اردگان کوآیاصوفیہ میوزیم کومسجدمیں تبدیل کرنے پرعالم االسلام کی طرف سے جوپذیرائی ملی ہے اس کومیڈیا کی جانب سے بڑی کوریج ملی ہے جبکہ اس دوران ان کے مخالفین کوایک مرتبہ پھر ٹیلی ویژن اسکرین پرآنے میں مشکلات کاسامنا ہو رہاہے۔ادھردودرجن سے زائدمسلم ممالک میں آیاصوفیامسجد کی بحالی پرخیرمقدمی بینربھی لگائے گئے ہیں اورانہیں اردگان کوسلام پیش کرتے ہوئے انہیں دورحاضرکاارطغرل اورعثمان قراردیاجارہاہے جبکہ آیاصوفیامسجد بحالی کواسلام کی نشاۃ ثانیہ کاآغازکہاگیاہے۔ اردگان نے 24 جولائی کوجمعہ کی نمازکےساتھ اسے بطورمسجد کھولنے کااعلان کیاتھامگرشہریوں نے اعلان سنتے ہی ازخودباہر نمازکی ادائیگی شروع کردی۔اس سے اندازہ ہوتاہے کہ خودترک مسلمانوں کواس کے بطورمسجد کھلنے کاکس قدرشدت سے انتظار تھا۔اردگان کےاس تاریخی جرات مندانہ قدم نے ترک قوم کونیااعتمادبخشاہے اوراس کے مخالفین کواس سے کافی دھچکالگاہے۔
اس کے علاوہ جورائے شماری ملک میں نافذ ایمرجنسی کے زیر تحت ہوئی جس کے تحت50ہزارکے قریب افرادکوگرفتارکیا جاچکا ہے جس میں ملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ بھی شامل ہیں لیکن ایسے نتائج جس میں ووٹنگ ٹرن آؤٹ 87 فیصد پرموقوف کرنا اہم چیزکونظراندازکرنے جیساہے،3کروڑسے زائدلوگوں کویہ دکھائی دے رہاتھاکہ اردگان ترکی میں مطلق العنانیت پراپنی گرفت مضبوط کررہے ہیں،تاہم انہوں نے پھربھی انہی کوووٹ دیا۔
ایسا کیوں؟اس کاایک جواب تویہ ہے کہ اس وقت کئی ترک شہریوں کے پاس جوکاریں،فریزرزاورموبائل فونزہیں2003ءمیں وہ یہ سب کچھ خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے جب اردگان پہلی مرتبہ اقتدارمیں آئے تھے۔اردگان کے دورِاقتدارمیں فی کس خام ملکی پیداواردوگنی ہوگئی اورلوگوں کامعیارزندگی تیزی سے بہترہوااردگان کے دورِاقتدارمیں سڑکوں کی تعمیر اورپانی کی فراہمی جیسی بنیادی سہولیات میں بے انتہابہتری آئی۔ایک کریانہ کی دکان کے مالک45سالہ راصم ساہن سے جب پوچھاگیا کہ وہ اردگان کی حمایت کیوں کرتے ہیں تواس کاکہناتھاکہ’’میں اس وقت یہاں خودکو15سال پہلے کے مقابلے میں زیادہ محفوظ محسوس کرتاہوں اور مطمئن ہوں‘‘۔
یہ سیاست کا ایک پرانافارمولاہے،اگرلوگ خودکوآپ کی قیادت میں زیادہ بہترمحسوس کرتے ہیں توپھروہ آپ کی حمایت جاری رکھیں گے۔2016ءکی ناکام فوجی بغاوت کے بعدسےاردگان کی زیرقیادت کئی شہری آزادیوں پرقدغن لگادی گئی ہیں۔ فریڈم ہاؤس نے اپنے رینکنگ میں ترکی کو’’ناٹ فری‘‘یعنی غیرآزادقراردیاہے جبکہ اس کے مقابلے میں2005ء میں اردگان حکومت کے اصلاحات کی تعریف کرتے ہوئے اسے’’پارشلی فری‘‘یعنی کسی حدتک آزادقراردیاتھا،یہ اس وقت کی بات ہے جب اردگان یورپی یونین میں شمولیت کی تیاریاں کررہے تھے۔جب سے مغربی جمہوری اقدارکی خلاف ورزیاں کی جارہی ہیں اس کے بعد سے ترکی کی یورپی یونین میں شمولیت کی امیدوں پر پانی پھرگیا ہے لیکن ترکی میں تمام سیاسی حلقے اس کا موردو الزام اردگان کونہیں ٹھہراتےبلکہ انہیں شبہ ہے کہ یورپی یونین 8 کروڑ10لاکھ کی آبادی والے مسلمان ملک کو اپنے’’عیسائی کلب‘‘کی عصبیت کی وجہ سےجگہ دینے کاخواہاں نہیں ہے۔
ان مذہبی آزادیوں کی فہرستوں کونظراندازکرنے کیلئےاتناہی کافی ہے کہ ترکی میں اعتدال پسنداورمذہب سے لگاؤرکھنے والے ترک شہری خودکواس وقت جتناآزادسمجھتے ہیں اس سے پہلے انہیں ایسی آزادی کبھی نہیں ملی۔یہ سب اس لیے ہے کیونکہ اردگان نے سخت گیرسیکولرقوانین کابھی خاتمہ کیاجیسا کہ یونیورسٹی میں خواتین کے اسکارف پہننے پرپابندی، جسے کئی مسلمان امتیازی قانون سمجھتے تھے۔اردگان کی جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی (اے کے پی)کی رضاکار36سالہ خاتون نسیم توگراکہتی ہیں کہ’’ہمیں15برس قبل اتنی آزادی حاصل نہیں تھی،اب ہم لوگ آزادہیں اورہم اپنے نظریات کسی دوسرے پرمسلط نہیں کرسکتے‘‘۔
یہ مذہبی آزادی کردسیاستدانوں،آزادخیال صحافیوں اورانسانی حقوق کے رضاکاروں کیلئےزیادہ پُراعتماد نہیں ہے اوروہ ترکی کے وسعت پانے والے جیل سسٹم پرتنقیدکرتے ہیں لیکن یہ بھی اردگان کی بے رحمانہ کامیاب الیکشن کی حکمت عملی ہے۔ اپنے دورِ اقتدارمیں انہوں نے ترکی کودوکیمپوں میں تقسیم کیا۔انہوں نے اپنی طرف موجودترکوں کوحقیقی نمائندہ ظاہرکیا، ترکی کے عام عوام اللہ پریقین رکھتے ہیں اوراپنے وطن کے وفادارہیں۔انہوں نے اپنے مخالفین کوترکی کادشمن ظاہرکیاجس میں سیکولراشرافیہ،بائیں بازوکے نظریات کے حامل وطن دشمن اوروہ کرد شامل ہیں جودہشتگردوں کے حامی ہیں۔
اردگان کاایک مثبت پہلویہ ہے کہ انہوں نے کئی لوگوں کوغربت سے نکالالیکن ان کاایک دوسراسخت گیررخ یہ بھی ہے کہ انہوں نے اپنے مخالفین کے خلاف کریک ڈاؤن کیااوراپنے مخالفین سے کوئی رعائت نہیں برتی۔’’دی نیوسلطان‘‘کے مصنف سونرکیگا پٹے کاکہناہے کہ اس وقت ترکی میں صرف ایک فالٹ لائن موجودہے اوروہ یہ ہےکہ’’آپ اردگان کے حامی ہیں یا اس کے مخالف‘‘۔اردگان نے سوسائٹی کوبہت احتیاط سے تقسیم کیاہے تاہم ان کے حامیوں کی تعداد(جوکہ انتخابی نتائج کے مطابق52فیصد ہے)انتخابات جیتنے کیلئےکافی ہے۔
ہوسکتاہے کہ ان کا اتحادزیادہ دیرنہ چلے بالخصوص اگرمعیشت زوال کاشکارہوئی۔ گزشتہ 6ماہ کے دوران ڈالرکے مقابلے میں مقامی کرنسی لیراکی قدرمیں کمی کے باعث ترکی میں اشیاخورونوش کی قیمتیں بڑھی ہیں اورمخالفین کویہ کہنے کاموقع مل گیاہےکہ اردگان کے پاس کوئی واضح معاشی منصوبہ نہیں ہے اوراقتدارپران کی گرفت کی مضبوطی نے مغربی سرمایہ داروں کوخائف کر دیاہے جوکہ ملک میں سیاسی استحکام کے خواہاں ہیں لیکن اردگان جوپہلے ہی نصف سے زائد ملک کے سامنے اپنا بیانیہ کامیابی سے پیش کرنے کے قابل ہیں،اس وقت آیاصوفیہ کومسجد میں تبدیل کرنے کے بعدملک کی کثیرتعدادجن میں ان کے مخالفین بھی شامل ہیں،ان کی بہادری کی داددیتے ہوئے اپنی محبتوں کوان پرنچھاورکررہے ہیں۔اردگان نےترکی کوجہاں مطلق العنانیت کی طرف جانے سے روکاہے وہاں اردگان حکومت کی طرف سے کورونا وباکے دوران بہترین انتظامات کے ساتھ ساتھ ملکی معیشت کوسنبھالادینے پربھی ان کی حمائت میں اضافہ ہورہاہے اوران کے ووٹرکی تعدادمیں کافی اضافہ بھی ہوگیاہے۔