بھارت کے ہمسایہ ملک نیپال کے نئے وزیرخارجہ پردیپ کمارجوالی نے بیجنگ میں چینی وزیر خارجہ وانگ یی سے ملاقات کی۔اس ملاقات میں دونوں ملکوں کے درمیان ریل رابطوں کو بہتر بنانے سمیت کئی اہم مسائل پر بات ہوئی ۔گزشتہ سال نیپال میں اس سلسلے میں تمام فیصلے کیے جاچکے تھے لیکن کے پی اولی عبوری وزیراعظم تھے اس لیے ان فیصلوں پر عمل درآمد نہیں کیا جا سکا، اب نیپال میں اقتدار تبدیل ہو گیا تھا۔اولی کے اقتدار میں واپس آنے کے بعددوبارہ ملاقات کرکےاس فیصلے پرعملدرآمدپربات کی گئی۔ دنیابھرمیں اپنی پہنچ بڑھانے کیلئے چین نے ایشیا،یورپ اورافریقاکے 65 ممالک کوشامل کرنے کی منصوبہ بندی کی ہے اور اس منصوبے کو’’ون بیلٹ ون روڈ‘‘ کانام دیاگیاہے،جس کامطلب اوبی اوآرمنصوبہ ہے۔ اسے ’’نیا سِلک روٹ‘‘بھی کہاجارہاہے۔
اجلاس کے بعدچین نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں(ون بیلٹ ون روڈ پروجیکٹ) کے تحت بھارت،نیپال،چین اقتصادی راہداری کی پیشکش کرکے ایک بارپھراشارہ دیاہے کہ وہ بھارت کوبھی اس منصوبے میں شامل کرناچاہتاہے۔چین توپہلے سے ہی چاہتاتھا کہ بھارت اس منصوبے کاحصہ بن جائے لیکن بھارت اس سے انکارکررہاہے کیونکہ اس کے مربی اورآقاٹرمپ نے انہیں خطے کا تھانیداربنانے کی لالچ دے رکھی ہے اوریہی وجہ ہے کہ مودی نے اپنے مفادات کودیکھتے ہوئے سوویت یونین کوروس بنتے دیکھ کرسات دہائیوں پرمشتمل دوستی کاہاتھ چھڑاتے ہوئے امریکاکے پاؤں میں بیٹھنافوری طورپرقبول کرلیااورامریکی مقتدرحلقے چین کی بڑھتی ہوئی معاشی ترقی اوراقوام عالم کی معاشی منڈیوں میں چین کی پذیرائی سے خوفزدہ ہوکرسی پیک اور”ون روڈون بیلٹ”کوہرقیمت پرناکام بنانے پرتلاہواہے اوراب اس خطے میں اس کے پاس بھارت کااستعمال بہترین آپشن ہے جس کیلئے امریکا اوربھارت ایک دوسرے کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھانے کی پالیسیوں پرعملدرآمدکررہے ہیں۔
اس کی ایک اورواضح مثال ابھی حال ہی میں ایران پرامریکی پابندیوں کے اعلان کے بعد سامنے آئی ۔بھارت اپنی سالانہ ضرورت کا70فیصدتیل ایران سے خریدتاہے اورامریکاکی جانب سے اعلان کردہ معاشی پابندیاں کےجواب میں بھارت کوسعودی عرب اوریواے ای سے مہنگے داموں خریدنا یقیناً ایک بہت بڑے خسارہ کاسودہ تھا۔اب بھارت کے اندرکامکاربنیاء فوری طورپرپینترہ بدلتے ہوئے انگڑائی لیکرفوراًمیدان میں کودپڑا،اپنے پرانے دوست روس سے5/اکتوبر2018ءکو سرکاری طور پرS-400فضائی دفاعی نظام کیلئے5.2بلین ڈالرکے معاہدے پردستخط کردیئے،جس کے جواب میں امریکانے نہ صرف بھارت بلکہ اپنے دیگراتحادیوں کیلئے ایران سے تیل خریدنے کیلئے مراعات کااعلان کردیا۔
چین “سی پیک “اور”ون روڈون بیلٹ” کوعظیم منصوبوں کے طورپردیکھتاہےاورسمجھتاہےکہ انسانی وسائل کی ترقی کایہ ایک بڑاذریعہ ہے اوراس کے ساتھ دوسرے ممالک کامنسلک ہونا ضروری ہے۔اس کیلئے سڑکیں،ریلوے،واٹرویز،ٹیلی مواصلات،گیس کی لائنیں اورپٹرولیم لائنیں بچھائی جانی چاہئیں۔ چین اس کے ساتھ تمام ممالک کواپنے ساتھ منسلک کرنے کی کوشش کررہا ہے یعنی اس میں وہ اپنامرکزی کرداررکھ رہاہے اوریہ ظاہربھی ہے کیونکہ وہی اس کیلئے مالی امدادبھی دے رہاہے۔چین کے وزیرخارجہ وانگ یی نے کہاہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ چین،نیپال اور بھارت اس کے ساتھ وابستہ ہوجائیں لیکن گزشتہ سال’’ون بیلٹ ون روڈ فورم‘‘کےاجلاس میں بھارت واحد ملک تھاجواس میں شامل نہیں ہواتھااوربعدازاں ایک بیان جاری کیاکہ چین کے اس مہنگے منصوبے کاحصہ بننے والے ممالک قرض میں پھنس رہے ہیں ۔
بھارت کی مخالفت کے پیچھے بنیادی مقصد یہ ہے کہ”اس منصوبے کے تحت چین، پاکستان اقتصادی راہداری بنارہاہے۔اس کے تحت، چین سے شروع ہونے والی سڑک گلگت بلتستان آزادکشمیرسے ہوتے ہوئے گوادربندرگاہ تک جاتی ہے۔چین کشمیرپر بھارت کے حق کوتسلیم نہیں کرتابلکہ وہ اسے پاکستان کاجزولاینفک تسلیم کرتاہے،ایسے میں بھارت چین کواپنادوست ملک کیسے کہے؟یہ چین کی بھارت پردباؤبڑھانے کی کوشش ہے۔اس منصوبے میں چین کے معاون ممالک مالدیپ، نیپال،پاکستان اورمیانمارکے پاس اتناپیسہ نہیں کہ اس میں لگاسکیں”۔
چین اس منصوبے مستقبل کی کامیابی کے تناظرمیں اس لئےخسارہ برداشت کررہاہےتاکہ بھارت پرمزید دباؤبڑھے اورچین کی سڑک بھارت کے سرتک پہنچ جائے اوربھارت کے عوام اس سڑک کااستعمال شروع کردیں۔صرف اتناہی نہیں، نیپال میں چین کاہزاروں ٹن سامان آئے گااورنیپال میں لوگ ہزاروں ٹن سامان خریدنے کے قابل نہیں ہیں اوروہ سامان نیپال کی سرحد کے ذریعے اسمگل ہوکربھارت آئے گااس طرح بھارت کوکئی چیلنجوں کاسامنا کرناپڑے گا۔آج کشمیر کے مسئلے پر چین کے نقطہ نظر کی قبولیت کے بعدکل ریاست اروناچل پردیش پربھی چین کے دباؤکے بعدبالآخربھارت کواپنا ماتھا ٹیکنا پڑے گا۔ بھارت اس وقت عجیب کشمکش میں مبتلاہے اوربھارت میں 2019ء میں لوک سبھاانتخابات منعقدہونے جارہے ہیں،اب دیکھنایہ ہے کہ مودی اس صورت حال میں اس مسئلے کاسامنا کیسے کریں گے۔
Load/Hide Comments