ایک زمانہ تھاجب پی ٹی وی روزانہ بیروت بلفاسٹ اورویتنام میں خانہ جنگی کی خبریں نشرکرتاتھااورہم سوچاکرتے تھے کہ ان ملکوں کاکیاحال ہورہاہوگا، وہاں معاشی سرگرمیاں کس طرح چل رہی ہوں گی۔یہی حال فلسطین کابھی نظرآتاتھالیکن وہاں قبضہ کرنے والے انتہاپسندیہودیوں سے مقابلہ کی وجہ سے بات سمجھ میں آجاتی تھی۔ایک عرصہ گزرگیا،بیروت میں ملیشیاؤں کی لڑائی ختم ہوگئی ہے۔بلفاسٹ میں امن ہوچکاہے۔ویتنام امن کے بعدنہ صرف اپنی معیشت سدھارچکاہے بلکہ دنیامیں ویتنام کی مصنوعات پھیل رہی ہیں لیکن چندبرس قبل ایسی ہی خبریں پاکستان کے حوالے سے پاکستان اور عالمی میڈیا پرسنی جانے لگیں ۔ہرروزاس قسم کی خبریں عام ہوگئیں کہ باجوڑمیں قومی لشکرکے سر براہ کاقتل،مہمندمیں پاکستانی فوج کاآپریشن،قبائلی علاقوں میں ناٹوکی بمباری،سوات،پشاور،لاہور،کراچی اوردیگر شہروں میں خودکش حملے،سیکورٹی فورسزکے اسکول پرخودکش حملہ وغیرہ وغیرہ ……
ایسالگتاتھاکہ ساری دنیامیں اب تک ہونے والی اس قسم کی کارروائیاں بیک وقت پاکستان میں شروع ہوگئی ہیں اورپاکستان کسی ناگہانی عذاب میں مبتلاہوگیا ہے کہ اچانک اے پی ایس اسکول پشاورمیں بہیمانہ طورپرننھی کونپلوں کوپھول بننے سے پہلے مسل دیاگیااوران کی آبیاری کرنے کے جرم میں ان کے اساتذہ کوبھی خونی خزاں کے حوالے کردیاگیا،جس پر ملک کاسپہ سالار بھی چیخ اٹھاکہ یہ میرے دل پرحملہ کیاگیاہے جوناقابل معافی ہے۔جب تک وہ اپنے عہدے پریونیفارم میں رہا،ان تمام شہداء بچوں کی تصاویراس نے اپنے میزپرسجائے رکھیں تاکہ یہ دل کازخم ایک لمحے کیلئے بھی آنکھوں سے دورنہ ہواور اس بہمیانہ ظلم کابدلہ مقصودِزندگی رہے۔
ضرب عضب آپریشن کاآغازہوا،اسی کے تسلسل میں ردّالفسادجاری ہے جس میں سیکورٹی فورسزاوردیگراداروں کی سینکڑوں قربانیوں سے امن کی واپسی کاسفر شروع ہوالیکن ابھی سانس بھی نہیں لینے پائے کہ سیاسی ومعاشی ابتری نے ایک مرتبہ پھرداخلی توڑپھوڑاوراقتدارکی خاطراناکی جنگ میں دھکیل دیاہے اور اپوزیشن اورحکومت کی طرف سے میدان جنگ کاطبل بجادیاگیاہے۔اپوزیشن ملک کے دارلحکومت کی طرف پرعزم لانگ مارچ لیکربڑھ رہی ہے جبکہ حکومت اس کولشکرکشی قرار دیکر”لانگ مارچ کامقابلہ ڈانگ مارچ”کرنے کی تیاریاں مکمل کرچکی ہے۔
میں سوچتاہوں کہ بیروت بلفاسٹ سری لنکایاویتنام کی خبروں کوتوپاکستانی قوم ان ممالک کی خبریں سمجھتی تھی لیکن پاکستان میں ہونے والی یہ موجودہ کارروائیاں کس ملک کی خبریں ہیں۔پاکستانی حکمرانوں نے تواعلان کررکھاہے کہ یہ جنگ امریکاکی نہیں ہماری ہے لیکن عمران خان اسے امریکی جنگ قراردیکراپنے لانگ مارچ کوجہادکانام دیکرملک کوحقیقی آزادی دلانے کانام دے چکاہے۔سوات میں پھرسے شورش سراٹھارہی ہے جس کیلئے وہاں کی عوام بہت مضطرب اورسراسیمہ دکھائی دے رہی ہے اوریقیناًان علاقوں میں عمران خان کی حکومت ہے اورایسی شورش کے ذمہ داران قبائلی علاقوں اوروہاں رہنے والوں کے باقاعدہ دشمن قرارپاچکے ہیں۔اس کے جواب میں اگرکوئی کاروائی ہوتی ہے توپاکستانی حکومت اسے دہشتگردی بلکہ عالمی دہشت گردی قراردیتی ہے۔اس سارے عمل پرگزشتہ کئی برسوں کے دوران پاکستانی قوم کومتحد کرنے کی کوششوں کوآخرکون سبوتاژکون کررہاہے اوراس کی بیخ کنی کیلئے عمران خان کی صوبائی حکومت کس قدراپناکردارادا کر رہی ہے،چنا نچہ مرکزی حکومت اورصوبائی حکومت ہردوسرے تیسرے دن ایک نیا شوشا چھوڑدیتے ہیں بلکہ عمران خان کے انتہائی قریبی ساتھی گنڈاپور کی آڈیوکالز لیک ہورہی ہیں کہ لانگ مارچ کی آڑمیں مسلح جتھوں کی یلغارہونے جارہی ہے جس سے ملکی سلامتی کوازحد خطرات لاحق ہوگئے ہیں تاکہ قوم کی توجہ اس جانب مبذول کرائی جاسکے اورپاکستان کے ازلی دشمن میڈیااپنے ہاں گھی کے چراغ جلاکرایسی خبروں کوبڑھاچڑھاکرپیش کررہاہے۔
دکھ کی بات تویہ ہے کہ ابھی تک ہم ساڑھے تین کروڑسیلاب زدگان کی بحالی کاکام مکمل نہیں کرسکے اوریہ آفت زدگان ابھی تک کھلے آسمان تلے بھوک اور بیماریوں کامقابلہ کررہے ہیں کہ اقتدارکی ہوس نے ملک کی پہلے سے ابترمعاشی حالت کودیوالیہ کی حدتک پہنچانے کاکام شروع کردیاہے۔ایک طرف سیلاب زدگان کی بحالی پروسائل خرچ ہورہے ہیں اوردوسری طرف عالمی قرضہ کی واپسی کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔عالمی برادری جوسیلاب زدگان کی مددکیلئے انگڑائیاں لی رہی تھی،اب اس تذبذب میں مبتلاہے کہ اس ملک کی کس طرح مددکی جائے جوخوداپنے پاؤں پردن بدن گہرے گھاؤلگارہی ہے۔
ملکی معاشی ابتری کی سنگینی کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ عالمی بینک نے اپنی رپورٹ میں یہ تسلیم کیاہے کہ حالیہ سیلاب نے پاکستان کا30/ارب ڈالرکانقصان ہواہے جبکہ فوری آبادکاری کیلئے 16/ارب ڈالردرکارہیں اورڈونرممالک امدادکے معاملے میں پس وپیش میں مبتلاہیں۔حالیہ سیلاب میں جہاں ابھی تک جانی نقصان کاصحیح اندازہ نہیں لگایاجاسکاوہاں ملکی لائیو اسٹاک،زراعت،ٹرانسپورٹ،مواصلات کابھرکس نکل کررہ گیاہے وہاں ایک دن کے لانگ مارچ سے اسٹاک ایکسچینج میں462 پوائنٹس کی کمی سے سرمایہ داروں کے68/ارب روپے ڈوب گئے اور68فیصدشئیرزکی قیمتیں گرگئیں ہیں۔ڈالرکے مقابلے میں روپیہ ایک مرتبہ پھرروبہ زوال ہے اوراسحاق ڈارکے بلندوبانگ دعوے بھی شرمندہ ہوکرکسی کونے میں پناہ ڈھونڈنے میں مصروف ہیں۔عالمی ادارے کسی بھی قرضے کی قسط کومؤخرکرنے کی بجائے اپنی قرض کی وصولی کیلئے عوام پرنئے ٹیکس لاگوکرنے کے نئے ایجنڈے کاحکم دے رہے ہیں جبکہ پاکستان کی حکومت نے فی الحال اپنی مجبوریوں کی بناءپرمعذوری کا اظہارکردیاہے۔
اہم سوال یہ ہے پاکستان کی فوج کی جانب سے تحریک انصاف حکومت گرائے جانے کی مبینہ بیرونی سازش کو”کھوکھلی اورمن گھڑت کہانی”قراردیے جانے کے بعدکیاپاکستان کی سیاست میں بیانیے کی جنگ حتمی مراحل میں داخل ہوچکی ہے یاابھی اور ایسے مراحل باقی ہیں؟اورکیاعمران جلدانتخابات کے انعقادکے مقصد میں کامیاب ہوسکیں گے؟اس سوال کادارومداراس نکتے پرہو گاکہ عمران کامؤقف اوربیانیہ ڈی جی آئی ایس پی آراورڈی جی آئی ایس آئی کی پریس کانفرنس سے عوامی سطح پرکس حدتک متاثرہوتاہے۔واضح رہے کہ یہ معاملہ اس وقت شروع ہواجب رواں سال مارچ کے مہینے میں عمران نے 27مارچ کواعلان کیاتھاکہ ان کی حکومت گرائے جانے کی سازش کی جارہی ہے اوراس مؤقف کوانہوں نے حکومت گرنے کے بعدبارباردہرایاجس میں امریکااوراپوزیشن جماعتیں شامل ہیں ،پہلےدبے الفاظ میں فوج کوبھی موردالزام ٹھہرایالیکن اب فوج پرنیوٹرل رہنے کے طعنوں وتشنیع کے زہریلے تیروں کی ایک تیزیلغار شروع کررکھی ہے اورغداری تک کالیبل لگایاجارہاہے۔
عمران خان کی اسی تنقید کا جواب گزشتہ دنوں جب غیرمعمولی طورپرآئی ایس آئی کے سربراہ نے ایک پریس کانفرنس میں دیا تو اس کے جواب میں عمران نے اپنی ان دوملاقاتوں اورباجوہ کوپیشکش کااعتراف توکرلیالیکن اس بات کاجواب نہیں دیاکہ انہوں نے عدم اعتمادتحریک پیش ہونے سے قبل ساری اپوزیشن کی گرفتاری کاعندیہ کیوں دیابلکہ اب وہ ان انکشافات کے بعدبوکھلاکرآئی ایس آئی کے سربراہ کوبھی دہمکیاں دینے پراترآئے ہیں۔
اس پریس کانفرنس کے دوران غیرملکی سازش کے معاملے پرکہاگیاکہ”ہمارے لیے یہ حیران کن تھا جب27مارچ کواسلام آبادکے جلسے میں کاغذکاایک ٹکڑالہرایا گیااورڈرامائی اندازمیں ایک ایسابیانیہ دینے کی کوشش کی گئی جس کاحقیقت سے دوردورتک کوئی واسطہ نہیں تھا۔اس سے قبل آرمی چیف نے 11مارچ کوکامرہ میں عمران سے خوداس کاتذکرہ کیاتھاجس پر”انہوں نے فرمایا یہ کوئی بڑی بات نہیں۔”عمران خان نے گذشتہ دنوں اپنےانٹرویومیں اس دعوے کوجھوٹ قرار دیااوریہ دعویٰ کیاکہ”اگرمیں جواب دیناشروع ہوجاؤں تومیرے ملک کونقصان پہنچے گا۔ملک کونقصان سے مطلب میری فوج کونقصان پہنچے گاکیوںکہ مجھے پتاہے کہ دنیا،ہمارے دشمن چاہتے ہیں کہ ہماری فوج کمزورہو۔”لیکن وہ یہ کیوں بھول رہے ہیں کہ انڈین میڈیاتوعمران خان کے بیانات چلاکراپنے ہاں گھی کے چراغ جلا رہاہے تاہم سائفرکے حقائق سے بالاتریہ معاملہ اب سیاسی میدان میں مقبولیت اورطاقت کے اظہارکاہے جس میں پی ٹی آئی،پی ڈی ایم اورفوج تین فریق بن چکے ہیں۔
ایسے میں چند سوال نہایت اہمیت کے حامل ہیں جن میں سرفہرست تویہ ہے کہ کیاعمران خان کے بیانیے کو،جس پروہ اب بھی قائم ہیں،دھچکہ پہنچے گا؟ دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ سے صرف ایک ماہ قبل اس پریس کانفرنس کے بعدملک کے اہم ادارے اورایک بڑی سیاسی جماعت کے درمیان تناؤکے اثرات کیاہوں گے؟
واضح رہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آراورڈی جی آئی ایس آئی کی جانب سےپریس کانفرنس میں کہاگیاکہ فوج نے بطورادارہ فیصلہ کیاکہ وہ آئینی حدودمیں رہ کرکام کرے گی اورسیاسی کردارادانہیں کرے گی۔ اس تناظرمیں انہوں نے یہ کہاکہ”عمران خان رات کی تاریکی میں ملاقاتوں میں غیرآئینی خواہشات کااظہارکرتے رہے ہیں،ان کے مطابق فوج پرتنقیدکی وجہ بھی یہی ہے کہ غیر قانونی کام کرنے سے انکارکیاگیاجس پرخودعمران خان کی جانب ملاقات کی تصدیق کرتے ہوئے کہاگیا “ہماری میٹنگ ہوئی ایوان صدر جہاں عارف علوی بیچ میں تھے اورمیں نے ایک ہی بات کہی تھی کہ ملک کودلدل سے نکالناہے توسوائے صاف اورشفاف الیکشن کے اورکوئی راستہ نہیں اورمیں نے ملازمت میں توسیع کی بات اس لئے کی کہ اگرحکومت کی طرد سے یہ آرہے تومیں نے بھی ایسی پیشکش کردی۔”سوال یہ ہے کیاخودکوجمہوریت کاچیمپئن کہنے والالیڈرقوم کواس بات کاجواب دے گاکہ آئین میں کہاں لکھا ہے کہ رات کے اندھیرے میں فوج کے سپہ کوپرکشش ترغیبات بطوررشوت کی پیشکش کرکےبدلے میں ایسامطالبہ کیاجائے جبکہ آئین میں تواگلے چیف کی تقرری خالصتاً وزیراعظم کی صوابدیدہے۔کیاعمران خان نے جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع دیتے ہوئے اس وقت کی اپوزیشن سے مشورہ کیاتھا؟
سوئنگ ووٹرجومسلم لیگ ن یاپیپلزپارٹی سے ناراض ہوکرتحریک انصاف کاحصہ بنا،اس کواب نئے حقائق معلوم ہونے پرشدیدمایوسی اورحیرت ہوئی ہے ۔ اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیے کویوں نقصان پہنچاکہ لوگوں کویہ علم ہورہاہے کہ عمران خان توآرمی چیف کواپنے اقتدارمیں مددکیلئےایکسٹینشن دے رہے تھے، رات کے اندھیروں میں مل رہے تھے اورصبح میں ایک الگ بات کرتے تھے۔اس بات سے قطع نظرکہ لانگ مارچ میں کتنے لوگ شامل ہیں،پی ٹی آئی کافی حدتک دفاعی پوزیشن میں نظرآرہی ہے جس سے واضح ہوتاہے کہ ووٹرکی مقبولیت میں خاصی دراڑآگئی ہے۔
وہ لوگ جوفوج کے قریب رہے ہیں،جنہوں نے عمران خان کی سائیڈلی،وہ یقیناًسؤنگ کرجائیں گےاور وہ دیکھ رہے ہیں کہ فوج نے اپنے اورپی ٹی آئی کے درمیان ایک لکیرکھِنچ دی ہے کہ یہ بیانیہ ان کے ساتھ ٹکراؤمیں ہے۔دیکھنایہ ہے کہ اب تحریک انصاف اوراسٹیبلشمنٹ کے تعلقات کامستقبل کیاہے؟ تحریک انصاف اورخودعمران خان حکومت میں فوج کے ساتھ ایک پیج کی تکرارکرتے رہے ہیں تاہم گزشتہ پریس کانفرنس کے بعدیہ تاثرجوپہلے ہی زائل ہوچکاتھا، اب اس مقام پر پہنچ چکاہے جہاں یہ سوال اٹھ رہاہے کہ کیاآئندہ ایک پیج پرآناممکن رہاہے یانہیں؟ڈی جی آئی ایس آئی نے عمران خان کویاددلایا کہ “آپ کا چیف اگرغدارہے توآپ ان کی تعریفیں کیوں کرتے تھے؟”پی ٹی آئی کی جانب سے جوابی پریس کانفرنس میں تاثردیاگیاکہ وہ اب بھی فوج سے بطورادارہ بہتر تعلقات کے خواہاں ہیں اوران کی جانب سے الیکشن کیلئےاثرورسوخ استعمال کرنے کیلئے فوج سے رابطے کودرست قراردیا۔
عمران خان کامطالبہ”انوکھالاڈلاکھیلن کومانگے چاند”کے مصداق کہ صرف ان ہی کی حمایت کی جائے،وہ ابھی تک کسی اورسیاسی جماعت کوماننے کوتیار نہیں۔ان کایہ مطالبہ بھی غیرآئینی ہے کہ موجودہ وزیراعظم کوتوآرمی چیف لگانے کااختیارہی نہیں اورجلدی انتخابات ہوں حالانکہ ان کے پاس کوئی آئینی اختیارنہیں۔عمران خان کویہ سمجھ لینا چاہئے کہ اس پریس کانفرنس میں ڈی جی آئی ایس آئی کاخودآنااس بات کاثبوت تھاکہ عمران اورفوج کے درمیان جو تعلق تھا،وہ ٹوٹ چکاہے یعنی طلاق ہوگئی ہے۔اس تعلق میں جودراڑآگئی ہے۔اپنی تصویرتک پوشیدہ رکھنے والا ادارے کاایساسربراہ کاریکارڈپر آنے کےمطلب پنجابی میں جوکہتے ہیں”چٹی ناں”وہ انہوں نے کردی ہے۔
اب مسائل کاحل اس ملک میں ایسی ایماندارقیادت کولانے میں ہے جومسائل کوبھی سمجھتی ہواوران کاحل بھی جا نتی ہو،جس کاماضی ہرقسم کی کرپشن اور آلائشوں سے پاک ہو،جس کے کسی بھی رکن نے کبھی بھی نہ توکوئی کسی بینک سے قرض لیاہواورنہ ہی کبھی کسی حکومت سے کوئی پلاٹ یاانعام واکرام وصول کیاہو۔اس کاکوئی بھی رکن آج تک کسی قانونی یااخلاقی جرم میں ملوث تک نہ رہاہو۔یقیناًابھی تک ہماری زمین ایسی بانجھ نہیں ہوئی کہ ایسے افرادنہ مل سکیں،بس ضرورت اس امرکی ہے کہ ایمانداری کے ساتھ اپنے گردوپیش پرنظراللہ کاحاضرناظرجان کرایسے افرادکاساتھ دیں کہ ان کاساتھ دینے کے بعداللہ کے ہاں سرخروئی کااحساس پیداہو!
پہلے کون رہا ہے یہاں،جواب رہے گا۔کچھ بھی تونہیں رہے گا،بس نام رہے گامیرے رب کا!
اداس،اداس اکیلی جوان رات کی روح
بھٹک رہی ہے مرے ساتھ صبحِ نوکیلئے