کورونا…..گڈگورننس کی ضرورت

:Share

پچھلے ہفتے میں نےکوروناکی تائیوان میں ناکامی کے بارے میں لکھاجس کے بعدقارئین کامطالبہ ہے کہ بالآخرباقی ممالک تائیوان کے تجربے سے کیوں فائدہ نہیں اٹھارہے۔اس وقت جب کہ دنیابھرمیں امریکاسمیت تمام ممالک کی حکومتیں اورعوام کوروناکی وبا سے نمٹنے کی کوششیں کررہے ہیں،تائیوان اور جنوبی کوریاکا تجربہ اس وباسے نمٹنے میں کافی معاون ثابت ہو سکتاہے۔

تائیوان کو2003ءمیں SARSوائرس سے نمٹنے کاتجربہ ہوچکاتھااسی وجہ سے کوروناکے پھیلاؤکے خلاف بھی تائیوان بہت تیزی سے حرکت میں آیا ۔ تائیوان میں ہیلتھ انشورنس کی شرح 9ء99فی صد ہے اورگلوبل ہیلتھ کئیرانڈیکس کے مطابق یہ دنیاکابہترین ہیلتھ کیئرسسٹم ہے۔جلدردِعمل،وباسے تحفظ کی ایک جامع حکمت عملی،میڈیکل ڈیٹاکاموجودہونااورمعلومات فراہم کرنے کے نظا م کی وجہ سے تائیوان میں کوروناکے بہت کم واقعات سامنے آئے ۔کوروناکے خلاف تائیوان کے ردعمل میں دنیاکیلئےکچھ ایسے سبق موجودہیں جواس وباکے خلاف اقدامات میں مددگارثابت ہوسکتے ہیں۔

کوروناکے خلاف اقدامات کے آغازمیں ہی ملکوں کووبائی امراض سے تحفظ کے محدود وسائل،طبی آلات کی کمی اورعوام میں خوف وہراس کی صورت حال کاسامان کرناپڑرہاہے۔جیسے ہی وائرس بڑے پیمانے پرپھیلناشروع ہواتوبرطانیہ،اٹلی اوردیگر ممالک نے طبی سہولیات کی کمی کے باعث ان کااستعمال وائرس سے متاثرہ ان مریضوں کیلئےمخصوص کردیاجن کی حالت نازک تھی۔اس وائرس کے بارے نسبتاًکم معلومات ہونے کی وجہ سے عوامی سطح پراس کے بارے میں آگہی پھیلاناپہلی ترجیح ہونی چاہیے۔

تائیوان میں Central Epidemic Situation Command Center کے تحت اطلاعات اورآگہی دینے کیلئےایک پلیٹ فارم بنایاگیا ۔اس پلیٹ فارم سے روزانہ کی بنیادپرپریس کانفرنس کی جاتی،جس میں تازہ صورت حال کے حوالے سے اطلاعات دی جاتیں۔اسی طرح متعلقہ سرکاری ادارے بھی تازہ ترین اطلاعات فراہم کرتے رہتے۔حکومت نے وائرس کے حوالے سے درست رہنمائی فراہم کرنے کیلئےخاکوں اوردیگربصری ذرائع کااستعمال بھی کیا۔حکومت نے سول سوسائٹی کے ساتھ مل کر ماسک اوردیگرحفاظتی اشیا کی طلب اوررسدکانظام وضع کیاجس میں عوام کے ہیلتھ انشورنس کے ڈیٹاکومدنظررکھ کر ماسک کی فراہمی کاانتظام کیاگیا۔

اس قسم کے بحران سے معاشرے کاغریب طبقہ سب سے زیادہ متاثرہوتاہے۔اس وجہ سے حکومتو ں کوچاہیے کہ وہ نجی شعبے کے ساتھ مل کرایک نظام وضع کریں،جس سے ہرفردکی بنیادی ضروریات کوپوراکیاجاسکے۔تائیوان میں این جی اوزکاایک وسیع نیٹ ورک موجود ہے۔مقامی حکومتوں نے ان تنظیموں کے ساتھ مل کرکورنٹائین ریلیف کاکام شروع کردیااورایسے افراد کوجو گھروں میں خودکوالگ نہیں رکھ سکتے تھے انھیں ہوٹل کے کمروں میں آئیسولیشن میں رکھا۔بعض جگہوں پر حکومت کی جانب سے فنڈبھی جمع کیاگیاجس سے ضرورت مندافرادکوکم قیمت میں ماسک اوردیگرحفاظتی سامان فراہم کیاگیا۔

تائیوان میں اطلاعات اوررابطے کامضبوط انفرااسٹرکچرموجودہے۔کوروناکے پھیلاؤکے دوران حکومت نے نجی میڈیاکمپنیوں کے ساتھ مل کروائرس سے بچاؤکی تدابیرپرمبنی پیغامات نشرکیے۔حکومت نے سول سوسائٹی کے ساتھ مل کرایسے نقشے بھی جاری کیےجن میں ملک بھرمیں6ہزارسے زائدمیڈیکل اسٹورزکی نشاندہی کی گئی جہاں ماسک اوردیگرحفاظتی سامان دستیاب تھا۔

حالیہ تاریخ میں یورپ اورامریکانے SARSجیسی وباکاسامنانہیں کیا،اسی وجہ سے یہاں کے لوگ ابھی کوروناوائرس سے پیدا ہونے والے بحران سے نمٹناسیکھ رہے ہیں۔سب سے پہلے تواس غلط فہمی کودورہوناچاہیے کہ کوروناموسمی بخارکی ہی شدیدقسم ہے۔ماہرین کے مطابق کوروناسے متاثرہونے اورہلاک ہونے کی شرح موسمی بخارکی نسبت زیادہ ہے۔اس وباسے تحفظ کی بہترین حکمت عملی اپنے طرززندگی میں تبدیلی لاناہے۔مغربی معاشروں میں جہاں Social DistancingاورSelf-Quarantineجیسے نئے تصورات سامنے آئے ہیں،وہیں ملاقات کے دوران ہاتھ ملانے،گلے ملنے اوربوسے لینے جیسی عادات کوبھی ترک کیاجارہا ہے۔

سوشل میڈیاکے دورمیں حکومت کوچاہیے کہ وہ عوام کااعتمادحاص حاصل کریں اورانہیں درست معلومات اوررہنمائی فراہم کریں ۔ یہ بات بھی پیش نظررہے کہ کوروناکے خوف سے بہت سی بے بنیاداورغلط خبریں بھی گردش کرنے لگتی ہیں،جن سے معاشرے میں خوف وہراس پیداہوتا ہے ۔یہ معاملہ دنیابھرکیلئےچیلنج بناہواہے۔اسی لیے حکومت کوچاہیے کہ وہ افواہوں کوپھیلنے سے روکنے کیلئےخبروں اورمعلومات کی بروقت فراہمی کویقینی بنائیں۔تائیوان نے افواہوں کوروکنے کیلئےTaiwan Fact Check Center قائم کیاجہاں کسی بھی غلط معلومات کی نشاندہی ہونے پر6 منٹ کے اندراس کی تحقیق کرکے اس پروضاحت جاری کردی جاتی ہے۔

کوروناسے بچاؤاوراس پرقابوپانے کیلئےحکومت اورعوام کی مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔اس بحران سے ہمیں یہ تومعلوم ہوگیاہے وباکسی جغرافیائی سرحد کی پابندنہیں ہوتی۔سابق امریکی صدراوبامانے کہاتھاکہ’’آزادی خوف سے زیادہ طاقتور ہے‘‘۔ میں موجودہ صورت حال میں اس جملے میں کچھ ترمیم کروں گاکہ’’باہمی امدادخوف سے زیادہ طاقتورہے‘‘۔عالمی سطح پر معلومات اورطبی سہولیات کے تبادلے سے اس وائرس کے اثرات کوکم کیاجا سکتا ہے۔

ادھرحکومتی نمائندے کاکہناہے کہ حکومت کوروناسے نمٹنے کیلئے ملک بھر میں تشخیص کرنے کے ٹیسٹ کرنے کی صلاحیت میں تیزی سے اضافہ کرنے کی کوشش کررہی ہے۔حکومت ہنگامی بنیادوں پر پہلے ان افراد کا ٹیسٹ کریں جن کے بارے میں خدشہ ہے کہ وہ وائرس سے متاثرہوسکتے ہیں اوراس سلسلے میں ان لوگوں کے ٹیسٹ کرنے کوترجیح دی جائے جو استھما سے متاثروہ افرادجو کوروناوائرس والے افراد سے ملے ہوں،ذیابطیس کے مریض جن کی طبیعت بگڑرہی ہو اوروہ افراد جوہسپتال میں شدید بیماری کی وجہ سے داخل ہیں۔ حکومتی اطلاع کے مطابق ملک بھر میں14لیبزہیں جہاں وائرس کی تشخیص کے ٹیسٹ فراہم کیے گئے ہیں اوروہ مفت ہوں گے لیکن دوسری جانب پاکستان میں کوروناکے ٹیسٹس کی تعداد پربہت سے لوگوں نے خدشات کااظہارکیاکہ ٹیسٹس میں کمی کے باعث پاکستان میں کوروناکی موجودگی کے بارے میں صحیح اعدادوشمارکاعلم ہوسکے گایا نہیں۔

سب سے بہترین ماڈل تائیوان اورجنوبی کوریا کاہے جہاں اموات کی شرح دوفیصد سے بھی کم رہی ہے۔انہوں نے کوروناکی روک تھام کیلئے کئی طریقوں سے کام کیا ہے جن میں سے ایک بہت سے لوگوں کے ٹیسٹ کیے ہیں۔یادرہے کہ عیدکے موقع پرلاک ڈاؤن میں رعائت دینے کی وجہ سے صرف لاہور میں35لاکھ افراد کے متاثرہونے کاخدشہ ظاہرکیاگیاہے۔ اگرکوئی ملک تمام سیاسی اختلافات اورتعصبات کوایک طرف رکھ کروباسے بچاؤ کے مربوط اور بروقت انتظامات کرلے تویہ گڈ گورننس کی طرف ایک اہم قدم ہوگاجووباسے نمٹنے کاایک مؤثرطریقہ ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں