وطن عزیزاک امانت

:Share

جس صاحب نظرسے ملو،اس کے چہرے کوغورسے دیکھو،اس کی آنکھوں میں جھانکنے کی کوشش کروتویوں لگتاہے جیسے ایک پریشانی اوراضطراب ہے جوجھلکتانظرآتاہے۔ایسااضطراب جوکشتیوں کے ملاحوں کے چہرے پرسمندروں پربادل امڈتے ،طوفانی ہواؤں کواپنی سمت بڑھتے ہوئے دیکھ کرنظرآنےلگتاہے۔ ہر کوئی ایک دوسرے سے یہی کہہ رہاہے،دعاکریں ہم پر بہت کڑاوقت آگیاہے۔ہمارے اعمال کی سزاملناشروع ہوگئی ہے۔یوں لگتاہے72سال سے جوڈھیل ہمیں دی گئی تھی اب اس کا خاتمہ ہوگیا۔اب کارکنان قضاوقدرنے معاملات اپنے ہاتھ میں لبکراس صفائی کاآغازکردیاہے جوکسی تعفن زدہ معاشرے کیلئےضروری ہوتی ہے۔ہر صاحب نظرکی آنکھ نم ہے،دل پریشان ہے اوردعاؤں میں ہچکیاں اور سسکیاں ہیں۔

ہرکوئی اس مملکت خدادادپاکستان کی بقاوسلامتی کی دعاؤں میں مصروف ہے اورہرکسی سے صرف ایک ہی التجاکرتاہے۔ اس سے پہلے کہ آندھیاں اورطوفان اور عذابوں اورسیلابوں کے قافلے ہمیں گھیرلیں اللہ کے سامنے گڑگڑاکراستغفارکرلو۔اپنے اعمال کی،اپنے کوتاہیوں کی،ظلم پراپنی خاموشی کی تاکہ میرارحیم رب ان ناگہانی مصائب کارخ پھیردے جس نے میرے وطن کوگھیر رکھاہے کہ میں جوایک کوتاہ نظر،گناہ گاراورکم مایہ شخص ہوں وہ جب ا ن صاحبان نظر کودیکھتاہوں جنہیں اللہ نے بصیرت اوربصارت عطاکی ہے توخوف سے کانپ اٹھتاہوں۔مڑکراپنے گزرے ہوئے سالوں پرنگاہ پڑتی ہے تویوں لگتاہے جیسے میرے جیسے لوگوں کے گناہ،بداعمالیاں اورمصلحتیں اتنی شدیدہیں کہ شایدآنسوؤں کے سمندراورہچکیوں سے مانگی ہوئی معافی کی درخواستیں بھی قبولیت کامقام حاصل نہ کر سکیں۔وہ خوف جس سے آج اس ملک کاہرمومن صفت برگزیدہ شخص کانپ رہاہے وہ کس قدرشدیدہوگااگرمیری قوم کواس کا احساس ہوجائے تو حضرت یونس کی قوم کی طرح سجدے میں گرجائے،اللہ سے پناہ کی طالب ہوجائے،امان مانگے۔

سید الانبیاء ﷺکی حدیث پڑھتاہوں توخوف اورغالب آجاتاہے۔آپ ﷺنے فرمایا”جس وقت غنیمت کوذاتی دولت ٹھہرایا جائے،امانت کوغنیمت سمجھاجائے،زکوٰة کوتاوان سمجھا جائے،آدمی اپنی بیوی کی اطاعت،اپنی ماں سے نافرمانی کرے،اپنے دوست کونزدیک اوراپنے باپ کودوررکھے،فاسق وفاجرشخص اپنے قبیلے کاسردارہو، قوم کا سربراہ ذلیل اور کمینہ شخص ہو ۔آدمی کی عزت اس کے شر کے ڈر سے کی جائے ،گانے بجانے والیاں اور باجے ظاہر ہوں،شراب پی جائے اور امت کے لوگ اپنے سے پہلے گزر جانے والوں پرلعنت بھیجیں توپھرانتظار کرو سرخ ہواؤں کا،زلزلوں،زمین کے دھنس جانے،پتھروں کے برسنے کا اور پے درپے نشانیوں کاجیسے موتیوں کی لڑی ٹوٹ جائے اوردانے پیہم گرنے لگیں”۔

سیدالانبیاء ﷺ کی مسند احمد میں موجودایک اورحدیث میرے خوف میں اضافہ کرتی ہے۔آپ ﷺنے فرمایا”اللہ عام لوگوں پرخاص لوگوں کے عمل کے باعث اس وقت تک عذاب نازل نہیں کرتاجب تک ان میں یہ عیب پیدانہ ہوجائے کہ اپنے سامنے برے اعمال ہوتے دیکھیں اورانہیں روکنے کی قدرت رکھتے ہوں مگرنہ روکیں۔ جب وہ ایساکرنے لگتے ہیں تواللہ عام اورخاص سب پرعذاب نازل کرتاہے”۔

گزرے سالوں پرغورکرتاہوں تونگاہیں72سال قبل اس سرزمین پرداخل ہونے والے لٹے پٹے قافلوں کی جانب لوٹ جاتی ہیں۔ بے سروسامان لوگ،جن کے پیارے راستوں میں مار دئیے گئے،جن کاکل اثاثہ لوٹ لیا گیا۔جن کی عفت ماب بیٹیوں بہنوں نے عصمتوں کی قربانی دی لیکن بلکتے،زخموں سے چوریہ لوگ جب اس سرزمین پرپہنچے توسجدہ ریزہوگئے،آنکھوں سے تشکر کے آنسوامڈپڑے۔یوں لگتاتھا جیسے ان کے رب نے انہیں ویسے ہی بدترین غلامی سے نجات دی ہوجیسے بنی اسرائیل کو فرعون کی غلامی سے چھڑایاتھا۔

میرے ایک انتہائی قریبی صحافی دوست نے بھارت کے اٹھارہ شہروں میں گھومنے کے بعدخودوہاں کے لوگوں سے جوویڈیو انٹرویوریکارڈ کئے،مجھے اپنے گھردعوت دیکران کودکھانے کااہتمام کیاہواتھا۔اس بھارتی یاتراکیلئے برطانوی پاسپورٹ پربھی مجھے کشمیری نژادہونے کی وجہ سے ویزہ دینے سے انکارکردیاگیاتھاجس کی وجہ سے میں اپنے اس دوست کا ساتھ نہ دے سکا۔میری اپنی خواہش تھی میں اس بدترین غلامی کانظارہ اورمشاہدہ خوداپنی آنکھوں سے کروں۔بنارس، اورنگ آباداور ممبئی جیسے شہرجہاں مسلمان کسی طوربھی چالیس فیصدسے کم نہیں وہاں وہ اس قدرخوفزدہ،بے اطمینان اورمضطرب ہیں جیسے ان کی ذراسی خطاان کے گھرجلاکرراکھ کروادے،عصمتیں تارتارہوجائیں گی اوراولاد آنکھوں کے سامنے تڑپتی جان دے دی گی۔

ان تمام ویڈیوزانٹرویودیکھ کرمیں یہ سوچ رہاتھاکہ ہم نے ان 72سالوں میں ملنے والی اس جائے امان کے ساتھ کیاکیا۔وہ سر زمین جسے نہ ہم نے اپنے خون سے سینچاتھااورنہ ہی اپنی جدوجہدسےحاصل کیاتھابلکہ عطائے ربِّ کریم تھا۔ہم نے اس کے کونے کونے کوظلم زیادتی، بے انصافی،جبراوراستحصال سے بھردیا۔ ہم نے سوچاتک نہیں کہ یہ سرزمین تو ہمارے پاس ایک امانت ہے ۔ کیاہم نے اپنے بدمعاشوں،اپنے تھانیداروں،اپنے حکمرانوں کی عزت ان کے شرکی وجہ سے نہیں کی؟کیاہم نے فاسق وفاجرلوگوں کواپنے قبیلوں کا سربراہ نہیں بنایا۔ کیاہم نے قوم کا سربراہ چنتے ہوئے کبھی سوچاکہ اسے کن خصلتوں کاامین ہونا چاہیے ۔ہم پرجوبھی مسلط ہوگیا ہم نے اسے تسلیم کیا۔سیدالانبیاء ﷺنے فرمایاکہ اللہ کی،اس کے فرشتوں کی اورتمام انبیاءکی لعنت اس شخص پرجوطاقت کے ذریعے اقتدارپرقبضہ کرے اورشریف لوگوں کوذلیل ورسواکرے اورکمینوں کوعزت دے،ہم اس عمل کودیکھ کرخاموش رہے بلکہ ہم توبے حس ہوگئے ہیں۔

ہمارے سامنے ہرروزلوگ بھوک اورافلاس سے تنگ آکر خودکشی کرتے اورہمارے بڑے بڑے ہوٹل مرغن کھاناکھانے والوں سے آبادرہے،ہمارے سامنے گھروں کے گھربارودکے دھوؤں اوربموں کی کرچیوں سے اڑتے رہے،معصوم بچوں کی قطاردرقطارلاشیں دفن ہوتی رہیں اورہم اپنے گھروں کے آرام دہ صوفوں پربیٹھے ٹیلیویژن سکرین پرمنظردیکھتے رہے،تنگ آکرچینل بدلتے رہے، معصوم بچیاں بموں کی گھن گھرج میں اپنے پیاروں کی خون آلودلاشیں گود میں رکھ کرآسمان کی سمت دیکھتیں رہیں اور اپنے اللہ کے حضور پیش ہونے تک سوچتی رہیں کہ اس مملکت خداد اد پاکستان میں کتنے ہوں گے جواپنی بیٹیوں کو گلے سے لگائے پیارسے میٹھی نیندسورہے ہوں گے۔

میرے گناہوں اورمیری خاموشیوں کی تفصیل طویل ہے۔اس ملک کے22 کروڑلوگ طاقت رکھتے تھے اس ظلم اورزیادتی کے خلاف کھڑے ہونے کی لیکن ان کی مصلحتیں ان کے سامنے آکرکھڑی ہوگئیں،کسی کا کاروبارتھا،کسی کی نوکری اورکسی کامستقبل۔یوں لگتاہے کوئی سمجھنے کیلئے تیارنہیں جبکہ 8/ اکتوبر2005 کےخوفناک زلزلے سے سمجھانے کی کوشش کی گئی تھی جس میں اچانک ایک لاکھ افرادلقمہ اجل بن گئے:

جب زمین بھونچال سے ہلادی جائے گی،اورزمین اپنے اندرکے سارے بوجھ نکال کر باہرڈال دے گی،اورانسان کہے گاکہ یہ اس کو کیا ہورہا ہے۔اس روزاپنے (اوپرگزرے ہوئے)حالات بیان کرے گی کیونکہ تیرے رب نے اسے(ایساکرنے کا)حکم دیاہوگا”(سورة الزلزال5۔1)

لیکن حکومت کے روشن خیال ان نشانیوں کواپنے بودے دلائل سے جھٹلاتے رہے۔ہم اپنے شب وروزمیں اسی طرح مگن ہوگئے جس طرح پہلے نافرمانیوں میں مبتلاتھے۔کئی صاحبِ بصیرت افرادنے اجتماعی استغفارکی طرف توجہ دلائی لیکن ان کے پندو نصائح کو استہزاکی نذرکردیاگیاہے۔ میں صاحبان نظرکی آنکھوں میں آنسواورچہروں پرخوف دیکھ رہاہوں،اے میرے اللہ ہم پر رحم فرما،ہم کمزورہیں ہم گناہ گارہیں،ہماری خطائیں معاف فرمااگرتونے فیصلہ کرلیاکہ توہرخاص وعام پرعذاب مسلط کر دے،پھرتوخواص کی دعائیں بھی نامرادلوٹ آئیں گی۔ ناکام ونامراد۔ ایسے میں ہم کہاں جائیں گے،ہم بربادہوجائیں گے۔

سیدنازین العابدین کی دعازبان پرہے۔”اللہ میں تیرے غضب سے تیری رحمت کی پناہ چاہتا ہوں”۔اے میرے کریم ورحیم رب! ہم تیرے غضب کے مقابلے میں تیری رحمت سے پناہ مانگتے ہیں۔ تیرے عدل کے مقابلے میں تیرافضل مانگتے ہیں،بے شک تیری رحمت تیرے غضب سے بالاترہے،ہم پررحم فرما۔

کب تری رحمت کو جوش آئے گا رب مصطفیٰ؟
آج پھر آل محمد ﷺغم سے گھائل ہو گئی

اپنا تبصرہ بھیجیں