجہ ہے کہ وہ ”سوویت یونین کے خاتمے کو 20ویں صدی کا سب سے بڑا المیہ ”قرار دیتے ہیں۔لیکن ایسا لگتاہے کہ انہوں نے واقعات سے غلط سبق سیکھا ہے ۔ صدر پیوٹن نے کھوئی ہوئی روسی سلطنت کودوبارہ حاصل کرنے اوریوکرین کو امریکاکے اثرو رسوخ سے نکالنے کیلئے یوکرین پر افغانستان طرز کا حملہ کردیا۔ محسوس ایسا ہو رہا ہے کہ وہ تاریخ کو پلٹنے چلے تھے لیکن ان کی خواہش کی تکمیل شائد پوری ہو۔

یوکرین پرپیوٹن کاحملہ افغانستان پرسوویت حملے سے بھی زیادہ خوفناک لگتاہے۔روس کے سلامتی کونسل کے ٹیلی ویژن پردیکھے جانے اجلاسوں سے پتہ چلتا ہے کہ پیوٹن کے قریبی مشیروں کوبھی حملے کے منصوبوں کے بارے میں مکمل طورپرآگاہ نہیں کیاگیا تھااوراس حملے کوتواس قدرخفیہ رکھاگیاکہ جس دن سابق وزیراعظم عمران خان روس کے دورے پرپہنچے،اسی دن پیوٹن کے حکم پریوکرین پرحملہ کردیاگیاجوکہ یقیناایک انتہائی غیرمعمولی عمل تھاکہ کسی دوسرے ملک کے وزیراعظم کوسرکاری دورے پربلا کرحملے کاخوفناک اعلان کر دیا جائے۔ایسالگ رہاہے کہ خودپیوٹن کے قریبی ساتھیوں کوبھی اس حملے پر تحفظات تھے۔پیوٹن اس غلط فہمی میں مبتلاتھے کہ وہ کریمیاکی طرح اگلے چنددنوں میں یوکرین پرمکمل قبضہ کرلیں گے لیکن معاملہ اس کے برعکس رہااور سوویت یونین کاحملہ شروع سے بری طرح ناکام ہوگیاجیساکہ آغازمیں بڑے شہروں پرقبضہ کرنے یاان پرقابوپانے میں ناکامی اور ابتدائی چندہفتوں میں ہلاکتوں کی تعدادمیں خاصااضافہ ہواہے۔اتنی ہلاکتیں توافغان جنگ میں کافی عرصہ گزرجانے کے بعدبھی نہیں ہوئی تھیں۔

مزیدبرآں پیوٹن کویوکرین میں سوویت یونین افواج کے مقابلے میں کہیں زیادہ مزاحمت کاسامناکرناپڑاہے جس کی وجہ سے وہ مزید پرتشددحربوں کاسہارا لے رہے ہیں۔پہلے ہی اسپتالوں،رہائشی عمارتوں اورایک پرہجوم تھیٹرپرروسی حملوں نے بائیڈن کوپیوٹن کو جنگی مجرم قراردینے کاجوازمہیاکردیاجس کے جواب میں انہون نے سخت الفاط میں اعلان کیاہے کہ وہ امریکاکے ساتھ تمام سفارتی تعلقات منقطع کرسکتے ہیں۔اگرپیوٹن نے گروزنی جنگ کی طرح کاطرزِ عمل اختیارکیاتووہ مزید بمباری اوردیگرہتھکنڈے استعمال کرے گا،جس کے نتیجے میں افغانستان کی طرح کی صورتحال پیداہوگی جہاں روسی بمباری کے نتیجے میں ایک تہائی ہلاک،زخمی اور لاکھوں افرادبے گھرہوگئے جن میں بیشتراب تک پاکستان اور ایران میں مقیم ہیں اوران کی تیسری نسل نے بھی مہاجرکیمپوں میں آنکھ کھولی ہے۔

اس موڑپراگربات چیت سے معاملہ حل نہیں ہوتاتومحسوس یہ ہوتاہے کہ پیوٹن کیف پرشدیدلڑائی کے بعدقبضہ کرنے کاخواہاں ہیں۔ اگرایساہوبھی جاتاہے اور روسی صدرکیف پرقبضہ کرکے ماسکو نواز حکومت قائم کر دیتے ہیں تو یہ بھی مسئلے کا حل نہیں بلکہ یہ مسائل کا آغاز ہو گا۔افغانستاان کی طرح یوکرین میں بھی امریکا اور یورپی مدد سے وہاں ایک نئی گوریلا جنگ کا آغاز ہو جائے گا جو روس کو نہ تو کبھی مستحکم ہونے دے گا اور نہ ہی اس کو چین سے بیٹھنے دے گا بلکہ مسلسل اورمستقل ایک ایسی سردردشروع ہوجائے گی جوکسی بڑی تباہی کاپیش خیمہ بن سکتی ہے اورعین ممکن ہے کہ پیوٹن اس مستقل سردردکے مداواکیلئے کسی ایٹمی ہتھیار کو آزمانے کا فیصلہ کر لیں کیونکہ پیوٹن یہ بارہا کہہ چکے ہیں کہ جس دنیامیں روس نہیں،اس دنیا کے باقی رہنے کا کیا جواز ہے۔

صرف یوکرین کارقبہ کسی بھی قسم کے روسی قبضے کیلئے سنگین مسائل کاسبب بنے گا۔ٹیکساس جتنے علاقے پرمحیط اس ملک کی آبادی4کروڑسے زیادہ ہے۔ 1979 کاافغانستان جوکہ ایک بالکل الگ تھلگ،خشکی سے گھراہوااورپہاڑی علاقہ تھا،جہاں سامان اور ہتھیاروں کی ترسیل کیلئے خچروں،گدھوں اورگھوڑوں کی ضرورت پڑتی تھی،افغانستان کے مقابلے میں یوکرین معقل حدتک جدید ملک ہے جہاں سڑکیں اورنقل وحمل کااچھانیٹ ورک ہے۔اس کی 850میل لمبی زمینی اورسمندری سرحدیں پولینڈ،ہنگری،سلوواکیہ اوررومانیہ سے ملتی ہیں اوریہ تمام نیٹوممالک ہیں۔اگرچہ اس میں ناہموار،پہاڑی علاقے کی کمی ہے جس نے افغان مجاہدین کوبھاری ہتھیاروں سے لیس سوویت فوج کامؤثرطریقے سے مقابلہ کرنے میں مددکی۔یوکرین کاوسیع جغرافیہ مضبوط مواصلاتی نیٹ ورک اورمغربی طاقتوں سے قربت اس کے باغیوں کوبھی بڑافائدہ دے گی۔

1980 کی دہائی میں افغان مزاحمت کی طرح،پاکستان میں اپنی محفوظ پناہ گاہوں اورتربیت کے ساتھ،یوکرین کی شورش بھی پڑوسی ممالک کے علاقوں سے فائدہ اٹھاسکتی ہے۔ پہلے ہی ان سرحدوں سے متصل نیٹوممالک میں داخل ہونے والے لاکھوں یوکرینی پناہ گزینوں سے ہمدردی اورحمائت کی جارہی ہے۔آنے والے دنوں اورہفتوں میں جیسے جیسے جنگ پوری شدت سے ملک کے تمام علاقوں کواپنی لپیٹ میں لینے کی طرف بڑھ رہی ہے،امکان ہے کہ ان پناہ گزینوں میں سے لڑائی کیلئے یوکرینی نوجوانوں کی ایک بڑی تعدادکو گوریلاجنگ کی تربیت دیکریوکرینی فوج میں شامل کیاجائے گا۔

یہ جنگجوپناہ نہیں بلکہ محفوظ پناہ گاہیں تلاش کررہے ہوں گے جہاں وہ اپنے ملک پرروسی قبضے کے خلاف تقریباًمربوط مزاحمتی قوت کے طورپرخودکومنظم تربیت اورمسلح کرنا شروع کردیں گے۔امریکااوراس کے نیٹواتحادیوں کوروس کے خلاف ابھرتی ہوئی شورش کوفنڈنگ کرنے میں کوئی زیادہ دیرنہیں لگے گی اوریہ مسلح جدوجہد روس کیلئے سیاسی،سماجی اور اقتصادی طور پر بڑی مہنگی ثابت ہو سکتی ہے۔یوکرین جیسے ملک میں قابض افواج کا قبضہ برقرار رکھنے کیلئے سپلائی لائن کو ہر صورت بحال رکھنا ہو گا۔یقیناامریکا اور نیٹو کو کئی ممالک میں اپنی ناجائز جارحیت کے نتیجے میں یہ تلخ تجربہ ضرور ہوا ہو گا لیکن انہوں نے بھی تو اس سے سبق اور عبرت حاصل نہیں کی۔

براؤن یونیورسٹی کے مطابق صرف افغانستان میں اٹھنے والے جنگی اخراجات2ٹریلن ڈالر سے زیادہ ہیں۔اس جنگ میں 7,000سے زیادہ امریکی فوجی اور 8,000 سے زیادہ ٹھیکیدارہلاک اور30،177سے زیادہ امریکی فوجییوں اورسابق فوجیوں نے اس جنگ سے نجات حاصل کرنے کیلئے خودکشی کرلی۔اتحادی شراکت داروں کی تعدادتودولاکھ سے بھی تجاوزکرگئی تھی۔اس بے مقصد امریکی جنگ میں 67ہزارسے زائدصرف پاکستانی شہیدہوگئے۔ دوملین سے زائدعام شہری پرتشدد موت کے منہ میں چلے گئے اورغذائی قلت اور تباہ شدہ صحت کے نظام اورماحول سے جنگ میں ہونے والی اموات کاامکان لڑائی سے ہونے والی اموات سے کئی گنازیادہ ہے۔

حالیہ یوکرین شورش نے یقینا پیوٹن کیلئے ایسی مشکلات پیدا کردی ہیں،انہوں نے بھی اپنے پیشروؤں کی طرح کے جی بی کی رپورٹس پرآنکھیں بند کرکے یقین کرلیا۔اسٹالن کے تیس سالہ دورِ اقتدار کا ریکارڈ توڑنے کیلئے صرف مزید سات سال کا عرصہ باقی رہ گیاہے۔پیوٹن کیلئے یوکرین کومکمل فتح کرنے کیلئے دن بدن آپشن کم ہوتے جا رہے ہیں اور اس آخری آپشن کے طورپر وہ ایٹمی ہتھیاروں کا بھی استعمال کر سکتے ہیں جن کی وہ باربار دہمکیاں دے چکے ہیں۔جیسے جیسے یوکرین میں جنگ بڑھتی جا رہی ہے،بین الاقوامی ذرائع ابلاغ روسی مظالم اور شہری ہلاکتوں کی رپورٹیں بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں اور دنیا اب سنجیدگی سے ماسکو کی طرف متوجہ ہو رہی ہے۔اگرچہ پیوٹن نے یہ جنگ اس کے تدارک کیلئے شروع کی ہو گی کہ وہ سوویت یونین کو دوبارہ بحال کریں گے تاہم اس خیال نے خطے کوایک تباہ کن جنگ کی طرف دھکیل دیاہے اوراس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنے مستقبل کوبھی خطرات میں ڈال دیاہے۔یوں محسوس ہورہاہے کہ امریکااوریورپ جلتی پرتیل پھینک کراپنی فتح کی امیدلگائے بیٹھے ہیں۔

کوئی ہے جو سمجھے اورعبرت حاصل کرے کہ اقتدارو اختیارات انسان کاامتحان ہے۔جوشخص زندہ رہنے کیلئے سانسوں کامحتاج ہواس کوتکبرہرگززیب نہیں دیتا۔ہم کس دنیا پر فخرکرتے ہیں جس کا بہترین مشروب (شہد)مکھی کا تھوک اور بہترین لباس (ریشم) ایک کیڑے کا تھوک ہے۔جس کے حلال میں حساب اور حرام میں عذاب ہے۔
اندھیرے لوٹ آتے ہیں تکبرکی سزابن کر
سبھی کوآزماتے پھِررہے ہوکیوں خدابن کر

اپنا تبصرہ بھیجیں