رواں سال کنزرویٹیو پارٹی کی سربراہی کی دوڑمیں رشی سوناک کولزٹرس سے شکست ہوگئی تھی تاہم اب وہ برطانیہ کے نئے وزیراعظم بن چکے ہیں۔اس امرنے نے برطانیہ کی سیاست میں رنگ ونسل اورمذہب پرنئی بحث چھیڑدی ہے۔برطانیہ کے پہلے ہندواورغیرسفیدفام وزیراعظم ہونے کی حیثیت سے رشی سوناک دنیا بھر کی توجہ کے مرکز بن گئے ہیں۔ان کا موازنہ امریکا کے پہلے سیاہ فام صدر باراک اوباما سے کیا جاتا ہے لیکن ان دونوں کے درمیان مماثلت کم اور فرق زیادہ نظر آتا ہے۔کینیاسے تعلق رکھنے والے اوباماکے والدان کی زندگی میں کم ہی رہے اور اوباما کو ان سفیدفام امریکی والدہ نے پالا۔ مخلوط نسل کے اوباما سفید فام اور سیاہ فام لوگوں سے یکساں تعلق رکھ سکتے ہیں اور سیاہ فاموں کے ساتھ ان کاتعلق ان کی اہلیہ مشعل اوباما کی وجہ سے مزید مضبوط ہوا جن کا تعلق امریکی سیاہ فام برادری سے ہے۔
ایک وکیل اورکمیونٹی آرگنائزرکی حیثیت سے ڈیموکریٹ پارٹی میں اوباماکے ابھرنے اورانتخابات میں جیت کے بعد8سال تک صدارت کے عہدے پرفائزرہنے کوان کی ذاتی کشش اورشخصیت کااثرقراردیاجاسکتاہے۔دوسرے جانب رشی سوناک کی بات کی جائے توان کے بارے میں اویناش پالیوال نے”انڈین ایکسپریس” میں لکھا ہے کہ وہ اک”حادثاتی وزیراعظم” ہیں۔ان کی پارٹی نے چند ماہ قبل انہیں پارٹی لیڈر کے طور پر مسترد کر دیا تھا کیونکہ ان کی ذاتی مقبولیت کم تھی اور کنزرویٹیو پارٹی کی روایات کے مطابق رشی سوناک کی ذات اورمذہب کی وجہ سے ان کی سربراہی میں کنزرویٹیو پارٹی کےلئے انتخابات جیتنامزیدمشکل ہوجاتا۔اس کے باوجود لزٹرس نے بطور وزیر اعظم غیرتسلی بخش کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور انہیں 45دن بعد ہی وزیراعظم کا عہدہ چھوڑنا پڑا تورشی سوناک کو ایک اور موقع مل گیا اور ان کی لاٹری کامیاب ہوگئی۔
اب تارکین وطن کی مخالف پارٹی کومشرقی افریقاسے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کابیٹاچلارہاہے۔اوباماکی طرح،رشی سوناک کے والد بھی کینیامیں پیداہوئے۔ اوباماعیسائی مذہب پرعمل پیراتھے،ان کے برعکس رشی سوناک کاتعلق ہندومذہب سے ہے۔ان کی اہلیہ اکشتامورتی بھارتی شہری ہیں جن کے پاس برطانوی شہریت نہیں ہے چونکہ وہ ایک ارب پتی باپ کی بیٹی ہیں،اس لئے انہیں برطانوی شہریت نہ لینے سے برطانیہ میں ٹیکسوں کی ادائیگی سے بچنے میں مددملی۔ ان دونوں کی مجموعی آمدنی80 کروڑڈالرہے جوانہیں برطانیہ کے بادشاہ چارلس سے بھی زیادہ امیربناتی ہے لیکن کوئی چیزبھی رشی سوناک کونسل پرستوں کیلئے قابل قبول نہیں بناتی۔سوشل میڈیاپروائرل ہونے والے ایل بی سی پوڈوکاسٹ کے ایک کلپ نے اس بات کوکافی حدتک واضح کردیاہے۔
اس کلپ میں جیری نامی کالر،جوکہ کنزرویٹیو پارٹی کے بورس جانسن کے حامی تھے،نے افسوس کے ساتھ کہاکہ”کوئی بھی مجھے پاکستان یاسعودی عرب کاوزیراعظم نہیں بنائے گاپھرکیوں رشی سوناک جیسے اس قدرمختلف شخص کوبرطانیہ چلانے کی اجازت دی جارہی ہے؟پوڈکاسٹ کی میزبان سنگیتامسکا نے اصرارکیاکہ چونکہ رشی سوناک برطانیہ میں پیداہوئے ہیں اس لئے انہیں وزیراعظم بننے کاپوراحق حاصل ہےلیکن جیری نے اس بات سے اتفاق نہیں کیااورکہاکہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتاکہ آپ کہاں پیداہوئے ہیں۔جیری نے اپنے ساتھی کاذکربھی کیاجویوگنڈامیں پیداہوالیکن وہ اسی طرح کاانگریزہے اوراس کی جیری کے ساتھ فوج میں بھی اپنی خدمات انجام دی ہیں۔اس کے بعدسنگیتانے جیری کی حب الوطنی کوصرف سفیدفاموں کیلئے مخصوص کر دینے کے خیال پرسوال کیاجس پرجیری نے کوئی تکرارنہیں کی۔
یقینی طورپرجیری جیسے لوگ ہرجگہ موجودہیں۔امریکامیں انہوں نے ہی دوسری نسل کے لوگوں سے نفرت کی تحریک”میک امریکاگریٹ اگین” کوہوا دی۔جس کی قیادت ٹرمپ کررہے تھے۔اس تحریک کوبارک اوباما کے دونوں ادوارحکومت کے بعدان حلقوں میں پیداہونے والے تعصب نے ہوا دی ۔لیکن یقین جانئے کہ جیری اوراس جیسے دیگرلوگ ہاری ہوئی لڑائی جیتنے کی کوشش کر رہے ہیں۔تارکین وطن افرادنے مغربی ممالک کی معیشت میں کلیدی کرداراداکیاہے۔ جومہاجر جتنانیاہوگا،وہ اتنی ہی محنت سے کام کرے گا۔دائیں بازوکی جانب سے امیگریشن کوہزاروں”کی تعدادتک محدودکرنے کے مطالبے کے باوجودکسی حکومت کیلئے ایسا کرنا ممکن نہیں ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ کاروبار چلانے کیلئے تارکین وطن پر انحصار کیا جاتا ہے۔برطانیہ کو بیرون ملک سے ہزاروں لاکھوں مزدوروں کی ضرورت ہے۔
قدرتی طورپرتارک وطن،ابادیاتی تبدیلیوں کاسبب بنتاہے اورجمہوریت کی خوبصورتی یہ ہے کہ وہ سب کونمائندگی کی اجازت دیتی ہے۔اگرچہ رشی سوناک کے پاس عام انتخابات میں کھڑے ہونے کیلئے کوئی حلقہ نہیں ہوگالیکن تارکین وطن کی کئی اولادیں ہوں گی جواپنے حلقوں کی نمائندگی کریں گی اوراعلیٰ عہدوں پرفائزہوں گی۔کینیڈاکے وزیراعظم جسٹن ٹرڈوکی کابینہ میں مسلمان اور سکھ دونوں موجودہیں۔برطانیہ میں پاکستانی تارکین وطن کے بیٹے صادق خان2016ء سے لندن کے میئرہیں۔اس کے علاوہ ساجد جاویدہوم سیکرٹری اورخزانے کے چانسلررہے ہیں بلکہ ابتداتوپاکستانی نژادسعیدہ وارثی کے انتخاب سے ہوئی جوپہلی نہ صرف ایشین بلکہ مسلمان خاتون تھی جوبرطانیہ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کابینہ کی وزیربنی بلکہ کنزرویٹیو پارٹی کی بھی سربراہ بنی، جنہوں نے بعدازاں فلسطین کے اوپراپنے موقف کی بناء پراپنے عہدہ چھوڑدیا۔
مسلمان تارکین وطن کی بیٹی رشیدہ داتی نے فرانس میں وزیرانصاف کے طورپرکام کیا۔احمدابوطالب جومراکش کے چھوٹے سے گاؤ ں میں واقع مسجدکے امام کے بیٹے ہیں اور15سال کی عمرمیں نیندرلینڈہجرت کرگئے تھے،اس وقت روٹرڈیم کے میئرکے طور پرخدمات سرانجام دے رہے ہیں۔آبادیاتی تبدیلیوں کامطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کیلئے سیاسی عہدوں کے حصول کیلئے انتخابات لڑنا آسان ہوجائے گااورایساامریکاسے کہیں زیادہ یورپ میں ہوگا ۔ مثال کے طورپربرسلزکی25 فیصدآبادی مسلمان ہے،فرانس کے کچھ حصے ڈینس میں یہ تناسب45فیصد تک ہے۔لندن میں 14فیصدجبکہ بریڈفورڈ میں یہ تناسب25فیصدہے۔
یہاں اس بات کاتذکرہ بڑاضروری ہے کہ پاکستانی سیاست نے یہاں بھی ہماری کمیونٹی کوتقسیم کررکھاہے اوراب تویہ معاملہ اس قدرآگے بڑھ گیاہے کہ یہاں کی آبادی بھی اس کاسخت ناپسندیدہ نگاہوں سے تنقیدکررہی ہے جبکہ پڑوسی ملک کی سیاسی جماعتوں کے بارے میں یہ شکائت نظرنہیں آتی۔اس کیلئے ضروری ہے کہ ہم نے اورہماری اولادوں نے اب ہمیشہ کیلئے اگریہاں رہناہے تویہاں کی مقامی سیاست میں اپناکرداراداکرتے ہوئے اپنے سیاسی حقوق کے حصول کیلئے خودکومضبوط کریں۔اس میں شک نہیں کہ اس وقت برطانوی پارلیمنٹ،ہا ؤ س آف لارڈزاوربلدیاتی اداروں میں پاکستانی نژادافرادکی تعداد دن بدن بڑھ رہی ہے لیکن اس قدرحوصلہ افزانہیں جتناہماری آبادی کاتناسب ہے۔اس کیلئے ضروری ہے کہ جن پاکستانی افرادنے پاکستان کی سیاست میں حصہ لیناہے تووہ بخوشی واپس وطن میں جاکراپنی قسمت آزمائی کریں اوروہاں کے نظام حکومت میں یہاں پرجاری بہترین تبدیلیوں کو متعارف کروائے جویقیناًوطن عزیزکی بہترین خدمت ہوگی لیکن خدارایہاں پاکستانی سیاست کی بناء پربڑھتی ہوئی خلیج کوبڑھنے سے روکنے کیلئے اپنامثبت کرداراداکریں۔یقیناًبرطانیہ میں یہ آبادیاتی تبدیلی کچھ لوگوں کوپسند نہیں آئے گی اورشائداس بنیادپرنسلی تعصب میں اضافہ بھی ہولیکن اس طویل مدتی دوڑمیں تارکین وطن ہی جیتیں گے۔