انسانیت اوردنیامیں بہت فرق ہے

:Share

عظیم امریکی دانشورنوم چومسکی ایک دلچسپ مکالمے میں کہتے ہیں:’’ہروہ شخص جوکوروناکی وباسے پہلے والی فطری صورت حال واپس آنے کاخواب دیکھتاہے،وہ غلطی پرہے کیونکہ وہ صورت حال کسی بھی طرح فطری نہیں تھی‘‘۔اس وبائی بیماری نے اس”فطری” صورت حال کاپول کھول کررکھ دیاہے،جس کے بارے میں کچھ لوگ خواب دیکھ رہے ہیں کہ جیسے ہی کامیاب ویکسین اپنے جسم میں داخل کرلیں گے،ہم زندگی کی طرف واپس لوٹ جائیں گے ۔اس کامطلب یہ نہیں ہے جیسا کہ کچھ دوسرے لوگ سمجھتے ہیں کہ اس وبائی بیماری کے خاتمے کے ساتھ ہی ہم یکایک ایسی دنیامیں چلے جائیں گے جس کا کورونا سے پہلے والی دنیاسے کوئی تعلق نہیں ہوگاالبتہ یہ یقینی ہے کہ بحران کی خطرناکی ہم سب کوان تمام اصولوں پرازسرنوبالکل جڑسے جائزہ لینے پرمجبور کرے گی جن پر موجودہ دنیاکوبنایاگیاہے،اوریہ چیزدیریاسویر، ہمارے طرزِ زندگی اور طرزفکرمیں بنیادی تبدیلی ضرورلائے گی،اس کی ابتداہو چکی ہے اگرچہ بہتوں کواس کاادراک نہیں ہوپارہاہے۔یہ وبائی بیماری اس زلزلے کی مانندہے،جوانجینئروں کومجبورکردیتاہے کہ وہ قدیم منہدم عمارتوں کے نقائص کوسمجھنے کے بعدایسی عمارتیں تخلیق کریں جومستقبل میں زلزلوں کے سامنے ٹھہر سکیں۔بالکل اسی طرح اب ہم بحیثیت افراد،اقوام اورملکوں کے دوبارہ سوچنے پرمجبور ہوں گے،تاکہ ہم نے جوفکری اورمادی نظام اورپالیسیاں تعمیرکررکھی ہیں ان کے تمام کمزورپہلوؤں کی نشان دہی ہو،اوراس ہولناک تجربے نے ہمیں جوسکھایاہے اسے بہترتعمیرمیں کام لائیں.

کورونا کے زلزلے نے جس سسٹم کوسب سے زیادہ ہلاکررکھ دیاہے،وہ نظامِ صحت ہے۔اس وبائی بیماری کامقابلہ کرنے میں غریب ممالک کے نظامِ صحت کاناکام ہوجاناکوئی تعجب کی بات نہیں ہے،لیکن امریکا،برطانیہ اوراٹلی جیسے بڑے مغربی ممالک کی ایسی سانحاتی تصویرسامنے آناجس میں یہ ممالک چینی فوجی طیاروں سے طبی امدادمنتقل کرتے نظرآتے ہیں۔تواس کامطلب ہے کہ ان تمام ملکوں کواپنے صحت کے سسٹم کونئے سرے سے قائم کرنے کیلئےتلخ سے بھی زیادہ سخت جائزوں کی ضرورت ہے۔درحقیقت مجھے امریکی نظامِ صحت کے زمیں بوس ہو جانے پرتعجب نہیں ہوا،جس کی اصلاح کی باراک اوباما نے کوشش کی تھی،لیکن پھرٹرمپ نے آکراس آدمی کی تمام اصلاحات پرپانی پھیردیا۔مجھے برطانوی نظام کے گھٹنے ٹیکنے پربھی حیرت نہیں ہوئی جوآج اخلاقی اصولوں سے عاری لبرل ازم کی قیمت نہ صرف خودبلکہ یہاں کے بے گناہ مریضوں سے بھی اداکروارہا ہے۔

یادپڑتاہے کہ80کی دہائی کے آغازمیں تیونس کے شہرسوسہ میں فیکلٹی آف میڈیسن میں طب وقائی کے پروفیسرکالیکچرسننے کا موقع ملاجنہوں نےپانچویں سال کے طلبا کے سامنے دنیا میں رائج صحت کے نظاموں اوران کاتقابلی جائزہ پیش کرناتھا،جس میں نمونے کی حیثیت سے سوویت یونین بطورکمیونسٹ ملک،امریکابطورسرمایہ دارملک تھے،سویڈن اوربرطانیہ بطوران ممالک کے تھے جنہوں نے سوشلزم اورکیپٹلزم کے بہتر افکارکواخذکیا۔صحت عامہ پرخرچ اورنتائج کے حوالے سے صحت کا بدترین نظام امریکی نظام کوقراردیاکہ اس کی لاگت بہت زیادہ ہے اور بیماری سے لڑنے اورشرح اموات میں کمی لانے کے لحاظ سے اس کا حاصل بہت کم،خوآہ اس کاتعلق نوزائیدہ بچوں سے ہویا بوڑھوں سے۔یہ سب اس لیے کہ امریکا کا نظامِ صحت مریضوں کے مفاد کی خاطرنہیں بنایاگیابلکہ ایک انتہاپسند لبرل ازم کے مفادکی خاطربنایاگیاہے جس کے نزدیک صحت خریدوفروخت کے ہرسامان کی طرح ایک سامان ہے اوراسپتالوں یاانشورنس کمپنیوں کی کسی بھی چیزسے زیادہ فکرصرف نفع کاحصول ہے۔

دستیاب سائنسی اعدادوشمارکی بنیادپریہ بتایاکہ صحت کاسب سے بہترین نظام برطانوی نظام ہے کیوںکہ وہ انصاف،منصوبہ بندی اورمریضوں کی آزادی پرمشتمل ہے اوراس لیے بھی کہ ریاستی ٹیکس کے ذریعے اس کی مالی اعانت ہوتی ہے۔یہ مارگریٹ تھیچرکے اقتدارمیں آنے سے پہلے کی بات ہے،جب 80کی دہائی کے آخرمیں اس نے آکربرطانوی صحت کے نظام کی چیرپھاڑنہیں کی تھی۔اس کے یہاں”کی ورڈ”نج کاری تھا،اواس کا مانناتھاکہ اسپتال ایک اقتصادی ادارہ ہے جومریضوں پراس نفع میں سے ہی خرچ کرے گا جواسے خودمریضوں سے حاصل ہوگا۔

یہ توطے ہے کہ لبرل ازم جواب تک دنیا کے سرکردہ معاشی ماہرین جیسے تھامس پیکیٹی کی بمباری کے نیچے رہا،اس بحران سے اورزیادہ لاغرہو کر کلے گا، صرف اس نظامِ صحت کی کارکردگی کی وجہ سے نہیں جس کاوہ ذمہ دارہے،بلکہ اس عالمی اقتصادی مشین کے اتنی جلدی بیٹھ جانے کی وجہ سے،جسے اس نے اپنے ہاتھوں سے بنایاتھا،خاص طورسے80کی دہائی کے آخرمیں صدرریگن اوربرطانوی وزیراعظم مارگریٹ تھیچرکے درمیان معاہدوں کے بعد۔جیسےہی وبائی بیماری ہم پرحملہ آورہوئی،پیداواردھڑام سے نیچے آگری،کیونکہ دنیاکے کونے کونے میں قائم فیکٹریوں کے درمیان مواصلاتی نظام ٹھپ پڑگیا، جنہیں سستے مزدوروں کے پیش نظریہاں وہاں بانٹ دیاگیاتھا۔اس کے نتیجے میں اچانک بے روز گاری کی سونامی نے ہلہ بول دیااوراس کے بعدزیادہ کمزورملکوں میں بھوک وافلاس کاخطرہ منڈلارہاہے۔یہ سخت حالات لبرلزم کے پرستاروں کاانتظارکررہے ہیں۔

اقوام اور اشرافیہ نے فطرت کو تباہ وبرباد کرتے ہوئے اپنے عیبوں اورکوتاہیوں سے صرف نظرکرلیاتھاکیونکہ انہوں نے یہ مان لیاتھا کہ بہت سے مواقع کی طرح یہ بھی دولت بڑھانے کامیدان ہے لیکن وہ اپنی ذمہ داری سے معاف نہیں کیے جائیں گے، موجودہ اقتصادی بحران میں اورکورونا کے خاتمے کے بعداس بحران کے نتیجے میں جواوربحران آئیں گے،ان پرعالمی کمپنیوں کے دباؤکے باوجوداقوام عالم اوربہت سے ممالک خاموش نہیں رہیں گے۔اس وبائی بیماری نے اس تصورکی مضحکہ خیزی اس طرح نمایاں کردی ہے کہ اس پرکسی کارٹون کاگمان ہوتاہے۔یہ وائرس ہمیں یہ دل پذیرسبق دیتاہے کہ انسانیت اوردنیامیں بہت فرق ہے۔بھلاآج آزادقومی فیصلے جیسے تصورکاکیامطلب رہ جاتاہے،جب کہ تم ایسی دنیامیں رہ رہے ہوجوباہم مربوط اورگتھم گتھاہے۔ جس میں ہروطن ایک مشترک نسیج کے خلیے کی طرح ہے،اس کی زندگی سے ہرخلیے کی زندگی ہے،اس کی بیماری اسے بیمارکرتی ہے اوراس کی موت اس کی موت بن جاتی ہے۔

آج ایسی دنیاوی سرحدوں کاکیا مطلب رہ گیاجس میں چمگادڑوں کاگوشت کھانے کی چینیوں کی حرص کے نتیجے میں ہزاروں اطالوی،ہسپانوی اورفرانسیسی موت کاشکارہوتے ہیں،لبنانی بھوک کی خاطرمظاہرہ کرتے ہیں،تیونس میں سوجی اورآٹے سے لدے ہوئے ٹرکوں پرڈاکہ زنی کے واقعات بڑھ جاتےہیں،برطانوی وزیراعظم آئی سی یو میں ایڈمٹ ہوتے ہیں اوردنیاکی نمبروَن فوجی قوت کاسربراہ تمام لوگوں کیلئےمذاق بن جاتا ہے جب وہ اس بیماری کے علاج کیلئےعبقری تجاویزپیش کرتاہے۔

جمہوریت کے بارے میں کیاکہیں؟وبائی مرض سے پہلے ہی یہ تکلیف کی حالت سے دوچارتھی،اوپرپاپولزم کی ہتھوڑی اور نیچے کرپشن کاسندان۔ اس صورت حال نے صحافت،پارٹیاں اورانتخابات جیسے اس کے تمام ستونوں کوکھوکھلاکرکے رکھ دیا۔ اب اس وبائی بیماری کے بعدوہ اتنی لاغرہو چکی ہے کہ اس سے پہلے کبھی نہیں تھی۔نئے اورپرانے ڈکٹیٹرموقع سے فائدہ اٹھانے میں لگے ہیں،اورمغربی جمہوریت کی ناقص کارکردگی کاچینی نظام کی کارکردگی کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے،اسے مستقبل کے بہترین سیاسی نظام کے طورپرپیش کررہے ہیں۔

اس وقت انہیں یہ یاددلانے کاکوئی فائدہ نہیں ہے کہ جنوبی کوریانے وباسے مقابلہ میں سب سے بہترکارکردگی کامظاہرہ کیا۔ان کی نگاہیں چین اور اس کے نظام پرٹکی رہیں گی،جس میں شایدعرب اپنے سب سے قدیم،سب سے گہرے اورسب سے خطرناک واہمی یعنی”آمرانہ عادلانہ نظام”کی کامیابی دیکھ رہے ہیں۔اب انسانی حقوق کولیں۔اس وقت انفرادی اوراجتماعی آزادیوں کوبڑھتے ہوئے خطرے سے پیداہونے والابڑااشکال یہاں پایا جاتا ہے کیونکہ ٹیکنالوجی نے نگرانی اورتعاقب کی سہولتیں بہت بڑھادی ہیں اوراس وبائی مرض نے اب تک کے سب سے بڑے پیمانے پراس کا تجربہ کرنے کاسنہری موقع فراہم کیاہے۔اس وبانے ہمارے سامنے حقوق کےعلم برداروں کی حیثیت سے ایسے چیلنج کھڑے کردیے ہیں جواس سے پہلے کبھی درپیش نہیں آئے تھے۔

آج ہم جانتے ہیں کہ کوروناوائرس سے ہلاک ہونے والوں میں زیادہ ترکہنہ بیماریوں میں مبتلاعمررسیدہ افرادہیں۔کیاہم نسبتاًاس چھوٹے طبقے کی زندگیوں کی چندسال مزیدحفاظت کی خاطرجواپنی طبعی عمر پوری کرنے والے ہی ہیں،معاشی پہیے کوروک کراورلاک ڈاؤن کی قیدعائدکرکے کروڑہاکروڑلوگوں کے کھانے پینے اورکام کرنے کے حق کوداؤپرلگادیں؟یہ سوال حقوق کو درپیش ایک بڑے چیلنج کی ترجمانی کرتاہے۔

حقوق انسانی کے عَلَم بردارکی حیثیت سے ہماراردِّعمل ان بڑے مال داروں کے سلسلہ میں کیاہوناچاہیے جن کے بیچ بحر اوقیانوس یابحرالکاہل میں چھوٹے چھوٹے جزیرے خریدنے کی دوڑلگی ہوئی ہے۔جہاں وہ اپنے خاندان او رمحافظوں کے ساتھ محفوظ رہیں،جب تک کہ اس وباکاخاتمہ نہ ہو جائے۔انہیں اس بات کی پروابالکل نہیں ہے کہ انسانوں کابڑاحصہ یاتمام انسان موت کانوالہ بن جائیں گے۔کیاملکیت کاحق جیساکہ انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ کے سترہویں باب میں درج ہے،غیرمشروط اورلا محدودہے؟کسی بھی حوالے سے اس کوچھیڑانہیں جاسکتاہے؟کیااس کی حیثیت بھی اس اعلامیہ کے پانچویں باب جیسی ہے جس میں جسمانی تشدداوربے حرمتی کی سخت ممانعت ہے؟یایہ اضافی حق ہے جس کی متعین حدیں ہیں؟

کیاریاست کایہ فرض نہیں ہے کہ ایسے حالات میں حدسے زیادہ دولت پرقابض اشخاص کے اس حق کومعطل کردیاجائے،اس دولت کی حدتک جو انہوں نے ذخیرہ کررکھی ہے اوران کی ضروریات سے بہت زائدہے۔تاکہ اس کے ذریعہ کروڑوں بھوکے افرادکوبھکمری سے بچایاجائے۔اس لیے کہ ان کا تعلق بھی انسانی قبیلے سے ہے اورانہیں اس صورت میں بھی جینے کاحق ہے اگروباکی مدت درازہو؟وہ بھی ایسی صورت میں جبکہ خوداس عالمی اعلامیہ کاجائزہ لینے کی ضرورت ہے،صرف اس باب کی حدتک نہیں بلکہ دوسرے ابواب کی سطح پربھی،تنقیح اوراضافے کے پہلوسے ازسرنوجائزے کی ضرورت ہے۔معاملہ یہ نہیں ہے کہ ہم ان تمام نظریات کاانکارکردیں جن کی ہم اب تک پرستش کرتے رہے،یاہم ان سرابوں کے پیچھے اب تک دوڑتے رہنے پرجن کی ہماری اقوام نے بھاری قیمت اداکی ہے سینہ کوبی کریں۔

صحیح بات یہ ہے کہ ہم ہمیشہ عصرحاضرکے حقائق،اس کے تصورات،اس کی زبان اوراس کی صورتوں کوبنیادبناکرغوروفکر کرتے ہیں اورمعاشرے کی ترقی اورمشکلات کے ہرمرحلے میں ہم میں سے ہرایک نے اپنی اپنی جگہ حل پانے کی کوشش کی ہے۔ان میں سے کچھ حل کامیاب ہوگئے، اور انہوں نے ہی کسی بھی درجے میں معاشرے کوارتقاکی راہ دکھائی،اورکچھ حل ایسے ہیں جن کی حدیں سامنے آگئیں اورانہیں بہتربنانے کی ضرورت کاادراک ہوا، اور کچھ حل ایسے ہیں جنہیں تجربات نے غلط یا ازکاررفتہ ثابت کردیاہے،اوران کے متبادل کی تلاش لازم ہوگئی ہے۔

بس آج ہمیں یہی کرنے کی ضرورت ہے.اس وبائی مرض نے ان تمام پرانی دراڑوں کوعیاں کردیاہے جو ہمارے معاشروں میں جہاں تہاں مقدس ترین فکری مقدسات میں پائی جاتی تھیں۔وہ وطنیت ہو،(یاقومیت ہوجووطنیت کی وسیع ترشکل ہے)ترقی پسندی ہو،جمہوریت ہو،لبرلزم ہو،انسانی حقوق ہوں یاسیاسی اسلام ہو۔اس طرح کاجائزہ مہنگااورکرب انگیزہوگا،کیونکہ اس کی مزاحمت ان معبدوں کے پہرے داروں کی طرف سے ضرور ہوگی،جن کے عین قلب میں کوروناکی مارپڑی ہے۔

میں نے اپنے عہدِجوانی میں ایک تنقیدی آرٹیکل لکھا تھا۔لوگوں کاکہناہے کہ اس کالہجہ بہت سخت ہے،اس کاعنوان تھا”روح کی دہائی”۔اس میں ایسے لوگوں کی ذہنیت کابیان ہے،جن کے بارے میں گلیلیونے کہاہے’’یہ لوگ ارسطو کی کتاب میں پڑھی ہوئی غلطیوں کوجھٹلاناگوارانہیں کرتے، چاہے ان حقائق کوجھٹلاناپڑجائے جنہیں وہ اپنی سرکی آنکھوں سے آسمان میں دیکھتے ہیں”۔بعدازیں میں نے عقیدے رکھنے والوں کے موقف کواپنے تجربات سے سمجھا،یاسمجھنے کی کوشش کر رہاہوں کیونکہ وہ درحقیقت ایک ناگزیرفرض انجام دیتے ہیں۔

دراصل معاشروں کو سب سے زیادہ خوف خلفشارسے ہوتاہے۔اس کی سب سے اہم طلب استحکام واستقرارہوتی ہے اوراسی لیے اسے روایت پسندوں کے بریک کی ضرورت رہتی ہے لیکن جوچیزمعاشرے کوسب سے زیادہ کمزورکرتی ہے وہ جمودہے،اور معاشرے کی اہم طلب ارتقاہے۔ لہٰذااسے ہمیشہ اصلاح پسندوں اورانقلابیوں کی ضرورت رہتی ہے۔انجام کارنہ توروایت پسندوں کو اصلاح پسندوں اورانقلابیوں سے چھٹکارامل سکتاہے،اورنہ ہی اصلاح پسندحضرات روایت پسندوں سے چھٹکاراپاسکتے ہیں،جب کہ اجتماعی ذہن کودونوں کی ضرورت ہے تاکہ ٹھہراؤ اور حرکت کے درمیا ن توازن برقرار رہے اس کامطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کے ساتھ بحث کرنے میں وقت اورصلاحیت کوضائع نہ کیاجائے جوشعوری یاغیرشعوری طور پرپرانے افکاراور رواجوں کی حفاظت کابیڑااٹھائے ہوئے ہیں۔زمانہ خودان کیلئےکافی ہے کیوںکہ ان میں بہترین لوگوں کاانجام یہ ہوگاکہ وہ بالآخردرمیانی حل تلاش کریں گے، اور ان میں بدترین لوگوں کاانجام یہ ہوگا کہ وہ ایسی عمارت کے اندرپڑے سڑتے رہیں گے جس کی دیواریں دن بدن کھوکھلی ہوتی جائیں گی،یہاں تک کہ انہی کی ہڈیوں کے ڈھانچوں پرگرپڑیں گی۔

اس کی مثال کیلئےہم پچاس کی دہائی کی قوم پرستی کولیتے ہیں۔یہ عربی قوم پرستی کی ایسے تصورکی حفاظت کرتی رہی جس کازمانہ بیت گیا۔ اس کے باوجود آج تک وہ ایسے آمروں کادفاع کررہی ہے جواس مصیبت زدہ امت کے ساتھ بھیانک جرائم کا ارتکاب کرتے رہے۔ایسے جرائم جن کے ارتکاب کی جرأت نہ استعمارکرسکتاہے اورنہ ہی صہیونیت۔اب بس یہ باقی رہ جاتاہے کہ اس نازک ترین صورتحال میں اجتماعی عقل کاحرکیاتی حصہ اپنی ذمہ داری انجام دے۔ ضروری ہے کہ ہم اپنے لیے سرعت کےساتھ قدروں پرمبنی ایسے فکری نظام کی تشکیل کرلیں جسے قطب نماکی حیثیت حاصل ہو۔ساتھ ہی ایسے فعال سیاسی وسائل پیداکریں،جوافکاراورقدروں کوایکشن میں تبدیل کردیں اوراس طرح افراد،اقوام اورانسانی نسل کوبچانے کاکام کریں۔ابھی تک نہ تو ایسا کوئی نظام پایاجاتاہے اورنہ ہی اس کے نقوش کی ابتدائی صورت ہی نظرآتی ہے۔آج کون کہہ سکتاہے کہ لبرل ازم، قومیت،جمہوریت،سیاسی اسلام،ترقی پسندی اورانسانی حقوق کے مابعدکیلئےاس کے پاس کوئی واضح تصورہے؟بس ایک ثابت شدہ حقیقت یہ ہے کہ ہمیں باکس کے باہرسوچناہوگا۔اپنی جہالت کے ساتھ، مسائل کی خوفناک پیچیدگی کے ساتھ اوراجتماعی عقل کے روایت پسند حصے کے ساتھ سخت کشمکش کرتے ہوئے۔راستہ ایک ہی ہے اوروہ ہے “فکری نفیر”کااعلان،اوراس تصورکونکھارنے کیلئےاپنی تمام توانائیوں کواکٹھاکرناہوگا۔

دیکھیں سائنسی محققین نے اس بحران کاکیسے سامناکیاہے۔چینیوں نے وائرس کے جینیاتی ترکیب سے متعلق اپنی دریافتوں کو چھپاکرنہیں رکھابلکہ اسے دنیابھرکے اہل تحقیق کے سامنے رکھنے میں جلدی کی اوریہی ان کے دوسرے ملکوں کے ساتھیوں نے کیا۔اسی طرح آج ایک اورتجربہ اسی وقت جاری ہے،یہ ایک امریکی یونیورسٹی کی پہل ہے،جودنیاکے زیادہ سے زیادہ کمپیوٹروں کوایک نیٹ ورک میں جمع کرنے کی کوشش کررہی ہے،تاکہ اسے ایسی زبردست کمپیوٹیشنل پاورحاصل ہوجائے،جو اس پروٹین تک جلدازجلدرسائی کی کوششوں میں مددگارہوجووائرس کوخلیوں کی سطح پراترنے اورپھرداخل ہونے سے روک سکے۔اس میں شامل ہونے کیلئےاس کی ضرورت نہیں ہے کہ آپ خودبھی محقق ہوں یاپروٹین کے ماہر ہوں،آپ کوصرف اپنے فارغ وقت میں اپناکمپیوٹرادھاردینے کی ضرورت ہے تاکہ اس کے امکانات کوباقی کمپیوٹروں کے امکانات میں شامل کیا جا سکے۔ جہاں تک سائنسی عمل کی بات ہے تووہ سائنسی ماہرین کے کرنے کاکام ہے۔یہ دومثالیں ہیں جونئے راستے کاپتادیتی ہیں۔

ہمیں اپنے تجربات اورآٓگاہیوں کوایک ساتھ ایک ہی ٹوکری میں ڈالنے کی ضرورت ہے،اپنی عقلوں کوآپس میں جوڑناہے۔اس نئے فکری نظام کی تشکیل کی یہ دوبنیادی شرطیں ہیں جس کی ہمیں اشدضرورت ہے،جس سے شایدہم اپنی حفاظت کرسکیں۔یاشایدہم زبردست اجتماعی عالمی عقل میں،جسے ہم اپنی نگاہوں کے سامنے تشکیل پذیرہوتے دیکھتے ہیں،اوراس میں ہماری کچھ حصہ داری نہیں ہوتی ہے اوریہ ابن خلدون کے زمانے سے ہے،پھرسے نئے افکار داخل کرنے لگیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں