Are We Free?

کیاہم آزادہیں؟

:Share

14/اگست1947ءکوجب پاکستان دنیاکی سب سے زیادہ مسلم آبادی والی ریاست کی حیثیت سے نقشے پرابھراتھاتوقائدنے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کوپہلا گورنر جنرل بنانے سے اس لئےانکارنہیں کیاتھاکہ وہ خوداس عہدے کے خواہاں تھے بلکہ اس لئے کہ اپنی قوم اوراقوام عالم کویہ باورکروایاجائے کہ اب برطانوی راج ختم ہوگیااور سلطانی جمہورکازمانہ آگیاہےاورملک کے فیصلے ملک کے اندرہوں گے۔یہ سیا سی آزادی کی علامت تھی۔اس کے ایک سال بعد جب یہ مسئلہ درپیش ہواکہ آیاپاکستان کے طے شدہ تمام اثاثے پہلے کی طرح”ریزروبینک آف انڈیا”میں جمع رہیں یااس کااپنابینک ہو،قائداعظم نے فیصلہ کیاکہ آزادملک پا کستان کااپنا آزاد بینک ہوناچا ہئے،اس طرح انہوں نے اقتصادی آزادی کااعلان کرتے ہوئے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے قیام کااعلان کیااورکراچی میں بولٹن مارکیٹ میں واقع تاریخی عمارت میں پاکستان کے پہلے اسٹیٹ بینک کاافتتاح کرتے ہوئے فرمایاکہ میں ایسامعاشی نظام نہیں چاہتاجس میں امیر،امیرتراورغریب،غریب تر ہوجائے۔سودی نظام کواستحصالی نظام قراردیتے ہوئے ما ہرین اقتصادیات اورعلما ئے دین کوتلقین کی کہ وہ اسلام کے اصولوں پرمبنی بینکاری کے قیام کیلئے تحقیق اورغوروخوض کریں۔اسی طرح انہوں نے سا بقہ مشرقی پا کستان کی بندرگاہ چٹاگانگ میں استحصال کے خاتمے اورفلاحی مملکت کے قیام پرزوردیا۔

انہوں نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کے بارے میں رہنمااصول متعین کیااورکہاکہ پاکستان دنیاکے ہرملک سے برابری کی بنیادپر دوستانہ تعلقات کاخواہاں ہےلیکن ساتھ ہی مظلوم قوموں کی حمائت بھی جاری رکھےگا۔یہ صرف سیاسی بیان نہیں تھاجیساکہ ہمارے سیاستدان کرتے ہیں،بلکہ قائدنے فلسطین، جنوبی افریقااور انڈونیشیاکے عوام کی جدوجہد آزادی کی کھل کربرملاحمائت کی ،نسلی امتیازاورنوآبادیات کے خاتمے کیلئے قرارواقعی اقدامات بھی کئے۔اگریہ کہاجائے کہ وہ صرف مسلم ممالک کی آزادی کے حامی تھےتوجنوبی افریقاکی اکثریت توغیرمسلم تھی توپھرانہوں نے اس کی حمائت کیوں کی؟

قائداعظم نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں سلطنت برطانیہ کے زما نے سے تعینات فوج کوان کی چوکیوں سے واپس بلالیااور کہاکہ اب ہمارے قبا ئلی بھائی ہماری شمال مغربی سرحدکی حفاظت کریں گے لیکن انہیں کیامعلوم تھاکہ60سال بعدکوئی خودسا ختہ محافظ پاکستان امریکی قصرسفیدمیں بیٹھے فرعون کےحکم پران ویران چوکیوں پرجواب کھنڈربن گئیں تھیں،پھرفوج تعینا ت کردے گاجیسے برصغیرکے برطانوی آقاؤں نے حریت پسندوں کی بستیوں پرسامراج کی گرفت مضبوط کرنے کیلئےکررکھا تھا۔ جہاں سیاسی ایجنٹ چیدہ چیدہ قبائلی سرداروں کورشوت دیکران کی وفاداریاں خریدلیتے تھے۔یہ کاروباراس وقت اپنے عروج پر پہنچ گیاجب اسی آمرنےاپنے غاصبانہ اقتدارکوطول دینے کیلئے چندڈالروں کے عوض قبائلی عوام کوکچلنے کیلئےامریکی سی آئی اے کووہاں اڈے بنانے کی اجازت دی۔

یہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ اس سے قبل خودساختہ یامغرب ساختہ دخترمشرق(مغرب)نے امریکی خفیہ پولیس ایف بی آئی کوپاکستان کی سرزمین پرتھانے قائم کرنے کی اجازت دی تھی۔کیایہ ستم ظریفی نہیں کہ قائداعظم توانگریزگورنرجنرل گوارہ کرنے کوتیارنہیں تھے اورایک ایک کرکے نوآبادیات کی باقیات کومٹانے کی مثال قائم کرکے رخصت ہوئےجبکہ ان کی وفات کے تقریباً نصف صدی کے بعدآنے والے حکمرانوں نے استعمارکے غیرملکی گماشتوں اورجاسوسوں کی میزبانی کی بلکہ نوبت بہ ایں جا رسیدکہ کٹھ پتلی حکمران اپنے عوام سے خاص کرغیورقبائلیوں سے اس قدرخا ئف تھےکہ اپنے غاصبانہ قبضے کوبچانے کی خاطرغیرملکیوں اور صہیونی وصلیبی عناصرکواپنے ہاں قبائلی علاقوں میں جانے کی اجازت بھی دی۔کیاکوئی تصورکرسکتاہے کہ کسی حکومت کوخوداپنے ہی عوم سے،اپنے دین سے، اپنے اعتقادات سے،اپنے نظریات سے خطرہ محسوس ہو،جس سے خود کومحفوظ رکھنے کیلئے انہیں غیرملکی ایجنٹ اورغیراسلا می نظریات درآمدکرناپڑے؟

قا ئد اعظم کی 11/ اگست کی تقریر کا بعض لوگ اس طرح حوالہ دیتے ہیں کہ جیسے انہوں نے زندگی میں پہلی با ریہ تقریر کی ہے اور ان کی با قی تقا ریر منسوخ ہو گئیں ۔یہ لوگ قا ئد اعظم کے متعدد بیا نات کو نظر اندز کر دیتے ہیں جن میں ا نہوں نے واضح طور پر تواتر اور تکرار کے ساتھ یہ واضح کر دیا تھا کہ پا کستان ایک اسلا می فلا حی ریاست ہوگی،ساتھ ہی قوم کو یہ بھی بتا دیا تھا کہ اسلام میں پا پا ئیت یا برہمنیت جیسا کو ئی طبقہ نہیں ہے جسے ریاست کی اجارہ داری کا کوئی پیدائشی حق حاصل ہو۔جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ قا ئد اعظم ایک سیکولر ریاست چا ہتے تھے تو سول یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ا نہوں نے پا کستان کا مطالبہ محض اس لئے کیا تھا کہ بر صغیر میں دو سیکولر ریا ستیں ہوں ،ایک پاکستان اور دوسری اس کے پڑوس میں ہندوستان؟پھر دو ریاستوں کی ضرورت ہی کیا تھی؟اگر پا کستان حق خود ارادیت کے نتیجے میں وجود میں آیا تو اس میں اور بھارت میں اسلام کا عنصر ا نہیں ایک دوسرے سے ممّیز کرتا ہے۔

کون اس تاریخی حقیقت سے انکار کر سکتا ہے کہ برصغیر کے مسلم اقلیتی صوبوں کے مسلما نوں نے جذبہ یگانگت کے تحت مطا لبہ پاکستان کی حمائت کی تھی ۔لہندا یہ کہنا کہ مطا لبہ پا کستان کی عوامی حمائت کے محرکات معاشی تھے ،قطعاً غلط ہے۔کیونکہ مسلم اقلیتی صوبوں کے مسلما نوں کو قیام پا کستان سے کون سے معاشی فوائد کی توقع تھی ؟وہ تو بیچارے ہندو اکثریت کے یرغمال بن گئے ،البتہ میں ان جاگیر داروں اور سرمایہ داروں کی نیتوں کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا جنہوں نے راتوں رات یونینسٹ پا رٹی چھوڑ کر حکمران مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کر لی تا کہ ان کی مر اعات با قی رہیں۔میں بھا رت سے نقل مکا نی کر نے والے ان مفاد پرستوں کے بارے میں کچھ نہیں کہوں گا جوحصول جائیداد ،ما ل و دولت اور جاہ وحشم کے لا لچ میں پا کستان آئے۔

پاکستان کی ایک لسانی جماعت کے اکژرہنماایسے بھی ہیں جوقیام پاکستان کے موقع پرتوہندوستان میں ہی مقیم اس بات کاجائزہ لیتے رہے کہ پاکستان کے معاشی اورسیاسی حالات کیارخ اختیارکرتے ہیں۔اپنے کاروباراوردوسری تمام املاک کواچھے داموں فروخت کرکے پاکستان میں مہاجرکالیبل لگاکرپاکستانی مایہ میں خوب ہاتھ رنگے۔پاکستان کی بیوروکریسی کے توسط سے پاکستان کی نوکرشاہی اوردوسرے ملکی اہم اداروں میں کالے انگریزوں کی طرح بطور حکم ران قابض ہوگئے اورآج کھلے عام ملک کی لوٹ کھسوٹ کے علاوہ پاکستان کیلئے اپنے بزرگوں کی قربانی کاذکربھی بڑی بے شرمی کے ساتھ کرتے ہیں۔ان مذکورہ طبقا ت کے محرکات یقینا معاشی تھے لیکن خودپاکستان میں بسنے والے کروڑہاعوام نے اسلا می جذبے سے سرشارہوکر جدوجہدپاکستان میں اپناکردار اداکیاتھا۔ان میں کتنے کٹ مرے،کتنی عصمتیں لٹ گئیں ،لیکن ان کے پائےاستقلال میں ذرہ بھرلغزش نہ آئی۔

یہ جذبہ ایما نی نہیں تھاتواورکیاتھا؟اس کی پشت پرکربلاکی روایت تھی،اس کی آکسیجن تحریک خلا فت کانظریہ تھا۔کیامسلم عوام نے جس وطن کیلئے اتنی قربانیاں دیں،وہ اس لئےتھاکہ ان کے ملک پرامریکاکاتسلط قائم ہوجائے؟کیاقائداعظم نے پاکستان کے اثاثے”ریزروبینک آف انڈیا”سے نکال کراس لئے اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں رکھے تھےکہ سٹی بینک کاایک”کنٹری مینجر” درآمدکرکے اس کوملک کاوزیراعظم بنادیاجائے جوپاکستان کے قومی اثاثوں کواونے پونے داموں میں فروخت کرکے اپناکمیشن کھرا کرکے رات کے اندھیرے میں گم ہوجائے؟اورجب ایسے حکمرانوں سے نجات ملے توملک کوغلامی سے نکالنے والا سٹیٹ بینک آئی ایم ایف سے نجات ملے توملک کوغلامی سے نکالنے والاسٹیٹ بینک آئی ایم ایف کے حوالے کردے۔

کیاقائداعظم نے کشمیرمیں استصواب رائے عا مہ کی حمایت اس لئے کی تھی کہ ہم اپنی ناکام خارجہ پالیسی کی بناء پرپاکستان کی شہ رگ کواس قدرآسانی سےانڈیا کے حوالے کردیں اوراب انڈیاکشمیرکی آبادی کوایک سازش کے تحت کم کرکنے کیلئے لاکھوں ہندوؤں کوکشمیرمیں بسارہاہے اوراسی متنازعہ کشمیرمیں ترقی یافتہ ممالک کی سرمایہ کاری کانفرنس کااہتمام کرکے اپنے ناجائزقبضے کومزیدمستحکم کررہاہے۔ کیابھارت سے تمام متنازعہ امورپرکوئی خفیہ مفا ہمت ہوچکی ہے جومسئلہ کشمیراب ہماری ترجیحات سے غائب کردیاگیاہے۔

قائداعظم کی وفات کے چھ سال بعدہی نوکرشاہی نے اپنی سرزمین پرامریکاکوفوجی اڈے دے دئیے جہاں سے سوویت یونین کے خلاف جاسوسی پروازیں جاری رہیں جس کے با عث روس پاکستان کواپنادشمن سمجھنےلگااورکشمیرمیں رائے شماری کی قرار دادکے خلاف حق تنسیخ استعمال کرکےاسے کالعدم بنادیا۔ اسی طرح مشرقی پا کستان سے فوجوں کی واپسی کی قراردادکوبھی منسوخ کرکے بھارتی فوج کومشرقی پاکستان پرقبضہ کرنے کابھرپورموقع فراہم کردیا۔سات دہائیوں کے بعدروس کے ساتھ مراسم بحال کرنے کی کوششیں توشروع ہوئی ہیں لیکن روس کی اپنے پڑوس آذربائیجان میں ایک نہ ختم ہونے والی جنگ میں الجھادیا ہے،اس نے پاکستان پرایک مرتبہ پھردباؤبڑھادیاگیاہے۔

قائداعظم نے کہاتھاکہ ملک میں جمہوریت ہوگی اوراب 18ویں ترمیم کے بعدہرصوبے کواندرونی طورپرمالی خودمختاری حاصل ہوگئی ہے،جبکہ ان کے جا نشینوں نے مشرقی پا کستان کوآبادی کے تناسب سے نمائندگی دینے سے انکارکردیاتھاجومشرقی بازو الگ ہونے کاسبب بنا۔اسی ملک میں کمانڈونے اپنے اقتدارکوطول دینے کیلئے امریکی کونڈالیزارائس کے احکام بجالاتے ہوئے اپنی فوجی وردی میں دبئی میں جنرل کیانی کی معیت میں بے نظیرسے این آراوکا معاہدہ کرتے ہوئے انہیں ملک سے لوٹی ہوئی ساری دولت کے مقدمات سے بری کرکے ملک میں آنے کی دعوت دی جس سے دیگرہزاروں قومی مجرموں نے بھی خوب فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے تمام جرائم سے یک قلم رہائی مل گئی لیکن ان تمام مراعات کے باوجودکمانڈواپنااقتدارنہ بچاسکااورقومی دولت لوٹنے والوں نے ایک مرتبہ پھرملکی دولت کوشیرمادرسمجھ کرڈکارناشروع کردیا۔اس طرح پاکستان کی بنیادوں کوکھوکھلاکردیا گیااوراستعمارکے گماشتے(خاکم بدہن)اس کے ٹوٹنے کانہ صرف تاریخوں کاذکرکرنے لگے اوراپنے شیطانی دماغوں سے اس کے نقشے بنانے لگے۔یہ خبیث پاکستان کی نفرت میں اتنے اندھے ہوگئے کہ انہوں نے یہاں کھلم کھلامسلح دہشتگردوں کی قبائلی علاقوں کے علاوہ بلوچستان میں ہندوستان کی مددسے شورش پیداکردی ہے جس سے نمٹنے کیلئے ہماری افواج کوہرروزاپنی جانوں کی قربانی دینی پڑرہی ہے۔

ہماری بدقسمتی کاباب ابھی بھی بندنہیں ہوا۔قوم نےاپنے سیاسی حکمرانوں اورمقتدراشرافیہ سے جان چھڑانے کیلئے کبھی آزاد عدلیہ کیلئے سڑکوں پراپنے جان ومال کی قربانی دی اورکبھی عمران خان کواپنانجات دہندہ سمجھ کراپنی تمام توانائیاں اس کے گودمیں ڈال دیں لیکن پونے چارسال تک عمران خان نے قوم سے کئے گئے ہروعدے پریوٹرن لیتے ہوئے اسے اپنی سیاسی بالغ نظری قراردیتے ہوئے قوم کے ساتھ کھلادھوکہ کیا۔ان کوجب اپنی غلط پالیسیوں کی بناءپرملک کواپنے پیشروؤں کی طرح عالمی مالیاتی اداروں کے کڑی شرائط کے ساتھ قرضوں کے بوجھ میں ڈبوکرملک کومہنگائی کے طوفان میں مبتلاکردیاتو اپنے مخالفین کی عدم اعتمادکی تحریک کے دوران انہوں نے بالکل اسی طرح اپنے اقتدارکوڈوبنے سے بچانے کیلئے ذوالفقاربھٹوکی طرح امریکاکوموردالزام ٹھہراتے ہوئے تمام مخالفین کوامریکا کے ایجنٹ قراردیتے ہوئے قوم کواپنے دفاع کیلئے دہائیاں دینی شروع کر دیں لیکن اس کے ساتھ ہی انہوں نے قوم کے اہم ادارے پربھی تابڑتوڑحملے شروع کردِئیے جوآج سے قبل کبھی بھی فوج کے خلاف ایسی ناپسندیدہ مہم نہیں دیکھی گئی اورسوشل میڈیاآئے دن اس بڑھتی ہوئی آگ پرڈھیروں پٹرول پھینک کراس میں اضافہ کررہاہے جس کودیکھنے کے بعدوہی دشمن جوایک عرصے سے ملک کی سلامتی کے خلاف منصوبے بنارہے ہیں،ان کاکام بہت آسان ہوگیاہے۔

الیکشن کمیشن کے فیصلے نے بیچ چوراہے میں عمران خان کے عطاکردہ امین وصادق کے القاب کوبری طرح برہنہ کرکے مستردکردیاہے۔وہی عمران خان جو عوامی اجتماعات میں امریکی خط لہراکراس کوموردالزام ٹھہراتے رہے،انہی کی جماعت کی سنئیررکن شیریں مزاری اپنے ٹویٹ میں امریکی سفیرکے ہیلی کاپٹرپرطورخم سرحدکے دورے کی تصاویرلگاتے ہوئے اپنے شدیدغصے کااظہارکررہی تھیں لیکن اس سے چندگھنٹوں کے بعدان کی خیبرپختونخواہ حکومت کے وزیراعلیِ اوردیگر وزراء امریکی سفیرکے ساتھ ملاقات کرتے ہوئے یوایس ایڈکی طرف سے اپنے صوبے میں20سے زائدپراجیکٹس پرامریکی مددکی تکمیل پرنہ صرف شکریہ اداکررہے تھے بلکہ امریکاکی طرف سے36گاڑیوں کاتحفہ بھی قبول کررہے تھے۔یہ دہرامعیارساری قوم نے کھلی آنکھوں سے دیکھاہے۔پاکستان میں تمام سیاسی جماعتوں میں ایک دوسرے کے خلاف دشنام طرازی کاایک طوفان جاری ہے جبکہ ملکی معاشی اورسیاسی ابتری نے قوم کویہ سوچنے پرمجبورکردیاہے کہ اب ضرورت اس امرکی ہے ان تمام آزمودہ سیاستدانوں سے چھٹکارہ حاصل کرنے نئے ایماندارافرادکے ساتھ اس ملک میں وہ نظام لایاجائے جواس ملک کی تقدیربدل دے۔آئیے اس بات کاعزم کریں کہ ہم اپنی تمام توانائیاں صرف کرکے ان عہد شکنوں کوان کے بیرونی آقاؤں کے ساتھ ہی حتمی انجام تک پہنچائیں گے۔انشاء اللہ

اپنا تبصرہ بھیجیں