Be Careful For Bad Language

خبر لیجیے دہن بگڑا

:Share

بادشاہ نے کانچ کے ہیرے اور اصلی ہیرے ایک تھیلی میں ڈال کر اعلان کیا “ہے کوئی جوہری جو کانچ اور اصلی ہیرے الگ کر سکے شرط یہ تھی کہ کامیاب جوہری کو منہ مانگا انعام اور ناکام کا سر قلم کردیا جائے گا ۔ درجن بھر جوہری سر قلم کروابیٹھے ۔ کیونکہ کانچ کے نقلی ہیروں کو اس مہارت سے تراشا گیا تھا کہ اصلی کا گمان ہوتا تھا ۔ ڈھنڈہورا سن کر ایک اندھا شاہی محل میں حاضر ہوا فرشی سلام کے بعد بولا کہ وہ ہیرے اور کانچ الگ الگ کر سکتا ہے ۔ بادشاہ نے تمسخر اڑایا اور ناکامی کی صورت میں سر قلم کرنے شرط بتائی ۔ اندھا ہر شرط ماننے کوتیار ہوا ۔ ہیروں کی تھیلی اٹھائی اور محل سے نکل گیا ۔ ایک گھنٹے بعد حاضر ہوا اس کے ایک ہاتھ میں اصلی اور دوسرے ہاتھ میں کانچ کے نقلی ہیرے تھے ۔ شاھی جوہریوں نے تصدیق کی کے اندھا جیت گیا ہے ۔ بادشاہ بہت حیران ہوا اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ جو کام آنکھوں والے نہ کر سکے وہ کام ایک نابینا کیسے کر گیا ۔ بادشاہ نے اندھے سے دریافت کیا کہ” اس نے اصلی اور نقلی کی پہچان کیسے کی؟” اندھا بولا یہ تو بہت آسان ہے “میں نے ہیروں کی تھیلی کڑی دھوپ میں رکھ دی پھر جو تپش سے گرم ہوگئے وہ نقلی تھے اور جو گرمی برداشت کر گئے اور ٹھنڈے رہے وہ اصلی تھے”۔ بادشاہ نے اندھے کے علم کی تعریف کی اور انعام اکرام سے نواز کر رخصت کیا ۔

اندھے کی رخصتی کے ساتھ ہی میرا غصہ میری انا میرے دماغ کی گرمی بھی رخصت ہوگئی ۔ مجھےسمجھ آگئی کہ برداشت نرم مزاجی حلیمی متانت محبت ہی انسایت کی معراج ہے ۔ جو گرمی حالات کو سہہ گیا وہ ہیرا ،جو نہ سہہ سکا وہ کانچ ۔ میں خاموشی کے ساتھ بابا دین محمد کی باتیں سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا ۔

بانو قدسیہ آپا راجہ گدھ میں لکھتی ہیں کہ “جو دبا ؤ سہہ جائے وہ ہیرا جو نہ سہہ سکے وہ کوئلہ، مجھےبابا دین محمد نے آج بہت بڑی بات سمجھائی تھی ۔ میں جان گیا تھا کے اصلی اور نقلی میں صرف برداشت اور سہہ جانے کا فرق ہے ۔میں نے پوچھا بابا انسان آخر کب تک برداشت کرے؟کب تک لوگو کے طعنے سہے؟ کب تک اپنے غصے کو پئے؟آخر برداشت کی کوئی حد ہوتی ہے؟” میں نے پوچھا پھر اس کے بعد؟ بابا مسکرایا اور بولا بیٹا اس وقت تک سہنا ہے جب تک ہیرا نہ بن جا ؤ۔ بابا نے کہا ہیرا بننے کے بعد ہیرے پر کوئی دبا ؤ کوئی آگ کوئی تپش اثر نہیں کرتی ۔ جس طرح چکنے گھڑے پر پانی نہیں ٹکتا اسی طرح “اصلی” پر کوئی تیر کوئی نشتر کام نہیں کرتا ۔ بندہ جب بندے کے عشق میں مبتلا ہوجاتا ہے تو وہ دنیا کے لئے اور دنیا اس کے لئے بے ضرر ہوجاتی ہے ۔

میں نے کہا انسان کو انسان کے ساتھ کیسا سلوک کرنا چاہئے؟بابا بولا !درخت سے سیکھو جو پھل بھی دیتا ہے اور سایہ بھی، لوگ آتے ہیں اس کے سائے میں سستاتے ہیں پھل کھاتے ہیں اور چلے جاتے ہیں ۔درخت اسی جگہ کھڑا اگلے مسافر کا انتظار کرتا ہے اور ہر آنے والے کی آ ؤ بھگت کرتا ہے ۔ خاموش رہتا ہے کبھی شور نہیں کرتا اپنی عنایات کا اعلان نہیں کرتا جتاتا نہیں ۔ اسی طرح بندے کو ہونا چاہئے ۔ کسی آم کے درخت نے کبھی اپنا آم چوس کر نہیں دیکھا۔ سیب کے درخت نے کبھی اپناپھل نہیں کھایاجس کو اس نے یخ کردینے والی سردی اورموسم کی شدت اپنے اوپرسہہ کراسے جوان کیا۔ درخت نے دان کرنے کی یہ ادا ماں سے سیکھی ہے جو بچوں کو سکول بھجنے کے بعد چار گھنٹے لگا کر گوشت سبزی پیاز پودینے سے ہانڈی پکاتی ہے اور بچوں کے آتے ہی چار گھنٹے کی محنت ان کے سامنے رکھ کر خاموشی سے بچوں کو کھاتا دیکھ کر من ہی من میں خوش ہوتی ہے ۔ ماتھے کا پسینہ دوپٹے کے پلو سے صاف کرکےسلامت رہوتاقیامت کی دعا دیتی ہے۔ہم درخت اورماں کواستادمان کر سب کچھ سیکھ سکتے ہیں ۔ بابا کھڑا ہوا اور ہاتھ ملا کر پارک کے صدر دروازے سے نکل گیا ۔

میں جس درخت کے سائے تلے بیٹھا تھا وہ امرود کا درخت تھا میں نے پہلے ایک امرود توڑا وہ کچا تھا پھنک کر دوسرا توڑا وہ کھایا درخت نے مجھےکچھ نہیں کہا پھر میں نے درخت کا کندھا تھپتھپایا وہ خاموش رہا اس کے بعد میں نے درخت کو ٹھوکر ماری چوں تک کی آواز نہ آئی ۔ میں نے درخت کی کئی شاخیں توڑ
ڈالیں مجال ہے جو کسکا ہو ۔ اس کے پتے نوچ ڈالے کوئی شکوہ شکایت نہ کی اس نے ۔ میں نے رخصت ہوتے وقت سلام بھی کیا جواب نا آیا ۔ میں نے درخت سے اپنے کئے کی معافی بھی مانگی درخت نے مجھے”جا ؤ معاف کیا “کہہ کر شرمندہ تک نہ کیا ۔

کیاہماراروّیہ اس درخت جیساہے؟ہمیں اپنی نوجوان نسل سے یہ شکائت ہے کہ ہرکوئی موبائل فون پراپنے سوشل میڈیاکے ذریعے اپنی مرضی کاانقلاب لانے کیلئے اخلاق کی تمام حدیں عبورکرچکاہے لیکن یہ کبھی نہیں سوچتے کہ ان کواس اخلاق باختہ مقام پرلانے والے وہ کون سے مجرم ہیں جواپنے جلسوں میں اپنے مخالفین کوایسی زبان سے پکارتے ہیں۔
لگے منہ بھی چڑانے دیتے دیتے گالیاں صاحب
زباں بگڑی سو بگڑی تھی خبر لیجیے دہن بگڑا

مجھےممتاز مفتی کی وہ بات یاد آگئی کہ “اشفاق احمد گونگا ہے اس نے اپنے اوپر باتوں کا خول چڑھا رکھا ہے”۔
میں پارک سے نکل آیا گاڑی چلا رہا تھا اور دعا کررہا تھا کہ” اے مالک مجھےبھی گونگا کردے جیسے تو نے بابا اشفاق احمد کو گونگا کردیا تھا۔
اللہ ہمیں آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف بخشے آمین

اپنا تبصرہ بھیجیں