Box Of Dirt

غلاظت کی پوٹلی

:Share

ٹیلیویژن کاایک نام یعنی جاہلوں کاڈبہ،آپ اس ڈبے سے جوچاہیں بول دیں،نشرکردیں،دکھادیں،عام آدمی اس پرایسے یقین کرلیتا ہے جیسے یہ سب کچھ اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھااورکانوں سے سناہو۔آپ اسے ایک عراقی زخمی بچے علی کاامریکی سپاہیوں سے علاج دکھادیں یاقندھارمیں ایک شدیدزخمی بچی عائشہ کی مرہم پٹی ہوتے ہوئے دکھادیں اورایک این جی اوزکی طرف سے اس کے سرہانے ڈھیروں کھلونے دکھادیں،اورپھر تبصرے کرتے ہوئے مرداور عورتیں اس کے دل میں امریکیوں سے محبت یوں بٹھادیں گی کہ وہ دوسروں سے لڑتاپھرے گااورکہتارہے گا”میں نے خوددیکھاہے کہ امریکی کیسے اس کٹی ہوئی بانہوں والے بچے پرشفقت کررہے تھے،،لیکن کوئی ٹیلیویژن پراسے یہ نہیں بتاتاکہ یہ بازوکاٹے کس نے اوراس جیسے کتنے ہزاروں بچے ہیں جواپنے جسم کے حصوں سے محروم ہوگئے ہیں یازندگی کھوبیٹھے ہیں۔

گزشتہ چندسالوں سے یہ”ایڈیٹ باکس”کچھ ملکوں کانام زورشورسے لے رہاہے کہ وہ دہشتگردوں کی پناہ گاہ ہیں۔امریکاکے نزدیک انسانیت کے قاتل وہاں چھپے بیٹھے ہیں۔افغانستان میں اسامہ بن لادن تھا۔ایک عرصہ اس کی دہشت پرفلمیں بنیں،اسے دنیاکاخطرناک ترین آدمی قراردیاگیا اور پھراس غریب بے یارو مدد گارملک کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی۔وردیوں سے افغانوں کے خون کے دھبے ابھی خشک نہیں ہوئے تھے کہ عراق پر “ایڈیٹ باکس”یعنی میڈیاکی یلغار شروع ہوگئی۔بغدادپرکیمیائی ہتھیاروں کا الزام لگااوراسی بہانے کی آڑمیں سارے عراق کوتاراج کردیاگیا،عراق پرقبضہ کرلیاگیا،اس کاایک ایک کونہ امریکااوراس کے حواریوں کے مظالم کی گواہی دے رہاتھاکہ اچانک صرف”ایک”امریکی قتل کرنے والاعالمی دہشتگردابو عباس پکڑاگیااورمسلسل تین دن تک ٹیلیویژن کے تبصرہ نگارعراق کودہشتگردوں کی پناہ گاہ قراردینے لگے،امریکااوراس کے حواریوں کے غیرقانونی حملے کانیاجوازبناکرعالمی رائے عامہ کوہموارکرناشروع کردیا۔

پاکستان کانام گونجاتوایف بی آئی فوراًآدھمکی اورساڑھے چارسومطلوبہ افرادکوغنڈوں کی طرح اٹھالے گئی اوربرسوں ظلم وستم اوراذیت ناک مرحلوں سے گزارکر بیشتر افرادکوزندگی بھرکیلئے معذوریاذہنی طورپرناکارہ بناکربیشترافرادکوچھوڑدیاگیا پھرمیڈیانے کیاکیاتحسین کے جملے اورآفرین کے ڈونگرے نہیں برسائے۔انہی دنوں عراق کے ہمسائے شام کوبھی امریکانے دشمنوں کی پناہ گاہ اوردہشتگردوں کی جنت قراردیکراس کوبری طرح خاموش کردیاگیا۔پاکستان کی توجان ہی چھوٹنے میں نہیں آ رہی۔شروع میں قصرِسفیدکے فرعون کے اس بیان کے بعدکہ القاعدہ نے اپنے تمام اڈے پاکستان میں منتقل کرلئے ہیں، امریکابہادرنے خودبھی بڑے زوروشورسے بڑی سرعت کے ساتھ اپنے اڈے پاکستان میں بنانے شروع کردیئے۔پاکستان کوسزا دینے کیلئے مذہبی بنیادوں پرتقسیم کرکے خودکش حملوں کے ذریعے ایک قیامت برپاکردی،مساجد،امام بارگاہوں،مندروں اور چرچزتک کونشانہ بناکرساری دنیامیں پاکستان کوایک انتہائی خطرناک ملک قراردیکربراہ راست پاکستان کی معیشت کوتباہ کرنےمیں کوئی کسرنہیں چھوڑی۔پھراسی پراکتفانہیں کیابلکہ افغان طالبان کوبدنام کرنے اورپاکستان میں مسلح دہشتگردی کیلئے باقاعدہ “ٹی ٹی پی”کی تشکیل دیکرہرآئے دن بم دہماکوں اورخودکش حملوں سے یلغارکردی گئی حتّی کہ خیبرپختونخواہ سے ملحق سوات جیسی پرامن اورخوبصورت وادی کوخاکم بدہن ملک سے کاٹ کراپنی نئی حکومت قائم کرنے کامکروہ منصربہ تشکیل دیاگیااوردنیابھرمیں اسی جاہلوں کے ڈبہ ٹی وی کے ذریعے پیغامات نشرہوناشروع ہوگئے کہ جلدہی اسلام آباد پرقبضہ ہوجائے گااورخاکم بدہن پاکستان کوختم کرنے کی پیشگوئی کردی گئی۔

یہی وہ موقع تھاکہ پاکستان کی بہادرافواج نے ایک انتہائی مشکل آپریشن شروع کرکے جہاں اپنی جانوں کانذرانہ پیش کرکے صلاحیتوں کالوہامنوایابلکہ اس ساری وادی کوان غلیظ،انسانی شکلوں میں چھپےبھیڑیوں ودرندوں سے پاک کیابلکہ امن وامان کودوبارہ قائم کرکےدنیاپرواضح کردیاکہ ملک کی سلامتی کیلئے ہرقسم کے دشمنوں کوتہہ تیغ کرنے میں کوئی کسرنہیں چھوڑی جائے گی لیکن اسی امریکانے جوافغانستان کی سرزمین پرناجائزقابض تھا، اس نے فوری طورپران کوپاکستان کے سرحدی علاقوں سے متصل افغان علاقوں میں ان کومحفوظ ٹھکانے مہیاکردیئے تاکہ مستقبل میں پاکستان کی سرزمین پرجہاں ڈرون حملے جاری رکھیں جائیں وہاں ان سفاک دہشتگردوں سے پاکستان کی سرزمین پراپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کیلئے کام لیاجا سکے۔آخرساری دنیانے یہ منحوس خبرسنی کہ انہیں سفاک درندوں نے پشاورکے آرمی پبلک سکول میں گھس کرایک ایسا خونی اورگھنائوناکھیل کھیلاجس میں سینکڑوں بچوں اوراساتذہ کوانتہائی بیدردی وسفاکی سے شہیدکردیاگیاجس پرپوری قوم کاصبرکاپیمانہ لبریزہوگیااورباقاعدہ ملک گیر “ضرب عضب آپریشن”شروع کرکے ان تمام علاقوں کوان درندوں سے پاک کرنے کیلئے ایک خون کادریا عبورکرناپڑا۔بالآخرپاکستان نے یہ فیصلہ کیاکہ ملکی سلامتی کیلئے پاک افغان سرحدپرباڑ لگانااز حدضروری ہے تاکہ مستقبل میں دہشتگردوں کی مستقل آمدورفت کومکمل طورپرختم کیاجاسکے۔

اس انتہائی مشکل کام کابیڑہ بھی ہماری افواج کے حصے میں آیااورپاکستان کی مسلح افواج کے زیرانتظام ہمارے جوانوں، مزدوروں،انجینئرنے صرف4 سال میں اتنی بڑی اورتقریباًناممکن ذمہ داری سے عہدہ برآ ہوکرامریکا،یورپ،وسطی ایشیا،روس سمیت پوری دنیاکوحیران کردیاکیونکہ پاک افغان سرحدکوجاننے والوں کوعلم ہے کہ اس کومکمل طورپرکورکرناکتنامشکل اور جان جوکھوں کاکام ہے۔یہ کوئی سیدھاسادابارڈرنہیں۔یہاں ایک جگہ سنگلاخ پہاڑ ہیں تودوسری طرف گھنے جنگل ، ایک جگہ انتہائی دشوارگزارگھاٹیاں ہیں تودوسری جگہ تنگ وتاریک درّے۔پاکستان جیسے کم وسائل کے ملک کی طرف سے مکمل طور پراپنے ذرائع پر انحصار کرتے ہوئے اتنے بڑے اورمشکل ترین بارڈرکومحفوظ بنانابلاشبہ دنیامیں اپنی نوعیت کاپہلااوربڑا کارنامہ ہے۔اس کارنامے سے ایک طرف پاکستان کوکئی اعتبارسے فائدہ پہنچ رہاہے تودوسری طرف اس نے پاکستان کا افغانستان سے متعلق مؤقف درست ثابت کرکے تمام ترپروپیگنڈاغلط ثابت کردیا۔یقیناًاس عمل کے بعدجہاں پاکستان میں آئے دن بم دہماکوں جیسے خونی کھیل سے نجات حاصل ہوئی وہاں ملکی سلامتی اورامن بحال ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان معاشی حلات پربھی بڑاگہرامثبت اثرپڑااورآج وہی سوات کی وادی ملکی اوردنیابھرکے سیاحوں کیلئے امن کانظارہ پیش کررہی ہے جس سے ملکی معیشت کے علاوہ دنیابھرمیں پاکستان پرلگائے جانے والے الزامات کی قلعی بھی کھل گئی۔

یادرہے کہ خیبرپختونخوامیں پاک افغان سرحدکی کل لمبائی1229کلومیٹرہے۔جس میں سے تقریبا812کلومیٹرسرحدپرباڑکاکام مکمل ہوگیاہے جبکہ باڑکاکل کام823 کلومیٹر ہے جبکہ صوبہ بلوچستان میں کل بارڈر1450کلومیٹرہے،جس میں سے1433کلو میٹرپرباڑلگانے کامنصوبہ تیار کیاگیاہے اوراب تک باڑ لگانے کا93 فیصد کام مکمل ہوچکاہے ۔اسی طرح پاک ایران کل1100کلو میٹر بارڈر میں سے909کلومیٹر پرباڑ لگانے کامنصوبہ تیارکیاگیاجس سے800کلومیٹرپرباڑلگانے کاکام مکمل ہوگیاہے۔پاکستان افواج کے اس بہادرانہ عمل کے بعدہی امریکااوراس کے اتحادیوں کوایک بارپھرپاکستان کی اہمیت کاشدت سے احساس ہوااورانہوں نے افغانستان سے اپنی افواج کے پرامن انخلاکیلئے طالبان سے مذاکرات کیلئے پاکستان سے مددمانگ لی اور بالآخرپاکستان نے امن عالم کیلئے یہ ذمہ داری قبول کرتے ہوئے طالبان اورامریکاکے درمیان دوحہ میں امن معاہدے کی راہیں کھولنے میں اپناکرداراداکیااوراس میں شک نہیں اس امن معاہدے میں ہونی والی پیش رفت کوبھی اس باڑکی تعمیرکانتیجہ قرار دیاجاسکتاہے۔

پاکستان نے بارڈرکنٹرول کرکے دنیا پرثابت کردیاکہ وہ اپنے کسی ہمسایہ ملک مداخلت نہیں کرنا چاہتااورنہ ہی کسی کومداخلت کی اجازت دے گا۔ پاکستان نے جیواورجینے دو،بقائے باہمی،اچھی ہمسائیگی کی مخلصانہ نیت اورپختہ عزم کے ساتھ اس کٹھن اورمشکل ٹاسک کو کامیابی سے پوراکیاہے اورپاکستان پورے خطے میں امن چاہتاہے لیکن سوال یہ ہے کہ ہمارے ازلی دشمنوں نے جن دہشتگردوں کے ہاتھوں میں اسلحہ دیکرپاکستان کوخاکم بدہن توڑنے کیلئے تمام وسائل استعمال کئے اوراب بھی اپنے ان ناپاک ارادوں کی تکمیل میں اپنا سب کچھ جھونک رہے ہیں،ہم ان دشمنوں کے تربیت یافتہ دہشتگردوں کوعام معافی دینے کیلئے کیوں مذاکرات میں مصروف ہیں؟کیااے پی ایس میں ہلاک ہونے والے بچوں کے ماں باپ کے زخموں کومندمل کرنے کی بجائے ان کوتازہ کرنے کی ساش میں معاونت کرنے کی کس نے اجازت دی ہے؟ابھی حال ہی میں امریکی محکمہ خارجہ کی ڈپٹی سیکرٹری کاانڈیامیں بیان پرکسی نے غورکیاہے؟وہ اس بیان کے بعدپاکستان میں آئی تھی،کیاہمارے مقتدرحلقوں نے اس بیان کی وضاحت مانگی یاایک مرتبہ پھرکسی کوجرات نہیں ہوئی؟

لیکن آیئے میں چندلمحوں کیلئے آپ کودہشتگردوں،قاتلوں،مفروروں،انسانیت سوزمظالم کرنے والے بھیڑیوں کی جنت میں لئے چلتاہوں جوہم پردہشتگردوں کی معاونت کاالزام لگاتے ہیں اورپھرفیصلہ کیجئے بم کس کی سرزمین پربرسنے چاہئیں،پابندیاں کس پرلگنی چاہئیں اورحکومت کس کی الٹنی چاہئے۔

٭شاہِ ایران کاساتھی جنرل جواس کے دورمیں جیل خانہ جات کاانچارج تھا،جس نے ہزاروں ایرانیوں کوجیل میں انسانیت سوز اذیت دیکراوربہیمانہ تشددکے ذریعے قتل کیا،آج کل کیلیفورنیاامریکامیں ایک محل نماگھرمیں مزے کی زندگی گزاررہاہے۔
٭انڈونیشیا کاجنرل جس نے1991ءمیں امریکاکے ایماءپرمشرقی تیمورکے علاقے میں معرکہ سانتاکروزکاقتلِ عام کیا،جس میں ہزاروں بے گناہ لوگوں کوبیدردی کے ساتھ قتل کردیاگیا،آج کل امریکا کی مہمان نوازی کے مزے لوٹ رہاہے۔
٭ہونڈراس آرمی کی پوری بٹالین جس نے 1980ء میں ہزاروں شہریوں کوبجلی کے جھٹکے دیکر،چھوٹوں کمروں میں ٹھونس کردم گھونٹ کراور تشدد کے نئے طریقے ایجادکرکے ہلاک کردیا،آج یہ پوری بٹالین امریکا میں مزے اڑارہی ہے۔
٭ارجنٹائن کاایڈمرل جو”نایاک”کی جنگ میں سات سال ایک بدنام ترین تشددکامرکزالسیکیولامنیکاچلاتارہا،جہاں ہزاروں لوگوں کوقتل کیاگیا، ہزاروں کومعذورکردیاگیا،اس وقت امریکاکی ریاست ہوائی میں مقیم ہے۔
٭چلی کے ملٹری اسکواڈکارکن جس نے سینکڑوں سیاسی قیدیوں کوبے پناہ تشددسے ہلاک کیااور72قیدیوں کی موت کا اعتراف بھی کیا،اسے امریکا کی ایف بی آئی نے ایک اہم حیثیت دیکرعالیشان رہائش دے رکھی ہے۔
٭ایل سلواڈورکاجنرل جس کے ظلم کی داستانیں کبھی دل دہلادیتی تھیں اپنے ہزاروں ہم وطن لوگوں کے قتل کے علاوہ اس نے تین امریکی عورتوں کو1980ءمیں خودبے حرمتی کرنے کے بعدہلاک کردیا،آج کل سن شائن اسٹیٹ میں رہائش پذیرہے۔
٭موگارشیاجس کاڈیتھ اسکواڈافسانوی حیثیت رکھتاہے،جس کے سامنے لاکھوں بے گناہ افرادکوصرف شبہے کے طورپرہلاک کردیاگیا،آج کل فلوریڈامیں مقیم ہے۔
٭گوئٹے مالاکاوزیرِ دفاع جس نے ہزاروں انڈین افرادکوقتل کیااورامریکاکے بھی آٹھ شہریوں کوموت کے گھاٹ اتارا،اس کا کہناتھاکہ میں نے 70 فیصدآبادی کی ترقی کیلئے30فیصد آبادی کوقتل کردیاتھا۔اسے امریکی عدالت نے قیداورہرجانے کی سزا سنائی مگرامریکی حکومت اسے صاف بچاکراپنے جلومیں لے گئی۔
٭کیوباسے طیارے اغوأکرنے والاکوئی بھی ایسادہشتگردنہیں جس نے امریکی شہریت نہ حاصل کرلی ہواورآج باعزت امریکی شہری کی زندگی نہ گزاررہاہو۔
٭ہیٹی کے جزائرمیں قتل وغارت کابازارگرم کرنے والے ہزاروں افرادایسے ہیں جوامریکاکی ریاستوں کے معززشہری کی حیثیت رکھتے ہیں۔
٭جنوبی ویتنام کے وہ20/افسران جنہوں نے انسانی حقوق کی عدالتوں میں باقاعدہ اپنے جرائم کااعتراف کیا،بچوں کے قتل، عورتوں کی آبروریزی اورزندہ جلانے کے مرتکب ہوئے، یہ20/افسران آج کیلیفورنیامیں قانونی حیثیت سے عیش وآرام کی زندگی گزاررہے ہیں۔

میں نے ایک طویل فہرست میں سے چندایک کاذکرکیاہے۔ان جرائم کاذکرابھی نہیں کیاجن کی تفاصیل بیان کریں توآنکھیں امڈ آتی ہیں اوردل اپنی دھڑکن بھول جاتاہے۔میں نے صرف قاتلوں کی ایک لمبی فہرست میں سے چند کے نام لئے ہیں۔چوروں، کرپشن کے ملزموں،سرکاری خزانہ لوٹنے والوں کاابھی تذکرہ نہیں کیاکہ انہیں دہشتگردنہیں کہاجاتا۔میں نے اس ظالم اورفاسق کمانڈوجنرل کابھی ذکرنہیں کیاجونہ صرف پاکستان کی بیٹی عافیہ کوامریکاکے ہاتھوں فروخت کرگیابلکہ پاکستان کی اگلی کئی نسلوں تک غلامی کے چنگل میں پھنساکرخودعیش وعشرت کی زندگی گزاررہاہے۔ میں نے اس فہرست میں ان ضمیرفروشوں کابھی ذکرنہیں کیاجو ملک کی دولت لوٹ کااغیارکے بینکوں میں رکھ کرعیاشی کررہے ہیں۔میں نے توان بھتہ خوروں کابھی ذکرنہیں کیاجن کے ہاتھوں پرکئی بے گناہوں کے خون کے دھبے ہیں۔

میں نے یوگوسلاویہ،الجزائر،روانڈااوردیگر ملکوں کے قاتلوں کوبھی شامل نہیں کیاجوکئی سوکی تعدادمیں بنتے ہیں اورامریکا میں ٹھاٹ باٹھ کی زندگی گزاررہے ہیں اورنہ ہی میں دنیاکے سب سے بڑے ظالم،متعصب ہندودہشتگردمودی کے گجرات اور کشمیرمیں مظالم کاذکرکیاہے۔لیکن آج جب صرف ایک امریکی کے قتل کے ملزم کو عالمی دہشت گردکے طور پردکھایاجاتاہے توکوئی نہیں جوایک لمحے کیلئے اس”ایڈیٹ باکس”کی نشریات روک کریہ فہرست پڑھ دے۔ان قاتلوں، دہشتگردوں کی پناہ گاہ بتادے۔شائدکوئی نہیں،اس لئے کہ سچ بولنے کیلئے خوف کادریاعبور کرناپڑتاہے۔ سب کمزوروں کواپنی موت کایقین ہے۔اجڑنے اورلٹنے کے دن نظرآ رہے ہیں لیکن پھربھی موت سے پہلے وہ سچ بو لنے کاایک موقع بھی حاصل نہیں کرناچاہتے۔

اس “ایڈیٹ باکس”پرآجکل نت نئے الزامات اورنت نئے انکشافات کاسلسلہ شروع کردیاگیاہے۔اس غلاظت کی پوٹلی کوایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بھرے بازارمیں کھول دیاگیاہے جہاں قوم ایک دفعہ پھریہ تماشہ دیکھ رہی ہے۔کوئی نہیں جویہ بتائے کہ اس منصوبے کی آڑمیں پاکستان کوکن خطرات سے دوچارکیاجارہاہے؟

اپنا تبصرہ بھیجیں