Be Ours Or Die

ہمارے بنویامرجاؤ

:Share

بے حیائی،بے غیرتی،بے حسی،خودغرضی،درندگی،وحشت،سفاکی اورایسے سارے الفاظ مجسم دیکھنے ہوں توان نام نہادبڑوں کو دیکھئے جن کے ساتھ مرعوب ذہن،چاپلوس،خوشامدی بونے تصویریں کھنچواکروائرل کرناباعث ِافتخارسمجھتے ہیں،پھرانہیں اپنے سوشل میڈیا اکا ؤ نٹ،اخباروں میں چھپواتے اوراپنے ڈرائنگ روموں میں اہتمام سے سجاتے ہیں۔ایسی مکروہ تصویروں کیلئےجگہ بھی ایسی منتخب کی جاتی ہے کہ آپ اندرداخل ہوں توسامنے وہ نظر آئے اورآپ کہہ اٹھیں: اچھاتویہ آپ ہیں!بہت تعلقات ہیں آپ کے اوروہ بونامصنوعی خاکساری اوڑھ لے اورکہے،بس جی ہم توبہت چھوٹے لوگ ہیں۔یہی ایک بات وہ سچ بولتے ہیں۔کسی ایک ملک کی بات نہیں،ہرجگہ کم وبیش ایسی ہی صورت ِحال ہے،نظامِ زرکے پجاری ہرجگہ چھائے ہوئے ہیں۔

ہمارے یہاں تودن میں کئی مرتبہ سڑکوں پرشاہراہوں پرہٹوبچوکاآوازہ اورہوٹرکی منحوس آوازسننے کوضرورملتی ہے………ان کابس چلے تووہ آپ کو روندکر نکل جائیں۔آپ نے تومشاہدہ کیاہوگا،ہوسکتاہے آپ کوتجربہ بھی ہواہوگاکہ اگرآپ غلطی سے بھی ان کی گاڑی سے آگے نکل جائیں توبونے کی گاڑی کی حفاظت پرماموربندوق بردارآپ کاجیناحرام کردیں گے اوریہی بونے جب بیرون ملک جائیں توسب سے پہلے امیگریشن پرہی ان کومشکوک نگاہوں کاسامناکرنا پڑتاہے اورجب ان سے کروناٹیسٹ کاسرٹیفکیٹ طلب کرنے کے بعداس کابغورجائزہ لیا جا رہاہوتاہے تب ان بونوں کے منہ پر ہوائیاں اڑرہی ہوتی ہیں، اگر یہاں سے جان چھوٹ جائے تواگلے مرحلے میں ان کے بیلٹ اتروائے جاتے ہیں،بعض مرتبہ برہنہ کیاجاتاہے،تضحیک کی جاتی ہے،گھنٹوں پوچھ گچھ ہوتی ہے،انہیں اوران کے سامان کوکتے سونگھتے ہیں اوروہ یہ سب مسکراتے ہوئے جھیلتے ہیں اورمہذب نظرآنے کی اداکاری کرتے ہیں۔ایساہرگزنہیں ہے کہ وہ نہیں جانتےِ،خوب جانتے ہیں کہ خلقِ خدا انہیں گالیاں دیتی ہے،انہیں کیسے القابات سے نوازتی اورہاتھ اٹھاکر بددعائیں دیتی ہے لیکن وہ کمال ڈھٹائی سے ارشادفرماتے ہیں:

عوام توہمارے ساتھ ہیں۔ظاہرہے جہاں بندوقوں کی زبان میں بات کی جائے وہاں دلائل دم توڑدیتے ہیں۔کیاطاقت اس لیے حاصل کی جاتی ہے کہ معصوم انسانوں کوغلام بنایاجاسکے؟انہیں سدھایاہواجانوربناکراپنے مفادات حاصل کیے جاسکیں؟جی اِس وقت تو یہی منظر ہے۔سامراج نے کیسے کیسے ناٹک رچائے ہیں……..قتلِ عام کے ناٹک،ناٹک میں تواداکاری ہوتی ہے لیکن یہاں توانسانیت کا قتل عام جاری ہے۔اپنے مفادات کے تحفظ، اپنے زرمیں اضافے کیلئےمعصوموں کوماراجاتاہے۔دنیاکواپنی جاگیرسمجھنے والاامریکا موت کاسوداگربناہواہے۔وہ جوچاہے کرتاپھرے اسے کوئی پوچھنے والانہیں ہے البتہ قصیدے پڑھے جاتے ہیں اوریہ قصیدہ خواں عوام نہیں،عوام پران کے مسلط کردہ نمک خوارہیں جنہیں وہ عوامی نمائندے کہتے ہیں۔

ہرجاسام راج کے پجاریوں کاراج…….خوابوں،آرزوں اورامیدوں کوروندتاہوابدمست ہاتھی۔ترقی یافتہ ممالک خاص کرامریکاجو عربوں اوراربوں کے وسائل پرقابض ہے اورلاکھوں انسانوں کاقاتل…….جس کے اپنے قوانین ہیں…….بس جواس نے کہہ دیاوہی بات درست ہے،باقی توسب اصول وقوانین لایعنی ہیں۔انسانیت کے قتل عام کیلئےدنیامیں اسلحے کاسب سے بڑاتاجراورانسانوں کے وسائل پربزورقوت قبضہ کرلینے والا،خوبصورت لفظوں کے پردے میں صرف اپنے مفادات کااسیر…. ہمارے بنویامرجاؤ کے اصول پر کاربند…..برابری،مساوات،حقوق انسانی کاراگ الاپ کر آگ وخون کا بازارسجانے والاامریکااوردنیابھر میں اپنے ضابطے مسلط کرنے کیلئےاقوام متحدہ کاہتھیاررکھنے والا……وہ اقوام متحدہ جواس کازرخریدغلام ہے اورپھرویٹوکر دینے کابے سرا جواز ….یہ سب کچھ وہ صرف اورصرف اپنے نظام زرکوبچانے کیلئےکرتاہے،اس میں انسانیت کادردکہیں نظرنہیں آتا ۔

پوراعالم جانتاہے امریکی کرتوتوں کولیکن بس وہ خودنہیں جانتے کہ انسانیت انہیں کس نام سے پکارتی ہے۔جانتے وہ سب ہیں لیکن بے شرمی کی بے غیرتی اوربے حسی کی تاریخ بھی تورقم کی ہے اس نے۔جہاں اسے اپنے مفادات خطرے میں نظرآتے ہیں،وہ وہاں پراصول وقانون کوپامال کرتا ہوا عوام کی مدد
کے نام پرجاگھستاہے لیکن وہ جہاں داخل ہوا،وہاں پھنس کے رہ گیا یہ عمل 34 ممالک میں دہراچکاہے لیکن ہرجگہ سے ذلیل ورسوا اورسرجھکاکرنکلاہے۔ اب بھی بدنام زمانہ عقوبت خانوں کاایک سلسلہ ہے جہاں انسانیت سسک رہی ہے ،مہلک ترین ہتھیارآزمائے جا رہے ہیں۔جاپان کی زمین اب تک اپاہچ بچے پیدا کرتی ہے اورایٹم بم کی تباہ کاریوں کو بتانے کیلئےدنیابھرمیں اسٹیج ڈرامے دکھائے جاتے ہیں۔یہ انسانیت کے قاتل کون ہیں،یہ بتانے کی ضرورت ہے کیا؟ سرجھکاکرجینے سے بہترہے باوقارموت کاسامناکیاجائے۔ہرجگہ مزاحمت ہے،سب اپنی اپنی سطح پرمزاحمت اوراحتجاج کرتے ہیں امریکی استعمارکے سامنے سرجھکانے سے انکاری،یہ سرپھرے جان سے ہاتھ دھوبیٹھتے ہیں لیکن خون رائیگاں نہیں جاتا، مزاحمت شدیدسے شدیدترہوتی چلی جارہی ہے اورامریکی خجالت چھپائے نہیں چھپتی۔اگرآپ بھول گئے ہیں تومیں آپ کویادکرائے دیتاہوں۔

عراق کے الوداعی دورے کے دوران جہاں بش نے ایک معاہدہ بھی کرڈالاتھاکہ عراق میں امریکی افواج2011ءتک رہیں گی۔پریس کانفرنس کے دوران البغدادیہ ٹی وی چینل کیلئےکام کرنے والے جواں سال صحافی منتظرالزیدی نے اپنی نفرت کااظہار کرتے ہوئےبش کو”خبیث کتا”کہہ کرپہلا جوتا کھینچ مارا۔ دوسرے پروہ چیخ پڑا:یہ عراق کی بیواؤں،یتیموں اورہلاک ہونے والے تمام افراد کی طرف سے ہے۔بیشترعرب ٹی وی پرکونڈولیزارائس کو ”کندارا” یعنی جوتے کاتسمہ کہہ کربلاتے رہے۔20ستمبر2006ءکو وینزویلا کے صدرہوگوشاویزنے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں جارج بش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا” یہ شیطان ایسے بات کررہاہےجیسے دنیاکامالک ہو”۔10مارچ2007ءکوارجنٹائن کے شہربیونس آئرس میں سامراج کے خلاف ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے ہوگوشاویزنے صدر بش کوسیاسی لاش سے تشبیہ دی۔بش نےاپنی خجالت چھپاتے ہوئے منتظر الزیدی کے نفرت انگیز احتجاج کے متعلق صرف اتناکہا:اگرآپ حقیقت جانناچاہتے ہیں توجوتے کانمبردس تھا،عراقی صحافی کیاچاہتاتھا میں نہیں جانتا۔ قصرسفیدکافرعون بش بہت اچھی طرح سے جانتاتھا کہ منتظرالزیدی مظلوم انسانیت کی آواز ہے اور سا مراج کی خوں آشامیوں پر انسانیت کا گریہ، مظلومیت اور بے بسی کا شاہکاراورجبرکے سامنے سر جھکانے سے انکاری مزاحمت کاروں کا ترجمان۔منتظرالزیدی کی ٹوٹی ہوئی پسلیاں اوراس پرسفاکانہ تشدد کے نشانات نفرت کامظہرہی توہیں؟

زندگی ماہ وسال کانام نہیں، لمحوں میں ہوتی ہے زندگی۔منتظرالزیدی نے تووہ لمحہ رقم کردیاجوامرہوگیا اب چاہے اسے تختۂ دار پر بھی کھینچ دیاجاتاتو اسے کوئی پرواہ نہیں تھی۔اس نے تو امریکی سامراج کے منہ پرتھوک دیااوراس کے بعدکئی افرادنے اس طریقے کواپناکرنفرت کااظہاربھی کیا۔ افغانستان سے انخلا کے بعد یقینًاامریکی سامراج کی شامِ غریباں برپاہونے والی ہے۔اسی لئے ہندوبنیاءاس خوف میں مبتلاہے کہ دنیاکی سپرطاقت عوام کے سامنے نہیں ٹھہر سکی تو کشمیریوں کی قربانی کے سامنے وہ اورکس قدرٹھہرسکے گا۔
زمانے والے جسے سوچنے سے خائف تھے
وہ بات اہلِ جنوں محفلوں میں کرتے رہے

اپنا تبصرہ بھیجیں