Blessed Is The Birth Of Prophet PBUH

آقاﷺکی ولادت سعادت

:Share

ثقہ بندتاریخ سے یہ ثابت ہے کہ میرے آقاﷺ12ربیع الاول کوہمیشہ کیلئے حق رحمت کوملنے تشریف لے گئے اور20سال قبل12ربیع الاول کو”12 وفات”کے نام سے یاد کیا جاتاتھالیکن اب ہماری نئی نسل کے ذہنوں سے یہ دن محوکیاجارہا ہے۔وصال سے3روزقبل حضوراکرمﷺام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ تعالی عنہا کے گھر تشریف فرما تھے، ارشا د فرمایاکہ”میری بیویوں کوجمع کرو”۔تمام ازواج مطہرات جمع ہو گئیں توحضورﷺنے دریافت فرمایا:کیاتم سب مجھے اجازت دیتی ہوکہ بیماری کے ایام میں عائشہ کے ہاں گزارلوں؟سب نے یک زبان ہوکہا:اے اللہ کے رسولﷺ،آپ کواجازت ہے۔پھراٹھناچاہالیکن اٹھ نہ پائے توحضرت علی ابن ابی طالب اورحضرت فضل بن عباس آگے بڑھے اورنبی اکرمﷺکوسہارے سے اٹھا کرسیدہ میمونہ کے حجرے سے سیدہ عائشہ کے حجرے کی طرف لے جانے لگے۔اس وقت صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے حضوراکرم ﷺکواس (بیماری اورکمزوری کے)حال میں پہلی باردیکھاتوگھبراکرایک دوسرے سے پوچھنے لگے:رسول اللہﷺکوکیاہوا؟چنانچہ صحابہ مسجدمیں جمع ہوناشروع ہوگئے اورمسجد میں ایک رش ہوگیا۔آنحضرتﷺکاپسینہ شدت سے بہہ رہاتھا۔

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہافرماتی ہیں کہ میں نے اپنی زندگی میں کسی کااتنا پسینہ بہتے نہیں دیکھااورفرماتی ہیں:میں رسول اللہﷺکے دست مبارک کوپکڑتی اوراسی کوچہرہ اقدس پرپھیرتی کیونکہ نبیﷺ کاہاتھ میرے ہاتھ سے کہیں زیادہ محترم اورپاکیزہ تھا۔حبیب خداﷺبس یہی ورد فرمارہے تھے:لا الہ الا اللہ بیشک موت کی بھی اپنی سختیاں ہیں۔

اسی اثناءمیں مسجد کے اندر آنحضرتﷺکے بارے میں خوف کی وجہ سے لوگوں کاشوربڑھنے لگا۔ نبیﷺنے دریافت فرمایا” یہ کیسی آوازیں ہیں؟عرض کیا گیا کہ اے اللہ کے رسول!صحابہ آپ کی حالت سے خوف زدہ ہیں۔ارشادفرمایاکہ مجھے ان پاس لے چلو۔پھراٹھنے کاارادہ فرمایالیکن اٹھ نہ سکے توآپﷺپر7مشکیزے پانی کے بہائے گئے،تب کہیں جاکرکچھ افاقہ ہواتو سہارے سے اٹھاکر منبرپرلایاگیا۔میرے آقاکایہ آخری خطبہ تھاجس میں فرمایا:

اے لوگو!شایدتمہیں میری موت کاخوف ہے؟سب نے کہا،جی ہاں اے اللہ کے رسول۔پھرارشادفرمایا:اے لوگو،تم سے میری ملاقات کی جگہ دنیا نہیں ،تم سے میری ملاقات کی جگہ حوضِ(کوثر)ہے،اللہ کی قسم گویامیں یہیں سے اس(حوضِ کوثر)کودیکھ رہاہوں۔ مجھے تم پرتنگدستی کاخوف نہیں بلکہ مجھے تم پردنیا(کی فراوانی)کا خوف ہے،کہ تم اس(کے معاملے)میں ایک دوسرے سے مقابلے میں لگ جاؤجیساکہ تم سے پہلے(پچھلی امتوں)والے لگ گئے، اوریہ(دنیا)تمہیں بھی ہلاک کردے جیساکہ انہیں ہلاک کردیا۔پھرتین مرتبہ دہرایا:اے لوگو!نمازکے معاملے میں اللہ سے ڈرو پھرفرمایا:یعنی عہدکروکہ نمازکی پابندی کروگے،اوریہی بات بارباردہراتے رہے۔ پھر ارشادفرمایا:اے لوگو!عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو،عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو،میں تمہیں عورتوں سے نیک سلوک کی وصیت کرتا ہوں۔ مزید فرمایا:اے لوگو!ایک بندے کواللہ نے اختیاردیاکہ دنیاکوچن لے یااسے چن لے جواللہ کے پاس ہے،تواس نے اسے پسندکیاجواللہ کے پاس ہے۔

اس جملے سے حضورﷺکامقصدکوئی نہ سمجھاحالانکہ ان کی اپنی ذات مرادتھی جبکہ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ وہ تنہاشخص تھے جواس جملے کوسمجھے اورزاروقطاررونے لگے اوربلندآوازسے گریہ کرتے ہوئے اٹھ کرپکارنے لگے: “ہمارے باپ داداآپ پرقربان،ہماری مائیں آپ پرقربان،ہمارے بچے آپ پرقربان،ہمارے مال ودولت آپ پر قربان ……کہتے جارہے تھے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم(ناگواری سے)حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھنے لگے کہ انہوں نے نبی علیہ السلام کی بات کیسے قطع کردی؟اس پر نبی کریمﷺنے حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کادفاع ان الفاظ میں فرمایا:اے لوگو!ابوبکرکوچھوڑدوکہ تم میں سے ایساکوئی نہیں کہ جس نے ہمارے ساتھ کوئی بھلائی کی ہواورہم نے اس کا بدلہ نہ دے دیاہو،سوائے ابوبکرکے کہ اس کابدلہ میں نہیں دے سکا،اس کابدلہ میں نے اللہ جل شانہ پرچھوڑدیا۔ مسجد (نبوی)میں کھلنے والے تمام دروازے بند کردیے جائیں،سوائے ابوبکر کے دروازے کے کہ جوکبھی بندنہ ہوگا۔

آخرمیں اپنی وفات سے قبل مسلمانوں کیلئےآخری دعاکے طورپرارشادفرمایا:اللہ تمہیں ٹھکانہ دے،تمہاری حفاظت کرے،تمہاری مددکرے،تمہاری تائیدکرے، اور آخری بات جومنبرسے اترنے سے پہلے امت کومخاطب کرکے ارشادفرمائی کہ:اے لوگو!قیامت تک آنے والے میرے ہرایک امتی کومیراسلام پہنچادینا۔پھر آنحضرت ﷺکو دوبارہ سہارے سے اٹھاکرگھرلے جایاگیا۔

اسی اثناءمیں حضرت عبدالرحمن بن ابی بکررضی اللہ عنہ خدمت اقدس میں حاضرہوئے اوران کے ہاتھ میں مسواک تھی،نبی اکرم ﷺمسواک کو دیکھنے لگے لیکن شدت مرض کی وجہ سے طلب نہ کرپائے،چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہاحضوراکرم ﷺ کے دیکھنے سے سمجھ گئیں اورانہوں نے حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ سے مسواک لیکرنبی کریمﷺکے دہن مبارک میں رکھ دی لیکن حضورﷺاسے استعمال نہ کرپائے توسیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہانے حضوراکرم ﷺسے مسواک لیکر اپنے منہ سے نرم کی اورپھرحضورﷺکولوٹادی تاکہ دہن مبارک اس سے تررہے۔فرماتی ہیں:

آخری چیزجو نبی کریمﷺکے پیٹ میں گئی وہ میرا لعاب تھااوریہ اللہ تبارک وتعالٰی کامجھ پرفضل ہی تھاکہ اس نے وصال سے قبل میرااورنبی کریمﷺ کالعاب دہن یکجا کردیا۔أم المؤمنين حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہامزیدارشادفرماتی ہیں:پھرآپ ﷺکی بیٹی فاطمہ تشریف لائیں اورآتے ہی روپڑیں کہ نبی کریم ﷺاٹھ نہ سکے، کیونکہ نبی کریمﷺکامعمول تھاکہ جب بھی فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا تشریف لاتیں حضورﷺان کے ماتھے پربوسہ دیتےتھے۔حضورﷺنے فرمایا:فاطمہ!قریب آجاؤ۔۔۔ پھر حضورﷺ نے ان کے کان میں کوئی بات کہی توحضرت فاطمہ اورزیادہ رونے لگیں،انہیں اس طرح روتادیکھ کرحضورﷺنے دوبارہ ان کے کان میں کوئی بات ارشادفرمائی تو وہ خوش ہونے لگیں۔

حضوراکرم ﷺکے وصال کے بعدمیں نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہاسے پوچھاکہ وہ کیابات تھی جس پرروئیں اورپھرخوشی کااظہارکیا تھا ؟سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہانے فرمایاکہ پہلی بار(جب میں قریب ہوئی)توفرمایا:فاطمہ!میں آج رات(اس دنیاسے) کوچ کرنے والاہوں،جس پرمیں رو دی ۔جب انہوں نے مجھے بےتحاشاروتے دیکھاتوفرمانے لگے:فاطمہ!میرے اہل خانہ میں سب سے پہلے تم مجھے آملوگی جس پرمیں خوش ہوگئی۔سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہافرماتی ہیں،پھرآنحضرت ﷺنے سب کوگھر سے باہرجانے کاحکم دیکرمجھے فرمایا:عائشہ!میرے قریب آجاؤ۔آنحضرت ﷺنے میرےسینے پر ٹیک لگائی اورہاتھ آسمان کی طرف بلند کرکے فرمانے لگے: مجھے وہ اعلیٰ وعمدہ رفاقت پسندہے(میں الله کی،انبیاء، صدیقین ،شہداءاورصالحین کی رفاقت کواختیارکرتاہوں۔)عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہافرماتی ہیں:میں سمجھ گئی کہ انہوں نے آخرت کوچن لیاہے۔

جبرئیل علیہ السلام خدمت اقدس میں حاضرہوکرگویاہوئے:یارسول الله!ملَکُ الموت دروازے پرکھڑے شرف باریابی چاہتے ہیں۔آپ سے پہلے انہوں نے کسی سے اجازت نہیں مانگی۔آپ ﷺنے فرمایا:جبریل!اسے آنے دو۔ملَکُ الموت نبی کریم ﷺکے گھرمیں داخل ہوئےاورکہا: السلام علیک یارسول الله!مجھے اللہ نے آپ کی چاہت جاننے کیلئےبھیجاہے کہ آپ دنیامیں ہی رہناچاہتے ہیں یاالله سبحانہ وتعالی کے پاس جاناپسند کرتے ہیں؟ حضور نے فرمایا:مجھے اعلی وعمدہ رفاقت پسندہے، مجھے اعلی وعمدہ رفاقت پسند ہے۔ملَکُ الموت آنحضرت ﷺکے سرہانے کھڑے ہوئے اورکہنے لگے:اے پاکیزہ روح۔۔۔اے محمد بن عبدالله کی روح۔۔۔۔اللہ کی رضاو خوشنودی کی طرف روانہ ہوجا۔۔۔راضی ہوجانے والے پروردگارکی طرف جوغضبناک نہیں۔۔۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں:پھرنبی کریم ﷺکاہاتھ نیچے آن رہااورسرمبارک میرے سینے پربھاری ہونے لگا،میں سمجھ گئی کہ آنحضرت ﷺکاوصال ہو گیا۔۔۔ مجھے اورتوکچھ سمجھ نہیں آیا۔میں اپنے حجرے سے نکلی اورمسجد کی طرف کادروازہ کھول کرکہا۔۔ رسول الله کاوصال ہوگیا۔ ۔۔رسول الله کا وصال ہو گیا۔۔۔ مسجد آہوں اور نالوں سے گونجنے لگی۔ادھرعلی کرم الله وجہہ جہاں کھڑے تھے وہیں بیٹھ گئے پھرہلنے کی طاقت تک نہ رہی۔

ادھرعثمان بن عفان رضی الله تعالی عنہ معصوم بچوں کی طرح ہاتھ ملنے لگے اورسیدناعمررضی الله تعالی عنہ تلواربلند کرکے کہنے لگے:خبردار!جوکسی نے کہارسول الله ﷺوفات پاگئے ہیں،میں ایسے شخص کی گردن اڑادوں گا۔۔۔!میرے آقاتوالله تعالی سے ملاقات کرنے گئے ہیں جیسے موسی علیہ السلام اپنے رب سے ملاقات کوگئے تھے،وہ لوٹ آئیں گے،بہت جلدلوٹ آئیں گے۔۔۔۔!اب جو وفات کی خبراڑائے گا،میں اسے قتل کرڈالوں گا۔اس موقع پرسب زیادہ ضبط،برداشت اورصبرکرنے والی شخصیت سیدناابوبکرصدیق رضی الله تعالی عنہ کی تھی۔۔۔آپ حجرۂ نبوی میں داخل ہوئے،رحمت دوعالَم ﷺکے سینۂ مبارک پرسررکھ کرروتے ہوئے کہنے لگے۔۔۔ وآآآخليلاه،وآآآصفياه،وآآآحبيباه،وآآآنبياه (ہائے میراپیارادوست،ہائے میرامخلص ساتھی،ہائے میرامحبوب،ہائے میرانبی)۔ پھرآنحضرت ﷺکے ماتھے پربوسہ دیااورکہا: یارسول الله!آپ پاکیزہ جئے اورپاکیزہ ہی دنیا)سے رخصت ہوگئے۔ سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ باہرآئے اورخطبہ دیا:

جوشخص محمد ﷺکی عبادت کرتاہے سن رکھے آنحضرت ﷺکاوصال ہوگیااورجوالله کی عبادت کرتاہے وہ جان لے کہ الله تعالی جل شانہ کی ذات ہمیشہ زندگی والی ہے جسے موت نہیں۔سیدناعمررضی الله تعالی عنہ کے ہاتھ سے تلوارگرگئی۔۔۔خودعمررضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں،پھرمیں کوئی تنہائی کی جگہ تلاش کرنے لگاجہاں اکیلابیٹھ کرروؤں۔آنحضرتﷺکی تدفین کردی گئی۔۔۔

سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں:تم نے کیسے گواراکرلیاکہ نبی اکرمﷺکے چہرہ انورپرمٹی ڈالو؟پھرفرمانے لگی:ياأبتاه،أجاب ربادعاه،يا أبتاه،جنة الفردوس مأواه،يا أبتاه،الى جبريل ننعاه۔۔۔۔۔ہائے میرے پیارے باباجان،کہ اپنے رب کے بلاوے پرچل دیے،ہائے میرے پیارے باباجان،کہ جنت الفردوس میں اپنے ٹھکانے کو پہنچ گئے،ہائے میرے پیارے باباجان،کہ ہم جبریل کوان کے آنے کی خبردیتے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ میرے آقاﷺکی ولادت سعادت تمام جہانوں کیلئے بڑی برکت وکامیابی کادن ہے اورربیع الاوّل ہی میں آقائے نامداراس دنیامیں تشریف لائے تاہم شریعت میں حضورﷺکے یوم پیدائش کوعیدقرارنہیں دیاگیاہے اورنہ اس کیلئےکسی قسم کے احکام ہمیں قرآن وحدیث میں ملتے ہیں لیکن اگرمسلمان یہ جان کرکہ ربِّ کریم کے سب سے بڑے محبوب اوردنیاکے سب سے بڑے ہادی اوررحمت العالمین کی پیدائش سب سے بڑی نعمت ہے تویقیناًیہ سب سے بڑی خوشی کامقام ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ہم اس خوشی کو کس طرح منائیں جس سے ہمارارب اورہمارے آقارسول اکرمﷺکی خوشنودی حاصل ہوسکے نہ کہ ہم خوب کھائیں پئیں، چراغاں کریں، بے ہنگم جلوس،گانابجانا،جھنڈے نکالنا،مسجدنبوی اورخانہ کعبہ کے مصنوعی ماڈل یابت بناکران کو پھولوں سے لادکران کوچومنا اور ملک کی بڑی شاہراہوں پرٹریفک کے نظام کوتہہ وبالاکرنااوراپنی دل لگی کیلئے فضول نمائشی کام کرنے میں تفاخرمحسوس کریں تو ہمارے اورجاہل قوموں میں کوئی فرق نہیں رہے گاجواپنی تاریخ کے بڑے بڑے واقعات کی یادمیلوں ٹھیلوں اور جلوسوں سے مناتی ہیں اورایسے رسم ورواج توجاہل قوموں کاوطیرہ ہے۔ہمارے دین اسلام میں یادگار منانے کیلئے رے خوبصورت تہوارہیں۔سب سے بڑاتہوار توحضرت ابراہیم کی اپنے بیٹے حضرت اسمعیل کی قربانی کا لازوال واقعہ ہے جس کومنانے کیلئے عیدالاضحیٰ کی نماز،قربانی،حج وطواف میں صفاو مروہ کاوہ مبارک مناسک ہے جوقیامت تک ہمیں اس عظیم الشان واقعے کی یاددلاتارہے گا۔اب یہ ہم مسلمانوں پر منحصرہے کہ پم اپنی زریں تاریخ کے ایسے لازوال واقعات کی یاد کس طرح منائیں۔

ہم کوسوچناچاہیے کہ آقانبی اکرمﷺکی ولادت سعادت کس لحاظ سے ہمہارے لیے اہمیت رکھتی ہے۔اس لحاظ سے نہیں کہ عرب کے ایک شخص کے گھرمیں آج ایک بچہ پیداہواتھابلکہ اس لحاظ سے کہ آج اس پیغمبراعظمﷺکواللہ نے زمین پربھیجاجس کے ذریعے سے انسان کواللہ کی معرفت حاصل ہوئی،جس کی بدولت حقیقت میں انسان کوتکریم ملی،اپنی بچیوں کوزندہ درگورکرنے والوں کوجہاں راہ ہدائت نصیب ہوئی وہاں عورتوں کوعظمت کے اعلیٰ مقام ملا،جن کی ذاتِ گرامی تمام جہانوں کیلئے اللہ کی رحمت قرارپائی اورجن کی وجہ سے روئے زمین پرایمان اورعمل صالح کانورپھیلا۔پس جب اس تاریخ کی اہمیت اس لحاظ سے ہے تواس کی یادگاربھی اس طرح منانی چاہیے کہ آج کے روزحضورﷺکی تعلیم اوردنوں سے زیادہ پھیلائی جائے اوراقوام عالم کوآقاﷺکے اخلاق اورآپ کے اسوہ حسنہ کواپنے عمل سے متعارف کروائیں ۔آقاﷺکی ہدایات سے سبق حاصل کریں اورکم ازکم آپﷺکی تعلیم کااتناچرچاتوکریں کہ سال بھر تک اس کااثرباقی رہے۔اس طرح یادگارمنائیں گے تو حقیقت میں یہ ثابت ہوگاکہ ہم یوم میلادالنبیﷺکوسچے دل سے عیدسمجھتے ہیں اور اگر صرف کھاپی کر،دل لگیاںاورغل غپاڑہ مچاکرہی شام کوتھک ہارکرسوجائیں گےتویہ مسلمانوں کی عیدنہیں بلکہ جاہلوں کی عیدہوگی جس کی نہ توکوئی وقعت ہوگی بلکہ اس کی سخت بازپرس بھی ہوگی۔
اللھم صل علی محمد کما تحب وترضا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں