Power race

روشن مستقبل…………کڑاامتحان

:Share

وزیرِاعظم عمران خان نے اپنے خطاب میں بالآخراس ملک کا نام لے ہی لیاجس کےعہدیدارنے مبینہ طورپرپاکستانی سفیر سے دھمکی آمیزگفتگو کی۔پہلے اُنہوں نے امریکاکانام لیا،پھرگویااُنہیں احساس ہواکہ ان کی بہادری کی حدیہی ختم ہوجاتی ہے اور اُنہیں نام نہیں لیناتھااورپھراسے”ایک ملک” کہہ کر اپنی باقی ماندہ تقریرمیں امریکاکانام نہ لے سکے۔اپنی تقریرمیں اپنی قوم سے خطاب میں کہاکہ”میں آج آپ کے پاس اس لیے آیاہوں کہ ابھی ہمیں امریکا نے ایک،باہرسے ایک ملک سے پیغام آتاہے۔یہ کسی آزادملک کیلئےجس طرح کاپیغام آیا،جووزیراعظم کے خلاف ہے،قوم کے خلاف ہے،کیونکہ اس میں واضح لکھاہے کہ عمران خان کے خلاف عدم اعتمادآرہی ہے،ان کوپہلے ہی پتہ چل گیا۔عمران خان نے اپوزیشن پرالزام لگاتے ہوئے مزیدکہاکہ ان کے باہرلوگوں سے رابطے ہیں اورمزیدارچیزیہ ہے کہ یہ قیادت یاحکومت کے خلاف نہیں،صرف عمران کے خلاف ہے۔بقول سفیر ،خط کے مطابق ہم معاف کردیں گے پاکستان کو اگر عمران خان عدم اعتماد میں ہارجاتاہے لیکن اگریہ تحریک ناکام ہوجاتی ہے توپاکستان کومشکل وقت کاسامناکرناپڑے گا۔

مبینہ دھمکی آمیزخط کے بارے قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیے میں کہاگیاہےکہ یہ اس ملک میں پاکستانی سفیرکی جانب سے پاکستانی وزارتِ خارجہ کولکھا گیاخط ہے۔عمران خان کے مطابق یہ سرکاری دستاویزہے،ہماراسفیرنوٹس لے رہاتھااورمیراسوال ہے کہ کیایہ ہماری حیثیت ہے کہ ہم سے باہرکاکوئی ملک ایسی کوئی گفتگوکرے؟اس غیرملکی عہدیدارنے میرے روس دورے پر جب اعتراض کیاتواسے بتایاگیاکہ یہ دورہ دفترخارجہ اورعسکری قیادت کے مشورے کے بعدکیا گیا لیکن غیرملکی عہدیداراس کو ماننے کوتیارنہیں تھا۔عمران خان نے اس خط پراپوزیشن کے تحفظات پربھی اعتراض کرتے ہوئے قوم کوبتایاکہ اس خط کوانہوں نے کابینہ کے سامنے رکھا،نیشنل سیکورٹی کمیٹی اورفوجی سربراہان کے سامنے بھی اس خط کورکھاگیالیکن اپوزیشن نے اس خط کو دیکھنے سے کیوں انکارکردیا؟

یادرہے کہ اس معاملے کاآغاز27مارچ کوعمران خان نے پریڈگرائونڈجلسۂ میں اپنی جیب سے وزارت خارجہ کوآئے ہوئےایک خط نکال کولہراتے ہوئے دعویٰ کیاتھاکہ بیرونِ ملک سے ان کی حکومت گرانے کی سازش ہورہی ہے اورانہیں لکھ کردھمکی دی گئی ہے اوریہ تحریک عدم اعتماد اسی کانتیجہ ہے۔ اپنے اس مؤقف میں وزن پیداکرنے کیلئے انہوں نےپہلی مرتبہ سابق وزیر اعظم ذوالفقارعلی بھٹوکی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں کی جانے والی 45سال پرانی پونے دوگھنٹے کی ایک انتہائی جذباتی تقریرکابھی حوالہ دیتے ہوئے الزام لگایاکہ بھٹونے بھی ملک کوآزاد خارجہ پالیسی دینے کی کوشش کی تھی،بھٹونے اپنی تقریر میں اوربعدازاں جسٹس مولوی مشتاق کی عدالت میں امریکاکو سفیدہاتھی سے تشبیہ دیتے ہوئے بیان دیاتھاکہ وہ نہ توبھولتاہے اورنہ ہی معاف کرتاہے اورمیراقصور صرف یہی ہے کہ میں نے ویتنام میں امریکا کی حمایت کرنے سے انکارکیااوراسرائیل کے مقابلے میں عربوں کا ساتھ دینے کااعلان کیاہے۔بھٹونے عدالت کویہ بھی بتایاکہ مجھے ہنری کسینجرنے دہمکی دی کہ اگر آپ نے ری پروسیسنگ پلانٹ کے معاہدے کو منسوخ،تبدیل یامعطل نہیں کیاتوہم آپ کوایک خوفناک مثال بنادیں گےاورمیں نے جواب میں واضح کردیاکہ اپنے ملک اورپاکستان کے عوام کی خاطر اس بلیک میلنگ اوردہمکی کونہیں مانوں گا۔اس لئے انہیں یہ سزادی جارہی ہے۔

1974میں جب انڈیانے”سمائلنگ بدھا”کے نام سے ایٹم بم کاتجربہ کیاتوبھٹونے ہینری کیسنجر سے اپنے خدشات اورتحفظات کا اظہارکیاتھاکہ پاکستان کی سالمیت اوربقاکوخطرہ ہے۔جس کے جواب میں کیسنجرنے کہاکہ جوہوناتھاہوچکااب پاکستان کواس حقیقت کے ساتھ گزاراکرناہوگا۔عمران خان نے اپنی تقریرمیں یہ کہاکہ میں نے بھی ملک کی آزادخارجہ پالیسی کی بنیادرکھنے کی کوشش کی ہے اس لئے میرے ساتھ بھی بالکل وہی سلوک کیا جارہاہے۔

بھٹوصاحب کو45سال پہلے اقتدارسے محروم کیاگیاتھااورپی این اے کی تحریک سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جنرل ضیاء الحق نے5 جولائی1977ءکوملک میں مارشل لاءلگادیاگیا۔اس کے بعدبھٹوپرنواب محمد احمد خان قصوری کے قتل کامقدمہ چلااورانہیں پھانسی دے دی گئی۔عدالت میں بھی بھٹونے یہ دعویٰ کیاکہ”ان کے ساتھ یہ سب کچھ اس لیے ہورہاہے کیونکہ انہوں نے پاکستان کو ایک جوہری طاقت بنانے کاعزم کرلیاتھااورامریکاکے وزیرِخارجہ ہنری کیسنجرکے خبردارکرنے کے باوجودجب انہوں نے جوہری پروگرام سے پیچھے ہٹنے سے انکارکیاتوہنری کیسنجرنےانہیں دھمکی دی”تمھیں ایک خوفناک مثال بنادیاجائے گا”

یہ مبینہ جملہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں آج بھی گونج رہاہے اورہماری یہ ذمہ داری ہے کہ آج کے حالات کاتجزیہ کرتے ہوئے انتہائی احتیاط سے قارئین کو ان حقائق سے آگاہ کریں کہ پاکستان کوآج جن حالات کاسامناہے،کیاواقعی اس دھمکی اوراس کے نتائج کادوبارہ دہرایاجارہاہے۔تاہم اس کے گواہ صرف ذوالفقار علی بھٹوہی ہیں جواپنے اقتدارکے آخری دنوں اورگرفتاری کے بعدبھی مسلسل چیخ چیخ کریہ بتانے رہے کہ ان کے خلاف امریکاسازش کررہاہے اورحزبِ اختلاف کی جماعتیں اورپاکستان کے مقامی صنعتکارجن کی صنعتیں قومی تحویل میں لی گئی تھیں اس سازش میں شامل ہیں۔

بھٹونےاسی نکتے پر پاکستان کےعوام کومتحرک کرنے کی بہت کوشش کی لیکن دیرہوچکی تھی۔اس دوران انہوں نے کئی مقامات پرہنری کسینجرکی اس دہمکی کودہرایالیکن حزب اختلاف کاپروپیگنڈہ اورحکومتی آوازمیں ان کی آوازدبادی گئی لیکن ایک مضبوط آوازنے بھٹوصاحب کی تائیدکی اوروہ تھااسلام آبادمیں امریکی سفارت خانے کاڈپٹی چیف مشن جیرالڈ فیورسٹین،اس نے اپریل 2010 میں پاکستانی میڈیاکواپنے انٹرویومیں تصدیق کی تھی کہ وہ ایک پروٹوکول آفیسرکی حیثیت سے10اگست1976 کولاہورمیں ہونے والی اس میٹنگ کے عینی شاہدہیں جس میں بھٹونے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کوختم کرنے کے بارے میں ہنری کیسنجرکی وارننگ کومستردکردیاتھا۔امریکا کوپاکستان کے ایٹمی منصوبے پرتشویش تھی جوانڈیاکی ایٹمی صلاحیت کی برابری کرنے کیلئے تھااوراسی لیے ہنری کیسنجر کوبھیجاگیاتھاکہ وہ بھٹوکوخبردارکردیں۔بھٹونے اس وارننگ کومسترد کردیا اورایٹمی پروگرام کوجاری رکھا۔اپنے انٹرویومیں یہ بھی کہاتھاکہ اس وقت امریکامیں انتخابات قریب تھے اورڈیموکریٹس کے جیتنے کے بہت زیادہ امکانات تھے اوروہ ایٹمی عدم پھیلاؤکی پالیسی پرسختی سےعمل کرناچاہتے تھے اوراس سلسلے میں پاکستان کوایک مثال بناناچاہتے تھے۔کیسنجرنے بھٹوکوایٹمی پروگارم ترک کرنے کی صورت میں اے سیون اٹیک بمبارطیارے دینے کی پیشکش بھی کی تھی اوربصورتِ دیگراقتصادی اورفوجی پابندیوں کی دہمکیاں دیں تھیں۔اپنے انٹرویومیں جیرالڈ فیور سٹین نے بھٹوکواپنی کمزوریوں کے باوجودپاکستان کا سب سے باصلاحیت،ذہین اورقابل سیاستدان قراردیاتھا۔

جیرالڈفیورسٹین کےعلاوہ امریکاکے سابق اٹارنی جنرل رامسے کلارک نے اپنے ایک مضمون میں لکھاکہ”میں سازشی تھیوریز پرتویقین نہیں رکھتالیکن چلی اور پاکستان میں ہونے والے فسادات میں بڑی مماثلت ہے۔چلی میں بھی سی آئی اے نے مبینہ طورپر وہاں صدرسیلواڈورالاندے کاتختہ الٹنے میں مددکی ۔ رامسے کلارک ذوالفقارعلی بھٹوکامقدمہ لڑنےپاکستان گئے تھے لیکن انہیں جنرل ضیاالحق نے اس کی اجازت نہیں دی۔انہوں نے بھٹوکی پھانسی کو “قانونی سیاسی قتل قراردیاتھا۔

عمران خان کادعویٰ ہے کہ انہوں نے خطے میں پچھلی چاردہائیوں سے جاری ہولناک جنگ کے خطیرنقصان جس میں پاکستان کوجہاں87ہزارپاکستانیوں کوجان سے ہاتھ دھوناپڑے وہاں168بلین ڈالرکے نقصان نے ملک کی ترقی کوکئی دہائیاں پیچھے دھکیل دیااورملک قرضوں کی دلدل میں پھنس گیاہے ۔ ان خطیرنقصانات سے یہ سبق سیکھا ہے کہ خطے میں جنگ میں کسی کی حمائت کرنے کی بجائے آزادانہ امن پالیسی پرعمل کیاجائے اورخطے میں ہمسایوں کوبدلناممکن نہیں،ان سب سے امن وآشتی کے ساتھ رہناملکی سلامتی کیلئے ضروری ہے۔اسی پالیسی کے تحت پچھلی سات دہائیوں میں پہلی مرتبہ پاک روس تعلقات بتدریج آگے بڑھ رہے ہیں۔

پاکستان نے اپنے ہاں گیس کی کمیابی کی بناءپرروس کے ساتھ کراچی سے قصورتک1100کلومیٹرطویل پائپ لائن کاپاکستان سٹریم گیس پائپ لائن منصوبے میں جوپہلے نارتھ ساؤتھ پائپ لائن کے نام سے جاناجاتاتھا،سالانہ12.4ارب کیوبک میٹرگیس منتقل کرنے کی صلاحیت ہے۔اس معاہدے پرپہلی بار 2015میں دستخط کیے گئے تھے جس کے تحت روس اس پراجیکٹ کوتعمیراور 25برس تک آپریٹ کرے گااوراس کے بعداسے پاکستان کے حوالے کرے گا ۔اس کے ساتھ ساتھ دیگرتجارتی اوردفاعی تعلقات کو فروغ دیناشروع کردیاہے۔اس کے ساتھ ساتھ چین پاکستان کے تعلقات کاایک شاندارماضی ہے جس کی بناءپرپہلی مرتبہ پاکستان میں چین نے سی پیک معاہدے پر64بلین ڈالرکی سرمایہ کاری کاآغازکیاجس کوامریکانے اپنے معاشی اہداف کےراستے میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے ہوئے پاکستان پردباؤبڑھانا شروع کردیااورچین کے ساتھ تجارتی راہداری کے اس معاہدے کی شدید ترین مخالفت شروع کرتے ہوئے یہ معاہدہ ختم کرنے پرزورڈالناشروع کردیااورپاکستان کے انکارپراس کی تمام قربانیوں کو فراموش کرتے ہوئے پاکستان کوغیرمستحکم کرنے کیلئےاس کے ازلی دشمن بھارت کواستعمال کرناشروع کردیا،جس کے بعد پاکستان کیلئے اپنی سلامتی کیلئے خطے میں ازاداورغیرجانبدار خارجہ پالیسی کاراستہ اختیارکرنے کافیصلہ کیاجوکہ ہرملک کا بنیادی حق ہے۔یہی وجہ ہے کہ عمران خان اب قوم کویہ یقین دلانے کی کوشش میں مصروف ہیں کہ انہوں نے پہلی مرتبہ پاکستان کوآزادخارجہ پالیسی دینے کی کوشش کرتے ہوئے امریکاکوافغانستان سےانخلاءکے بعداپنے ہاں اڈے دینے سے یکسرانکارکردیا جس کی بناءپرامریکااوراس کے ایماء پرمغرب نے پاکستان پردباؤمیں اضافہ کردیا۔

ادھریوکرین تنازع سے قبل دونوں ممالک کے سربراہان کے درمیان ہونے والی ٹیلیفونک گفتگو کے دوران روس کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کواس دورے پرمدعوکیاگیاتھااوروزیراعظم عمران خان روس کے صدرولادیمیر پوٹن کے دعوت پر23اور 24فروری کوماسکوکےدوروزہ دورہ پرچلے گئے جوگذشتہ23برسوں میں کسی پاکستان رہنماکاروس کاپہلادورہ تھا۔موجودہ عالمی اورعلاقائی حالات کے تناظرمیں ماہرین اس دورے کوبہت اہم قراردے رہے تھے جبکہ مبصرین کاخیال تھاکہ اس سے یہ اشارہ بھی جاسکتاہے کہ پاکستان امریکااورمغرب مخالف اتحاد کاحصہ بننے کی کوشش کررہاہے ۔ پاکستان سردجنگ کے دوران اوراس کے بعدسے امریکی کیمپ میں رہاہے اوراس لحاظ سے عمران خان کے اس دورے کواس تاریخی سمت میں تبدیلی کی علامت کے طورپربھی دیکھاگیا۔

مغربی ممالک اورروس کے درمیان یوکرین کے معاملے پرکشیدگی بظاہر بلندترین سطح پرہے اوردن بدن حالات تیزی کے ساتھ خراب ہوتے جارہے ہیں ۔ روس اوریوکرین کی جنگ نے امریکاسمیت تمام مغرب کویکجاکردیاہے اوراوروہ ساری دنیاسے یوکرین کی حمائت چاہتے ہیں اوراس سلسلے میں اقوام متحدہ کے اجلاس میں اپنے حق میں ووٹ لینے کیلئے بھی پاکستان پردباؤرہاجبکہ پاکستان نے غیرجانبداری کامظاہرہ کرتے ہوئے اجلاس میں کسی کوووٹ نہیں دیا ۔ عمران خان نے اوآئی سی کے اجلاس میں اس کی وضاحت کرتے ہوئے صاف کہاکہ ہم آپ کے ساتھ پارٹنرآف پیس توہوسکتے ہیں مگرپارٹنرآف کنفلکٹ نہیں۔یہ بیانیہ امریکاکو ہضم نہیں ہورہاجس کی بناءپر27مارچ کے عوامی اجلاس میں پہلی مرتبہ عمران خان نے قوم کوآگاہ کیاکہ اسے ایک ملک نے ویسی ہی دہمکی دی ہے جیسی دہمکی ذوالفقارعلی بھٹوکودی گئی تھی یعنی میں نے بھی پاکستان کوآزادخارجہ پالیسی دینے کی طرف گامزن کیااورملک کوغلامی سے نکالنے کیلئے یہ قدم اٹھایاجس کیلئے میرے خلاف عدم اعتمادتحریک کوکامیاب کرنے کیلئے میری پارٹی کے قومی اسمبلی کے ممبران کوبھاری معاوضہ دیکر”ہارس ٹریڈنگ”شروع کردی گئی ہے جس کے جواب میں اپوزیشن نے اسے عمران خان کی غلط پالیسیوں کانتیجہ قراردیاہے اورعمران خان کی طرف سے اجلاس میں لہرائے جانے والی غیرملکی طاقت کے دہمکی آمیزخط کواپنے اقتدارکوبچانے کامحض ڈرامہ قراردیاہے۔

امریکی مصنف ڈینیل مارکے اپنی کتاب”نوایگزٹ فرام پاکستان“میں لکھتاہے کہ ہم امریکن پاکستان کونہیں چھوڑسکتے،اس کی وہ تین وجوہات بتاتاہے۔
پہلی وجہ۔۔۔پاکستان کانیوکلیئراورمیزائل پروگرام اتنابڑااورایکسٹینسوہے کہ اس پرنظررکھنے کیلئے ہمیں مسلسل پاکستان کے ساتھ انگیج رہناپڑے گا۔
دوسری وجہ۔۔۔۔پاکستان دنیاکاوہ واحدملک ہے جس کےچین کی سول ملٹری قیادت کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں چین پرنظررکھنے کیلئے بھی پاکستان کے ساتھ انگیج رہناضروری ہے۔
تیسری وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے پاس اتنی بڑی فوج ہے کہ نہ صرف ریجن کوبلکہ پوری دنیاکوڈی سٹیبلائزکرسکتی ہے۔پاک فوج پرنظررکھنے کیلئے بھی پاکستان کے ساتھ انگیج رہناضروری ہے۔

وہ مزیدلکھتاہے کہ ہم نے72سال پہلے فیصلہ کیاتھاکہ پاکستان کوڈویلپ ہونے کی اجازت نہیں دی جاسکتی اورپاکستان کواسلامی دنیاکوبھی لیڈکرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔اس کیلئےہم نے کچھ طریقے اپنائے ہیں وہ یہ ہے کہ پاکستان کواتناڈی سٹیبلائز کروکہ ہم مینیج کرسکیں اورڈی سٹیبلائزڈاس طرح کرتے ہیں کہ ہم پاکستانی لیڈروں کوخریدلیتے ہیں جن میں پولیٹیکل لیڈرز،سول بیوروکریسی کے افسران اورجرنلسٹ بھی شامل ہیں اورمیڈیاہاؤسزبھی ۔ڈینیل مارکے اپنی کتاب میں لکھتاہے کہ پاکستانی لیڈرزخودکوبہت تھوڑی قیمت پربیچ دیتے ہیں،اتنی تھوڑی قیمت کے انہیں امریکاجانے کاویزہ مل جائے یاان کے بچوں کواسکالر شپ مل جائے اوراتنی چھوٹی چیزپروہ پاکستان کے مفادات بیچنے پرتیار ہوجاتے ہیں۔

تاہم تاریخ گواہ ہے کہ بڑی طاقتوں کے عالمی مفادات ہوتے ہیں اوروہ اپنی دلچسپی والے ممالک میں ایسی حکومت پسندنہیں کرتے جوان کی بات نہ مانے اور وہ اسے بدلنے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔اس حوالے سے عرب بہارنامی سازش کونہیں بھولنا چاہئے جس میں کئی عرب ممالک میں حکومتیں تبدیل کر دی گئیں۔ہمارے خطے میں ٹرائیکا(بھارت،اسرائیل اورامریکا)کے مقابلے میں سپرٹرائیکا(روس،پاکستان اورچین)کے درمیان جاری سردجنگ میں پاکستان کوبھاری قیمت اداکرنی پڑے گی۔اگر پاکستانی قوم اس امتحان میں کامیابی کے ساتھ سرخروہوگئی توروشن مستقبل پاکستان کامقدربن کررہے گا….ان شاءاللہ

اپنا تبصرہ بھیجیں