ولی عہدمحمدبن سلمان نے قطرسے کشیدہ تعلقات کے تین سالہ دورمیں تمام معاملات اپنے ہاتھ میں رکھے۔انہوں نے جب یہ دیکھا کہ معیشت خرابی کا شکارہے اورایران کی طرف سے کوئی حوصلہ افزااشارہ نہیں مل رہاتوانہوں نے بہتریہی سمجھاکہ تنازع اور محاذآرائی کی راہ ترک کرکے مصالحت اور مفاہمت کے راستے پرگامزن ہواجائے۔تب سعودی عرب کے حقیقی حکمران(ولی عہد) نے اس بحران کوختم کرنے کیلئے5جنوری کو سعودی شہرالعلٰی میں قطرکے حکمران کوگلے لگاکرتنازع ختم کرکے خودکوامن کی راہ ہموارکرنے والے اورمفاہمت پرآمادہ رہنماکے روپ میں پیش کیاہے۔اس کے چندگھنٹوں کے بعدہی تیل کی پیداوارمیں ملین بیرل یومیہ کی کٹوتی کااعلان کرکے تیل کی عالمی منڈی کوہلا دیااوراس اقدام کوخیرسگالی کامظہرقراردیا۔سعودی عرب کے وزیر توانائی کہتے ہیں کہ یہ حکم براہِ راست ولی عہدکی طرف سے آیااوراس کے نتیجے میں امریکا میں توانائی کے اداروں کے شیئرز کی قیمتوں میں غیرمعمولی اضافہ ہوا۔
کیونکہ جوبائیڈن نےاپنی انتخابی مہم کے دوران وعدہ کیاتھاکہ وہ سعودی عرب کومستردکرکے الگ تھلگ کردیں گے۔اس لئے ان دنوں سعودی رہنما جوبائیڈن کی موافق پوزیشن میں آنے کیلئے کوششیں کررہے ہیں۔سعودی ولی عہدنے2015ءمیں مملکت کے معاملات اپنے ہاتھ میں لیے تھے۔
تب سے اب تک تیل برآمدکرنے والے سب سے بڑے ملک نے بعض ایسی خطرناک مہمات شروع کی جن کی اس سے توقعات کم ہی وابستہ کی جاتی رہی ہیں۔ یمن میں جاری خانہ جنگی میں حصہ لینا،روس سے تیل کی قیمتوں کے معاملے میں سردجنگ وغیرہ نمایاں معاملات ہیں۔
ایک خلیجی ریاست کے سفارت کارنے بتایاکہ ولی عہدنے طاقت کے دولیورایک ساتھ کھینچے ہیں۔ایک طرف توانہوں نے ٹرمپ انتظامیہ سے بہتر تعلقات سے زیادہ سے زیادہ فوائدکشیدکرنے کی کوشش کی۔ٹرمپ کے داماداورخصوصی مشیرجیرڈ کشنرکوبھی قطرسے تعلقات بہتربنانے کی تقریب میں مدعوکیاگیااوردوسری طرف انہوں نے تعمیری سوچ کاحامل ہونے اورامن کوترجیح دینے والادکھائی دے کرجوبائیڈن کویہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ انہیں(محمدبن سلمان کو)نظراندازکیاجاسکتاہے نہ الگ تھلگ ہی رکھاجاسکتاہے۔واشنگٹن کے امریکن انٹرپرائزانسٹی ٹیوٹ کے ریزیڈنٹ اسکالرکیرن ینگ کاکہناہے کہ محمدبن سلمان نے خودکو قائدانہ کردارکیلئے تیارکیاہے تاکہ امریکامیں نئی انتظامیہ سے زیادہ سے زیادہ سفارتی فوائد حاصل کیے جاسکیں۔ ساتھ ہی ساتھ محمدبن سلمان نے بظاہریہ بات بھی محسوس کی ہے کہ پچھلے چاربرس کے دوران انہوں نے خارجہ پالیسی کے شعبے میں کچھ زیادہ مہم جوئی کی ہے۔
ٹرمپ نے سعودی عرب سے خاصی قربت اختیارکی تھی۔امریکی صدرکی حیثیت سے پہلےغیرملکی دورے میں وہ سعودی عرب گئے تھے۔ایسا کرکے انہوں نے سعودی عرب کے کٹرمخالف ایران کوسخت پیغام دیاتھا۔یوں انہوں نے ولی عہدکوسعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے مابعد اثرات سے محفوظ رکھنے میں کلیدی کرداراداکیا۔جمال خاشقجی کو2018ءمیں ترکی کے شہر استنبول کے سعودی قونصلیٹ میں قتل کردیاگیا تھا ۔
ایسانہیں ہے کہ صرف جوبائیڈن نئے لہجے میں بات کررہے ہیں۔ولی عہدنے بھی دوسرے معاملات پرزیادہ توجہ دیناشروع کردی ہے۔سعودی معیشت میں تنوع پیداکرنے اورتیل پرکلیدی انحصارکی پالیسی کوبڑے دھچکے لگے ہیں۔کئی معاملات میں سعودیہ کی ساکھ کوشدیدنقصان پہنچا ہے۔کروناکی وبانے اندرون ملک بھی بہت سے چیلنج کھڑے کیے ہیں۔2020ءکابڑاحصہ انہوں نے عوام سے دوراپنے’’برین چائلڈ‘‘نیوم(بحیرہ احمر) میں گزارا۔ یہ شہرمستقبل کے حوالے سے ان کے بہت سے منصوبوں کامرکزہے۔ کروناوباکے دوران سعودی فرماں رواسلمان بن عبدالعزیزاوروزیر خزانہ محمد الجدان نے عوام کی ڈھارس بندھائی۔
5جنوری کی سعودی قطرسربراہ ملاقات میں شاہ سلمان شریک نہ ہوئے۔ولی عہدمحمدبن سلمان میرِمحفل تھے۔جوکچھ وہاں تھااس سے محمدبن سلمان کے ارادے صاف ظاہرہوئے یعنی العلٰی کوعالمی سیاحتی مرکزمیں تبدیل کرنا۔مذاکرات کے بعدولی عہدنے قطر کے امیرشیخ تمیم بن حماد الثانی کواپنی سفید لیکسس میں بٹھایاجسے خودچلا رہے تھے۔چندسال قبل تک اس کاتصورتک محال تھا۔ ولی عہدکے مشیرقطرکوخاصی باقاعدگی سے مطعون کرتے رہتے تھے ۔سعودی عرب اوراس کے اتحادی خلیج کی مالدارریاست پر اپنے معاملات میں مداخلت کاالزام عائدکرتے رہے ہیں۔یہ الزام بھی عائدکیاجاتارہاکہ قطرانتہا پسندی کوہوادیتارہاہے،اپنے فعال اور بااثرٹی وی چینلزکوپڑوسیوں کے خلاف پروپیگنڈے کیلئے بروئے کارلاتارہاہے۔قطران الزامات کوبے بنیادقرار دیتا رہا۔گلف ریسرچ سینٹرکے سینیرریسرچ فیلواورسیاسی تجزیہ کارہشام الغنم کہتے ہیں کہ خطے کی بدلتی ہوئی صورت حال اورجوبائیڈن کے ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق بین الاقوامی معاہدے سے دوبارہ وابستہ ہونے کے امکان کاجائزہ لینے کے بیان کے ساتھ ساتھ ایران پرتوجہ مرکوز رکھنے کی خواہش نے سعودی عرب کوقطرسے تعلقات بحال کرنے کی راہ دکھائی ہے۔ جوبائیڈن کی اس بات نے سعودی عرب کوپڑوسیوں سے متعلق اپنے تعلقات پر نظرثانی کرنے اورانہیں بہتربنانے کی تحریک دی ہے۔اب سعودی عرب خلیجی ریاستوں کے درمیان پائے جانے والے تنازعات کاحصہ بننے کی بجائے اب ریفری یامصالحت کارکاکردارادا کرناچاہتاہے۔
تیل کی یومیہ پیداوارمیں کٹوتی کافیصلہ علاقائی اورعالمی سطح پرسعودی عرب کی پالیسی میں تبدیلی کاایک اورمظہرہے۔سعودی عرب کے وزیرتوانائی اورولی عہدکے بڑے’’نصف بھائی‘‘عبدالعزیزبن سلمان کہتے ہیں کہ تیل کی یومیہ پیداوارمیں کٹوتی کا فیصلہ یہ ظاہرکرتاہے کہ سعودی عرب تیل کی دنیاکاقائد ہے اوریہ کہ وہ عراق سمیت تیل کے گرے ہوئے نرخوں کے باعث نقصان سے دوچارعلاقائی ممالک کابھلاچاہتا ہے ۔اس سے شاہ سلمان اورمحمدبن سلمان کے عہدمیں سعودی عرب کی آئل پالیسی میں تبدیلی کاثبوت ملتاہے۔سعودی عرب نے عشروں تک تیل کو بالائے سیاست رکھاہے مگراب شاہی محل زیادہ مداخلت پسند ہوگیاہے اورملک میں توانائی کامیکینزم خاصاسیاسی ہوگیاہے۔
سعودی وزیرتوانائی نے تیل کی یومیہ پیداوارمیں کٹوتی کوتکنیکی نہیں بلکہ سیاست وخودمختاری کی علامت جیسااقدام قراردیا۔ بزنس کی معروف ویب سائٹ بلوم برگ نے بتایا ہے کہ اس سے سعودی معیشت کوتھوڑابہت دھچکاضرورلگے گا۔یہ ایک فیصلہ سعودی عرب کی تیل کی آمدنی میں3ارب ڈالرماہانہ کی کمی کاباعث بنے گا۔ تیل کی پیداوارمیں ملین بیرل یومیہ کی کٹوتی کاعالمی منڈی پرفوری اثرمرتب ہوا۔خام تیل کے نرخ دس ماہ کی بلندترین سطح (50 ڈالرفی بیرل) تک جاپہنچے۔اس دوران سعودی عرب روس کوپیداواربڑھانے کی تحریک دے رہاہے۔سعودی عرب اورروس کے درمیان تیل کے نرخوں کی جنگ ایک سال سے بھی زائدمدت تک چلی ہے۔روس کے معاملے میں مفاہمت پرمبنی رویہ اپنانے سے بھی اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ سعودی عرب فی الحال کسی بھی قسم کی محاذآرائی کے موڈمیں نہیں ہیں۔