اسرائیل کے وزیردفاع بنی گینزنے اسرائیل کے ارکان پارلیمان کوبریفنگ دیتے ہوئے کہاکہ اسرائیل امریکا کی سرپرستی میں خطے میں عرب ممالک کے ساتھ فضائی دفاعی اتحاد’’مڈل ایسٹ ایئرڈیفنس الائنس‘‘تشکیل دے رہاہے جس کو آئندہ ماہ امریکی صدر بائیڈن کے سعودی عرب کے دورے سے بہت مددملے گی۔امریکاکے اتحادی اُن عرب ممالک سے جوایران کواپنے لیے خطرہ سمجھتے ہیں، اسرائیل نے اپنے تعلقات بہترکیے ہیں اوراب ان کو مشترکہ فضائی دفاعی نظام کی پیش کش کی جارہی ہے۔تاہم خلیجی ریاستیں اورعرب رہنماابھی تک اس خطے کیلئےاسرائیل کی طرف مجوزہ مشترکہ فضائی دفاعی نظام کے بارے میں مکمل خاموش ہیں۔
امریکاکوتوقع ہے کہ خطے کے مسلمان ملکوں اوراسرائیل کے درمیان تعاون اورخاص طورپردفاع اورسکیورٹی کے ضمن میں ان ملکوں کواسرائیل کے قریب کردے گااورایران کوخطے میں تنہاکرنے میں مددملے گی۔اس معاہدے سے اسرائیل کےعرب اور مسلمان ملکوں بشمول خطے کے سب سے اہم ملک سعودی عرب سے تعلقات اورزیادہ بہترہوجائیں گے۔اسرائیل کےیواے ای اور بحرین سے’’ابراہم اکارڈ‘‘کے تحت پہلے ہی تجارتی اورسفارتی تعلقات قائم ہوچکے ہیں۔اسرائیل کے وزیردفاع نے کہاکہ گذشتہ ایک سال سے میں پینٹاگون اپنے پاٹنرز(ساتھیوں)کے ساتھ ایک وسیع پروگرام کی رہنمائی کررہاتھاجس سے اسرائیل اورخطے کے ملکوں کے درمیان تعاون میں اضافہ ہوگا۔
خیال رہے کہ سعودی عرب تعلقات سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعدسے کشیدہ رہے ہیں۔جوبائیڈن کے صدارت کاعہدہ سنبھالنے کے بعد سے سعودی اور امریکا کے ولی عہدمحمد بن سلمان کے درمیان کوئی رابطہ نہیں ہواہ ے۔جوبائیڈن اور ڈیموکریٹ پارٹی کا جمال خاشقجی کے قتل پر،جس کا الزام سعودی ولی عہد پر عائد کیا جاتاہ ے،بڑاسخت موقف رہاہے۔حال ہی میں واشنگٹن میں جس سڑک پرسعودی سفارت خانے کی عمارت قائم ہے اس کو جمال خاشقجی کا نام دے دیا گیا ہے۔16جولائی2021ءکو وزارتِ دفاع کی ایک پریس بریفنگ میں جب دفترخارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس سے سڑک کو جمال خاشقجی کے نام سے منسوب کرنے کے حوالے سے تبصرہ کرنے کو کہا گیا تو انہوں نے صاف انکار کردیا تھا۔جوبائیڈن 13جولائی سے16جولائی کے سعودی عرب کے دورے کے دوران خلیج رابطہ کونسل’’جی سی سی‘‘کے سربراہی اجلاس میں شرکت کریں گے۔جی سی سی کے اس اجلاس میں عراق،مصراوراُردن کے سربراہان کوخصوصی طورپر مدعوکیاگیاہے اوراس ہی وجہ سے اسے جی سی سی پلس تھری کانام دیاگیا ہے۔سعودی عرب کے شہرجدہ میں جی سی سی پلس تھری کا اجلاس منعقدکیا جائے گا۔
دراصل خطے میں متوقع تبدیلی کاآغازاسرائیل سے یواے ای کیلئےروانہ ہونے والی پہلی سرکاری پروازکی اڑان کانتیجہ ہے جس کوایک تاریخی واقعہ قرار دیکرباہمی تعلقات کومعمول پرلانے کیلئےیہ پہلاباضابطہ اوراہم قدم قراردیاگیاتھا۔اسرائیلی عہدیداروں کے علاوہ سابق امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کے دامادجیریڈکشنربھی اس پروازمیں موجودتھے،جنہوں نے طیارے کے یواے ای پہنچتے ہی کہاتھا’’یہ مشرق وسطیٰ کیلئےایک نیا سکرپٹ ہے۔‘‘درحقیقت یہودی نژادجیریڈکشنرہی وہ شخص ہے جس نے اس نئے سکرپٹ کولکھنے میں مددکی تھی۔وہ فریقین کے مابین اس حوالے سے ہونے والی بات چیت میں ہمیشہ شامل رہاہے جبکہ یہ معاہدہ ڈونلڈٹرمپ کاایک بہت بڑاسیاسی ایجنڈاتھاجس کی بناپروہ اگلاانتخاب جیتنے کاخواب دیکھ رہاتھا۔اس معاہدے سے امریکا، اسرائیل کے تعاون سے خطے میں ’’ون ورلڈآرڈر‘‘پرعمل پیراہوتے ہوئے اپنے اگلے ایجنڈے کیلئے اپنے قدم مضبوط کرنے میں کامیاب دکحاءی دے رہے ہیں جس کیلئے انہوں نےیواے ای سے شروعات کیں۔اس عمل سےخطے میں اسرائیل کوتسلیم کیے جانے کے عمل کوفروغ ملے گا۔یواے ای کو سلامتی اورسائبرسپرپاورکے میدان میں اسرائیل کی مددملے گی اورسابق امریکی صدراپنےصدارتی انتخابات میں امریکی ووٹروں کے سامنے خودکومشرق وسطیٰ میں بطورامن مندوب پیش کرکے کامیابی حاصل کرناچاہتے تھے جس میں بہرحال وہ توکامیاب نہ ہوسکے لیکن پینٹاگون نے حسبِ معمول اپنی اس پالیسی کوجاری رکھاہواہے۔
اگرچہ یواے ای کے ساتھ اسرائیل کے غیررسمی تعلقات کچھ برسوں سے جاری ہیں لیکن خطے میں ایران کی بڑھتی ہوئی طاقت کی وجہ سے خلیجی ممالک اور اسرائیل کے مابین فاصلہ کافی حدتک کم ہواہے۔عمان اوربحرین بھی اس کی واضح مثال ہیں۔ایران کی بڑھتی ہوئی طاقت دونوں فریقوں کوقریب لانے کی ایک وجہ ضرورہے لیکن اسرائیل اورعرب ممالک میں قربت کی ایک بڑی وجہ تیل کی قیمتوں میں کمی،خلیجی ممالک میں حکومتوں کے خلاف بغاوت کاخطرہ اورامریکی حمایت کے خاتمے کاخوف بھی ہے۔پینٹاگون کے مطابق اسرائیل کوجہاں اس معاہدے کے ذریعے خطے میں شناخت اورقبولیت حاصل ہوگی اور دوسرے عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ مل کرکام کرسکیں گے وہاں فلسطین پران ممالک کی حمائت بھی ختم ہوجائے گی۔دراصل اسرائیل اورامریکا ،یو اے ای کوجدیداسلحہ اورحفاظتی سامان فروخت کرنے کی ایک بڑی منڈی کے طورپربھی دیکھتے ہیں۔
خطے میں بدلتے ہوئے سیاسی اورمعاشی ماحول اورکوروناوبا کی وجہ سے پیداہونے والے معاشی مسائل نے اسرائیل اورعرب ممالک میں مزیدقربت پیدا کردی ہے۔ون ورلڈآرڈرکی پالیسی کے مطابق حالیہ برسوں میں مسلم ممالک کے مابین مزیدتقسیم پیداکر دی گئی ہے اوراسرائیل کیلئےمغربی ایشیاکے تین مسلم پاور بلاکس کے مابین تفریق کافائدہ اٹھانے کایہ نادرموقع ہے۔پہلاترکی اور قطر،دوسراایران اورعراق اورتیسرایواے ای،سعودی عرب اورمصر۔ خاص طورپرمشرق وسطیٰ میں قطراوریواے ای کے درمیان نہ صرف سیاست بلکہ مذہب کی تشکیل کے معاملے میں بھی تضادپایاجاتاہے۔مسلم ممالک میں پاکستان،ملائشیااور ترکی کایک مضبوط گروپ بننے جارہاتھاجس کی مضبوط بنیادرکھنے کیلئے کوالالمپورمیں سربراہی کانفرنس کابھی اعلان ہوگیاتھالیکن عین وقت ہرعمران خان کوسعودی عرب بلاکراس میں شمولیت سے روک دیاگیاجس سے جہاں اس عظیم الشان اتحادکی تشکیل کوناکام بنادیاگیابلکہ اس کے بعد ملائشیاجس نے پاکستان کی خاطرانڈیا سے اپنے تجارتی تعلقات کوداؤپرلگادیاتھااورپاکستان کے ساتھ دفاعی طورپرتعلقات کومضبوط بناتے ہوئے جے ایف 17تھنڈرکی خریداری کے معاہدے پربھی دستخط کئے تھے،ہم سے نہ صرف دورہو گیابلکہ ترکی کے ساتھ بھی ہمارے تعلقات میں رخنہ پڑگیااورآج طیب اردگان کی حکومت بھی اسرائیل کے ساتھ اپنے مراسم اور سفارتی تعلقات بڑھانے پرعمل پیراہے۔
ادھرپینٹاگون کاکہناہے کہ عرب ممالک کے ساتھ ہاتھ ملانے کی اسرائیل کی کوششیں تب ہی کامیاب ہوگی جب سعودی عرب اور مصراس پراپنی مکمل رضا مندی ظاہرکریں۔اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہوہمیشہ سے اس کوشش میں تھاکہ مسئلہ فلسطین کے حل کو الگ رکھتے ہوئے بھی عرب ممالک کے ساتھ امن معاہدے طے پاسکتے ہیں،اس کیلئے نیتن یاہونے یواے ای کے ساتھ معاہدے پردستخط کرکے خودکودرست ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ عربوں کے ساتھ تعلقات بہتربنانے کے سلسلے میں اسرائیل کی وزارت خارجہ کئی برسوں سے ڈیجیٹل آؤٹ ریچ مہم چلارکھی ہے جس میں لاکھوں عام عرب شہری غیررسمی طورپراسرائیل سے جڑے ہوئے ہیں۔اب اسی پالیی کوبھارت بھی مقبوضہ کشمیرمیں استعمال کررہاہے اوربدقسمتی سے ہمارادفتر خارجہ اس سلسلے میں اب تک اس کے تدارک میں مکمل طورپرناکام ہوچکاہے۔
ان کوششوں میں سے ایک کی قیادت لنڈامینوہین عبدالعزیزکررہی ہیں جو40سال قبل عراق سے اسرائیل منتقل ہوئی تھیں۔وہ وزارت خارجہ کے عربی زبان کے فیس بک پیج کے ذریعے عراق کے لاکھوں عرب نوجوانوں سے رابطے میں ہیں۔انہوں نے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ عرب ممالک کے رہنماؤں کیلئےان کی مجبوری ہوسکتی ہے کہ وہ اسرائیل کے بارے میں کھل کربات نہ کریں لیکن عام عوام اسرائیل کے بارے میں معلومات حاصل کرناچاہتے ہیں ۔اب یواے ای کے نوجوان اپنی زندگی میں پہلی بار اسرائیل جارہے ہیں جہاں ان کی خوب آؤبھگت کی جاتی ہے۔اسرائیل کاخیال ہے کہ جب دوریاں ختم ہوجائیں گی توغلط فہمیاں اور گلے شکوے مٹ جائیں گے اوران کااعتمادجیت کراپنی منزل سانی سے حاصل کی جاسکتی ہے۔لیکن سونی اوونی نیتن یاہوکواس معاہدے اورعربوں کے ساتھ تعلقات بنانے کاسہرانہیں دیناچاہتیں۔وہ کہتی ہیں’’اسرائیل میں اس وقت13ایسی تنظیمیں ہیں جن میں اسرائیلی اورفلسطینی عرب ممالک سے دوری ختم کرنے اسرائیلی حکومت سے ٹکرلینے اور خطے میں امن کے قیام کیلئےمل کرکام کرنے میں مصروف ہیں۔ ‘‘
یروشلم اورتل ابیب کے درمیان واقع پہاڑی پراسرائیل کا ایک گاؤں”نیو شالوم وہت السلام”ہے جس میں فلسطینی مسلمان اور اسرائیلی یہودی ایک دوسرے کے ساتھ امن اور محبت سے رہتے ہیں۔اس گاؤں میں دومذاہب کے درمیان دنیابھرمیں کھڑی نفرت کی دیوارموجودہی نہیں ہے۔اسرائیل اوریواے ای کے مابین امن معاہدے کے اعلان کے بعد گاؤں کی فلسطینی خاتون سمہ سلام کے مطابق’’عرب اسرائیل اختلافات کئی دہائیوں پرانے ہیں۔ دونوں کے درمیان نفرت کی ایک موٹی دیوارکھڑی ہوئی ہے۔ہم نے1974 میں یہ گاؤں آبادکیاتاکہ یہ ثابت کرسکیں کہ ہم ایک ساتھ رہ سکتے ہیں۔ اس گاؤں کاہرشہری’’دو ریاستی حل‘‘کے تحت اسرائیلی اور فلسطینی قوم کی تشکیل کاحامی ہے۔امارات کے ساتھ معاہدہ اس کاحصول اوربھی ناممکن بنا دیتا ہے۔ ‘‘1948سے جاری اسرائیل فلسطین تنازع کے’’دوریاستی حل‘‘کامطلب یہ تھاکہ فلسطین ایک علیحدہ آزاد قوم اوراسرائیل الگ ہوناچاہیے۔ اس کیلئےدونوں جانب بہت سارے مذاکرات ہوئے ہیں لیکن گذشتہ 10برسوں سے یہ معاملہ کھٹائی میں پڑگیاہے۔
فلسطینی مسائل اورمسلم دنیاکامقدس شہرمشرقی یروشلم(جوآزادفلسطین کاحصہ ہوگا)پراب تک عرب ممالک میں اتفاق رائے تھی اوران ممالک نے اسرائیل کے سامنے ایک شرط رکھی تھی کہ جب تک وہ فلسطینیوں کوالگ ریاست بنانے کی اجازت نہیں دیتے، تب تک وہ ان کے ساتھ امن معاہدہ نہیں کریں گے۔مصراوراردن کے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدوں کے باوجودعربوں کے درمیان یہ اتفاق رہالیکن اب یواے ای اسرائیل کے ساتھ سمجھوتہ کرکے اس معاہدے کوبری طرح کچل کررکھ دیاہے۔صرف یہی نہیں اب سوڈان بھی خفیہ طورپراسرائیل سے رابطے میں ہےلیکن سوڈان جوسمجھوتے کے نزدیک پہنچنے والایہ ملک اب تھوڑاسامحتاط ہوگیاہے۔سوڈان کی عبوری حکومت اب یہ فیصلہ نہیں کر سکتی اور2022میں ہونے والے عام انتخابات کے بعدآنے والی نئی حکومت اس حوالے سے فیصلہ کرے گی۔
دوسری جانب سعودی عرب اسرائیل کے خلاف نرمی کا رویہ اپناتے نظرآرہاہے کیونکہ اس نے اسرائیل یواے ای معاہدے کی مخالفت نہیں کی بلکہ اسرائیلی طیاروں کوسعودی فضائی حدودسے گزرنے کی اجازت دے کرسعودی عرب نے یہ پیغام دیاکہ آنے والے برسوں میں وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوارکرنے کی کوشش کرسکتاہے۔شائداب سعودی عرب” اسرائیل پہلے فلسطینیوں کوان کاحق”کی شرط سے پیچھےہٹ رہاہے۔دوسری جانب عمان کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات پہلے ہی بہترہیں اوربحرین اور یواے ای پہلے عرب ممالک ہیں جواسرائیل کوتسلیم کرچکے ہیں۔ دراصل 2017ء میں ٹرمپ نے اقتدار سنبھالتے ہی اپنی پوری کوشش اسرائیل کے عرب ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کرنے پر مرکوز تھی۔امریکا کی دیرینہ خواہش ہے کہ دوسرے عرب ممالک بھی اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کریں تاکہ اسرائیل اورفلسطینیوں کے مابین ایسا معاہدہ عمل میں آ جائے جہاں اسرائیل کو مکمل بالادستی ہو،اس طرح “ون ورلڈآرڈر” کو اپنے پروگرام کے مطابق آگے بڑھایا جائے۔
جوبائیڈن امریکی صدربننے کے بعدپہلی باروسط جولائی میں سعودی عرب اوراسرائیل کادورہ کررہے ہیں جبکہ50سال قبل بطور سینیٹرانہوں نے اسرائیل کا دورہ کیاتھا۔ان کے اس دورے کومشرق وسطیٰ کے ممالک کے ساتھ امریکاکے تعلقات میں بہتری کی جانب ایک بڑاقدم قرار دیا جا رہا ہے ۔جوبائیڈن کاسعودی عرب کادورہ ایک ایسے وقت میں ہورہاہے جب گزشتہ برس یہ خبریں سامنے آئی تھیں کہ امریکی انتظامیہ کی کوششوں کے باوجود بائیڈن نےسعودی ولی عہدسے فون پربات کرنے سے انکارکردیاتھا۔وہ صرف اپنے ہم منصبوں سے بات کریں گے یعنی سعودی عرب میں اُن کے ہم منصب وہاں کے شاہ سلمان ہیں۔ ولی عہدوزیردفاع ہیں اورصرف امریکاکے وزیردفاع ہی ان سے بات کریں گے۔
بائیڈن خودسعودی عرب کے انسانی حقوق کے خراب ریکارڈکاحوالہ دیتے ہوئے اس پرتنقیدکرتے رہے ہیں۔2019میں جب بائیڈن صدارتی انتخابات کی مہم چلارہے تھے تو انہوں نے صحافی جمال خاشفجی کے بہیمانہ قتل پر سعودی عرب کو ’’تنہا‘‘ کرنے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔اب سعودی عرب کا دورہ بائیڈن انتظامیہ کی پالیسی میں بڑی تبدیلیوں کو ظاہر کرتا ہے۔بائیڈن اب اپنے سعودی عرب کے دورے میں ولی عہدمحمد بن سلمان سے بھی ملاقات کریں گے۔ منگل کو وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کارائن جین نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ”صدر شاہ سلمان کی قیادت اور ان کی دعوت کو سراہتے ہیں۔ وہ سعودی عرب کے اس اہم دورے کے منتظر ہیں۔سعودی عرب تقریباً آٹھ دہائیوں سے امریکا کا ایک اہم سٹریٹیجک پارٹنر رہا ہے۔”
ڈونلڈ ٹرمپ وہ امریکی صدرتھے جوعہدہ سنبھالنے کے بعداپنے پہلےغیرملکی دورے پرسعودی عرب گئے تھے۔سعودی عرب کے ولی عہدمحمدبن سلمان جیرالڈ کشنز کی وجہ سے ٹرمپ کے قریبی سمجھے جاتے تھے۔ٹرمپ نے اس مروجہ روایت کو توڑا تھا،جس کے تحت کوئی بھی امریکی صدر پہلےغیر ملکی دورے پرکینیڈا یامیکسیکو جاتا تھا۔امریکی انتخابات میں جوبائیڈن کی جیت کا اعلان ہوا تو سعودی عرب کی جانب سے انہیں رسماً مبارکباد دی گئی لیکن اس سے چار سال قبل جب ڈونلڈ ٹرمپ جیت کر وائٹ ہاؤس آئے تھے تو سعودی عرب نے نئے صدر کو مبارکباد دینے میں دیر نہیں کی تھی۔
دراصل یوکرین پرروس کے حملے کے بعدتوانائی کی قیمتوں میں اضافے نے بائیڈن انتظامیہ کواحساس دلایاہے کہ سعودی عرب کے ساتھ کشیدگی بڑھانے کایہ صحیح وقت نہیں ہے۔14سال میں پہلی بارخام تیل کی قیمت130ڈالرفی بیرل تک پہنچ گئی ہے۔ سعودی عرب اوریواے ای ہی وہ ممالک ہیں جو لاکھوں بیرل تیل کی پیداواربڑھاسکتے ہیں۔سعودی عرب کوبائیڈن انتظامیہ کے متعددعہدیداروں نے کئی بارتیل کی پیداواربڑھانے کیلئےکہالیکن یہ کوششیں ناکام رہیں۔ اس کیلئےوائٹ ہاؤس میں مشرق وسطیٰ کے امورکیلئےمقرراعلیٰ عہدیداربریٹ میک گرک،امریکی توانائی کے مشیرایمزہوچسٹین نے بھی سعودی عرب کادورہ کیالیکن وہ خالی ہاتھ واپس آئے۔تاہم سعودی قیادت میں تیل پیداکرنے والے ممالک کے گروپ اوپیک پلس نے اعلان کیاہے کہ وہ اس موسم گرمامیں پیداوارمیں50فیصداضافہ کرنے کیلئےتیارہیں۔وائٹ ہاؤس کے اعلیٰ عہدیدارجان کربی کے مطابق جوبائیڈن کے دورے کے دوران ہونے والی ملاقاتوں میں یمن میں سعودی جنگ،تیل کی مصنوعات کی قیمتیں اہم موضوعات ہوں گے۔
اگربائیڈن کادورہ کامیاب ہوتاہے تواس سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں تناؤکم ہوجائے گاجوخاشفجی کے قتل کے بعدسے بگڑچکے ہیں۔اس
کے ساتھ سفارتکاری کے حوالے سے بائیڈن کی پالیسی میں ہونے والی تبدیلیوں کابھی واضح اشارہ ہوگا۔بائیڈن انتظامیہ کواس لیے بھی تنقیدکانشانہ بنایاجا رہا ہے کیونکہ اس نے اب مشرق وسطیٰ کے بجائے چین اورروس کے چیلنجزکی طرف اپنی توجہ مرکوزکردی ہے لیکن جان کربی نے اپنے بیان میں یقین دلایاہے کہ خطے میں مشرق وسطیٰ ہماری ترجیحات میں شامل ہے۔ہم کہیں نہیں جارہے۔مشرق وسطیٰ نہ صرف ہمارے قومی مفادکیلئے بلکہ پوری دنیاکیلئے بہت اہم خطہ ہے۔واشنگٹن کی عالمی خبرایجنسی کے مطابق بائیڈن کایہ دورہ پٹرول کی قیمتوں پرسکیورٹی سے متعلق مسائل کی وجہ سے ہورہاہے جبکہ رواں سال مارچ میں وال سٹریٹ جرنل نے اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیاتھاکہ وائٹ ہاؤس نےبائیڈن کی سعودی عرب اوریواے ای کے رہنماؤں سے فون پر ات کرانے کی کوشش کی تھی لیکن یہ کوشش ناکام ہوگئی تھی۔رپورٹ کے مطابق سعودی ولی عہدشہزادہ محمدبن سلمان اوریواے ای کے شیخ محمد بن زایدالنہیان دونوں نے بائیڈن کے ساتھ مذاکرات کی امریکی پیشکش کومستردکردیا تھا۔
رپورٹ میں بائیڈن اورسعودی شہزادے کے درمیان بات چیت کی تیاری کروانے والے ایک اہلکارکے حوالے سے کہاگیاکہ’’فون کال سے کچھ توقعات وابستہ تھیں لیکن وہ پوری نہیں ہوئیں۔‘‘اس کی وجہ یقیناًامریکی انتخاب کے دوران بائیڈن کے وہ بیانات جس میں انہوں نے سعودی عرب کوالگ تھلگ کرنےاوریمن میں معصوم لوگوں،بچوں اورعورتوں کوقتل کرنے پرتنقیدکانشانہ بنایاتھا۔بائیڈن نے اکتوبر2020میں کہاتھا:”ہم سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعلقات پرنظرثانی کریں گے،یمن میں سعودی جنگ کیلئے امریکی حمایت کوختم کریں گے،اوراس بات کویقینی بنائیں گے کہ ہتھیاربیچنے یاتیل خریدنے کیلئے امریکا کواپنی اقدارپرسمجھوتہ نہ کرنے دیاجائے۔”
حالات کی عجب ستم ظریفی ہے کہ اب وہی جوبائیڈن اس دورے سے ایک اورتاریخ رقم کرنے کادعویٰ کررہے ہیں کہ وہ پہلی بار اسرائیل سے براہ راست ریاض جائیں گے باوجودیکہ اس وقت سعودی عرب اوراسرائیل کے درمیان کوئی سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔