سعودی عرب کی جانب سے بحیرۂ احمراورخلیج عدن کے کنارے واقع ممالک کاایک مشترکہ بلاک بنانے کااعلان سامنے آگیاہے اوریوں بحیرۂ احمرکے کنارے ممالک پرمشتمل بلاک خلیج تعاون کونسل اورعرب لیگ کے بعدیہ ایک تیسری تنظیم ہوگی جس میں کئی عرب ممالک شامل ہوں گے۔ سعودی عرب کے مطابق اس کامقصدخطے میں استحکام کاحصول ہے۔اس تنظیم میں سعودی عرب کے علاوہ مصر،سوڈان،جبوتی،یمن،صومالیہ اور اردن شامل ہوں گے۔ سعودی عب کے ایک سرکاری بیان کے مطابق اس ادارے کے قیام سے بحیرۂ احمرکے ممالک کی سیکورٹی،سرمایہ کاری اور ترقی میں اضافہ ہوگا۔سعودی دارلحکومت ریاض میں گزشتہ بدھ کومذکورہ ممالک کے وزرائے خارجہ کا اجلاس ہوا تھاجس کے بعداس تنظیم کا اعلان ہواہے۔ اس موقع پرتمام ممالک کے وزرائے خارجہ کے علاوہ سعودی وزیرداخلہ شہزداہ عبدالعزیزبن سعودتاکشف،وزیرمملکت برائے امورافریقااحمدبن عبدالعزیز،وزیرمملکت برائے کابینہ ڈاکٹرمساعدبن محمدبن عبیان اوروزیر خارجہ عادل بن احمدالجیری موجودتھے۔
بلاک کے قیام کے حوالے سے آئندہ دنوں قاہرہ اورریاض میں مزیداجلاس ہوں گے جس میں تنظیم کے حوالے سے مکمل میکنزم، قواعداور اصولوں پر بات ہوگی۔اس نئی تنظیم کے حوالے سے اس کے مقاصداورفوائدپراپنے تاثرات کااظہارکرتے ہوئے مشرقِ وسطیٰ اورافریکی امورکے ماہرین کاکہناہے کہ اس سے متعلقہ ممالک کوسیاحت۔اقتصادی اوردفاعی فوائدحاصل ہوں گے۔چھ عرب ممالک مشترکہ دفاعی اوراقتصای نظام ترتیب دے سکیں گے ۔ مصری وزارتِ خارجہ کے ذمہ دار رضااحمدحسن نے بتایاکہ بحیرہ ٔ احمرکے امن کواس وقت تین ممالک ایران،ترکی اورچین سے خطرات لاحق ہیں۔اس بیان سے عرب تجزیہ نگاروں کی اس تشویش کی تصدیق ہوگئی ہے جس میں کہاگیاہے کہ بحیرۂ احمربلاک کے قیام کامقصد سعودی عرب کاخطے کے ممالک پراپناکنٹرول مضبوط کرناہے اوراس کامرکزی ہدف ترکی کی سوڈان کے راستے بحیرۂ احمرتک رسائی اوروہاں دفاعی اسٹرٹیجک فوجی اڈے کی روک تھام ہے ۔
واضح رہے کہ گزشتہ سال ترک صدراردگان نے سوڈان کادورۂ کیاتھاجوسقوط خلافت عثمانیہ کے بعدپہلادورۂ تھا۔اس دورے کے نتیجے میں دونوں ممالک کے دوران دس سے زائد تجارتی اوراہم دفاعی معاہدے طے پائے گئے تھے اورسوڈان نے ترکی کوبحیرۂ احمرپرواقع اہم جزیرہ ”سواکن ”دے دیا جس پرترکی بندرگاہ اورفوجی اڈہ تعمیرکررہاہے۔مصرنے گزشتہ سال ترک صدرکے دورے کی شدیدمخالفت کی تھی اورسعودی ذرائع ابلاغ نے اسے انتہائی جارحانہ اقدام قراردیا تھا۔ ”سواکن جزیرہ” سوڈان کے شمال مشرق میں واقع ہے اوربرطانوی استعمارکے دورمیں یہ مشہور بندرگاہ رہ چکی ہے۔انتہائی معتبرذرائع کے مطابق بحیرۂ احمربلاک کے قیام میں اہم کردارمصر کا ہی ہے ۔مصرترکی کی سوڈان سے قربت پرشدید پریشان اورخائف ہے ۔سوڈان اورمصرکے پہلے ہی دواہم جزائرپرشدیداختلافات ہیں اوردونوں ممالک میں اس پرباقاعدہ فوجی جھڑپیں بھی ہوتی رہی ہیں لیکن ترکی کی پیش قدمی کے پیش نظرمصرسوڈان کوقریب کرنے کیلئے سرگرم ہوگیاہے۔
مصرنے 11دسمبر2017ء کوقاہرہ میں بحیرۂ احمرکے ممالک کااعلیٰ سطحی اجلاس بلایاتھاجس میں اس بلاک کے قیام کی تجویزدی گئی تھی ،بعد میں ان ممالک نے خفیہ طوپراس معاملے کوآگے بڑھایااورانجام کارمصرکوسعودی عرب کے ذریعے باقاعدہ اس کے قیام کے اعلان میں کامیابی مل گئی ۔ سوڈان کے علاوہ صومالیہ میں بھی ترکی کی مضبوط فوجی تنصیبات اور مراکزہیں ۔صومالیہ کے ترک فوجی اڈے پردوسوترک فوجی افسران ،ہزاروں صومالی فوجیوں کوتربیت دے رہے ہیں۔
بحیرۂ احمرکے کنارے سات ممالک ہیں جن میں مصر،سوڈان،جبوتی،اسرائیل اردن، یمن،صومالیہ اور شامل ہیں۔ابھی تک اسرائیل کواس بلاک سے دوراورباہررکھاگیا ہے تاہم عرب خطے کی سیاست پرنظررکھنے والے اہم تجزیہ نگاراس خدشہ کااظہارکررہے ہیں کہ مستقبل میں جغرافیائی جوازکی بنیادپر اسرائیل کوبھی اس بلاک میں شامل کیا جائے گا،اس طرح یہ بلاک کتناکامیاب ہوگااس حوالے سے عرب ممالک کے حالیہ معاملات پرنظر ڈالی جائے تویہ کہنامشکل نہیں کہ اس بلاک کی کامیابی کے زیادہ امکانات نہیں ہیں کیونکہ اردن اور سعودی عرب کے درمیان بعض معاملات میں اختلافات رونما ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے اردن کازیادہ جھکاؤترکی کی طرف ہے جبکہ سوڈان اور مصرکے درمیان اختلافات کی خلیج کو ابھی تک پرنہیں کیاجاسکاجس کی بناء پرسوڈان بھی اس بلاک میں ترکی کی دوستی کی قربانی نہیں دے سکتا۔ گویا اس بلاک کی کامیابی کیلئے ترکی کے اہم کردارکے بغیریہ تمام کوششیں بے سودثابت ہونے کاامکان ہے اورخطے میں مصر کی بلاک بننانے کے بعداس کے فوائدسمیٹنااوراس سے بحیرۂ احمرمیں اپنی بالا دستی کی خواہش دم توڑتی دکھائی دے رہی ہے۔
ادھرگزشتہ ہفتے سعودی عرب نے اس آبنائے سے گزرنے والی دو آئل ٹینکروں پر حوثی باغیوں کے مبینہ حملوں کے بعد سعودی عرب نے اس راستے سے یورپ کو تیل کی رسد روک دی تھی۔ حوثی باغیوں نے گذشتہ ہفتے آبنائے کو بند کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ سعودی عرب کی بندر گاہوں کو بھی نشانہ بنا سکتے ہیں۔یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف سعودی کمان میں عسکری آپریشن گذشتہ تین سال سے جاری ہے۔ اور یمن آبنائے باب المندب کی جنوبی سمت میں ہے۔ایران کی دھمکی کے جواب میں اسرائیل کے وزیراعظم نے کہا کہ اگر ایران نے آبنائے باب المندب کو بند کرنے کی کوشش کی تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ بین الاقوامی اتحادی بھی اس کی مخالفت کریں گے اور اسے محفوظ بھی بنائیں گے۔ اس اتحاد میں اسرائیلی افواج بھی شامل ہوں گی۔اس سے پہلے اسرائیل کے وزیر دفاع نے کہا کہ حال ہی میں بحیرہ احمر میں اسرائیلی جہازوں کو لاحق خطرات کے بارے میں سنا ہے تاہم انہوں نے اس حوالے سے مزید تفصیلات نہیں دیں۔باب المندب 29 کلو میٹر چوڑی آبنائے ہے اور یہاں سے ہزاروں تیل بردار جہاز گزرتے ہیں۔ امریکاکے توانائی کے ادارے کے مطابق 2016 میں اس راستے سے یومیہ چار کروڑ اسی لاکھ بیرل تیل گزرا تھا۔