بالاکوٹ:مودی کی ہزیمت کانشان

:Share

دن رات پاکستان کے خلاف طبل جنگ بجانے والی بی جے پی کی سشماسوراج نے بالآخریہ اعتراف کرلیاکہ بالاکوٹ میں پاکستان کاکوئی جانی نقصان نہیں ہوا جس پرڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے یہ مشورہ دیاکہ اب ہمت کرکے دوسرے حقائق کابھی اعتراف کرلیں کہ اس حالیہ معرکہ آرائی میں پاکستان کے کسی بھی طیارے کونقصان نہیں پہنچااور اس سے قبل سرجیکل اسٹرائیک بھی ایک مفروضہ تھا۔اس کے ساتھ ہی نہ صرف بھارتی میڈیاکے13ٹی وی چینلزکوپاک فوج کی بریفنگ دکھانے پربھارتی حکومت کے ترجمان کی طرف سے نوٹس جاری کرنے پربھی بھارتی میڈیاکی آزادی کاپردہ چاک ہوگیا بلکہ سشماسواراج کے بیان نے ان کے جھوٹ کابھانڈہ بھی پھوڑدیاہے۔یادرہے کہ22فروری کو بریفنگ میں میجر جنرل آصف غفورنے بھارت کودو ٹوک پیغام دیاتھا کہ ہم سے مت الجھو آخری سانس تک وطن کا دفاع کریں گے۔
بھارت کی حکمراں جماعت (بی جے پی)کواب خوب اندازہ ہوچلاہے کہ انتخابی مہم کے دوران بالا کوٹ حملے کوکسی بھی طور کیش نہیں کرایاجاسکتا۔اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ بی جے پی کی قیادت کی سمجھ میں یہ بات آگئی ہے کہ دوطیاروں کے گرائے جانے اورونگ کمانڈرابھینندن کی گرفتاری ورہائی سے معاملات یکسرپلٹ گئے ہیں۔ایسے میں بالا کوٹ حملے کاڈھول پیٹ کرووٹ بینک کومضبوط رکھ پانا کسی بھی اعتبارسے ممکن نہیں رہا۔بالا کوٹ پرفضائی حملے کی خبر جیسے ہی پاکستانی نیوزچینلوں پرجاری ہوئی،بھارت میں مبصرین نے کہناشروع کردیاکہ اس کابراہِ راست فائدہ بی جے پی کوعام انتخابات میں پہنچے گا۔بی جے پی انتخابات کیلئے ایودھیاکے معاملے کوبھی لیکربیٹھی تھی۔ایسے میں پاکستان کوسبق سکھانے اورسزادینے کاڈھول بھی خوب پیٹاجارہا تھا۔دہشتگردوں کی معاونت کے الزام کی بنیاد پرپاکستانی حدود میں مختلف مقامات کونشانہ بنانے کے حوالے سے بڑھک ماری جارہی تھی۔بی جے پی کی بھرپورکوشش تھی کہ کسی نہ کسی طور معاملات کوپاکستان کے خلاف لے جاکرانتخابی فوائدبٹورے جائیں مگربالا کوٹ حملے کے بعد جو کچھ ہواوہ بی جے پی قیادت کے خواب وخیال میں بھی نہ ہوگا۔پھرمعاملہ ایسابگڑاکہ انتخابی مہم میں بالا کوٹ کاذکر برائے نام بھی نہیں کیاگیا۔ مودی نے صورتِ حال کی نزاکت بھانپتے ہوئے ’’میں بھی چوکیدارہوں‘‘کے ہیش ٹیگ کے ساتھ سوشل میڈیا مہم چلانے پراکتفاکیامگراس کا خوفناک جواب”چورچوکیدار”کے نام سے مشہورہوگیا ۔یہ فیصلہ اس لیے بھی کیا گیاتھاکہ بھارت بھرمیں عام انتخابات کے حوالے سے سب سے اہم معاملہ ذات پات اورطبقے کاہے۔
بی جے پی کے بیک روم بوائزکواندازہ ہوگیاکہ ان کی قیادت نے اندازے کی غلطی کی ہے اور فوری تصحیح لازم ہے۔یہی سبب ہے کہ بی جے پی کی انتخابی مہم میں اب ان ترقیاتی منصوبوں کا ڈھول پیٹاگیاجومودی کے دورمیں شروع کیے گئے۔انتخابی مہم کے حوالے سے جاری کیے جانے والے اشتہارات میں پاکستان سے انتقام کا ذکرتھانہ بالاکوٹ حملے کا۔ بالا کوٹ حملے کا معاملہ بی جے پی کیلئے ہزیمت کا پہلو بن گیا۔لوگ اب بھی پوچھ رہے ہیں کہ کتنے آدمی تھے!حکومت اور فوج دونوں اب تک یہ نہیں بتا پائے کہ بالاکوٹ حملے میں کتنے افراد ہلاک ہوئے۔پانچ بڑے بم برسانے کادعویٰ توکیاگیا تاہم پورے وثوق سے یہ نہیں بتایاگیاکہ ان بموں سے پاکستان کونقصان کتناپہنچا۔
بی جے پی کے بعض’’دانشوروں‘‘نے مشورہ دیا تھا کہ ونگ کمانڈر ابھینندن کی تصویربھی انتخابی پوسٹروں میں شامل کی جائے کیونکہ وہ لڑتے ہوئے گرفتار ہوایعنی قوم کاہیروہے۔بی جے پی نے ابھینندن کوقومی ہیروبنانے کی کوشش ضرورکی مگرپھر بہت جلد اندازہ ہوگیا کہ ایسا کرنا کسی طور مناسب نہیں کیونکہ خود فضائیہ بھی ایساکرنے سے گریزکیا۔اس کا نتیجہ یہ برآمد ہواکہ بی جے پی کے انتخابی پوسٹروں اور پینافلیکسزسے ابھینندن کی تصویرغائب ہو گئی۔کرناٹک کے سابق وزیر اعلیٰ ییڈ یورپّا، گجرات کے بھرت پنڈیااوربی جے پی کے دیگر لیڈر شورمچا رہے تھے کہ بالا کوٹ حملے کو قومی کارنامے کے طورپر بروئے کار لایاجائے یعنی اس حملے کے ذریعے ووٹ بٹورے جائیں لیکن اس رائے کے مخالفین کی تعداد بڑھنے کی وجہ سے ایسا کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔
مودی اوربی جے پی کے صدرامیت شاہ اب بھی کہیں کہیں بالاکوٹ حملے اورپاکستانی ایف سولہ طیارے کے گرائے جانے سے متعلق دعوے کرتے رہے مگر مجموعی طورپربی جے پی کالہجہ تبدیل ہوچکاہے۔کوئی بھی سیاسی جماعت باعث ندامت بالا کوٹ حملے کے حوالے سے کوئی بھی دعویٰ نہیں کر رہی،ایسے میں بی جے پی کے پاس بھی کچھ زیادہ گنجائش باقی نہیں رہی کیونکہ بی جے پی کی قیادت کواندازہ ہوگیا کہ کارگل کی جنگ کے بعد والی غلطی نہیں دہرانی ہے۔1999ءمیں کارگل جنگ کے بعد واجپائی کی قیادت میں بی جے پی دوبارہ اقتدار میں آئی مگرلوک سبھا میں وہ بھرپوربرتری حاصل کرنے میں ناکام رہی تھی۔کانگرس نے صورتِ حال سے فائدہ اٹھانے کی تھوڑی سی کوشش کی ہے مگر اب اُسے بھی اندازہ ہوگیاکہ بالاکوٹ حملے اور اس کے بعد کی صورتِ حال پر مودی کولتاڑنے سے کچھ بھی حاصل نہ ہوگا۔اس نےبھی بنیادی مسائل کی بات کرنی شروع کردی۔
بھارت کے ووٹراحمق نہیں۔وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں مختلف ایشوز پرایک دوسرے کونیچا دکھانے کی کوشش کررہی ہیں۔ ووٹر چاہتے ہیں کہ ان کے بنیادی مسائل حل کیے جائیں۔وہ چاہتے ہیں کہ مہنگائی کاگراف نیچے لایا جائے اورملازمت کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا کیے جائیں۔الیکشن کمیشن کو کچھ کہنے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ یہ نکتہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ فوج ملک کے دفاع کیلئے ہوتی ہے جسے سیاسی مقصد کیلئے کسی بھی طور استعمال نہیں کیاجا سکتا۔ تمام سیاسی جماعتوں کویہ بات سمجھنا چاہیے۔بھارتی سیاسی جماعتیں یہ بات تیزی سے سمجھ لیں تواچھی بات ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں