Cracks In The European Union

یورپی یونین میں دراڑ

:Share

“اگرتم مجھےدیکھوتورودو”یہ بھوک پتھرپرلکھاہواوہ فقرہ ہے جوابھی کچھ دن قبل جرمنی میں ایلبی دریاکی سطح پانی میں شدید کمی کے بعددیکھنے کوملا۔ یورپ کے دریاؤں میں یہ بھوک پتھرگزرے واقعات کے نشانات بتارہاہے۔پچھلے پانچ صدیوں میں پہلی مرتبہ یورپ ایسی خشک سالی کاشکارہواہے جس کےخشک ساحلوں نے پرانی تاریخ دہرادی ہے جویورپ کویہ یاددلارہا ہے کہ اسکی دیرینہ عظمت کادوراپب قصہ پارینہ ہونے والاہے۔یہ پتھراس قحط اورمشکلات کی نشاندہی کرتے ہیں جوان پتھروں کے نمودارہونے کے بعدظاہرہوگا۔یہ بظاہربائبل کی ایک پیش گوئی ہے جوسچ ثابت ہونے جارہی ہے کہ یورپ اس وقت ایک بڑے جنگل کی آگ اور500سال کے دوران بدترین خشک سالی اورگرمیوں کے ریکارڈتوڑدرجہ حرارت کاسامناکررہاہے اوریوکرین کی جنگ کے بعدتوانائی کے مسائل مزیدگھمبیرہو رہے ہیں۔

حالیہ ماحولیاتی مسئلے نے فرانس میں دریاؤں میں پانی کی سطح کومستقلاًکم کردیاہے اوراس صورتحال نےنیوکلیئرپلانٹ کے کمیشن کوختم کردیاہے جسے اپنے سسٹم کو ٹھنڈارکھنے کیلئے پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔جرمنی میں دریائے رائن میں پانی کی سطح کم ہوگئی ہے جس کی وجہ سے صنعتی سامان کی حمل ونقل، آمدورفت سست ہوگئی ہے اورکشتی اپنی صلاحیت کے مطابق اب صرف ایک چوتھائی وزن لیجاسکتی ہےتاکہ سامان اپنی منزل مقصودپربحفاظت پہنچ سکے ،اس وجہ سے دریائے رائن میں سامان کی حمل ونقل کے اخراجات کئی گنابڑھ گئے ہیں اورلازمی امرہے کہ اس کی وجہ سے مہنگائی نے بھی زورپکڑلیاہے۔روس یوکرائن جنگ گزشتہ چھ ماہ سے جاری ہے،یورپ کیلئےشدیدمشکل اوربدترین توانائی کابحران منہ کھولے کھڑاہے۔یقیناً اس بحران کی شدت کے بعدملکوں کے درمیان وفاداریاں بھی تبدیل ہونے کاقوی امکان ہے کیونکہ ان ملکوں کی حکومتیں مہنگائی کے طوفان کے بعد عوام کے غیظ وغضب سے بچنے کیلئے ایساکرنے پرمجبورہوجائیں گی۔

جرمنی پہلے ہی حیس توانائی منصوبے کے تیسرے مرحلے میں ہے،اس کامطلب جرمنی کے پاس گھروں اورصنعتوں کودینے کیلئے موجودگیس ناکافی ہے۔ جرمن حکومت قانونی طورپراس کی پابندہے کہ وہ ہرصورت میں گھروں کوگیس مہیاکرے لیکن اب گھروں کی گیس ہی صنعتوں کوفراہم کئے جانے کاامکان ہے۔حال ہی میں دنیابھرمیں گیس کی قیمتوں میں ہوشربااضافہ ہوگیاہے جس کی وجہ سے یورپ میں گیس صارفین کے بلوں میں شدید اضافہ ہوگیاہے۔موسم خزاں کے آنے تک اگرقیمتیں کم بھی کردی گئیں توپھربھی صارفین شدیدمعاشی بحران کاشکارہوں گے۔

جرمنی اوریورپ کےدیگرممالک میں قانون کے مسودے پربات ہورہی ہے تاکہ مالک مکان عمارتوں میں حرارت کے درجہ حرارت کوکم کریں۔ حکومت نے یہ مشورہ دیاہے کہ مرکزحرارت کادرجہ حرارت22سنٹی گریڈسے کم کرکے17سنٹی گریڈکیا جائے۔اس تجویزنے عوام میں ایک پریشانی اورحیرت کی لہردوڑادی ہے جوکہ اپنی زندگی کوچھوٹی چھوٹی آسائشوں سے مزین کرتے ہیں۔جرمنی اب بجلی سے چلنے والے ہیٹریالکڑی جلاکردرجہ حرارت پیداکرنے والے ہیٹراستعمال کررہے ہیں لیکن اب یہ ہیٹروہی افراداستعمال کرسکیں گے کوان کے اخراجات اٹھانے کی استطاعت رکھتے ہوں گے۔

جرمنی کے تجزیہ نگارمعاشرتی عدم استحکام کے امکانات کے پیش نظرپریشان ہیں،اگرسردیوں میں گیس کی ضرورت بڑھی تو گیس کابحران گھروں میں بڑھ جائے گاجس سے بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہوجائے گا۔یہ تمام مشکلات اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ دائیں اوربائیں بازووالوں کی طرف سے شدیداحتجاج بھی متوقع ہے۔اسپین کی معاشی تجزیہ نگارنے کہاہے کہ اسپین کوغربت کے باعثپیداہونے والے سیاسی بحران کونہیں بھولناچاہئے اورانہیں اپنے ماضی کی غربت کواپنے ذہن میں دوبارہ جگہ دینی ہوگی۔اسپین کوتواپنی غربت کے دنوں کویادکرکے کسی حدتک حالات سے نمٹنے کیلئے تیارہوجائے گالیکن مجھے حیرت ہے کہ جرمنی اس وقت کیاکرے گاجب معاشی اورمعاشرتی بحران شدیدترین ہوجائے گا۔

یورپ میں توانائی کاتحفظ ایک نیاموضوع بن کرابھررہاہے جویورپ کو اس بات پرمجبورکررہاہے کہ یورپی اقدارکوسمجھیں اوران اقدارکاتحفظ کریں۔جرمنی کے بعدفرانس اوراٹلی میں بڑے پیمانے پرگیس استعمال کرتے ہیں اوریہی ممالک اس وقت سب سے زیادہ متاثرہوں گے جب سردیوں میں روس مکمل طورپر گیس بندکردے گااورپھرنورڈاسٹریم میں ایک پائپ لائن میں صرف 20 فیصد گیس گزرنے کی صلاحیت ہے۔اٹلی کے پاس صرف ایک ایساگیس کے اشتراک کامنصوبہ ہے جوکہ دوطرفہ ہے جبکہ فرانس کے پاس گیس کے اشتراک کاکوئی منصوبہ نہیں ہے۔

اس صورتحال کے پیشِ نظرجب جرمنی نے یورپین انرجی کمیشن کی میٹنگ میں مشترکہ یورپی اقدارکی بات کی تودوسرے ممالک پراس کازیادہ اثرنہیں ہوا۔اسپین کے ایک سفارتی اہلکارنے آف دی ریکارڈبات کرتے ہوئے ایک صحافی کوبتایاکہ ہم اپنی اقدارکے تحت ہی زندگی گزاررہے ہیں لیکن جرمنی ایسانہیں کررہااور اب وہ چاہتے ہیں کہ ہرکوئی ان کی مددکرے۔یونانی بھی جرمنی کے مشورے سے کچھ زیادہ متاثرنہیں ہوئے۔جرمنی نے2009ء کےیونان کے معاشی بحران میں یونان کے ساتھ بڑاناروا سلوک روارکھاتھا۔اس سال یونان اس معاشی بحران کی پابندیوں سے کلی آزادہوگیاہے جویورپ اورجرمنی کی وجہ سے یورپی یونین یورپی یونین نے یونان پرلگائی تھیں۔گیس کے استعمال کو15فیصدتک کم کرنےکی تجویزپرتگال،اسپین،یونان،اٹلی اور دوسرے ممالک کے عوام کومشتعل کردیں گی جبکہ یہ روس پربہت زیادہ انحصاربھی نہیں کرتے اوراب انہیں یہ محسوس ہورہاہے کہ دوسرے ملکوں خصوصاًجرمنی کی غلطیوں کاخمیازہ بھگتیں گے۔اس دباؤکاواضح مطلب یہ ہے کہ جرمنی گیس کی کھپت کوکم کرنے کی تجویزکے ساتھ یورپی کمیشن کی میٹنگ سے باہرآیاہے اوریہ رضاکارانہ فیصلہ ہے جس کافائدہ کچھ نہیں ہے، یہ ایک کمزوروعدہ ہے کہ ایک ملک تمام یورپی اراکین سے یہ امید رکھے کہ وہ سب اس کے مفادات کیلئے کام کریں گے۔

یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ گرم پانی،بجلی اورگرمائش جرمنی،آسٹریا،اٹلی اورہنگری میں کس حدتک دستیاب ہیں لیکن یہ بات بالکل واضح ہے کہ اس دباؤنے یورپ کے اتحادمیں واضح دراڑپیداکردی ہے۔زیادہ ترجرمن سیاستدان یہ جانتے ہیں کہ عوام مشتعل ہوجائیں گے اورگیس کے سخت ضابطے متعین کرناممکن نہیں ہے اوروہ جرمنی کیلئے اپنے لوگوں کوناراض نہیں کرسکتے لیکن دوسری طرف وہ جرمنی کی لرزتی معیشت بھی دیکھ رہے ہیں۔یورپ میں روزبروزبڑھتی ہوئی مہنگائی بتارہی ہے کہ مستقبل میں یورپی اتحادمیں دراڑکوئی زیادہ دورکی بات نہیں۔

تاہم کیاایساہوناچاہئے،جنوبی یورپ میں بہت سے ایسے ہیں جویہ سوچ رہے ہیں کہ کیاجرمنی دوبارہ ضمانت دینے کے قابل ہوگا۔جرمنی کی صنعتیں کمزور پڑ رہی ہیں جبکہ عوام غربت کی طرف بڑھ رہی ہے۔ہزاروں کرایہ دارمالک مکانوں کی ایسوسی ایشن سے رابطہ کررہے ہیں اوران سے توانائی کے اخراجات میں کمی کیلئے حکومت پردباؤڈالنے کے سلسلے میں لابنگ کرنے کا کہہ رہے ہیں۔تاہم یہ بات اب مکملطورپرعیاں ہوچکی ہے کہ یورپی اتحاداپنی آخری سانسیں لے رہا ہے،اس صورتحالپریہ سوال اتھتاہے کہ کیاتوانائی کے بحران کے ساتھ ساتھ عالمی موسمیاتی تبدیلی اورعالمی معیشت کازوال اس اتحادکو ریزہ ریزہ کردے گا اوراس کاممکن ترین جواب ہے۔۔۔ہاں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں