Another sea of destruction

تباہی کاایک اورسمندر

:Share

افغانستان سے امریکااوربھارت دونوں ہی کوخاصے ذِلّت آمیزاندازسے نکلنے کی گواہی تاریخ میں رقم ہوچکی جبکہ امریکاکے روایتی حریف روس اورآج کی دنیامیں تیزی سے سپرطاقت بننے کاسفرطے کرنے والے چین نے اُس کے پیداکردہ خلاکوکامیابی سے پُرکردیا ہے۔بھارت اور امریکا نے کابل میں جس عجلت کے ساتھ اپنے سفارت خانے خالی کئے،ایساسوچابھی نہیں جاسکتاتھالیکن روس اورچین نے ایسانہیں کیا۔ان کاپورا سفارتی عملہ کابل میں موجوداورپہلے سے زیادہ مصروف ہے۔بھارت نے جنوبی ایشیامیں اپنی برتری برقرار رکھنے کی دُھن میں مونروڈاکٹرائن سے کام لینے کی ناکام کوشش کی۔بھارت اپنے آپ کونئی عالمی طاقت کے طورپرپیش کرنے کے خبط میں مبتلاہے۔اب سوال یہ ہے کہ افغانستان سے ذِلّت آمیزانخلابھارت کیلئےخطے میں اورخطے سے باہرکیامفہوم رکھتاہے؟

پہلی بات تویہ ہے کہ افغانستان سے امریکاکاذِلّت بھراانخلاعالمی سطح پراس کی ساکھ مزیدخراب کرنے کاذریعہ بنااوراس کی عالمی سطح کی برتری بہت حدتک ختم ہوکر رہ گئی ہےاوراپنی اسی برتری کے بحالی کیلئے فوری طورپریوکرین میں اپنے اتحادیوں سمیت ایک نئے جنگ میں مصروف ہے جبکہ دوسری طرف بھارت کو بھی شدیدنقصان سے دوچارہوناپڑاہے۔اس کی علاقائی سطح کی ساکھ شدیدمتاثرہوئی ہے اورجنوبی ایشیامیں اُس کی برتری کاخواب چکناچورہوگیاہے۔اس کادعوٰی کہ وہ عالمی سطح پربرتری کیلئےکی جانے والی کوششوں کے حوالے سے توازن قائم رکھنے میں نمایاں مقام رکھتاہے اورافغانستان میں جوکچھ ہواہے،اُس سے بھارت کے ایسے تمام دعوے بالکل جھوٹ ثابت ہوگئے ہیں۔اسٹریٹجک معاملات کے تناظرمیں توآج بھارت کہیں بھی دکھائی نہیں دے رہااوریقیناًاگلے بیس ،تیس برس کے دوران بھی بھارت کا عالمی سیاست میں کوئی نمایاں کردارنہیں۔عالمی سطح کی ری بیلینسنگ پاوربنانے کیلئےبھارت کومعاشیات،اسٹریٹجی اورٹیکنالوجی تینوں محاذوں پرغیرمعمولی تنزلی کابھی سامناہے جس کیلئے وہ سرتوڑکوششیں کررہاہے۔

دوسری اہم بات یہ کہ بھارت کی اسٹریٹجک پالیسی مرتب کرنے والوں نے سمجھ لیاکہ بھارت نے چین کاپامردی سے سامناکرنے کیلئے چاررکنی اتحاد”کواڈ”میں شامل ہوکراسرائیل کی طرح امریکاکی گودمیں جگہ بنالی ہے لیکن جہاں بھارت کے افغانستان کے بارے میں تمام دعوے بھی انتہائی درجے کے مبالغے کے حامل ثابت ہونے پرشرمندگی کے ساتھ منہ چھپانے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچاوہی چین کے ساتھ بھارتی فوجوں کی درگت نے بھی امریکاومغرب پرحقیقت واضح کردی ہے۔حقیقت تویہ ہے کہ بھارت اسٹریٹجک معاملات میں اپنی خودمختاری اوراعتمادکھوبیٹھاہے۔افغانستان کے معاملات نے ثابت کیاہے کہ بھارت اور امریکاکی افغان پالیسی یکساں طورپرناکام نوعیت کی تھی۔امورِخارجہ کی بھارتی وزارت نے17اگست کواپنے بیان میں کابل کی جس صورتِ حال کاذکرکیاتھااور سفارت خانہ خالی کرنے کے حوالے سے صرف امریکاکاذکرتھا،اس میں روس یاکسی اورطاقتورعلاقائی ملک کانام تک شامل نہ تھا۔

جوکچھ افغانستان میں ہوااُس کے بعدتوجنوبی ایشیامیں بھارت کی برتری بھوٹان تک محدودہوچکی ہے جواُس کیلئےبغل بچے کی سی حیثیت رکھتاہے۔بھارت نے خشکی سے گِھرے ہوئے ایک اورملک نیپال کوبھی اپنے دائرۂ اثرمیں رکھاہے،مگر اب بھوٹان کے ساتھ نیپال کابھی سفراِس دائرۂ اثرسے نکلتادکھائی دے رہا ہے ۔نیپال نے چین کے ساتھ کئی سمجھوتوں پردستخط کرچکاہے،جن کے نتیجے میں سمندروں تک رسائی کے معاملے میں نیپال کی بیرونی تجارت اورنیپالی باشندوں کی حرکت پذیری پربھارت کاکنٹرول بہت حدتک ختم ہوکررہ گیاہے اوربھوٹان میں بھی بھارت کے بارے میں بے چینی پھیل رہی ہے۔ بھارت کی اسٹریٹجی تیار کرنے والوں کاخیال ہے کہ نیپال کی سیاسی جماعتیں بھارتی مفادات کے خلاف نہیں جاسکتیں۔یہ حقیقت نظراندازنہیں کی جاسکتی کہ نیپال کی کوئی بھی سیاسی جماعت ملک بھرمیں پائے جانے والے بھارت مخالف جذبات کے پیشِ نظرچین سے کیے جانے والے سمجھوتوں اورمعاہدوں کوکسی طورنظراندازنہیں کرسکتی۔ یوں اب خطے میں بھارت کی برتری ختم ہوتی جارہی ہے اورچین کامعاشی غلبہ رہی سہی کسرنکال رہاہے۔

افغانستان وہ اسٹریٹجک مقام تھاجہاں اپنے قدم مضبوطی سے جماکربھارت اپنے روایتی حریف پاکستان کوقابومیں رکھنے کے حوالے سے پاکستان میں دہشتگردی میں مصروف تھااوراب بھی ٹی ٹی پی کے کچھ گروپوں کی سرپرستی کررہاہے۔بھارتی میڈیامیں یہ خبریں بھی آتی رہی کہ افغانستان کے ذریعے بھارت بلوچستان میں بڑے انٹیلی جنس آپریشنزشروع کرنے والاہے تاکہ مقبوضہ کشمیرمیں بڑھتی ہوئی بے چینی اورجدوجہدآزادی کودبایاجائے۔ایسے میں افغانستان سے بھارت کی شرم ناک واپسی نے پاکستان کواسٹریٹجک نقطۂ نظر سے خاصی بہترپوزیشن میں پہنچاتودیاہے مگرسیاسی اورمعاشی ابتری نے پاکستان کواپنے چنگل میں پھانس رکھا ہے۔یہ بات بھی کسی طورنظراندازنہیں کی جاسکتی کہ امریکاسے اسٹریٹجک اتحادقائم کرکے بھارت نے مشرقِ وسطٰی اوروسطِ ایشیاتک رسائی بھی کھوئی ہے۔ بھارت کے مسقبلِ قریب میں یوریشین سرزمین پرمعاشی اوراسٹریٹجک معاملات کے بڑے اتحادوں کاحصہ بن کربہت کچھ حاصل کرنے کے مواقع بھی اب ہاتھ سے جاچکے ہیں جبکہ اب پاکستان،ایران،ترکی،چین اورروس خطے میں معاشی واسٹریٹجک شراکت داریاں قائم کرنے کی کامیاب منصوبہ سازی کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔

افغانستان میں تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کی روشنی میں روسی قیادت نے حال ہی میں بڑی علاقائی طاقتوں سے گفت وشنیداور مشاورت کی مگراس عمل میں بھارت کوقطعاًشریک نہیں کیاجبکہ یوکرین کے معاملے میں بھارت نے امریکانوازہونے کے باوجوداس کی بات نہیں مانی۔اس سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ بھارت کس حدتک تنہاہوچکاہے۔چین اور روس نے مل کرافغانستان میں تعمیرِنو، استحکام اورترقی کیلئےبنیادی نوعیت کےاقدامات کیے ہیں مثلاً ڈالرکاعمل دخل کم کرکے معاملات کوعلاقائی کرنسیوں کی مددسے طے کرنے پرتوجہ دی جارہی ہے۔امریکاسے اسٹریٹجک معاہدے یاا تحاد کاحصہ ہونے کے باعث بھارت اس عمل میں حصہ نہیں لے سکتا۔

2001ءکے بعدسے اب تک بھارت نے افغانستان میں تین ارب ڈالرسے زیادہ کی سرمایہ کاری کی ہے۔بھارت کی یہ سرمایہ کاری صحراکی ریت پرپانی ثابت ہوئی اوریہ خطیررقم بھارت میں شدید افلاس،بھوک اوربیماریوں سے نبردآزمااورتعلیمِ عامہ کی ناقص سہولتوں سے دوچاربچوں کامعیارِزندگی بلندکرنے پربھی خرچ کی جاسکتی تھی۔نئی دہلی کے پالیسی سازوں نے3/ارب ڈالرانڈین فارن سروس کے چندسینئرافسران کی خودکوگلوبل پارٹنرزپلیئرزکے طورپرپیش کرنے کی خواہش کی نذرکردیے۔مودی کی ناکام پالیسی کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ جب روس اورچین نے کابل میں اپنے سفارت خانے کھلے رکھنے کوترجیح دی اوراُس کے باشندوں نے انخلانہیں کیاتوبھارت کووہاں سے فرارہونے پرکیوں مجبورہوناپڑا۔

مودی اوراس کے پالتوکتے اب بھی چندمیڈیاآؤٹ لیٹس اب بھی خارجہ پالیسی کے میدان میں اُن کی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں مگراپوزیشن جماعتیں عالمی معاملات میں بھارت کی پوزیشن میں رونماہونے والی گراوٹ کیلئےمودی کوموردِالزام ٹھہراتے نہیں تھکتیں۔بھارت بھرمیں اب لوگ محسوس کرنے لگے ہیں کہ عالمی سیاست کے اسٹیج پربھارت کےسکڑتےہوئےرسواکن کردارنے دراصل مودی اوراس کی ٹیم کی ناکام حکمتِ عملی کے نتائج نےاقوام عالم میں جہاں شرمندہ کردیاہے وہاں مودی کے بہت سے بلینڈرنے ان کوننگاکردیاہے۔

سب سے پہلے اس بات پرغورکیجیے کہ مودی نے خارجہ پالیسی کواپنے نام اورشخصیت سے جوڑدیا۔ اس نے یہ سمجھ لیاتھاکہ واحدسپر پاوراوردیگرطاقتور ممالک کے سربراہانِ مملکت وحکومت سے مصافحہ اورجبری معانقہ بھارتی خارجہ پالیسی کی بڑی کامیابی ہے ۔مودی نے2014ءمیں جب وزیر اعظم کامنصب سنبھالاتھا تب وہ خارجہ پالیسی اور اسٹریٹجک معاملات میں ناتجربہ کارتھا۔ وزیر اعظم کا منصب سنبھالنے سے قبل وہ گجرات کاوزیراعلیٰ تھایعنی وفاقی یامرکزی سطح کے کسی منصب پرخدمات انجام دینے کااس کاتجربہ نہیں تھا۔بھارت کی پارلیمان کے ایوانِ بالاراجیہ سبھاکے رکن اورحکمراں بھارتیہ جنتاپارٹی کے رہنماسبرامنیم سوامی نے کئی بارمعاشیات اورامورِخارجہ میں مودی کی لاعلمی اورناتجربہ کاری پرشدیدنکتہ چینی کی۔جن چند معاملات میں مودی سے بہت سے شکایات ہیں اُن میں ایک یہ بھی ہے کہ اس نے مختلف شعبوں میں اہل ترین افرادکی خدمات حاصل کرنے پرتوجہ نہیں دی اوراِس سے بھی بڑھ کریہ کہ وہ پیشہ ورانہ مہارت پرکچھ زیادہ یقین نہیں رکھتا۔مودی نے سابق بیوروکریٹس سبرامنیم جے شنکراورقومی سلامتی کے مشیراجیت ڈوول پربہت زیادہ انحصارکیاہے۔مودی کی کمزوریاں بھانپ لینے کے بعد2015ءکے بعدسے امورِخارجہ کے حوالے سے فیصلہ سازی کے عمل پرانڈین فارن سروس کے سینئر افسران چھائے ہوئے ہیں۔

سبرامنیم جے شنکرمغرب نوازروّیے کی حامل نمایاں شخصیت ہیں اوروہ امریکامیں بھارت کے سفیربھی رہ چکے ہیں۔مودی نے انہیں 2015ءمیں سیکرٹری خارجہ مقررکیا۔سبرامنیم کے سیکریٹری خارجہ بنائے جانے کے بعدبھارت نے اگست2016ءمیں امریکاسے دی لاجسٹکس مینجمنٹ معاہدہ کیا۔4برس کی مدت میں بھارت نے امریکاکے ساتھ چاربنیادی نوعیت کے معاہدے کیے اوراسٹریٹجک پارٹنر بن گیا۔2019ءمیں چوتھے رام ناتھ گوئینکالیکچرزمیں سبرامنیم جے شنکرکی تقریر ایک اہم دستاویزہے۔اس تقریرمیں سبرامنیم نے کہاتھاکہ امریکاکاشراکت داراوراتحادی بننابھارت کیلئےخطرناک ہے مگرخواہشات کی تکمیل کیلئے خطرات مول لیناہی پڑتے ہیں۔ان کا مزید کہناتھاکہ خطرات مول لیناسفارت کاری کاایک بنیادی حصہ ہے۔پالیسی کے حوالے سے بہت سے اہم فیصلے اِسی میکینزم کے تحت کام کرتے ہیں۔اگرمعاملات کوپروان چڑھاناہوتوخطرات مول لیناہی پڑتے ہیں۔اگرسفارت کاری میں زیادہ خطرہ مول لینے سے گریزکیا جائے گاتوفوائدبھی محدود ہی رہیں گے۔بقول سبرامنیم بھارت نے کئی مواقع پرتوقعات اوراندازوں کے برعکس خطرہ مول لیااورکامیابی پائی۔ کبھی کبھی ناکامی بھی ہاتھ لگی۔مول لیے جانے والے تمام خطرات ڈرامائی نہیں ہوتے۔بہت سے معاملات میں پورے اعتمادکے ساتھ تخمینے کی ضرورت پڑتی ہے اوریومیہ بنیادپر معاملات کاجائزہ لیناپڑتاہے مگرکبھی کبھی نتائج انتہائی حوصلہ افزابرآمدہوتے ہیں اور عالمی سیاست ومعیشت میں پوزیشن بہترہوجاتی ہے۔آج ہمیں عالمی سیاست ومعیشت میں کچھ ایساہی دکھائی دے رہاہے۔

نیپالی زبان میں ایک کہاوت ہے کہ’’دورافتادہ دیوتاکے مقابلے میں پڑوس کابھوت زیادہ کام کاہے‘‘۔مودی نے چین کاپامردی سے سامنا کرنے کیلئےدور کے دیوتاامریکاکوچُن کربھیانک غلطی کی۔بھارت کوافلاس،بیماریوں اورجہالت کاسامناہے۔ان تمام عوارض نے اُس کی ترقی روک رکھی ہے اوردن بدن غربت میں اضافہ ہوتاجارہاہے۔بڑی مارکیٹ تک رسائی،ٹیکنالوجی کی منتقلی اوربڑے پیمانے کی سرمایہ کاری کے ذریعے چین اُس کی غیرمعمولی حدتک مددکرسکتاہے اوراس مددکاراستہ پاکستان سے ہوکرگزرتاہے اورمودی جب تک پاکستان کواپنی اناکامسئلہ بناکررکھے گا،اس کے خاک چاٹنے کاسفرختم نہیں ہوگا۔

اہلِ بھارت اس گمان کے سائے میں جی رہے تھے کہ امریکاوبھارت کے اتحادسے چین خوفزدہ ہوکروہی کرے گاجوبھارت چاہتاہے۔ معاملات کی حتمی حیثیت وہ نہ رہی جواہلِ بھارت چاہتے تھے۔ایک بڑاخطرہ مول لیاگیا۔ایسالگتاہے کہ سبرامنیم ریاضی میں کمزورہیں۔ وہ غلطی کرگئے۔بھارت نے جوخطرہ مول لیاوہ پلٹ کرآگیااورنقصان کاباعث بنااوربھارت کی موجودہ تنہائی اورحیثیت میں پیدا ہونے والاسکڑاؤاسی کانتیجہ ہے۔

2020ءکو میں نے اپنے آرٹیکل میں لکھاتھاکہ تمام انڈے امریکی ٹوکری میں رکھنے پربھارت کومشکل گھڑی میں تعمیری دوست نہیں مل پائیں گے کیونکہ پاکستان امریکاکی دوستی سے پناہ طلب کررہاہے اورہم نے امریکاکی دوستی میں صرف افغانستان کی جنگ میں اپنے پورے ملک کوآگ میں جھونک دیااوراس آگ میں ہم نے87ہزارجانوں کے لاشے اٹھائے اور150بلین ڈالرکانقصان برداشت کیا۔اگر امریکاکی دوستی پرنگاہ ڈالیں تودرجنوں تاریخی مثالیں ہیں جہاں امریکا نے اپنے مفادات کی تکمیل کے بعداپنے انہی دوستوں کے اعتماد کی پرواہ اورلمحہ بھرتامل کئے بغیراسی کی قربانی دینے سے دریغ نہیں کرتا۔ابھی کل کی بات ہے کہ افغانستان میں روسی جارحیت کے دوران افغان مجاہدین اورپاکستان نے اپنی بے تحاشہ قربانیوں کے نتیجے میں امریکاکوواحدعالمی سپرطاقت بننے میں اہم کردارادا کیالیکن جنگ کے اختتام پرامریکااپنے سارے وعدوں کوپس پشت ڈال کرنہ صرف اس خطے سے بھاگ گیابلکہ اس کے مشاہیر نے اسلام کواپناسب سے بڑا دشمن گردان کراب تک اس کے خلاف جنگ شروع کررکھی ہے۔آج مودی بھی ایسی ہی حالت سے دوچار ہے۔ وہ اپنی محدود سوچ اورغیرحقیقت پسندانہ امنگوں کی قیمت اداکررہاہے۔اگربھارت اپنےخطے،مشرقِ وسطٰی اوروسطِ ایشیامیں دوبارہ داخل ہوناچاہتاہے تواُسے اپنے مکارانہ روّیے سے تائب ہوکرپاکستان اورچین کی طرف دوستی اورمفاہمت کاہاتھ بڑھاناہی پڑے گااوراس کے عملی ثبوت کیلئے اپنے تمام تنازعات کوپرامن طورپراقوام متحدہ کی منظورکردہ قراردادوں کے مطابق کشمیرکا فیصلہ کرناہوگا وگرنہ تباہی کاایک سمندراسے غرق کرنے کامنتظرہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں