Change The System For National Security

ملکی سلامتی کیلئے نظام بدلاجائے

:Share

پاکستان میں اس وقت جس خوفناک معاشی ابتری اورسیاسی انتشارکاماحول گرم ہے،اس نے پاکستانی قوم کوشدیدترین خوف میں مبتلاکردیاہے۔اسی خوف کے مدنظربالآخرسٹیٹ بینک کووضاحت دینی پڑی کہ پاکستان کوموازنہ سری لنکاسے نہ کریں۔یادرہے کہ سری لنکابھی بھاری قرضوں کے حجم میں ڈھیر ہوگیا جس نے وہاں کی حکومت کوملک سے فرار ہونے پرمجبورکردیا۔اس وقت امریکی ڈالرکے مقابلے میں پاکستانی کرنسی تیزی سے اپنی قدرکھورہی ہے اور ڈالرکی قدرتاریخ کی بلند ترین سطح پرہے اور روزانہ کی بنیادوں پرتین سے چارروپے اضافہ ریکارڈکیاجارہاہے۔19جولائی کوصرف ایک دن میں روپے کے مقابلے میں ڈالر نے تقریبا 7روپے کی بلندچھلانگ لگائی جوملکی تاریخ میں ایک دن میں سب سے بڑااضافہ ہے۔بظاہرموجودہ حالات میں اس کے نیچے آنے کے امکان کم لگتے ہیں۔

ڈالرکی قدرمیں اضافہ اس وقت ہورہاہے جب پاکستان اورآئی ایم ایف کے درمیان جولائی کے وسط میں قرضہ پروگرام کی بحالی کیلئے سٹاف لیول معاہدہ طے پایا ۔وزیرخزانہ نے اگست میں ایکسچینج ریٹ میں استحکام آنے کاامکان ظاہرکیاہے تاہم کرنسی اورمالیاتی امورکے ماہرین کے مطابق یہ استحکام اسی وقت آسکتاہے جب پاکستان کوبیرونی ذرائع سے فنانسنگ شروع ہوجواس وقت مکمل طورپربنداورباعثِ تشویش ہے۔تاہم یہ بحران پاکستان کے معاشی اشاریوں کیلئے منفی ثابت ہورہاہے جس نے پاکستان کے درآمدی بل پر انتہائی برے اثرات کی بناء پرہماری صنعتوں کے بندہونے پر پاکستانی صنعت کاروں نے ملک چھوڑنے کی تیاریاں شروع کردی ہیں۔

پاکستان میں ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت کی وجہ سے مہنگائی کی ایک نئی لہرجنم لیاہے کیونکہ پاکستان اپنی توانائی اورخوردنی ضروریات کیلئے درآمدی اشیاپرانحصار کرتاہے جوڈالرکے مہنگا ہونے سے صارفین کی پہنچ سے باہرہوچکی ہیں۔گزشتہ سال اگست کے مہینے میں ایک ڈالرکی قیمت155سے160روپے کے درمیان موجود تھی۔عمران خان اکثرااپنی تقریرمیں یہ تسلیم کرتے ہیں کہ رواں سال مارچ کے مہینے میں جب ان کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تواس وقت ڈالر178روپے کی سطح پرموجودتھاجبکہ مخلوط حکومت کے قیام کے وقت یعنی11/اپریل کوایک ڈالرکی قیمت182پرموجودتھی جس میں تسلسل اضافے نے30 جون کوختم ہونے والے مالی سال پرڈالرکی قیمت205روپے کی سطح تک پہنچادی۔

آئی ایم ایف کے ساتھ سٹاف لیول معاہدے سے ایک دن پہلے ایک ڈالرکی قیمت210پربندہوئی تھی،جس میں معاہدے کے بعدایک ڈیڑھ روپے کمی ہوئی تاہم آئی ایم ایف معاہدے کااثرایک آدھ دن رہاتاہم اس کے بعد جب ضمنی الیکشن میں تحریک انصاف نے کامیابی حاصل کی تواس نے ملک میں غیر یقینی صورتحال کوجنم دیاجس نے تیزی سے روپے کی قدرمیں خوفناک حدتک تنزلی کاراستہ ہموارکردیاجوابھی تک رکنے کانام نہیں لے رہااورایک ہفتے میں ڈالر240پر پہنچ گیااورتادم تحریر260روپے کوچھوچکاہے اس طرح نئی حکومت کے قیام سے لیکراب تک70روپے کااضافہ ہوچکاہے جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے ساڑھے تین سالہ دورِحکومت میں ڈالرکی قیمت میں55روپے کااضافہ ریکارڈکیا گیاتھا۔عمران خان نے پنجاب کے ضمنی انتخابات میں موجودہ حکومت پرجہاں کئی اورالزامات لگائے وہاں روپے کی قدر میں استحکام لانے میں ناکامی کاذمہ دارٹھہراتے ہوئے انتخابات میں کامیابی توحاصل کرلی لیکن ابھی تک سیاسی جماعتوں میں ملکی معاشی حالات کی بہتری کیلئے کوئی مثبت پروگرام سامنے نہیں آسکااوراس کے برعکس شب وروزایک دوسرے پردشنام طرازی میں اضافہ عروج پرپہنچ گیاہے۔

جولائی کے وسط میں پاکستان اورآئی ایم ایف کے درمیان معاہدہ طے پانے سے پہلے جب ڈالرکی قیمت میں اضافہ ہورہاتھاتواس کی وجہ اس معاہدے میں تاخیرکوقراردیاجارہاتھا تاہم جولائی کے وسط میں معاہدہ طے پانے کے باوجودڈالرکی قیمت میں اضافہ جاری ہے اورحالات سے لگ رہاہے کہ مزید سیاسی کشیدگی پاکستانی معیشت کیلئے خطرناک ثابت ہو گی۔ ابھی تک صرف آئی ایم ایف سے معاہدہ ہواہے(مگر)پیسے نہیں آئے اور اگست میں جب آئی ایم ایف بورڈبیٹھے گاتواس کے بعدہی پیسے ملنے کاامکان ہے۔ابھی تک پتا نہیں کہ آئی ایم ایف کی مزیدکون سی شرائط ہیں،جوابھی تک سامنے نہیں آئیں جن کی تکمیل کے بعدپیسے ملیں گے۔آئی ایم ایف کی جانب سے پیسے نہ آنے کی وجہ سے دوسرے ذرائع سے بیرونی فنانسنگ بھی رکی ہوئی ہے۔

دوسری طرف پاکستان کادرآمدی بل،تجارتی خسارہ اورسیاسی بحران ڈالرکی قیمت میں مسلسل اضافے کاسبب بن رہے ہیں۔آئی ایم ایف معاہدے کے بعد سٹیٹ بینک آف پاکستان کاایکسچینج ریٹ میں مداخلت کاکردارمحدودہوگیاہے جس کی وجہ سے اب یہ ڈالرکو ایک خاص سطح پربرقراررکھنے کے سلسلے میں کوئی کردارادانہیں کرسکتا۔دوسری جانب جون میں درآمدکی جانے والی توانائی کی مصنوعات کی ایل سی کوسیٹل کرنے کیلئے اتنازیادہ دباؤآیا کہ کہ اس نے ڈالرکی طلب کوبہت زیادہ بڑھادیا۔ماہرین کے مطابق افغانستان کی جانب ڈالرکی بڑھتی اسمگلنگ نے بھی ڈالرکی قیمت میں اضافہ کردیاہے۔کراچی اور لاہور کے مقابلے میں پشاورمیں پانچ روپے اورافغانستان میں 10روپے کے اضافے سے فروخت ہورہاہے۔افغانستان کی درآمدی ضروریات کی وجہ سے پاکستان کا درآمدی بل ماہانہ بنیادوں پرساڑھے چارارب ڈالرسے ساڑھے سات ارب ڈالرتک چلاگیا۔

گزشتہ سال اگست میں پاکستان کے پاس بیس ارب ڈالرکے زرمبادلہ کے ذخائرتھے جواس وقت نوارب ڈالرتک رہ گئے ہیں۔مستقبل میں روپے کے مقابلے ڈالرفی الحال بے لگام ہوچکاہے اوراس بارے میں یقین سے نہیں کہاجاسکتاکہ یہ کہاں جاکررکے گا۔جب تک سیاسی استحکام نہیں آتااوربیرونی ذرائع یعنی آئی ایم ایف اوردوست ملکوں سے ڈالر نہیں آتے تب تک روپے کی قدرگرتی رہے گی۔ تاہم جون کے مہینے میں ہونے والی درآمدات کی جولائی میں ایل سی سیٹل ہونے کااب دباؤکم ہورہاہے جس کی وجہ سے امکان ہے کہ روپے پردباؤکم ہوگا۔اس کے ساتھ گاڑیوں، موبائل فونزاوردوسری چیزوں کی درآمد کیلئے ایل سی کھولنے پرقوانین میں سختی بھی مزیداضافے کوروکنے میں مددگارہوگی۔تاہم معاشی ماہرین کے مطابق اگرآئی ایم ایف سے پیسے مل بھی جاتے ہیں توپھربھی ڈالرکی قیمت میں کسی بڑی کمی کاامکان موجودنہیں اورڈالرزیادہ سے زیادہ چارپانچ روپے گرے گا۔اب ضرورت اس امرکی ہے کہ ملک کی معاشی ابتری کے ذمہ دارتمام سیاسی جماعتوں کے غیرسنجیدہ رویے کی بناپران کومستردکرکے ملکی سلامتی کیلئے عوام اپناکرداراداکریں اورچہرے بدلنے کے ساتھ ساتھ نطام کوبدلنے کی تحریک چلائیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں