Are We Victims Of Bad Prayers?

کیاہم بددعاکاشکارہیں؟؟

:Share

ہما ری قومی بے حسی اورچشم پوشی انتہاکوپہنچی ہوئی ہے۔و قت کی پکارصدابصحراثابت ہورہی ہے۔کاش یہ صداکسی گنبدمیں دی گئی ہوتی،کم ازکم واپس تولوٹتی ۔ جب میں پوری قوت سے قوم کی مظلوم بیٹی عافیہ کانام لیکرپکارتاکہ تم کہاں ہو؟توسوال کا جواب نہ ملتا،سوال توواپس آتا۔آئیے حساب لگا کردیکھیں کہ ہماری اس مظلوم بیٹی کو29مئی کوامریکی جیل میں سات ہزاردن ہوگئے ہیں۔جس روزقوم کی اس مظلوم بیٹی کوجواپنے دومعصوم العمراورایک گودمیں لپٹے بچوں کے ساتھ تھی،ہماری خفیہ ایجنسیوں کے مستعداور سائے کی طرح پیچھاکرتے بے رحم ہاکس نے پوری درندگی اورسفاکی سے اغواء کیاتوان دنوں کون کون مسند اقتدار پرمتکمن تھا۔23جون2003کے بدنصیب دن پرویزمشرف صدر،ظفراللہ جمالی وزیراعظم،فیصل صالح حیات وزیرداخلہ،خورشیدمحمودقصوری وزیر خارجہ، رضاحیات ہراج وزیرقانون،دبنگ چیف جسٹس سپریم کورٹ شیخ ریاض احمد،جنرل احسان الحق سربراہ آئی ایس آئی،جنرل ندیم تاج سربراہ ملٹری انٹیلی جنس،کرنل بشیرولی محمدسربراہ انٹیلی جنس بیوریو،اورسیدضمیرجعفری کے فرزندارجمند جنرل احتشام ضمیرایک اہم ترین قومی ایجنسی کے سربراہ تھے۔

ان تمام اعلیٰ عہدیداروں کے علم کے بغیرایک پتہ بھی جنبش نہیں کرسکتاتھا۔ظفراللہ جمالی صاحب اس تا ریخ سے مزیدایک برس 26جون2004ءتک اپنے عہدہ جلیلہ پرفائزرہے۔یہ سب افراداس حقائق سے انکارنہیں کرسکتے کہ ڈاکٹرعافیہ صدیقی اوراس کے بچوں احمدعمر7سال،مریم عمر5سال اورسلمان کی عمرچندماہ، اغوأحبس بیجا،اورامریکنوں سے قیمت کی سودے با زی اورحوالگی میں ملوث خفیہ ایجنسیوں کے کارپردازوں اورایوان اقتدارکے حاکموں میں ہو نے والی ان کاروائیوں سے مکمل طورلاعلم ہیں۔اس مظلوم اوربے گناہ خاتون کی وہ دردناک چیخیں جس نے بگرام ایئربیس کے درودیوارتک ہلاکررکھ دئیے،ان کی اذیت ناک ابتدأتو اسلام آباد سے ہوئی ہوگی۔وہ یہاں کسی کوسنائی کیوں نہیں دیں؟وہ تمام خفیہ ایجنسیاں جنہوں نے عزت وطن کایہ معرکہ سرکیا،براہ راست وزیراعظم کوجوابدہ تھیں اوراگروزیراعظم،وزیرداخلہ اوروزیرخارجہ کے اختیارات کی حدودآگ کے اس دریاکے پارنہیں جا سکتی تھی توبھی ان کوکسی حدتک اعتمادمیں ضرورلیاہوگا۔

فاسق کمانڈوکی رخصتی کے بعدجمہوری حکومتوں کوبھی راج کرتے ہوئے کئی سال بیت گئے ہیں اورسب حکومتوں نے قوم کو عافیہ کی رہائی کی یقین دہانیاں کرائیں اورعمران خان نے توایوان ریڈلی کے ساتھ بیٹھ کرعافیہ کی رہائی کے بڑے بلندوبانگ دعوے بھی کئے جوریکارڈپرموجودہیں۔زرداری کے دور حکومت میں عافیہ کوافغانستان سے امریکالیجایاگیااورعوامی حکومت کادعویٰ کرنے والی حکومت اورعمران خان کی حکومت کے وزیرخارجہ شاہ محمودقریشی کوکبھی یہ توفیق نہ ہوسکی کہ عافیہ کی بازیابی کامطالبہ کرتے۔اس سنگین واردات کابقدرعلم ہونے کے باوجودان کے دلوں میں ایک بیٹی سے فطری محبت کاکوئی گدازپیدا نہیں ہوا؟ذہنوں میں کوئی تلاطم اوردلوں میں کوئی دردپیدانہیں ہوا؟کیاان کے دست وپا،قلب وبصارت اورنطق سماعت پرمکمل طورپر قفل پڑگئے ہیں کہ عمران خان اپنے دورِاقتدارمیں کسی ایک موقع کی مناسبت سے کبھی ایک باربھی اس رازکومنکشف نہ کرسکاجتنا وہ آج اپنے اقتدارکے چھن جانے پرسارے ملک کو آگ لگانے کے درپے ہے؟کوئی یہ زرداری سے پوچھےکہ ریمنڈڈیوس کی گرفتاری کے موقع پرعافیہ کی رہائی کاایک بہترین موقع تھالیکن غلاموں کوہمت نہ ہوسکی کہ اپنے آقاؤں سے ایسی گزارش ہی کرسکتے اوربدبخت دوپاکستانیوں کوسرعام دن دیہاڑے گولیوں سے چھلنی کرنے والے کی رہائی کیلئے پاکستانی خزانے سے کئی کروڑروپے کاورثاءکوخون بہادیکردنوں میں ملک سے فرارکروادیا۔اس پرامریکاکی عدالت میں اس طرح مقدمہ چلایاگیاکہ تمام زمینی حقائق اور رپورٹس چیخ چیخ کرعافیہ کی مظلومیت کی دہائی دے رہی تھی لیکن امریکاکی عدالت نے حا لات کی بے رحم زنجیروں میں جکڑی کمزور،نحیف اورمظلوم عافیہ کو عدم ثبوت کے باوجود 87سال کی قیدسنادی۔

عا فیہ صدیقی صرف عصمت صدیقی کی ہی بیٹی تونہیں،وہ تواپنی ماں کے نام کی رعایت لفظی سے پا کستان کی عصمت کی بیٹی ہے۔بیٹیاں،جوسب کی ایک جیسی ہوتی ہیں،گڑیوں سے کھیلتی ہوئی،تتلیوں کے پیچھے بھاگتی ہوئی،باپ کے پیروں کی آہٹ پرلہراتے با لوں سے دوڑتی ہوئی،اس کے سینے سے لگ کر دل میں اپنی بے لوث محبت اوراطاعت کی لازوال قندیلیں روشن کرتی ہوئی،اپنی ننھی سی عمرمیں ہی دلہن سی لگتی ہوئی،اورہما رے ایمان کے حوالے سے والدین کے گھروں میں رسالت مآب ﷺ کی مہمان کی حیثیت رکھتی ہوئی،لیکن آج 7 ہزارایّام سے پابندِسلاسل ہونے کے باوجوداسے جنسی زیادتی کانشانہ بنادیاگیا اور وہ کینسرکے موذی مرض میں مبتلازندگی کے آخری سانس لے رہی ہے۔صدحیف کہ علمائے دین بالخصوص طارق جمیل بھی اس واقعے پرمنہ میں خود غرضی کی گھنگھنیاں ڈالے بے حسی کاشکارہیں اورصدمبارک اورتحسین کے لائق ہیں ہماری وہ مجبوروبیکس کشمیری دختران ملت کی سربراہ آسیہ اندرابی جنہوں نے اپنی ملی غیرت کامظاہرہ کرتے ہوئے سڑکوں پرآکراپنااحتجاج ریکارڈکروایااوروہ بھی کئی برسوں سے مکارہندوکی جیل کی صعوبتیں برداشت کررہی ہیں۔

ساری پا کستانی قوم اب بجاطورپرمطا لبہ کرتی ہے کہ مستعفی پرویزمشرف بمعہ حواریوں اورتمام جمہوری حکومتوں کے سربراہوں پرفردجرائم میں عافیہ صدیقی کی زندگی تباہ کرنے کاجرم،پاکستان کی بیٹی کی عزت وتوقیرپامال کرنے کاجرم اورغیر ملکی درندوں کے ہاتھوں بیچنے کاجرم سرفہرست رکھاجائے،اورعدالت عظمیٰ میں ان تمام اہلکاروں پربھی مقدمات قائم کئے جا ئیں جنہوں نے اپنے اعلیٰ افسران کے احکامات کی تعمیل میں عا فیہ صدیقی کودن دیہاڑے کراچی میں گلشن اقبال سے اپنے سفرپرجا تے ہوئے اغوأ کیا،اسلام آبادکے کسی انٹیروگیشن سنٹرکے عقوبت خا نے میں پہنچایااورافغانستان کے بگرام ایئربیس میں قائم امریکی جیل میں منتقل کر نے کے گناہ عظیم میں برابرکے شریک رہے۔مملکت پاکستان کاخواب دیکھنے والاعلامہ اقبال بھی اپنی قبرمیں تڑپ اٹھاہوگاکہ اس کے نام سے منسوب گلشن سے اس کے دل کے پھول کے اس بے دردی سے ٹکڑے کردئیے گئے۔

یہ کیسی قومی غیرت ہے،ہماری متعدداین جی اوز،حقوق انسانی کے علمبردار،غیرملکی قیدیوں کے غمگساراورموم بتی مافیاکہاں سو ئے ہوئے ہیں!شایدعافیہ کیلئے کوئی آوازاٹھانے،کوئی احتجاجی تحریک اورریلی نکالنے میں کسی اقتصادی فائدے کی کوئی صورت نظرنہیں آرہی ہوگی۔وہ تو ہمسایہ ملک کے جاسوسوں اور دہشتگردوں کوسزائے موت کے باوجودرہاکروانے کیلئے اپنے دوراقتدارمیں اسمبلیوں سے قانون میں ترمیم کرواکراپنی وفاداری کاپیغام دینے میں عافیت سمجھتے ہیں اورملک پرحملہ آورپائلٹ کیلئےاپنی تمام صلاحیتیں صرف کرکے واپسی کامحفوظ انتظام کرتے ہیں،جوہمیں جواب میں لا شوں کے تحا ئف دیتے ہیں۔ ہم امریکی قیدیوں کواپنی جیلوں میں وی آئی پی سہو لتیں دیتے ہیں،لاکھوں افغانوں کی قاتل فوج کی واپسی اوراپنے ملک میں میزبانی کرکے ان کی نظرالتفات کی بھیک مانگتے ہیں،وائٹ ہاؤس میں قصرسفیدکے فرعون کے سامنے پاکستان کی دلیربیٹی طیبہ ضیاء کوعافیہ کی بابت سوال پوچھنے سے منع کرتے ہیں۔

چشم فلک نے یہ بھی دیکھاسینکڑوں افرادکے بھارتی قاتلوں اورجاسوسوں دہشتگردوں کوفاسق کمانڈونے بحفاظت ازلی دشمن ہندوحکومت کے حوالے کردیا تاکہ دنیااسے مہذب کہہ سکے اوربرطا نوی شہریت کے حامل قاتل کی سزائے موت معاف کرکے نہائت احترام سے واپس برطانیہ بھجوادیاگیا۔اگرایشین ہیومن رائٹس کمیشن،امریکی قیدی معظم بیگ کی کتاب کی اشاعت اورایوان رڈلی درست طورپرتصدیق نہ کرتے توشایدہمیں خبرتک نہ ہوتی اورمعاملہ موجودہ صورت اختیارنہ کرتا۔اسی تشہیرکے نتیجے میں مظلوم اوربے بس عافیہ کوامریکامنتقل کیاگیاجس پرحددرجہ واہیات اورمضحکہ خیزالزامات کے تحت مقدمہ قائم کیاگیا ۔

صرف اس تصورسے کلیجہ منہ کوآتاہے اورآنکھیں فرط غم سے خون کادریابن گئی ہیں کہ اپنے خلاف ہونے والی غلیظ سازش سے بے خبر،عفت مآب خاتون اپنے تین معصوم العمربچوں سمیت درندہ نماانسانوں کے حوا لے کردی گئی۔اس نے اپنے ہم وطن اغوأکا روں کوغیرت وطن کااحساس تودلایاہوگا،بارباراپناجرم تو پوچھا ہوگا،اپنی بے گناہی کی قسمیں بھی توکھائیں ہون گی،اپنی عزت ونا موس کاواسطہ بھی دیاہوگا،ایک خوفزدہ،سہمی ہوئی نازک سی عافیہ نے ا پنے لباس اور بدن پرلپٹی حیاکی چادرنوچنے پردہشت زدگی میں فریادتوکی ہوگی۔وہ خونخوار،بے مہرآنکھوں کی تاب نہ لاکرچلّائی توہوگی،اس نے ا شک بھری آنکھوں سے بہن، بیٹی ہونے کا واسطہ بھی دیاہوگا۔کیااس وقت کی آمریت اورآنے والے جمہوری دورکے الاؤمیں پگھلے ہو ئے سیسے نے سب کی سماعتیں سلب کر لی تھیں ؟ کسی کی بصارت میں اپنی بیٹی،ا پنی جوان بہن کاعکس نہیں ابھراکہ ان میں کوئی عا فیہ کی جگہ ہوتی توان کے جگرچھلنی نہ ہوتے؟دل خون نہ ہوتا؟کیاوہ اس کی جگرپاش چیخیں برداشت کرلیتے؟

عقوبت خا نے کی تاریک راتوں میں تنہائی کاعذاب اورنت نئی اذیتوں نے کیسے اس کی جسمانی توانائیاں کشیدکی ہوں گی؟ان سات ہزارایّام کاحساب ہے کسی کے پاس؟اورپھرجب اسے اپنے جگرگوشوں کے بغیراسلام آبادکی کربلاسے پابجولاں یزیدی دمشق جیسے بگرام ایئربیس پرزینب بنت علی کی سنت اداکرتے ہوئے منتقل کیاجارہاتھااوراس کی آہیں سسکیوں میں اورسسکیاں چیخوں میں تبدیل ہورہی تھیں توکسی کے ضمیرنے ملا مت نہیں کی؟کسی کی آنکھ سے ندامت کا کوئی آنسو نہیں گرا؟خوف اور دہشت سے ایک نازک سی عورت کے لرزتے ہوئے جسم کی حالت کسی دل میں کوئی گداز پیدا نہ کر سکی ؟کیا انسان ایسا سنگدل بھی ہوسکتاہے؟یوسف رضا گیلانی اورپرویزمشرف کے والداپنے نام کے ساتھ سیّدبھی لکھتے تھے۔عمران خان آپ نے تواقتدارمیں آنے سے پہلے عافیہ کی رہائی کیلئے کیسے بلندوبالادعوے کئے تھے،شریف برادران بھی برسوں قوم کی تقدیرکے ان داتارہے اورعافیہ کیلئے مرحومہ کلثوم نواز کومیں نے آبدیدہ دیکھااوروہ بھی اپناوعدہ ایفانہ کرسکیں،کیاان کی بیٹی مریم اپنی مرحومہ والدہ کے انسوؤں کی لاج رکھیں گی یاوہ بھی اقتدارکی غلام گردشوں میں عافیہ کے مجرموں کی فہرست میں اپنانام درج کروائیں گی،شاہ محمودقریشی جوملتان کے گدی نشین بھی ہیں اوراپنے مریدون کوروحانی فیض عطاکرتے ہیں لیکن ڈاکٹرفوزیہ کواسلام آبادمیں ملاقات کیلئے صرف دومنٹ میں اپنی مجبوریوں کااظہارکرکے مایوس لوٹادیتے رہے کہ وہ کسی بھی صورت میں اپنے امریکی آقاؤں کوناراض کرنے کی ہمت نہیں رکھتے تھے،آخر یہ تمام اقتدار کے بھوکے افرا د یوم آخرت کو سیّد الانبیاء کا سامنا کیسے کریں گے جب عافیہ سیّدالانبیاء کے سائے میں بیٹھی اپنے تمام مظالم اور زخموں کا ذمہ داران کو ٹھہرا دے گی؟ کبھی ایسا بھی سوچا ہے کہ ایسا سوچنے کی مہلت بھی چھین لی گئی ہے؟

چنگیراورہلاکوکے مظالم ہوں یاکربلاکی ظلمتیں،تاریخ نویس اس خوف کابجاطورپراظہارکرتے ہیں کہ شایدآئندہ آنے والی نسلیں ان کو دروغ گوکہیں گی لیکن جامعہ حفضہ کی معصوم طالبات پرڈھائے جا نے والے مظالم اورعافیہ کوپیش آنے والے شرمناک اورکرب انگیزحالات قرونِ وسطیٰ کی تاریخ کی تصدیق کرتے ہیں اور پاکستان کی تاریخ کے یہ تمام سیاہ اور بدنما کردار بھی ان ہی صفوں میں جگہ پائیں گے جن پر ہماری آئندہ نسلیں نفرت سے شرمندگی کا اظہار کریں گی۔آج جب وطن کے ہر باضمیر انسان کی آنکھیں ظلم کی اس داستان پر اشکبار ہیں،اس شرمناک داستان کا ورق ورق ذرائع ابلاغ میں بکھرا پڑا ہے۔اس درجہ کی عملی بازگشت جس کا یہ مطالبہ کرتی ہے، اقتدار کے ایوانوں سے برآمد نہیں ہو رہی۔کیا وہ تمام مضامین،کالم، ادارئیے اور اخباری بیانات کوئی جذباتی افسانہ طرازی ہے جو اہل قلم ہما ری آگاہی کیلئے سپرد قلم کر رہے ہیں!

یقین کیجئے یہ ملک کی تاریخ کاایک شرمناک باب مرتب ہورہاہے اوراس کومرتب کرنے والے قابل ستائش ومحترم ہیں،جن کی تحریروں نے اہل وطن کی رگوں میں حمیت کاخون دوڑایاہے۔قا بل مبارکبادہے ہماری نومسلم بہن”ایوان ریڈلی”جس نے سب سے پہلے اپنے معرکتہ الآراکالم “قیدی نمبر650″لکھ کراس ظلم و بربریت کا انکشاف کیاجس کے اگلے ہی دن میں نے اپنی قوم کو اس صدمے سے آگاہ کیا گویا فاسق کمانڈوکے مدہوش مسنداقتدارکے دروازے پر پہلا پتھر پھینکنے کی سعادت مجھے حاصل ہوئی،اس کے بعد آج تک دخترانِ ملت اوربہت سے اہل قلم کے مضا مین عالم اسلام کوخواب غفلت سے جگانے کی کوشش کررہے ہیں۔کاش سفارتی ذرائع سے بڑھ کرحکومتی سطح پراس اہم ترین مسئلے کواقوام متحدہ کے توسط سے اٹھایاجائے اورجلدازجلدعا فیہ کی ملاقات اپنی بیمارو ضعیف ماں عصمت صدیقی،انتھک ڈاکٹرفوزیہ اوراس کے بچوں کے ساتھ ہوسکے۔میں جب اپنے وطن کی حالت زارپرغورکرتاہوں تودل سے یہ آہ ضرورنکلتی ہے کہ کہیں ہم اپنے لیڈروں کے بداعمالیوں اوروعدہ خلافیوں کی بناءپرعافیہ کی کسی خاموش بددعاکاشکارتونہیں ہو گئے۔رب العزت!گزشتہ سات ہزارایام سے وحشت ودرندگی کاشکارعافیہ کیلئے غیب کے بہترین اسباب پیدافرمااوراس کوبے رحم اغیارکے پنجہ استبداداورہمارے ملک کے بے عمل سیاست دانوں کی منافقت سے نجات دلا۔بیشک میرارب علیم وخبیرہی دشمنوں کی ہرچال کوناکام بنانے پرقادرہے۔ثم آمین

اپنا تبصرہ بھیجیں