کوروناکی وباکے حوالے سے ایک بہت بڑامسئلہ یہ ہے کہ غیرموزوں اشاریے استعمال کیے جارہے ہیں اوراِسی کے ساتھ یہ مسئلہ بھی ہے کہ موزوں اشاریوں کوغلط اندازسے بروئے کارلایاجارہاہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اعدادوشمارکی مددسے ہم کوروناکی وباکے پنپنے سے متعلق اہم معلومات حاصل کرسکتے ہیں اورنتائج بھی اخذکرسکتے ہیں مگرتمام اعدادوشمارکو بروئے کارنہیں لاناچاہیے کیونکہ ہرمعاملہ ایک خاص تناظرمیں ہے۔کسی ایک ملک یامعاشرے کی کیفیت کوبنیادبناکرتمام معاشروں کیلئےکوئی جامدرائے قائم نہیں کی جاسکتی۔دیکھاگیاہے کہ لوگ مختلف ممالک کے حالات کوسمجھے بغیریا اُن پر متوجہ ہوئے بغیرکوروناکی وباسے متعلق اعدادوشمارکوبروئے کارلانے کاسوچنے لگتے ہیں۔
اب یہ بات بہت عمومی سطح پرکہی جارہی ہے کہ کوروناکی وبانے کم وبیش ہرمعاشرے میں عوامی سطح کی زندگی سے متعلق تمام کمزوریوں کومکمل طورپربے نقاب کردیاہے۔جب سے کوروناکی وباپھیلی ہے،بہت سے معاملات پرغورکیاجارہا ہے ۔ایک طرف توبیماری کوسمجھنے کی کوشش کی گئی ہے اوردوسری طرف اس کے علاج پربھی توجہ دینے کاسلسلہ جاری ہے۔ مشکل یہ ہے کہ کوروناکی وباسے متعلق ایک معاملے کومجموعی طورپرنظراندازکردیاگیاہے اوریہ معاملہ اعدادوشمار کاہے۔ ہرروزمیڈیا کے ذریعے کوروناسے متعلق ایسے اعدادوشمارملتے ہیں جوانتہائی پریشان کن ہوتے ہیں اوراُن سے کسی بھی معاملے میں راہ نمائی توکیاہوگی،الٹی الجھنیں بڑھ جاتی ہیں۔کوروناکی وباسے متعلق اعدادوشمارکے حوالے سے دوبڑی الجھنیں پیداہوئی ہیں۔ایک تویہ کہ غلط اشاریوں کوراہ ملی ہے اوردوسرے یہ کہ بدحواسی میں درست اشاریوں کوغلط ڈھنگ سے پیش کیاجارہاہے۔دونوں ہی معاملات انتہائی پریشان کن ہیں۔
کوروناسے متعلق میڈیاکی رپورٹ مجموعی واقعات کی تعدادبتاتی ہےاوریہ بھی کہ اُنہیں کس طوربروئے کارلایاجارہاہےیعنی اُن سے کیانتیجہ اخذکرکے کیااقدامات کیے جارہے ہیں۔کسی بھی خاص ملک کے تناظرمیں اعدادوشمارکاتجزیہ اوراُنہیں بروئے کار لاتے ہوئے کوئی حکمتِ عملی ترتیب دیناسمجھ میں آتاہے۔کوروناکے واقعات کی مجموعی تعدادصورتِ حال کی سنگینی ظاہر کرتی ہے۔یہی اعدادوشمارصورتِ حال میں رونما ہونے والی تبدیل کوسمجھنے اوراِس حوالے سے خودکوذہنی طورپرتیارکرنے کیلئےبھی بروئے کارلائے جاسکتے ہیں۔
اصل مسئلہ اُس وقت کھڑاہوتاہے،جب یہ اشاریہ(یعنی کیسزکی مجموعی تعداد)کئی ممالک کی صورتِ حال کوسمجھنے اوراُن کے تقابل کیلئےبروئے کارلایا جاتا ہےاورتجزیہ کاریہ کام یومیہ بنیادپرکرتے ہیں۔بیشترتجزیہ کارمجموعی کیسزسے متعلق اعداد وشمار کومختلف ممالک میں صورتِ حال کی سنگینی کی طرف اشارہ کرنے کیلئےاستعمال کرتے ہیں۔آئے دن ہم ایسے بیانات پڑھتے ہیں کہ کوروناکیسزکی تعدادکے لحاظ سے فلاں ملک سب سے بُری حالت میں ہے اوراُس کابحران سنگین ترہوتاجارہا ہے۔اعدادوشمار کی بنیادہی پرکسی بھی ملک کوسب سے بُری حالت والابھی ٹھہرایاجاتاہے۔جوبات بیان نہیں کی جاتی وہ دراصل یہ ہے کہ فلاں ملک میں کوروناکیسزکی تعداددیگرممالک کے مقابلے میں زیادہ ہے یعنی وہ زیادہ یاسب سے بُری حالت میں ہے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ خام اعدادوشمارہی مختلف ممالک کے باہمی تقابل کیلئےبروئے کارلائے جارہے ہیں۔مثلاًاگرچین میں کورونا کے50ہزارکیس ہوں اورسنگاپورمیں کوروناکے40ہزارکیس ہوں توکیایہ کہنادرست ہوگاکہ چین میں کوروناکی وباکے حوالے سے صورتِ حال زیادہ پریشان کن ہے،ایسے موقع پریہ حقیقت نظراندازکردی جاتی ہے کہ چین کی آبادی سنگاپورکی آبادی سے250 گناہے!کورونا کی وباسے متعلق اعدادوشمارکے تجزیے کے وقت کسی بھی ملک میں کوروناکیسزکی مجموعی تعدادپرغورکرنے کی بجائے یہ دیکھناچاہیے کہ اُس ملک کی آبادی کے تناسب سے واقعات کی تعدادکتنی ہے۔ اگر کسی ملک کی آبادی بیس،تیس کروڑ ہے اوروہاں کوروناکے40 ہزارکیسزہوں توصورتِ حال کسی ایسے ملک سے بہترہوگی جس کی آبادی محض50لاکھ ہواورکیسز کی تعداد20ہزارہو۔ایسی صورت میں ہم بڑی آبادی والے ملک کے40ہزارکیسز کوخطرناک قرارنہیں دے سکتے۔جس وقت یہ سطور لکھی جارہی تھیں تب برازیل میں کوروناکیسزکی تعداد87.1ملین تھی۔یہ تعداد انتہائی خطرناک تصورکی جارہی تھی اورکہاجارہاتھاکہ لاطینی امریکامیں برازیل ہی کوروناکی وباکا منبع ہے۔ہمیں برازیل میں کوروناکیسزکی تعدادکاتجزیہ آبادی کے تناسب سے کرناہے۔برازیل میں کوروناکیسز1565فی ملین ہیں جبکہ اُسی خطے کے ملک ایکواڈورمیں کیسزکی تعداد 2034فی ملین،چلّی میں3239فی ملین اورپیرومیں3393فی ملین ہے۔اسی طرح امریکا میں کوروناسے متاثرین کی تعداد3.73ملین اوراموات 1.73لاکھ تک پہنچ گئی اوریورپ میں سب سے زیادہ تباہی اٹلی , 242827اسپین 253908اور جرمنی198804میں ہوئی۔
میں یہ نہیں کہہ رہاکہ برازیل میں صورتِ حال سنگین یاپریشان کن نہیں یقیناًمعاملہ پریشان کن ہے اوراِس کے درست کرنے پر فوری توجہ مرکوزکی جانی چاہیے مگریہ کہناغلط ہوگاکہ لاطینی امریکامیں سب سے خطرناک صورتِ حال برازیل میں ہے۔ برازیل کی آبادی غیرمعمولی ہے اس لیے وہاں کوروناکے کیسزکی تعدادکابہت زیادہ ہوناپریشان کن ضرورہے،حیرت انگیزہرگز نہیں۔ہمیں محض اعدادوشمارنہیں دیکھنے بلکہ اُن کاتناظربھی دیکھناہے۔کوروناسے ہلاکتوں کے معاملے میں بھی برازیل کو لاطینی امریکاکاسب سے بُرایاسب سے بحران زدہ ملک قرارنہیں دیاجاسکتا۔آبادی کے تناسب سے کوروناکے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کے حوالے سے اکواڈوراورپیروزیادہ خطرناک حالت میں ہیں۔آبادی کے لحاظ سے دوبالکل مختلف ممالک کاتقابل بھی ایسی ہی الجھن پیداکرتاہے۔اعدادوشمارکاغلط استعمال کسی بھی ملک کوبلاجوازانتہائی بحران زدہ دکھا سکتاہےاورکسی ملک کوخواہ مخواہ کلین چٹ بھی مل سکتی ہے۔
تاہم میڈیارپورٹس اورسرکاری بیانات کی بنیادپرہم بہت آسانی سے یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ کوروناکی وباسے متعلق بعض معاملات الجھے ہوئے ہیں اورجوکچھ دکھایاجارہاہے،وہ زمینی حقیقت نہیں۔اِسی طوربہت سے زمینی حقائق کوچُھپایاجا رہا ہے۔ ہوسکتاہے کہ ایسادانستہ نہ کیاجارہاہومگرخیرجوکچھ ہورہاہے وہ سامنے ہے اورپریشان کن ہے۔
اب اِسی بات کولیجیے کہ تاحال یہ طے نہیں ہوسکاہے کہ کون کوروناکامریض ہے اورکون نہیں۔کوئی کوروناکی وبامیں مبتلا ہوا ہے یانہیں،یہ جانچنے کیلئے مختلف طریقے وضع کیے گئے ہیں۔کوروناٹیسٹنگ کی تیکنیک کافرق حقیقی اعدادوشمارتک رسائی کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کررہاہے۔کسی کی موت کورونا سے واقع ہوئی ہے یاکسی اوربیماری کے ہاتھوں،اس کا فیصلہ کرنے کے معاملے میں بھی ممالک کے درمیان اختلاف پایاجاتاہے۔برطانیہ کے معروف جریدے’’دی اکنامسٹ‘‘کی ایک رپورٹ
میں اِسی معاملے کو موضوع بناکرتجزیہ کیاگیاہے۔بہت سی میڈیارپورٹس کے مطابق ہزاروں اموات کو بلاجوازکوروناکے کھاتے میں ڈال دیاگیاہے۔ترقی پذیراورپس ماندہ ممالک میں اِس حوالے سے صورتِ حال پریشان کن رہی ہے۔
اموات کے علاوہ کوروناکی ٹیسٹنگ کے حوالے سے بھی اختلافات پائے جاتے ہیں۔بہت سے ممالک میں کوروناٹیسٹنگ کی سہولت مطلوبہ حدتک میسر نہیں اورٹیسٹ کٹس کے ناقص ہونے کی شکایات بھی عام ہیں۔پالیسی سازکوروناٹیسٹنگ کے حوالے مختلف معیارات مقررکرتے ہیں۔عالمی ادارۂ صحت نے اس حوالے سے یکساں نوعیت کی پالیسی ترتیب نہیں دی۔بعض ممالک میں کوروناٹیسٹنگ کی سہولت مطلوبہ حدتک فراہم نہیں کی گئی۔کئی حکومتیں اس بات کوترجیح دے رہی ہیں کہ کوروناٹیسٹنگ بہت بڑے پیمانے پرنہ کی جائے۔
اعدادوشمارسے مختلف ممالک میں مختلف حقیقتیں ظاہرہوتی ہیں۔بعض ممالک کوروناسے متعلق اعدادوشمارکوایک خاص تناظر میں پیش کرتے اوربروئے کارلاتے ہیں۔کوروناسے متعلق اعدادوشمارہرملک میں ایک مختلف تصویرپیش کرتے ہیں۔یہ حقیقت بھی نظراندازنہیں کی جاسکتی کہ کسی بھی ملک میں کورونا کے مریضوں اورہلاکتوں سے متعلق بالکل درست اعداد و شمارحاصل نہیں کیے جاسکتے۔بہت کچھ ہے جوجانچ پڑتال سے رہ جاتاہے۔بہت سی ایسی ہلاکتیں بھی ہیں جومختلف بیماریوں کے باعث واقع ہوئیں مگرکوروناکے کھاتے میں ڈال دی گئیں۔جب کوروناکی شفاف تشخیص ہی متنازع ہے توپھراِس کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کوکس طورشفاف اوربے عیب تجزیے کی حامل قراردیاجاسکتاہے؟
کوروناسے متعلق اعدادوشمارکاتجزیہ کرتے وقت ہمیں محض اعدادوشمارپرمتوجہ نہیں رہنابلکہ تناظربھی دیکھناہے۔ہرچیزاپنے سیاق وسباق میں دیکھے جانے ہی پراچھی طرح سمجھ میں آتی ہے۔مختلف ممالک کے اعدادوشمارکاموازنہ اپنے آپ مشکلات میں پیداکرنے والاہے۔یہ مسئلہ صرف کوروناکی وباتک محدود نہیں۔بیشترمعاملات میں اعدادوشماراوراُن کے تقابلی جائزے کایہی حال ہے۔
اعدادوشماروہ نہیں ہوتے جودکھائی دیتے ہیں۔یہ دھوکابھی دیتے ہیں،صورتِ حال کوکچھ کاکچھ دکھاتے ہیں۔لوگ اعدادو شمارکو بعض مخصوص مقاصد کیلئے بھی استعمال کرتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اعدادوشمارہمیں کوروناکی وباکے بارے میں بہت کچھ سوچنے اورسمجھنے کی تحریک دے سکتے ہیں مگرپھربھی ہمیں پیش کیے جانے والے اعدادوشمارکی بنیادپرکوئی ایسی رائے قائم نہیں کرنی چاہیے جوحتمی نوعیت کی ہو،بدلی نہ جاسکتی ہو۔اعدادوشمارکے ماہرین کسی بھی صورتِ حال کاتجزیہ کرتے ہوئے اپنے لیے بیچ کاراستہ نکال لیتے ہیں۔ وہ’’اندازاً‘‘کہہ کراپنی گردن بچالیتے ہیں!اگراعدادو شمارکی بنیاد پرکوئی رائے قائم کرلی جائے اوروہ غلط نکلے تویہ کہتے ہوئے جان چھڑالی جاتی ہے کہ اعدادوشمارحتمی نوعیت کے نہیں تھے بلکہ ایک اندازہ قائم کیاگیاتھا۔ اعدادوشمارکوبروئے کارلاتے وقت،اُن سے کوئی نتیجہ اخذکرتے وقت سیاق و سباق ضرورذہن نشین رہنا چاہیے۔
اب ایشیاکی صورتِ حال ملاحظہ کریں توسب سے زیادہ متاثرانڈیا849553،پاکستاان248872،ترکی211981اوربنگلہ دیش 181129ہیں ۔ پاکستان میں متاثرین کی تعدادمیں بہت زیادہ کمی آسکتی تھی لیکن یہاں اداروں میں عدم اتفاق نے کروناکے متاثرین میں اس وقت اضافہ کردیاجب عید الفطرسے چاردن پہلے کامیاب لاک ڈاؤن کوختم کرنے کااعلان کردیاگیا اورعوام کی بے صبری اورعدم تعاون نے یکدم کوروناکے متاثرین میں اضافہ کر دیا ا ورحکومت نے دوبارہ سمارٹ لاک ڈاؤن کے نام پراپنی مجرمانہ غلطی کاازالہ کرنے کی کوشش توشروع کردی لیکن اس عرصے میں پلوں کے نیچے سے جتنا پانی بہہ گیا،اس سے غریب ملک کی معیشت کی تباہی کاماتم اب کس کے سامنے کیاجائے۔
عیدالاضحیٰ کی آمدپرقربانی جیسے فرض کی ادائیگی کیلئے انتہائی مشکلات کاسامناکرناپڑے گاجس کیلئے حکومت نے قوم سے انتہائی سادگی سے منانے کی اپیل کی ہے لیکن سوال یہ پیداہوتاہے کہ مختلف بڑے شہروں میں دیہاتوں سے قربانی کیلئےبڑی تعدادمیں جانورلائے جائیں گے اورخوش قسمتی سےاس وقت پاکستان کے بیشتر دیہات کوروناوبا سے محفوظ ہیں اوراب ایسانہ ہوکہ بڑے شہروں میں جانوروں کی خریدوفروخت کے دوران وہ اس ان دیکھے جراثیم کا شکارہوجائیں اورواپس اپنے دیہاتوں میں اس وباکواپنے ساتھ لیجاکرکورونامتاثرین کی تعدادمیں اضافہ کردیں۔
اس کیلئے انتہائی ضروری ہے کہ جس طرح شہروں سے باہران جانوروں کی منڈیوں کولگانے کابندوبست کیاجارہاہے،وہاں ان منڈیوں کوچاروں اطراف سے حفاظتی حدودکی سختی سے نگرانی کرکے منڈیوں میں خصوصی آمدورفت کے ایسے راستے قائم کئے جائیں جہاں جدیدطبی آلات سے ہرفردکوچیک کرکے اندرجانے کی اجازت دی جائے اوردیہی آبادی سے آنے والے تمام افراد کا بھی طبی معائینہ کرکے انہیں خصوصی اجازت نامے جاری کئے جائیں اوربعدازاں ان تمام افرادکوبحفاظت ان کے گھروں کی طرف روانہ کیاجائے۔ہرحال میں ماسک اوردیگرحفاظتی اقدامات پرسختی سے عملدرآمدکویقینی بنایاجائے۔اگران اصولوں پر کاربندہوکرہم نے یہ مشکل وقت گزاردیاتویقین ہے کہ ہم کوروناکے اثرات سے محفوظ رہنے میں کامیاب ہوسکیں گے۔
یادرہے کہ اورجب تک اس کی مستندویکسین نہیں آجاتی،اب ہمیں کوروناکے ساتھ نجانے کب تک اپنی زندگی کے ایّام کوگزارناہوگا۔یورپ اور امریکا میں لاک ڈاؤن کوختم کردیاگیاہے اوریہ تمام ممالک دوبارہ اپنی تباہ شدہ معیشتوں کی گاڑی کوچلانے کیلئے انتہائی محتاط اندازمیں ازسرنو کوششوں میں مصروف ہوگئے ہیں۔تعلیمی اداروں کوبھی سخت حفاظتی تدابیرکے تحت کھول دیاگیاہے تاکہ آنی والی نسل کوآئندہ ملک کی باگ دورسنبھالنے کیلئے تیارکیا جاسکے جبکہ کورونا کی وجہ سے تمام تعلیمی اداروں نے بہترین آن لائن تعلیم کاسلسلہ جاری رکھالیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں پہلے سے تباہ شدہ تعلیمی نظام کامزیدبیڑہ غرق ہوگیااورہمارے نوجوان نسل ایک مرتبہ پھربدنصیبی کے بھنورمیں غوطہ زن ہیں۔