Bleak Future Of America

امریکاکامخدوش مستقبل

:Share

اس بات کاامکان ظاہرکیاجارہاہے کہ خلیجی ریاستیں اس پورے معاملے پرضرورنظررکھیں گی کہ افغانستان سے امریکی انخلااور امریکاکی جانب سے وسط ایشیا کوچھوڑ دینے کے بعدروس اورچین سیکورٹی کے خلااوردرپیش خطرات سے کس طرح نمٹتے ہیں۔ اس عمل کے نتیجے میں ان ریاستوں کویہ سوچنے کاموقع ملا ہےکہ روس اورچین مشرق وسطیٰ میں امریکاکے کس حدتک متبادل ہو سکتے ہیں۔کیونکہ مشرق وسطیٰ میں امریکااب قابل اعتبارنہیں رہاہے۔خلیجی ریاستوں کواب احساس ہو گیاہے کہ امریکااب ان کے حوالے سے دلچسپی نہیں رکھتا۔یہی چیزنےانہیں مجبورکیاکہ وہ امریکاکے حوالے سے موجودغیریقینی کاحل تلاش کریں۔اس کا م کیلئےانہیں اپنی خودانحصاری میں اضافہ کرناہوگااورخطے کے رسمی اورغیررسمی اتحادوں خاص طورپراسرائیل کے ساتھ تعلقات کابھی جائزہ لینا ہوگاکہ اس معاہدے کے بعدانہوں نے کیاکھویاہے۔

روس جوکہ اسلحے کادوسرابڑابرآمدکنندہ ملک ہے اورچین خلیجی ممالک اورامریکاکے تعلقات میں پڑنے والی دراڑوں کافائدہ اٹھاتے ہوئے خلیجی ممالک کواسلحہ فروخت کرنے کیلئے تیارہیں لیکن سوال یہ ہے کیاان ممالک کے پاس مشرق وسطیٰ کے تحفظ کاضامن بننے کی صلاحیت بھی ہے؟اس حقیقت نے بھی روس کوگزشتہ ماہ سعودی عرب اورمصرکے ساتھ دفاعی معاہدے کرنے سے نہیں روکا۔ان معاہدوں کی تفصیلات توسامنے نہیں آئیں لیکن ایسامحسوس ہوتاہے کہ یہ معاہدے سعودی عرب اورمصر کی جانب سے امریکا کوخبردارکرنے کیلئےکیے گئے ہیں۔دوسری جانب روس بھی اس موقع کواستعمال کرکے امریکاکوآنکھیں دکھاناچاہتاتھا۔

روس سے تعلق رکھنے والے ایک ماہرِمشرق وسطیٰ ایلکسی خیل بنکوف کاکہناہے کہ”امریکاکے ساتھ سعودی عرب کے اسٹریٹجک تعلقات کودیکھتے ہوئے اس بات کے امکانات بہت ہیں کہ سعودی عرب عسکری طورپرروس کے ساتھ بھی ویسے ہی تعاون کرے جس طرح امریکاکے ساتھ کرتاہے۔روس کے پاس نہ ہی اس بات کی صلاحیت ہے اورنہ ہی وہ اس بات کی خواہش رکھتاہے کہ مصراور سعودی عرب کے اہم اتحادی کے طورپرامریکاکی جگہ لے لیکن روس اس بات کی کوشش ضرورکرے گا کہ موجودہ صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے خطے میں اپنے ہتھیاروں کی فروخت میں اضافہ کرے تاکہ پیسے کے حصول میں اضافہ ہو
سکے”۔

عرب ریاستیں بھی یہ سمجھتی ہیں کہ مشرق وسطیٰ وسط ایشیا نہیں ہے۔روس نے سوویت یونین کی چھتری تلے ایک طویل عرصے تک اس علاقے پرکنٹرول رکھا ۔وسط ایشیامیں موجودسیاسی ہنگامہ خیزی،ہجرت اورمنشیات کے مسائل مشرق وسطیٰ کے ممالک کے بجائے چین اورروس کیلئےزیادہ پریشان کن ہیں۔ روس اور چین ان خطرات سے جس طرح نمٹیں گے وہ طرزِ عمل عرب حکمرانوں کی سوچ پرضروراثراندازہوگا۔یہ ان دوایشیائی طاقتوں کیلئےایک لمٹس ٹیسٹ ہو گا اورعرب ودیگرحکمران اس پرضرورتوجہ دیں گے۔

کارنیگی انڈاؤمنٹ کے روسی اسکالرپال اسٹرونسکی کاکہناہے کہ”روس دہشتگردی کی روک تھام کیلئےخودکوتیارکرے گا۔ اگرداعش اوراس جیسی دیگر دہشتگرد تنظیموں نے وسط ایشیائی ممالک اورخودروس پربھی حملے شروع کردیے تویہ روسی حکمرانوں کیلئے ایک سخت امتحان ہوگا۔یہی وہ صورتحال ہے جس کی وجہ سے روسی پالیسی سازپریشان ہیں”۔روس نے تاجکستان، کرغیزستان اور روسی قیادت میں بننے والے فوجی اتحاد سی ایس ٹی اوکے ممالک کے ساتھ فوجی مشقیں کرکے اس خطے کے تحفظ کے حوالے سے روس کے عزم کااظہارکیاہے۔

پال اسٹرونسکی کایہ بھی کہنا ہے کہ روس امریکاکی نسبت زیادہ قابل اعتبارملک نہیں ہے۔روس آذربائیجان کے ساتھ جنگ میں آرمینیا کی مددکرنے سے قاصر
رہاجبکہ آرمینیاسی ایس ٹی اوکارکن ہے۔روس نے2020ءمیں سی ایس ٹی اوکے دورکن ممالک کرغیزستان اورتاجکستان کی سرحدپرنسلی گروہوں کے درمیان جاری تصادم کو روکنے میں بھی کوئی کردارادانہیں کیا۔دوران تصادم روسی وزیر دفاع سرگئی شوئیگودوشنبے میں اتحادی ممالک کے اپنے ہم منصبوں سے ملاقات کررہے تھے۔

افغانستان میں طالبان کی جیت نے مشرق وسطیٰ کے ممالک کیلئےمستقبل کے امکانات کو محدودکردیاہے۔دوسری جانب واشنگٹن میں بھی اب مشرق وسطیٰ میں امریکی افواج کی موجود گی پربحث شروع ہوگئی ہے۔بائیڈن بھی اب صرف قومی مفادپرتوجہ دے رہے ہیں ۔ افغانستان سے فوجی انخلا کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بھی انہوں نے کہاکہ امریکاآگے بڑھ رہاہے۔انہوں نے بڑے پیمانے پر افواج کی تعیناتی کی بھی مخالفت کی۔اس کے برعکس انہوں نے روس اور چین سے مقابلے کیلئےمعیشت اورسائبرسکیورٹی پرتوجہ دینے کی بات کی۔امریکادہشتگردی سے نمٹنے کیلئے ایسی ٹیکنالوجی کااستعمال بھی کرے گاجس کی مدد سے مخصوص اہداف کو نشانہ بنایاجائے گااورافغانستان جیسی جنگوں سے بچاجاسکے گا۔

مشرق وسطیٰ کے ایک انگریزی روزنامے’’دی نیشنل‘‘کی ایڈیٹرانچیف میناالاورابی نے”امریکا اس ناٹ ایکسیپشنل اینی مور”کے عنوان سے اپنے مضمون میں لکھاہے کہ بائیڈن کیلئےافغانستان میں امریکاکامقصدامریکی سرزمین پرہونے والے حملوں کوروکناتھا۔ اس کی تمام ترتوجہ انسدادِ دہشت گردی پرہونی تھی نہ کہ ایک قوم کی تعمیرپراورمشرق وسطیٰ نے اس سے سبق سیکھ لیا ہے۔ الاورابی نے مزید لکھاکہ لیبیااوریمن جیسے ممالک میں کہ جہاں بحران موجودہے اور ایک قوم کی تعمیر ضروری ہے وہاں امریکااب تک غیرمتعلق رہاتھااوراب غیرمتعلق رہناامریکاکی باضابطہ پالیسی بن گیاہے۔

انہوں نے کہاکہ”داعش جیسی تنظیموں اورحزب اللہ جیسی ملیشیاکے خطرات سے نمٹنے کیلئےامریکاکے اتحادی امریکاپرمزیدانحصار نہیں کرسکتے۔امریکی حکام مصر، عراق اورسعود ی عرب کی جانب چین سے تعلقات بڑھانے پرسوال کررہے ہیں جبکہ انہیں یہ سمجھناچاہیے کہ ان ممالک کیلئےچین اسی طرح ایک قابل اعتبار اتحادی ہے،جس طرح بشارالاسدکاروس ایک قابل اعتباراتحادی ہے۔ روس ہی بشارالاسدکی بقاکاضامن ہے”۔

الاورابی کی تحریرمیں بقاکالفظ بنیادی حیثیت رکھتاہے۔وہ اسے امریکی انخلاکاسب سے اہم اثرگردانتی ہیں۔وہ لکھتی ہیں کہ”امریکاکی جانب سے خطے کوچھوڑدینا اوریورپی اقوام میں اس خلاکوپُرکرنے کے حوالے سے کوئی بات نہ ہونااس بات کامظہرہیں کہ مغربی لبرل جمہوریتیں اب اپنااثرکھوچکی ہیں۔مشرق وسطیٰ میں صورتحال کواس نظرسے دیکھاجارہاہے کہ دودہائیوں تک جمہوریت کی مالا جپنے کے بعدخودامریکانے بھی اس بیانیے سے منہ موڑلیاہے اوران کیلئےیہ شاید کوئی بُری چیزنہ ہو۔ایسی غیرمؤثرحکومت جوکہ بیلیٹ کے ذریعے وجودمیں آئی ہواس سے بہتروہ حکومت ہے جومؤثرہو”۔

امریکاکواس وقت یہ خطرہ درپیش ہے کہ اگرامریکااورچین کے تعلقات مزیدخراب ہوجائیں توکہیں بائیڈن جوکھیل کھیل رہے ہیں اس میں اگرچین بائیڈن سے زیادہ ماہرنکلا توامریکاپھرکہاں کھڑاہوگا؟مثال کے طورپرچین خطے کی صورتحال کافائدہ اٹھاتے ہوئے تیل اورگیس کے خزانے رکھنے والے خلیجی ممالک کو اس بات پرقائل کرسکتاہے کہ وہ تیل اورگیس کی قیمت امریکی ڈالرکے بجائے چینی کرنسی یوآن(رینمنبی)میں طے کریں۔اگرچین ایساکرنے میں کامیاب ہوگیاتو اس سے امریکاکی عالمی طاقت کوایساشدیدنقصان پہنچے گاجس سے خودامریکاکے اندرریاستوں کے الگ ہونے کے راستے کھل جائیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں