And What Is Insult

اورتضحیک کیاہے؟

:Share

میں ایک مرتبہ پھردہائی دینے پرمجبورہوگیاہوں کہ کوئی تاریخ پڑھانے والےاس نوجوان استادپروفیسرحسین کوروکے کہ یہ میرااس قدرجذباتی محاسبہ کرنا چھوڑدے۔ کل سے جس عنوان پربات کرنے کیلئےمیراتعاقب کررہاتھا،میں اس تضحیک سے بچنے کیلئے موزوں جواب تلاش کررہاتھاکہ آج صبح فون پربات کرنے کی بجائے پھوٹ پھوٹ کرسسکیوں میں بڑے ہی جذباتی اندازمیں رورہاتھااوربولنے کیلئے الفاظ اس کاساتھ نہیں دے رہے تھے۔گزشتہ برس سقوط ڈھاکہ پرمیرامضمون “پھرچراغوں میں روشنی نہ رہی”نے اس کایہ حال کر دیا تھا اور اس کا مطالبہ نہیں بلکہ پرزوراصرارہے کہ ہم نے اپنی غلطیوں سے کچھ نہیں سیکھا اور ہمارے ملک میں ایک مرتبہ پھر ایسے حالات پیداکردیئے گئے ہیں جن کوبیان کرتے ہوئے بھی خوف آرہاہے۔اسے میری تحریروں میں اب مایوسی نظرآرہی ہے کہ میں ہمت ہاربیٹھاہوں اورمجھے اپنے قلم کودوبارہ اسی پرانے عزم کے ساتھ حرکت دینی ہوگی۔اس مطالبے کی تائیدمیں اوربھی بہت سے نوجوانوں کااصرارشامل ہے اوریقین کریں کہ میں خودبھی محسوس کررہاہوں کہ میری تحریرمیں ایک بیزاری اورلاتعلقی جگہ بنارہی ہے۔وہ تلخی،وہ آگ اوروہ سلگتاہوادردختم ہوتاجارہاہے جو میرے قلم کی پہچان تھی حالانکہ میری ہمیشہ سے کوشش رہی ہے کہ اپنے رب کی بتائی ہوئی قلم کی تحریم کاخیال رکھتے ہوئے اسے ہمیشہ اپنی عقبیٰ اور آخرت کی نجات کاوسیلہ بناسکوں۔

ہربارمیں خودکویہی جواب دیتاہوں،کوئی نیاموضوع نہیں کوئی نیاایشونہیں اوریہی جوازحسین کے سامنے بھی پیش کیا۔اب مہنگائی پراور کتنے کالم لکھے جاسکتے ہیں، بیروزگاری جہالت اوربیماری پرکوئی کہاں تک لکھ سکتاہے؟ بدامنی، لوٹ کھسوٹ، کرپشن، دفتری تاخیر، سرخ فیتہ اور سیاسی مکروفریب پر کتنے ٹن مضامین چھاپے جا سکتے ہیں؟آخرانسانی دماغ کی بھی ایک حدہوتی ہے،آپ دہائی سیاپابھی ایک حدتک کرسکتے ہیں۔بچہ ماں کو کتنا پیارا ہوتاہے،بچہ مرجائے توماں بین کرتی ہے، روتی چلاتی ہے لیکن کتنی دیرتک؟ایک گھنٹہ، ایک دن،ایک ہفتہ،آخربین چیخوں،چیخیں سسکیوں اورآہوں میں تبدیل ہوجاتی ہیں،دل مضطرب کوچین آجاتا ہے ،ایک ہلکی سی کسک دردکی ایک آہٹ میں تبدیل ہوکرباقی رہ جاتی ہے۔

لکھاریوں کی تحریریں ایک بین،ایک چیخ ہوتے ہیں۔یہ چیخ یہ بین بتاتے ہیں کہ لوگو!تمہارے ساتھ ظلم ہوگیا،تم لٹ گئے،تم بربادہو گئے۔اس چیخ،اس بین پرلوگ متوجہ ہوجائیں اورظالم ٹھٹک کررک جائے تولکھاری کافرض پوراہوگیالیکن اگرظالم ان چیخوں،ان بینوں کے باوجود ظلم کرتارہے،ایک لمحے کیلئے اس کاہاتھ نہ رکے،اس کے ماتھے پرشرمندگی کاپسینہ تک نہ آئے،تووہ چیخ،وہ بین ایک فضائی آلودگی کے سواکچھ نہیں ہوتی۔لوگ بھی اگراس چیخ اوراس بین کو معمولی سمجھیں اورایک روٹین کادرجہ دے دیں تو بھی یہ چیخیں یہ بین آوازوں کے جنگل میں ایک سوکھی سڑی جھاڑی اورایک کچلی گھاس سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔چوکیدارکے “جاگتے رہو”کے اعلان سے اگرچورگھبرائیں اور نہ ہی اہلِ محلہ کی آنکھ کھلے تو چوکیدار کیاکرے گا؟اس کی پتلیوں میں بھی نیند ہچکولے لے گی، اس کاضمیربھی جمائیاں لینے لگے گا۔

یقین کیجئے میں جب لکھنے بیٹھتاہوں توخودسے سوال کرتاہوں،کس کیلئے لکھ رہاہوں؟ان لوگوں کیلئے جوغلامی سہنے کی عادت ، زیادتیاں برداشت کرنے کی خوجن کی نس نس میں بس چکی ہے،جواپنے اوپرہونے والے ظلم کی داستان کوبھی ایک افسانہ سمجھ کرپڑھتے ہیں،جواپنے قتل کے گواہ پرہنستے ہیں یااس حکومت کیلئے جو خداترسی کی اپیل کوپاگل اورقنوطیوں کا “واویلا”سمجھتی ہے۔میں اس نتیجے پرپہنچ چکا ہوں آپ بیل کولیکچرکے ذریعے چیتانہیں بناسکتے۔بھیڑیئے کے دل میں بھیڑ کیلئے ہمدردی بھی نہیں جگاسکتے،لہندامیرے انتہائی عزیزحسین!سچی بات ہے کہ اعتراف کرتاہوں کہ سیاپے کی یہ نائین(پیغام دینے والی مائی) تھک چکی ہے ۔آخرقبرستانوں میں اذان دینے کی ایک حدہوتی ہے!

انسانوں نے بھوک وافلاس،غربت وبیروزگاری سے تنگ آکرچوریاں وڈاکے ڈالے ہیں،خودکشیاں کی ہیں،جرم کی دنیاکاراستہ اختیار کیا ہے اورکچھ نہیں بن سکاتو اس علاقے سے ہجرت اختیارکرلی ہے لیکن جس معاملے کوانہوں نے ایک لمحے کیلئے،ذراسے توقف کیلئے بھی برداشت نہیں کیاوہ تضحیک تھی،کیونکہ عزت نفس ایک ایسی متاع ہے کہ جس کے لٹ جانے کے رنج پرانسان وہ بپھراہوا شیر بن جا تاہے کہ اس کے پنجے واپس نہیں مڑتے کہ جب تک انتقام نہ لے لیں ۔ول ڈیورانٹ نے اس تا ریخی مائلے کو اپنی مشہور زمانہ کتاب”ہیروزآف دی ہسٹری”میں ا س طر ح تحریرکیاہے کہ،تاریخ میں انقلاب معاشی حالات اور مجبوریاں نہیں لاتیں بلکہ تاریخ کےبگڑے ہوئے بچے لوگوں کی تضحیک اورتمسخرسے وہ لمحہ قریب کرلیتے ہیں جہاں لوگ خونخواربھیڑیوں کی طرح ایوانوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔

اس کی ایک ادنیٰ سی مثال اورجھلک انقلاب فرانس میں بھی تلاش کی جاسکتی ہے۔والٹیئرایک معمولی ڈرامہ نویس تھاجس کے ڈرامے معاشرے کی محرومیوں پرایک بھرپورطنزہواکرتے تھے،جن کودیکھ کرفرانس کے لوگوں کواپنی ہی زندگی کے کردارنظرآتے تھے اوروہ اپناساراغم وغصہ بھول کرچین کی نیندسو جاتے تھے۔ان ڈراموں کی مقبولیت دیکھ کرشاہ فرانس کاایک منہ چڑامشیرروہان حسد سے جلنے لگااوربادشاہ کے کان بھرنے شروع کردیئے جس کی بناءپر والٹیئر ایک سال کیلئے پیرس بدر کر دیا گیا۔والٹیئر اپنی پیرس بدری کے بعدجب واپس آیا تو اس کے قلم نے کسی بھی انتقامی کاروائی سے اجتناب کیا۔پیرس واپسی پراس نے دوبارہ لوگوں کی محرومیوں پر لکھناشروع کردیالیکن اس دفعہ روہان نے والٹیئرکواپنے بھرے دربارمیں طلب کرکے اس کی شدیدبے عزتی اورتضحیک کی جس کا بالآخروالٹیئرنے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔لوگوں نے بیچ بچاؤکرکے معاملہ رفع دفع توکروادیالیکن ایک عورت جووالٹیئرکی بے حد مداح تھی اس سارے معاملے کودیکھ کربیہوش ہوگئی لیکن روہان نے والٹیئرکے گھراپنے چندغنڈوں کوبھیج کروالٹیئرکواس کے گھر سے نکال کرسب لوگوں کے سامنے بری طرح مارا پیٹا اور خودوہاں پاس کھڑامسکراتارہا۔

والٹیئرجب اپنی توہین وتضحیک،کھلم کھلامارپیٹ اورتمسخرکی شکائت کرنے بادشاہ کے محل میں چندلمحوں کی بھیک مانگنے گیاتو محل کے دروازے بندکردیئے گئے۔یہ وہ لمحات تھے جس نے والٹیئرکوڈرامہ نگارسے ایک کالم نویس اورفلسفی بنادیا۔اس کے قلم نے لوگوں کی سوچوں کادھاراتبدیل کردیا۔لوگوں کو والٹیئر کی تحریروں کاشدت سے انتظاررہتاتھا۔والٹیئرکی مقبولیت دن بدن بڑھ رہی تھی اورلوگوں نے اس کواپنامسیحاسمجھناشروع کردیا۔ادھرروہان اوراس کے حواری بادشاہ کووالٹیئرکی مقبولیت سے ڈراکراس کی تحریروں اورکتابوں پرپابندی لگواتے رہے۔والٹیئرکی کتاب نیچرل لاءپرپابندی لگاکراس کی تمام کاپیوں کوسرعام بازار میں آگ لگادی گئی۔اب والٹیئرکی کتابیں خفیہ طور پر چھپتی رہیں اور لوگوں میں تقسیم ہوتی رہیں۔والٹیئرکے تحریر کردہ کالم اور پمفلٹ متوسط درجہ کے لوگوں کی دل کی آوازبن کرابھرے۔بالآخربادشاہ نے والٹیئرکوملک بدرکرکے برطانیہ بھجوادیامگروالٹیئرکی تحریروں میں مزید شدت آگئی۔

والٹیئرکے الفاظ دہکتے انگاروں کی مانندبادشاہ اوراس کے حواریوں پربرسنے لگے اوربالآخروہ وقت آن پہنچاجب فرانس کے لوگوں نے بادشاہ لوئی اوراس کے حواریوں کوایک بڑے چھرے یعنی گلیوٹین کے نیچے رکھ کرذبح کردیا۔اس نے اپنی موت سے پہلے اس بات کاقرارکیاکہ انقلاب فرانس والٹیئراورروسوکے سواکچھ بھی نہیں۔ تضحیک اورتوہین ہرمعاشرے میں ایک والٹیئرکوجنم دیتی ہے اورانجام بھی بادشاہ لوئی سے مختلف نہیں ہوتابلکہ بعض اوقات تواس سے بھی زیادہ خوفناک پاکستانی قوم کی تضحیک اور توہین کاسلسلہ تواس دن شروع ہوگیاتھاجب ہم نے اپنے ایک شہری ایمل کانسی کوخوداپنے ہاتھوں سے پکڑکر قصرسفیدکے فرعون کے حوالے کیاتھا۔ہم اگر اس وقت یہ مطالبہ کرتے کہ جناب!آپ اپناوکیل لائیں اورساری دنیاکے میڈیاکے سامنے ہم ایمل کانسی کا
ٹرائل کریں گے لیکن مقدمہ ہماری عدالت میں چلے گالیکن اس کے برعکس ہم نے پاکستان کی کسی بھی عدالت کوبتائے بغیرایمل کانسی کوقصر سفیدکے فرعونی مذبح خانے کےحوالے کر دیااوراس کے بدلے میں بخوشی ڈالروں کابھراتھیلاہمارے حکمرانوں کے ہاتھوں میں تھما دیاگیا۔اسی لئے امریکی اٹارنی جنرل نے برملا عدالت میں کہاکہ پاکستانی توصرف بیس ہزارڈالروں کے عوض اپنی ماں کوبھی فروخت کردیتے ہیں اورامریکی اٹارنی جنرل کے اس فقرہ کودنیاکے سارے میڈیا نے نشرکیا۔یہ انتہائی غلط اورتضحیک آمیزرسم ہماری سول حکومت کے دوراقتدارمیں انجام پائی اوراس کے کچھ عرصہ بعدکمانڈو پرویز مشرف نے اپنے پیشرؤں کوبھی مات کردیا۔امریکیوں نے باجوڑمیں ایک مدرسہ پرگائیڈڈمیزائل داغ کرمعصوم اوربے گناہ80سے زائدبچے اورجوان شہیدکردیئے۔ہمارے کمانڈو نے نہ صرف سیکورٹی کونسل سے رجوع نہیں کیابلکہ تابعدارخوشامدیوں کی طرح فوراًاس کی ذمہ داری خود قبول کرلی کہ یہ میزائل ہم نے مارا ہے۔اس سے اگلے ہی دن امریکیوں نے طمانچہ رسید کرتے بیان دے دیاکہ یہ میزائل حملہ انہوں نے کیاہے اورآئندہ بھی اپنے اہداف پرایسے حملے جاری رکھیں گے۔

فاسق کمانڈوبڑے فخرسے اپنی سوانح حیات کے صفحہ237پراعتراف کرتاہے کہ اگرکوئی عادتاًالزام تراشی کرتے ہوئے ہم سے یہ کہتا ہے کہ ہم نے”وارآن ٹیرر” کے حوالے سے کچھ نہیں کیاتووہ صرف سی آئی اے سے یہ پوچھ لے کہ انہوں نے کتنی رقم انعام کے طور پرپاکستان کوان خدمات کے صلے میں دی ہے۔ اسی صفحے میں مزید لکھاکہ ہم نے689افراد گرفتار کرکے ان میں سے369افرادامریکا کے حوالے کرکے ملینزآف ڈالر کمائے!!!نجانے ہماری مظلوم بیٹی عافیہ صدیقی،ہمارے بے گناہ بھائی مسعودجنجوعہ،سیف اللہ پراچہ،ڈاکٹرعتیق الرحمان،ڈاکٹرعابدشریف،فیصل فراز،ماجدخان اور دوسرے قیمتی پاکستانیوں کی کتنی قیمت ان خونخوار درندوں نے وصول کی ہوگی۔600سے زائد کی فہرست توبیکس ومجبوربہن آمنہ جنجوعہ نے ترتیب دے رکھی ہے جس کو تھامے برسوں وہ جمہوری حکومت کے ایوانوں کے سامنے ہرجگہ دہائی دیتی رہی کہ ہمارے پیاروں کوہمارے حوالے کردو،ہم تم کوامریکاسے زیادہ تاوان دینے کوتیارہیں۔ ہماری توہین اور تضحیک کایہ سلسلہ اب بند کروکہ دکھی ماؤں بہنوں اوربچوں میں مزید انتظارکاحوصلہ باقی نہیں رہا۔ افسوس کامقام یہ ہے ہمارے حکمرانوں نے اپنے پیشرووں کی طرح اپنی بزدلی اوربے حمیتی کے سبب امریکیوں کے ساتھ ایک ایسا رشتہ استوارکررکھاہے جس میں وہ آقاہیں اورہم ان کے غلام۔

اسی رویہ کودیکھتے ہوئے بھارتی بنئے نے امریکی آقاؤں کی حمائت سے پاکستان کوڈرانے اورخوفزدہ کرنے کی وہ سب آزمودہ تراکیب استعمال کرنا شروع کر دی ہیں۔بھارتی مطالبے سے پہلے ہی ہم نے اپنے ملک کی چند بڑی فلاحی اور رفاہی تنظیموں پر پابندی لگاکراپنے افرادکوگرفتارکرکے گویااعتراف جرم کرلیا۔سلامتی کونسل میں اپنے پرانے د یرینہ مخلص دوست چین کوبھارت کی چال کے خلاف ویٹواستعمال کرنے سے منع کردیا۔اس خبرکے عام ہونے پروطن عزیزمیں ایک بوکھلاہٹ کاسماں پیداہوگیااور قوم ابھی اس صدمے سے سنبھلی نہیں تھی کہ دوبھارتی طیاروں نے دن دیہاڑے پاکستان کی فضائی خلاف ورزی کرکے اپنے ناپاک ارادوں کی تکمیل کی جسارت کرڈالی،یہ تواللہ کاشکرہے کہ ہمارے شاہین فوراًان کی طرف لپکے اوروہ ناکام و نامراد لوٹے لیکن ہمارے حکمرانوں نے اسے تکنیکی غلطی قراردیتے ہوئے بھارت کی صفائی دینی شروع کردی جبکہ پاکستان کوبھارت کے اس عالمی جرم سے سلامتی کونسل کو آگاہ کرنابہت ضروری تھالیکن ہم نے ایک اورتضحیک کابوجھ اٹھالیا۔

ہم رحمٰن ملک کے میڈیاکے سامنے اس بیہودہ اعترافی بیان کوکیسے بھول جائیں جب اس نے اجمل قصاب کوبھارت کی ایک جیل میں پھانسی دینے سے چنددن قبل ممبئی حملوں کے بارے میں بھارت کوجماعت الدعوہ کے امیرحافظ سعید صاحب اوردیگرپاکستانی افراد کے صوتی نمونے فراہم کرنے کااعلان کیاتھا۔ ہماری تضحیک کی آئے دنوں اس لئے جرأت ہورہی ہے کہ 16دسمبرپاکستان کودولخت کرنے کے تاریخ سےنہ ہی حکمرانوں نے اورنہ ہی عوام نے کچھ سیکھا اور امریکا نے ہماری فوجی اکیڈمی کے پہلومیں اپنے جنگی ہیلی کاپٹروں میں اپنے درندوں کے ہاتھوں ہماری سرزمین پراسامہ کوہلاک کرکے ہمارے سارے بیانئے پرکالک پھیرکرہمیں بدنامی اورتضحیک کے سمندرکے عین بیچ میں غرق کردیاہے۔

ہمیں اس بات کواچھی طرح ذہن نشین کرلیناچاہئے کہ بھارت نے پہلے دن سے پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا۔ اکھنڈمہابھارت کاخواب وہ اب بھی اپنی آنکھوں میں سجائے بیٹھاہے۔بھارتی انتہاپسندوں کوشروع دن سے یہ خطرہ ہے کہ پاکستان اگراس خطے میں طاقتورہو گیاتواس کے تین ایسے بڑے نقصان ہوں گے جن کی وجہ سے ان کے مستقبل کے سارے سہانے خواب چکنا چورہوجائیں گے۔پہلاان کے اکھنڈمہابھارت کی تکمیل کاخواب ادھورارہ جائے گااور دوسرا ان کاکشمیرپریہ دیرینہ اٹوٹ انگ کاراگ بے سراہوکررہ جائے گا اورتیسراان کے توسیع پسندانہ عزائم کہ بحرہندکے تمام ساحلوں پربسنے والے ممالک پر بھارت کی اجارہ داری ہو،ایسا مضبوط پاکستان کی موجودگی میں ممکن نہیں ہوگا۔انہی خطرات کی بنیاد پراسرائیل بھی پاکستان کواپناپہلااورسب سے بڑادشمن گردانتا ہے کہ ایٹمی صلاحیت کے حامل پاکستان کی موجودگی میں اسرائیل اپنی سرحدوں کومزیدوسعت دینے سے قاصررہے گا۔ہنوداوریہوداس بات پر متفق ہیں کہ اب جنگ کی صورت میں پاکستان کومٹاناآسان نہیں رہااس لئے سازشوں کے ذریعے پاکستان کے اندرخلفشاربرپاکرکے اس کواندرونی طورپراس قدر کمزورکردیا جائے کہ ان کے ناپاک مقاصدبغیرجنگ کے پورے ہوجائیں جس کیلئے انتہاءپسندی سے بہترانہیں کوئی اورمعاون نہیں مل سکتا۔

میرے عزیزپروفیسرحسین!یقین کریں،ہمارے قبرستان ان لوگوں سے بھرے پڑے ہیں جواپنے حق کیلئے نہیں لڑے کہ کہیں مارے نہ جائیں۔آپ بطور استاد اپنے طالب علموں میں حق کہنے کاجذبہ اجاگرکردیں تومیں یقین دلاتا ہوں کہ آپ کے آنسوہمارے ملک کی عاقبت سنواردیں گے۔
اس نقش پاکے بوسے نے یاں تک کیاذلیل
میں کوچہ رقیب میں بھی سرکے بل گیا

اپنا تبصرہ بھیجیں