آج سے تقریباایک ماہ قبل یعنی21جون کو”آئی ٹویوٹو”پربڑی تفصیل سے آرٹیکلزلکھ چکاہوں اورٹی وی پروگرام بھی کیاتھااور خطے میں جن نئی تبدیلیوں اورخدشات کااظہارکیاتھا، آج کچھ بھی اس مختلف نہیں ہوا۔امریکی صدرجوبائیڈن اقتدارسنبھالنے کے بعد مشرق وسطیٰ کے اپنے پہلے دورے پرتل ابیب پہنچے جہاں دودن بیت المقدس(یروشلم)میں قیام کیا۔دورے پرروانہ ہونے سے قبل واشنگٹن میں اسرائیلی چینل12ٹی وی کوانٹرویومیں انہوں نے واضح اعلان کیاکہ وہ ایران کے پاسدارانِ انقلاب کوغیرملکی دہشتگروں کی فہرست میں شامل رکھیں گے چاہے اس کے نتیجے میں2015والاجوہری معاہدہ ختم ہوجائے۔جب انہیں ان کے ماضی کے اس بیان کہ”کہ وہ تہران کوجوہری طاقت کے حصول سے روکنے کیلئے طاقت کااستعمال کریں گے،کاحوالہ دیا گیا توانہوں نے کہاکہ اگریہ آخری حربہ ہواتو،ہاں”۔
تہران نے2015میں چھ بڑی طاقتوں کے ساتھ ایک معاہدہ کیاتھاجس کے تحت اقتصادی پابندیاں ہٹائے جانے کے بدلے میں اس نے اپنے جوہری پروگرام کو محدودکرنے پر رضا مندی ظاہرکی تھی مگر ٹرمپ2018میں اس معاہدے سے دستبردار ہو گئے اور ایران پر دوبارہ سخت پابندیاں عائد کر دیں ، جس کے بعد تہران نے تقریباایک سال بعدجوہری پروگرام پردوبارہ کام شروع کردیا۔معاہدے کو دوبارہ بحال کرنے کی کوششیں اب تک ناکام ہو گئیں ہیں،چارہفتے قبل دوحہ میں امریکا اورایران کے درمیان بالواسطہ بات چیت کے بعداس کی بحالی کے امکانات اورکم ہوگئے ہیں۔بائیڈن نے اسرائیل میں آئرن ڈوم میزائل ڈیفنس سسٹم کے بارے میں بریفنگ حاصل کی،اسرائیل کوتوقع ہے کہ امریکااس لیزر ڈیفنس سسٹم میں سرمایہ کاری کرے جس سے موجودہ آئرن ڈوم کواپ گریڈکیاجاسکے۔یہ ایک انتہائی خطرناک منصوبہ ہے۔
یہاں سے وہ براہ راست پہلی مرتبہ تین روزہ دورے پرسعودی عرب کے شہر جدہ پہنچے۔اسرائیل سے براہ راست سعودی عرب سفر کرنے والے پہلے امریکی صدرہیں،اسرائیلی حکام کے مطابق کہ سعودی عرب سے بہترتعلقات کاسفربتدریح طے کیاجارہاہے اورامریکی صدرکا اسرائیل سے براہ راست سفرکرکے سعودی عرب جانااس کی ایک بہت بڑی علامت ان کاوشوں کی نشاندہی کرتاہے جواس سمت میں کئی ماہ سے جاری تھیں۔دراصل ان امریکی کوششوں کی شروعات ٹرمپ کے دوراقتدارمیں شروع ہوئی جس کے نتیجے میں کئی عرب ممالک نے صہیونی ریاست اسرائیل کوتسلیم کرکے سفارتی اورتجارتی تعلقات قائم کرلئے ہیں،اس وقت بھی میں نے واضح اندازمیں کہااورلکھاتھاکہ اس سارے کام میں محمدبن سلمان نے ایک بڑاکرداراداکیاہے اور اب اگلے اقدام کے طورپرسعودی عرب بھی انہی ممالک کی ضرورپیروی کرے گا،اب اسی پالیسی کوآگے بڑھاتے ہوئے جوبائیڈن کے مشرق وسطیٰ کے پہلے دورے کے دوران اسرائیل اور سعودی عرب کے تعلقات بہتر کرنے کے مزیداقدامات سامنے آئے ہیں۔ اس دورے کوخطے میں استحکام کو فروغ دینا، اسرائیل کوخطے سے منسلک کرنا،ایران کے اثرورسوخ کوروکنے اورچین وروس کی جارحیت کے آگے بندباندھنے،سعودی عرب اورخلیجی ممالک کوتیل کی پیداواربڑھانے پرآمادہ کرنے،سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات استوارکروانے اورخلیجی ممالک اوراسرائیل کے درمیان مجوزہ مشترکہ دفاع تعاون کوآگے بڑھانے جیسے اہم امورامریکی صدر کے ایجنڈے کاحصہ تھے جس میں وہ پوری طرح کامیاب ہوگئے ہیں۔
بائیڈن نے سعودی عرب پہنچنے پرخلیجی ممالک کے ایک خصوصی اجلاس میں شرکت کی جہاں عراق، مصر اور سوڈان کے سربراہان کو خصوصی طورپرمدعو کیاگیاتھا ۔ امریکامیں افراطِ زراورخاص طورپرتیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے بائیڈن کواندرونی طورپرشدیدعوامی دباؤکاسامناہے اوران کی مقبولیت میں امریکامیں نصف مدتی انتخابات سے پہلے کمی ہورہی ہے۔اس پس منظرمیں عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں کوکم کروانے کیلئے سعودی عرب اوراس کے خلیجی اتحادیوں کوتیل کی پیداواربڑھانے پرقائل کرنابھی امریکی ایجنڈے کاحصہ ہے۔اس کی تصدیق جیک سولیوان نے کردی کہ روس سے برآمدہونے والے تیل کی قیمیوں کوایک حدتک رکھنے کیلئے امریکااپنے یورپی اتحادیوں سے مشاورت کررہاہے۔انہوں نے خبردارکیاکہ روس اورایران کے درمیان بڑھتے ہوئے مراسم کوایک بڑاخطرہ قراردیاہے۔ یادرہے کہ آج تہران میں سہ ملکی مذاکرات میں روسی صدرپیوٹن اور ترکی کے صدراردگان پہنچ گئے ہیں۔
ادھرنیویارک کے سے تعلق رکھنے والے ڈیموکریٹ کے سیاہ فام رکنِ کانگریس جمال بومن سمیت کم ازکم چھ ارکان نے ایک قراردادپر دستخط کیے ہیں جس میں امریکاسے نکبہ کوتسلیم کرنے کامطالبہ کیاگیاہے۔ نکبہ دراصل15مئی1948کے اس واقعے کانام ہے جب فلسطینیوں کے مطابق،ہزاروں فلسطینیوں کوان کے گھروں سے بے دخل کیا گیاتھاجبکہ اسرائیل کے یہودی اس دن اسرائیل کے قیام کے اعلان کادن مناتے ہیں۔مشہورامریکی پیو ریسرچ سروے کے مطابق 53 فیصد امریکی جو خود کو ڈیمو کریٹس کہتے ہیں،اسرائیل کے بارے میں منفی سوچ رکھتے ہیں۔اسرائیل پرتنقید بڑی حد تک ترقی پسند ڈیمو کریٹس،اور خاص طور پر دی اسکواڈکے اراکین کی طرف سے کی جارہی ہے،اس میں نیویارک سے ڈیمو کریٹس کی رکن کانگریس الیگزینڈریا اوکاسیو کورٹیز، مینیسوٹا سے ڈیموکریٹس کی رکن کانگریس الہان عمر،مشیگن سے راشدہ طلیب اورمیزوری سے رکن کانگریس کوری بش شامل ہیں۔
2018میں الہان عمراوررشیدہ طلیب کانگریس کیلئے منتخب ہونے والی پہلی دو مسلم خواتین ہیں۔الہان عمرعہدہ سنبھالنے کے بعد سے اسرائیل کی ایک کھلے عام نقادرہی ہیں۔ مقبوضہ فلسطین کے خاندان سے تعلق رکھنے والی رشیدہ طلیب جوفلسطینی نژاد امریکی ہیں،نے گزشتہ سال ایک امریکی چینل پر انٹرویومیں کہاتھاکہ اسرائیل فلسطینیوں پرنسلی امتیاز کررہا ہے۔اگرچہ امریکامیں کئی دہائیوں سے اسرائیل پرتنقیدکرناسیاسی طورپربہت خطرناک سمجھا جاتاتھالیکن اس وسط مدتی انتخابات کے دورمیں ڈیموکریٹک امیدواروں کی بڑھتی ہوئی تعدادنے اسرائیل کی بعض پالیسیوں پرکھل کرتنقیدکرناشروع کردی ہے۔وسط مدتی انتخابات اس سال نومبرمیں ہوں گے۔
الیگزینڈریااوکاسیوکارٹیزجب نیویارک سے پہلی بارڈیموکریٹس کی امیدواربنی تھیں توانہوں نے ڈیموکریٹک کی پرائمری میں دس مرتبہ منتخب ہونے والے ڈیموکریٹ حریف جوزف کرولی کوشکست دی تھی۔انہوں نے اسرائیل کے اقدامات پرکڑی تنقیدکواپنی انتخابی مہم میں شامل کیا،جس کوانہوں نے غزہ میں قتل کی بھرپور مذمت کی اور ڈیموکریٹس کو فلسطینیوں کی جدوجہدپرتوجہ دینے کامطالبہ کیا۔اس سے پہلے امریکی سیاستدان اسرائیل کے خلاف بات کرنے سے گریزکرتے تھے لیکن اس کے باوجوداوکاسیو کورٹیزنے پرائمری سیٹ جیت لی، جس سے پوری ڈیموکریٹک پارٹی کو ایک جھٹکا لگا۔وہ ان متعدد ترقی پسندوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے اسرائیل کے اقدامات کوتیزی سے چیلنج کیاہے ۔ 2016کی صدارتی مہم کے دوران،ورمونٹ سے تعلق رکھنے والے ڈیموکریٹ کے ایک اہم رہنماسینیٹربرنی سینڈرزنے بھی اسرائیل کی مذمت کی،جس سے ڈیموکریٹک امیدواروں کیلئے پارٹی کی روایت کوتوڑنے اورامریکی-اسرائیلی اتحاد پرتنقیدکرنے کاراستہ ہموارہوگیاتھا۔
صدر بائیڈن سے اسرائیل میں این12نیوزکوانٹرویوکے دوران ان ڈیموکریٹس کے بارے میں سوال کیاگیاتھاجنہوں نے اسرائیل کو ایک نسل پرستی کی بنیادپرامتیازی سلوک کرنے والی ریاست کہاہے اوراسرائیل کیلئے غیرمشروط امدادبندکرنے کامطالبہ کیاہے۔جو بائیڈن نے کہا کہ ان میں سے چند اس قسم کے لوگ ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ وہ غلط ہیں۔ مجھے لگتاہے کہ وہ غلطی کررہے ہیں۔ اسرائیل ایک جمہوری،ہمارااتحادی اوردوست ملک ہے اورمیں اس پر معذرت خواہ بھی نہیں ہوں اوریہ ڈیموکریٹک پارٹی یاریپبلکن پارٹی کا ایک اہم حصہ ہیں،اسرائیل سے الگ ہونے کاکوئی امکان نہیں دیکھ رہے ہیں۔
جوبائیڈن کی سعودی عرب کے ولی عہدشہزادہ محمدبن سلمان سے ملاقات اس لئے بھی خاص توجہ کامرکزتھی کہ امریکی خفیہ ادارے محمدبن سلمان کو خاشقجی کے قتل کاذمہ دارقراردے چکے ہیں اوربائیڈن نے سعودی عرب کوجہاں اچھوت ریاست قراردیا تھاوہاں ولی عہدکافون سننے سے بھی انکارکر دیا تھا۔بائیڈن نے سعودی ولی عہدسے کسی بھی ملاقات کی اہمیت کوکم کرتے ہوئے اس بات پرزوردیاتھاکہ وہ عرب کی علاقائی کانفرنس میں شرکت کیلئے جدہ جارہے ہیں جہاں سعودی ولی عہدبھی موجودہوں گے اوراپنے فیصلے کاپرزوردفاع کرتے ہوئے کہاکہ وہ اسرائیل کے خطے میں مربوط ہونے کی اہمیت کیلئے اسرائیل کی درخواست پراپنے سفر کاآغازکررہے ہیں۔اس دورے کا ایک بڑا مقصد سعودی عرب کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات کومعمول پرلانے میں مدد کرناہے،جس میں اسرائیل کے عرب دنیا کے ساتھ قریبی سکیورٹی تعلقات پرزوردیاجارہاہے۔اس کامقصدایران اوراس کے اتحادیوں کے میزائلوں کے خطرے سے نمٹنے کیلئے فضائی دفاعی نظام کو مربوط کرناہے اوراسرائیل مستقبل قریب میں ایران کی تمام ہمسایہ عرب ریاستوں کوایٹمی میزائلوں کی شیلڈ مہیا کرنے کاایک معاہدہ بھی کرنے جارہاہے۔
ایران کے جوہری معاہدے کوبحال کرنے کی کوششوں،ایران کے تیزی سے بڑھنے والے جوہری پروگرام،اورایران کے حمایت یافتہ یمن کے حوثی اتحادیوں کی جانب سے علاقائی میزائل حملوں میں اضافے کے باعث اس دورے کوزیادہ تقویت ملی ہے۔کوئنسی انسٹی ٹیوٹ فارریسپانسبل سٹیٹ کرافٹ کے پال پِلرنے اسے ایران کے خلاف عسکری اتحاد قرار دیا ہے۔اسرائیلی نقط نظر اور خلیجی عرب ممالک کے نقط نظر سے یقیناً یہ تمام تر اقدامات ایران کے خلاف دشمنی اور جارحیت پرمبنی ہیں۔
سعودی عرب کے ساتھ امریکاکے کئی دہائیوں پرمحیط تعلقات میں روایتی طورپرامریکی اقداراورسٹریٹجک مفادات کے ساتھ ساتھ تجارتی تعلقات شامل ہیں۔بائیڈن نے واضح طور پرسعودی عرب کے ساتھ تعلقات میں انسانی حقوق کے تحفظ پرزوردیاتھالیکن اب وہ بھی بدلتے حالات کے پیش نظرسیاسی حقیقتوں کے سامنے جھک گئے ہیں اورخارجہ پالیسی کے حوالے سے اپنی اقدارپر مبنی ساکھ کھونے کاخطرہ لاحق ہے۔بطورصدارتی امیدواربائیڈن نے سعودی عرب میں انسانی حقوق کی خراب صورتحال کے باعث اس سے تعلقات ختم کرنے کاعزم کرتے ہوئے ایک واضح لکیرکھینچی تھی اورٹرمپ کی سعودی عرب کی غیرمشروط قبولیت کے برعکس سیاسی بیانیے کواپنایاتھا۔ٹرمپ نے ایک بارکہاتھاکہ انہوں نے خاشقجی کے قتل سے پیدا ہونے والے اشتعال سے(محمدبن سلمان کی)گردن بچائی ہے۔
قصرابیض کی جانب سے جوبائیڈن کے دور سعودی عرب کے اعلان کے اگلے ہی دن واشنگٹن میں سعودی سفارت خانے کے باہر سماجی کارکنوں کاایک گروہ خاشقجی کے نام سے مظاہرہ کرنے کیلئے اکٹھاہوگیاتھا۔انہوں نے اعلان کیاکہ یہ ان سفارت کاروں جودروازے کے پیچھے چھپے بیٹھے ہیں روزانہ کی بنیاد پرایک یاددہانی ہوگی کہ 2018میں صحافی جمال خاشقجی کے قتل کی ذمہ دارسعودی حکومت ہے اوربائیڈن کے سعودی ولی عہدمحمدبن سلمان سے ملاقات کے فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے کہاکہ امریکی انٹیلی جنس جنس خاشقجی کے قتل کاحکم دینے پرانہیں ذمہ دار ٹھہرایاتھا۔ خاشقجی کے بہیمانہ قتل نے واشنگٹن کی متعصبانہ تقسیم کے دونوں فریقوں کو متحدکردیا تھا۔صحافی اورسعودی ولی عہدکے نقاد، خاشقجی کو ترکی کے دارالحکومت استنبول میں قائم سعودی سفارت خانے میں قتل کرنے کے بعد ان کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے گئے تھے۔اس مظاہرے میں شریک جمال خاشقجی کی منگیترکاکہنا تھا کہ اگرآپ نے اصولوں پرتیل اوراقدارپر مصلحت کوہی ترجیح دینی ہے توکم ازکم کیاآپ یہ پوچھ سکتے ہیں کہ جمال کی لاش کہاں ہے،کیاوہ مناسب اورباقاعدہ تدفین کاحقدارنہیں ہے؟
اقتدارمیں آنے کے بعدبائیڈن نے سعودی عرب کوہتھیاروں کی فروخت معطل کرتے ہوئے شہزادہ سلمان سے بات چیت کرنے سے انکارکردیاتھا لیکن اس بارے بائیڈن انتظامیہ شکوک وشبہات میں مبتلاتھے کہ کیایہ اس شخص کیلئے ایک مناسب پالیسی ہے جوجلد ہی سعودی عرب کاحکمران بن جائے گا۔بائیڈن کے صدرمنتخب ہونے پرہمارے ہاں بعض قلمکاروں نے ایرانی خوشنودی کیلئے گھی کے چراغ جلانے شروع کردیئے تھے جبکہ میں نے اس وقت بھی یہ واضح کردیا تھاکہ قصرسفیدمیں بیٹھافرعون جن طاقتوں کاماتحت ہوتاہے، ان کی مرضی کے خلاف کچھ نہیں کرسکتاتومجھ پرکڑی تنقیدکی گئی مگرآپ دیکھ لیں کہ گزشتہ برس سے اس پالیسی میں تبدیلی آنا شروع ہوگئی اورروس کے یوکرین پرحملے نے بائیڈن کو عوامی سطح پراسے تسلیم کرنے پرمجبورکیا۔
اس کی سب سے بڑی وجہ تیل کی بڑھتی قیمتیں تھیں۔امریکانے سعودی عرب سے کئی مرتبہ درخواست کی کہ عالمی سطح پرتیل کی قیمت کم کرنے کیلئے وہ مزید پیداواربڑھائے۔ریاض نے ابتدائی طورپران کی یہ درخواست مستردکردی تھی مگربائیڈن کے سعودی عرب کے دورے کے اعلان سے چنددن پہلے عالمی سطح پرتیل کی پیداوارکی نگران تنظیم اوپیک پلس نے، جس کاسعودی عرب سربراہ ہے،تیل کی معمولی پیداواربڑھانے کی منظوری دیدی۔ بائیڈن کے سعودی دورے میں تواس کاتذکرہ نہیں لیکن آپ دیکھیں گے کہ ستمبرمیں تیل کی موجودہ پیداوارکے کوٹے کامعاہدہ ختم ہونے کے بعد پیداوارمیں مزیدمعمولی اضافے کیلئے سعودیوں کے ساتھ خاموش معاہدہ ہوسکتاہے کیونکہ میرے خیال میں وائٹ ہاس میں یہ احساس بڑھ گیاہے کہ خصوصاتیل کی دنیامیں جوسعودی عرب سے شروع ہوتی ہے، تعمیری بات چیت کرنے کی اشدضرورت ہے۔
درحقیقت محمدبن سلمان نے،جوخاشقجی کے قتل کی ذمہ داری اپنی سکیورٹی فورسزکے بدمعاش عناصرپرڈالتے ہیں،متعددامریکی مطالبوں کوپوراکیاہے اوروہ اس کے بدلے میں امریکا کے ساتھ ازسرنوتعلقات کے خواہاں ہے جس کاآغازوہ ایک مضبوط دوطرفہ سکیورٹی معاہدے کے ساتھ کرناچاہتے ہیں تاکہ پچھلے18ماہ سے سعودی امریکی تعلقات جوسردمہری کا شکارہیں اورکسی کو معلوم نہیں کہ وہ کس طرف جارہے ہیں،وہ یہ ابہام بھی دورکرناچاہتے ہیں کہ کیاہم دوبارہ آپ کے اتحادی بننے والے ہیں کہ نہیں؟ کیامستقبل میں سعودی عرب کودوبارہ اسی طرح نظراندازتونہیں کیاجائے گا؟اس لئے سعودی عرب بائیڈن کے ارادوں کے متعلق وضاحت چاہتے تھے جن کے بارے میں یقینااس دورے میں بات ہوئی ہے۔یہاں یہ بات بھی میں عرض کردوں کہ سعودی عرب نے امریکی تعلقات میں سردمہری کے دوران روس اورچین سے تعلقات کوخاصامضبوط کیاہے۔اہم بات یہ ہے کہ سعودی عرب نے پوٹن کودنیاسے الگ تھلگ کرنے کیلئے امریکی دباؤکی مزاحمت کی ہے اوراس وقت محمد بن سلمان کے روسی صدر کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔
تاہم بائیڈن نے اس تاثرکودورکرنے اوراس بات کو بھی واضح کیا کہ یورپ میں جاری جنگ نے ان کے خطے،خصوصاًسعودی عرب کی سٹریٹیجک اہمیت، کے بارے میں نقط نظرکو تبدیل کرنے میں مدددی ہے۔ہمیں روسی جارحیت کا مقابلہ کرناہ ے،اور چین کا مقابلہ کرنے کیلئے بھی خود کو بہترین ممکنہ حالت میں رکھناہے اور دنیاکے اہم خطے میں زیادہ استحکام کیلئے کام کرناہے۔یہ سب کچھ کرنے کیلئے ہمیں براہ راست ان ممالک سے بات کرنا ہو گی جو نتائج پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ سعودی عرب ان میں سے ایک ہے۔
2017میں مصر کی اعلی عدالت نے مصراورسعودی عرب کے درمیان سرحدی معاہدے کوکالعدم قراردیتے ہوئے کہاتھا کہ تیران اورصنافیرکے جزیروں پر مصرکی حاکمیت قائم ہے اوراسے کسی دوسری ریاست کے حق میں تبدیل نہیں کیاجاسکتاتاہم فوجی صدرعبدالفتح السیسی نے یہ جزائرسعودی عرب کے حوالے کردیے تھے۔مبصرین کے مطابق اس کے بدلے السیسی نے نہ صرف امدادحاصل کی بلکہ اپنے اقتدار کیلئے بھی سعودی حمایت کویقینی بنایاتھا۔سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کومعمول پر لانے کاآغازان جزائرکے توسط سے کیاجارہاہے۔تیران اورصنافیربحیر احمرکے غیر آباد صحرائی جزیرے ہیں۔ ان میں سے سب سے بڑا جزیرہ60مربع کلومیٹرہے۔یہ دونوں جزیرے اسرائیل اورسعودی عرب کے درمیان تلخی کو مزید کم کرنے میں اہم کردارادا کریں گے۔حکمت عملی کے لحاظ سے یہ دونوں جزیرے بہت اہم مقام پرواقع ہیں یعنی بالکل خلیج عقبہ کے دھانے پر۔اردن کی بندرگاہ عقبہ اوراسرائیل کی بندرگاہ الت اس کے قریب واقع ہیں۔تاریخی طورپردونوں جگہیں ہنگاموں کی وجہ سے مشہورہیں۔ اسرائیل،مصرسے سعودی عرب کوتیران اورصنافیر کی خودمختاری کی منتقلی کوتسلیم کرلے گااگرچہ ابھی اس کاباضابطہ اعلان نہیں کیاگیاہے۔
تیران آبنائے جو خلیج عقبہ کو بحیرہ احمر اور صنافیر کے باقی حصوں سے ملاتی ہے۔مصر نے2018میں ان دونوں جزیروں کی خود مختاری سعودی عرب کے حوالے کر دی تھی لیکن اس کیلئے اسرائیلی حکومت کو اپنی منظوری دینا ہو گی۔اسرائیل اور مصرکے درمیان1978 میں امن معاہدہ ہوا تھا اور اس سے دونوں کے درمیان 30سال پرانا تنازع ختم ہوا تھالیکن اس معاہدے کیلئے ضروری تھاکہ تیران اور صنافیرسے افواج کا مکمل انخلا کیا جائے تاہم امریکا کئی مہینوں سے مصر،اسرائیل اورسعودی عرب کے درمیان خفیہ طور پرثالثی کررہاہے مگریہ اتناآسان نہیں کیونکہ اسرائیل اورسعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔اس لیے وہ دوطرفہ معاہدے پردستخط نہیں کرسکتے۔اگراسرائیل اپنے فوجیوں کوسینائی سے جنوب کی طرف منتقل کرنے اورجزائر پر نگرانی کے کیمرے نصب کرنے پر راضی ہو جاتا ہے تواس سے سفارتی تعلقات کو معمول پر لانے میں ایک بڑی رکاوٹ ختم ہوجائے گی۔
لیکن یہ جزیرے اتنے اہم کیوں ہیں؟اس کی اہمیت کوسمجھنے کیلئے آپ کودہائیوں پیچھے جاناپڑے گا۔خاص طورپرجنگ سینااور ریاست اسرائیل کے قیام کے دوران۔مصراورسعودی عرب کے درمیان ان جزائرکی خودمختاری کی جنگ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔مصرکاکہناہے کہ سعودی عرب کے قیام سے قبل 1906میں سلطنت عثمانیہ اوربرطانیہ کے درمیان ایک معاہدہ ہواتھا۔اس معاہدے کے تحت مصرکاان جزائرپرحق تسلیم کرلیاگیاتھا۔تقریبانصف صدی بعد تک ان جزائرپرکوئی آبادی نہیں تھی۔1950میں سعودی عرب نے مصرکو وہاں اپنی فوج تعینات کرنے کی اجازت دی تاکہ نئی بننے والی اسرائیلی ریاست کوتوسیع کاموقع نہ مل سکے۔1967میں،جمال عبدالناصرنے ان جزائرکوآبنائے تیران کوبند کرنے اوراسرائیلی بندرگاہ الات تک رسائی کوروکنے کیلئے استعمال کیا۔اس نے اسرائیل اوربحیرہ احمر سے رابطہ منقطع کردیا۔اس کے جواب میں اسرائیلی وزیراعظم گولڈامیئرنے مصرکے خلاف جنگ چھیڑدی۔ اس چھ روزہ جنگ کے بعد اسرائیل نے نہ صرف اس جزیرے پرقبضہ کرلیابلکہ انھوں نے پورے جزیرہ نماسینائی پربھی قبضہ کرلیا ۔اسے1982میں واپس کیاگیا۔ یعنی تین سال بعد ایک معاہدے کے تحت یہ سب ممکن ہوا۔اگرچہ مصرکئی دہائیوں سے تیران اور صنافیر پر سعودی عرب کے دعوؤں کی تردیدکرتارہاہے،لیکن2016 میں السیسی نے سعودی عرب سے وعدہ کیاتھاکہ یہ ان کے ملک کے حوالے کردیے جائیں گے۔
ادھراسرائیل نے مراکش،بحرین،سوڈان اورمتحدہ عرب امارات کے ساتھ اپنے تعلقات کومزیدبہترکرناشروع کردیاہے۔حالیہ دنوں میں سعودی عرب اوراسرائیل کے تعلقات میں بہتری آئی ہے۔سعودی عرب نے اسرائیل کی تمام فضائی کمپنیوں کیلئے اپنی فضائی حدود کھولنے کااعلان کردیاہے۔ان میں اسرائیل ایئرلائنز بھی شامل ہیں،جس پراب تک پابندی عائدتھی۔یہ اعلان جوبائیڈن کے دور سعودی عرب کے دوران کیاگیا۔تاہم اس سلسلے میں چندچھوٹے فیصلے ہوئے ہیں جیساکہ اسرائیل اورمقبوضہ غرب اردن سے مکہ کیلئے مسلمان زائرین کیلئے براہ راست پروازیں،اوربحیر احمرمیں مصراور سعودی عرب کی جانب سے اسرائیل کوبحری راستہ فراہم کرنے کی ضمانت وغیرہ۔
تاہم اس دورے کاحاصل یہ ہے کہ سعودی عرب اوراسرائیل میں سفارتی تعلقات قائم ہوں اورآئی ٹویوٹوکومزیدفعال بناکرایران اورپاکستان کامحاصرہ کیاجائے۔اگر صہیونی منصوبے کے مطابق ایران کے خلاف طاقت کا استعمال کیا گیا تو پاکستان کہاں کھڑا ہو گا؟ ہمارے انکار کے باوجود اگر ہماری فضائی حدود کی خلاف ورزی کی گئی تو ہمارا ردِّ عمل کیا ہو گا؟کیا ہماری معاشی بدحالی اور سیاسی ابتری وانتشار ہمارے پاؤں کی بیڑیاں تو نہیں بنادی جائیں گی؟کیا ہم اپنے ملک کی بقاء کیلئے سیاسی اختلافات بھلاکر کوئی متفقہ لائحہ عمل اختیارکرکے اقوام عالم کو جواب دینے کی پوزیشن میں ہیں؟