Causes Of Rise And Fall

عروج وزوال کے اسباب

:Share

اقوام عالم کے عروج وزوال کی تاریخ کے مطالعے سے یہ بات روزروشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ قوموں کو سرفرازی،کامیابی وکامرانی،عظمت وسربلند ی اورعزت وافتخار کے بام عروج تک پہنچانے میں اتحادواتفاق،جذبہ خیرسگالی اوراخوت و بھائی چارگی نے نہائت اہم کرداراداکیاہے۔عزت وا فتخارکی فلک بوس چوٹیوں سے ذلت ورسوائی،نکبت وپستی اورانحطاط وتنزل کی رسواکن وادیوں میں قومیں اس وقت جاگرتی ہیں جب باہمی اخوت واتحاد کی رسی کمزورپڑجاتی ہے اور معاشرے میں نااتفاقی، خودغرضی،ناانصافی اورعدم تعاون جیسی مہلک بیماریاں جنم لینے لگتی ہیں،جوقومی وسماجی بنیادکودیمک کی طرح چاٹ کر کھوکھلاکردیتی ہیں اورپورامعاشرہ عدم توازن سے دوچارہوکرانحطاط وتنزلی کی گہرائیوں میں گرپڑتاہے جس کے نتیجے میںپوری قوم بدامنی و انارکی،انتشارولامرکزیت کاشکارہوکرذلت ورسوائی اوربے یقینی کی زندگی بسرکرنے پرمجبورہوجاتی ہے۔اس کوسمجھنے کیلئے ہماری درخشاں تاریخ سے ہمارے زوال کی یہ ایک مثال ہی کافی ہے:

جب مصطفیٰ کمال اتاترک نے خلافت کاخاتمہ کیاتوآل عثمان کوراتوں رات گھریلولباس ہی میں یورپ بھیج دیاگیاجبکہ شاہی خاندان (ملکہ اورشہزادوں)نے التجاکی کہ یورپ کیوں؟ ہمیں اردن،مصریاشام کس عرب علاقے ہی میں بھیج دیاجائے لیکن کمال اتاترک کاصہیونی آقاؤں کی آتشِ انتقام کوٹھنڈاکرناان کوآخری درجے تک ذلیل کرنامقصودتھاچنانچہ کسی کویونان میں یہودیوں کے مسکن سالونیکااورکسی کویورپ روانہ کیاگیااورآخری عثمانی بادشاہ سلطان وحید الدین اوران کی اہلیہ کوراتوں رات فرانس بھیج دیاگیااوران کی تمام جائیداد ضبط کرلی گئی یہاں تک کہ خالی جیب اس حال میں انہیں رخصت کیاگیاکہ ایک پائی تک ان کے پاس نہ تھی،تاریخ گواہ ہے کہ سلطان وحید الدین کے شہزادے منہ چھپاکرپیرس کی گلیوں میں کاس گدائی لیے پھرتے تھے کہ کوئی انہیں پہچان نہ پائے۔پھرجب سلطان کی وفات ہوئی توکلیساان کی میت کوکسی کے حوالے کرنے پرآمادہ نہ ہواکیونکہ دکانداروں کا قرض ان پرچڑھاہواتھا، بالآخر مسلمانوں نے چندہ کرکے سلطان کاقرض اداکرکیان کی میت کوشام میں سپردخاک کرنے کیلئے روانہ کردیا۔

بیس سال بعدجنہوں نے سب سے پہلے ان کی خبرگیری کی وہ تر کی کے پہلے منتخب وزیراعظم عدنان مندریس تھے۔شاہی خاندان کی تلاش کیلئے وہ فرانس گئے اورپیرس کے سفر میں وہ کہتے تھے کہ مجھے میرے آباؤاجدادکاپتہ بتاؤ،مجھے میری ماں سے ملاؤ۔ بالآخروہ پیرس کے ایک چھوٹے سے گاؤں پہنچ کرایک کارخانے میں داخل ہوئے توکیادیکھتے ہیں کہ سلطان عبدالحمید کی 85سالہ زوجہ ملکہ شفیقہ اوران کی60سالہ بیٹی شہزادی عائشہ ایک کارخانے میں نہایت معمولی اجرت پر برتن مانجھ رہی ہیں۔یہ دیکھ کرمندریس اپنے آنسونہ روک سکے اورزاروقطارروپڑے،پھران کاہاتھ چوم کرکہنے لگے:مجھے معاف کیجیے، خدارا،مجھے معاف کیجیے!شہزادی عائشہ نے پوچھا:آپ کون ہیں؟کہا:میں بدنصیب ترک وزیراعظم عدنان مندریس ہوں۔اتناسنناتھاکہ وہ بول اٹھیں: بڑی دیرکردی مہرباں آتے آتے ……ہم کواس ظالمانہ اندازمیں کیوں فراموش کردیاگیا……یہ کہہ کرفرطِ غم میں بے ہوش ہوکر گرپڑیں۔

عدنان مندریس نے انقرہ واپسی پرجلال بیار سے کہاکہ میں آل عثمان کیلئے معافی نامہ جاری کرناچاہتاہوں،اوراپنی ماں کوواپس لاناچاہتاہوں،بیارنے شروع میں تو اعتراض کیا، مگرمندریس کے مسلسل اصرارپرصرف عورتوں کوواپس لانے کی تائیدکی۔عدنان مندریس خودفرانس گئے اورملکہ شفیقہ اورشہزادی عائشہ دونوں کوفرانس سے ترکی لے آئے مگر شہزادوں کیلئے معافی نامہ جاری کرکے ان کواپنے وطن عزیز ترکی لانے کاسہرامرحوم اربکان کے سرجاتاہے جب وہ وزیر اعظم کے منصب پرفائزتھے۔
چشم فلک نے یہ روح فرسامنظربھی دیکھاکہ جب مندریس پرجھوٹامقدمہ چلاکران کوتختہ دارپرلٹکایاگیاتومنجملہ الزامات میں ایک الزام یہ بھی تھاکہ انہوں نے حکومت کے خزانے سے چوری کرکے سلطان کی اہلیہ اوربیٹی پرخرچ کیاہے،اس لیے کہ وہ ہرعید کے موقع پرملکہ اورشہزادی سے ملاقات کیلئے جاتے،ان کے ہاتھ چومتے،اوراپنی جیب خاص اوراپنے ذاتی جیب سے10ہزارلیرہ سالانہ شہزادی عائشہ اورملکہ شفیقہ کی خدمت میں پیش کرتے تھے۔ جب17ستمبر1961کوعدنان مندریس شہیدہوئے تودوسرے ہی دن دونوں (ملکہ اورشہزادی)بھی اس صدمے کوبرداشت نہ کرسکیں اورسجدے کی حالت میں اللہ کے ہاں حاضرہوگئیں۔

یہ سلوک ہے نام نہادجمہوریت پسندوں اورسیکولرزم کاڈھنڈوراپیٹنے والوں کا۔اسلام اورمسلمانوں کے ساتھ، نہ کوئی مروت نہ شرافت،نہ صلہ رحمی،نہ قرابت داری ،نہ اخلاق کاپاس نہ قدروں کالحاظ،یہ جوقومیت اوروطنیت کا راگ الاپتے ہیں اورنعرے لگا لگا کرجن کی زبانیں نہیں تھکتیں ان کامقصدبجز اس کے اورکیاہے کہ اسلامی اخوت سے لوگوں کارشتہ کاٹ دیاجائے اوراس مقدس رشتے کے تانے بانے کوبکھیرکراس کوایسے جاہلی رشتوں میں تبدیل کیاجائے جن میں احترام ذات مفقودہے اورحرمتوں اورانسانی رشتوں کاکوئی پاس ولحاظ نہیں۔

یہ ہے روئے زمین پرموجودشیطان کے چیلوں کامسلمانوں سے سلوک اوراب بھی مسلمانوں سے ان کی نفرت کایہ حال ہے کہ کبھی یہ ہمارے آقاخاتم النبین ﷺکے کارٹون بناکر مسلمانوں کے دلوں کوٹھیس پہنچائی جاتی ہے اورکبھی ہماری مقدس کتاب”قرآن کریم”کی بے حرمتی کی جاتی ہے۔ تعصب کایہ حال ہے کہ مسلمان خواتین کے پردے کے بارے میں بیجاپابندیاں لگاکران کوگھروں میں نہ صرف پابندکردیاگیابلکہ مسلمان بچیوں کوپردہ کرنے کے باعث تعلیمی اداروں سے خارج کردیاگیاجبکہ منافقت کایہ حال ہے کہ عیسائی راہبائیں اپنے جسم پرمکمل لباس کے ساتھ پوراسرڈھانپتی ہیں توان کے احترام میں جھک کرتحسین پیش کرتے ہیں۔ہماری نوجوان نسل کااس دوعملی سے باخبررہنابڑاضروری ہے کہ نجانے کس بھیس میں دوبارہ حملہ آورہو کر ہمیں دوبارہ غلامی کی آگ میں جھونک دیاجائے۔ یہ قصے بچوں کوسلانے کیلئے نہیں بلکہ سوتوں کوجگانے اورجواں نسل کوکمربستہ کر نے کیلئے ہیں۔علامہ اقبال نے کیاخوب فرمایا:
اٹھ کہ اب بزمِ جہاں کااورہی اندازہے
مشرق ومغرب میں تیرے دورکاآغازہے

یادرکھیں اسلام نے اپنے پیروکاروں کوجن اہم امورکی طرف توجہ دلاکران پرعملی جا مہ پہنا نے کی ترغیب دی ہے ان میں باہمی اتحاد،قومی یکجہتی اور معاشرتی اتفاق کوخاص اہمیت حاصل ہے۔ایک قابل قدرمعاشرہ اورسماج اسی وقت وجودمیں آسکتاہے جب اسے ملک وقوم اورنسل ورنگ سے ہٹ کر ایسے جا مع اصول پرتشکیل دیاجائے جس کواپنانے سے لوگوں کے دلوں میں یگانگت اوراپنائیت کا جذبہ پیداہواورجس کے سا منے دیگرتمام ناقابل عمل امتیازات وخصوصیات معدوم ہوکررہ جائیں۔رب کریم نے اسی حقیقت کی طرف “قر آن”میں خاص اندازسے رہنمائی کی ہے: ”اے لوگو!ہم نے تم کوایک مرد اورایک عورت سے پیداکیاہے اورتم کومختلف قوموں اورمختلف خاندانوں میں بنایاتاکہ ایک دوسرے کی شناخت کرسکواللہ کے نزدیک تم میں بڑا(شریف اورعزت دار)وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگارہو،اللہ خوب جا ننے والا،باخبر ہے”۔ (الحجرات:13) اسلام چونکہ مسا وات اوربھائی چارے کاپیغام دیتاہے،اس لئے اس دین میں بڑائی اورعظمت کامعیارحسب ونسب پرنہیں،بلکہ تقوی اوراعمال صالحہ پر رکھاگیاہے۔اسی مضمون کو قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے یوں بھی بیان فرمایاہے ”وہی ذات ہے جس نے تم کوپیداکیا،تم میں بعض کافراوربعض مومن ہیں”۔

یعنی اولادآدم علیہ السلام سب ایک برادری ہیں اورپوری دنیاکے انسان اسی برادری کے افرادہیں۔اس برادری کوالگ کرنے اور الگ گروہ بنانے بنانے والی چیزصرف کفرہے۔ رنگ اورزبان،نسب اورخاندان،وطن اورملک میں سے کوئی چیزایسی نہیں جو انسانی برادری کومختلف گروہوں میں بانٹ دے۔ ایک باپ کی اولاداگر مختلف شہروں میں رہنے لگے اور مختلف زبانیں بولنے لگے یاان کے ر نگ میں تفاوت ہوتووہ الگ الگ گروہ نہیں بن جاتے،اختلاف رنگ وزبان اوروطن وملک کے باوجودیہ سب آپس میں بھائی بھائی ہیں،کوئی سمجھ دارانسان ان کومختلف گروہ قرارنہیں دے سکتا۔قرآن کریم کی مذکورہ آیت اس پربھی شاہدہے کہ اللہ رب العزت نے تما م بنی آدم کوصرف کافرومومن دوگروہوں میں تقسیم فرمایا ،اختلاف رنگ وزبا ن کوقرآن کریم نے اللہ کی قدرت کاملہ کی نشانی اورانسان کیلئے بہت سے معاشی فوائدپرمشتمل ہونے کی بنا پرایک عظیم نعمت توقراردیا،مگر اسے بنی آدم میں گروہ بندی کاذریعہ بنانے کی اجازت نہیں دی۔

اسلام نے جس ہمہ گیرپیمانے پرباہمی تعاون کی اہمیت کااحساس دلایاہے،اس کی بنیادپرقائم ہونے والامعاشرہ ایک صالح اور مستحکم معا شرہ ہوگا۔جس میں ملک وقوم،رنگ ونسل، زبان ووطن اورخاندان کی بجا ئے ایمان ویقین،اخوت ومساوات،تعاون و حمایت،ہمدردی وخیرخواہی اورصدق وامانت کے اعتراف اوراس کو برتنے کاجذبہ کارفرماہوگا۔قرون اولیٰ کے مسلمانوں نے ان اصول وضوابط پرجومعاشرہ تشکیل دیاتھاوہ ایک صالح اورمنظم معاشرہ تھا جس کاہرفرددوسرے سے اس قدرمربوط تھاکہ حاکم و محکوم،آقاوغلام کے مابین امتیازکرنامشکل نظرآتاتھا۔کسی کودوسرے سے ممتازکرنے والی اگرکوئی صفت تھی تووہ اطاعت الہٰی اورتقویٰ کی صفت تھی اوریہی اوصاف آج ہم میں مفقودہیں جس کی بناپرمسلمان قعرمذلت میں گرتاچلاجارہاہے جبکہ میرے آقا جناب محمدﷺنے بارہااس حقیقت کااظہار فرماتے ہوئے امت کواطاعت وتقویٰ کادرس دیاہے۔

فتح مکہ کے دن رسولﷺ نے اپنی اونٹنی پرسوارہوکرطواف فرمایا،طواف سے فارغ ہوکرآپﷺنے یہ خطبہ ارشادفرمایا”اللہ کاشکر ہے جس نے رسوم جاہلیت اوراس کے تکبرکوتم سے دورکردیا،اب تمام انسا نوں کی دوقسمیں ہیں،ایک نیک اورمتقی،وہ اللہ کے نزدیک شریف اورمحترم ہے، دوسرا فاجراورشقی، جواللہ کے نزدیک ذلیل اورحقیرہے،اس کے بعدیہ تلاوت فرمائی جواوپرمذکورہے۔ایک دوسری حدیث میں سرکاردوعالمﷺ نے نہائت ہی تہدیدآمیزکلمات اس سلسلے میں ارشادفرمائے کہ”ہمارے زمرے سے خارج ہے جو عصبیت کی دعوت دے،وہ ہم سے نہیں جوعصبیت کی بناپرجدال وقتال کرے،وہ ہماری جماعت سے نہیں جس کاخاتمہ عصبیت پرہو”(سنن ابوداؤد)

آپ ﷺکا ارشادگرامی ہے ”کسی عربی کوعجمی پراورکسی عجمی کوکسی عربی پر،نہ کسی گورے کوکالے پراورنہ کسی کالے کو کسی گورے پرفضیلت ہے،تم سب آدم کی اولادہواورآدم کومٹی سے پیداکیاگیاتھا”(مسند احمد) مسلمانوں کی پستی اورذلت کی اصل وجہ جہاں احکام اسلام کی پیروی سے انحراف ہے وہیں ایک بڑاسبب باہمی اختلاف وانتشار بھی ہے حالانکہ اتحادمیں وہ فولادی قوت مضمرہے جس کے ذریعے پہاڑوں سے ٹکرانے،طوفان کے مقابلے میں ڈٹ جانے اور ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندرمیں کودپڑنے کاجوش وولولہ پیداہوتاہے،ہرمحاذپرپامردی اورثابت قدمی کانمونہ پیش کرنے کاجذبہ دل میں موجزن رہتاہے اورجب اتحادکی جگہ انتشارلے لیتاہے تودلوں میں بزدلی آجاتی ہے،پیروں میں جنبش آجاتی ہے،مقابلے کی قوت سلب ہوجاتی ہے۔
شاعر علا مہ اقبال نے بڑی اچھی منظر کشی کی ہے
ایک ہو جائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں
ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا بات بنے

کاش عصرحاضرکے مسلمان حکمران بالعموم اوربالخصوص پاکستانی قوم پنی تنزلی اورپستی کے اسباب پرغورکریں اوراپنے آپ کو اسلامی رنگ میں ڈھالنے کی کوشش کریں۔پاکستانی سوسائٹی کو سیاسی ابتری نے کئی ٹکڑوں میں تقسیم کررکھاہے بلکہ دلوں میں نفرت کایہ عالم ہے کہ سوشل میڈیاپرجی بھرکرایک دوسرے کومطعون کیاجاتاہے۔بے بنیاداوربے سروپا الزامات نے جہاں ہمارے اخلاق کوتباہ کردیاہے وہاں اسلامی روایات کابھی کھلم کھلامذاق اڑایاجاتا ہے۔خدارا! اس روشن خیالی سے جلدتائب ہوکراپنے اللہ کے حضورسچے دل سے توبہ واستغفارکیلئے جھک جائیں،کیونکہ مسلمانوں کی بقاصرف اور صرف اسلام کے پر چم تلے اوراسلاف کی اتباع اورماضی کی روشنی میں حال تعمیرکرنے میں ہے ۔دورماضی سے اس قدرقریب ہوں کہ قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی یادآئے۔پھرجومعاشرہ یاسماج وجودمیں آئے گاوہی دنیاکا صالح اورمستحکم ترین معاشرہ ہوگااوراسی سے آپس میں بھائی چارگی اور دوسروں کے مقا بلے میں ثابت قدم رہنے کاجذبہ پیداہو گااور یہی معاشرہ دنی اکیلئے نجات دہندہ ثابت ہوگاانشاءاللہ ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں