امریکی ٹائی ٹینک اوربھارتی بنیاء

:Share

اقتصادی راہداری اہم شعبوں میں تعاون پرمبنی اقدامات اورمنصوبوں کا ایسا جامع پیکیج ہے جس میں اطلاعات نیٹ ورک،بنیادی ڈھانچے،توانائی، صنعتیں، زراعت،سیاحت اورمتعدد دوسرے شعبے شامل ہیں۔اقتصادی راہداری منصوبہ صرف چین اورپاکستان کے درمیان تعاون بڑھانے کیلئےحکمت عملی کانام نہیں بلکہ یہ اس پورے خطے کی ترقی اورخوشحالی کیلئےاہم کردارادا کرے گا۔اس اہم منصوبہ کی تکمیل کیلئے پاکستانی آرمی کے ایک میجرجنرل،تین بریگیڈ فوج کی نوبٹالین اس منصوبے کی تعمیرمیں مکمل سیکورٹی فراہم کررہی ہیں کیونکہ چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ چینی صدر کے وژن کی عکاسی ہے،جس میں چین کی معروف کمپنیاں اور تجربہ کار سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں ۔
پاک چین تعلقات کومزیدمضبوط کرنے کیلئے 15مارچ2017ء کوآرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ تین روزہ سرکاری دورے میں چین کی اہم سیاسی اورعسکری قیادت سے اہم ملاقاتوں کے بعد سلسلہ بدستورجاری وساری ہے۔بیجنگ میں آرمی چیف کی چین کے ایگزیکٹو نائب وزیراعظم زینگ گاولی اوروائس چیئرمین سینٹرل ملٹری کمیشن،چیف آف جوائنٹ سروسز،کمانڈر پیپلزلبیرشن آرمی کا دفاعی تعاون پرچینی قیادت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ خطے میں سیکیورٹی اور استحکام کیلئے پاکستان اپنا کرداراداکرتارہے گا۔آرمی چیف کی اہم چینی عسکری قیادت سے ملاقاتوں میں پاک چین دفاعی اورعسکری تعاون پربھی اتفاق کے بعداپنے پروگرام کے مطابق سی پیک کامنصوبہ آگے بڑھ رہاہے۔ چینی قیادت نے خطے میں قیام امن اور استحکام کیلئے پاکستان کی کوششوں کو سراہا، چینی قیادت نے خطے کی سیکیورٹی اور جیو پولیٹکل صورتحال کے تناظر میں دو طرفہ تعلقات کو مزید مضبوط بنانے پر زور دیا۔چینی قیادت نے داعش ،ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ کے ممکنہ ابھرتے خطرات اورپاکستان میں القاعدہ،پاکستانی طالبان اورایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ کے نیٹ ورکس کے خاتمے کی کوششوں کوبھی سراہا۔
ادھرسی پیک کوعملی شکل دینے کے ساتھ ساتھ 13مئی 2017ء کوبیجنگ میں ون بیلٹ اینڈ ون روڈ فورم کا آغاز کااعلان کرکے اپنے مستقبل کے معاشی پروگرام کااعلان کردیاتھاجہاں افتتاحی سیشن سے چین کے صدر شی جن پنگ سمیت دیگر ممالک کے سربراہان اور رہنماؤں نے بھی خطاب کرکے مستقبل میں چین کے اس عظیم عالمی معاشی پروگرام کی حمائت کااعلان کیا۔ ترکی اور روس نے بھی ون بیلٹ اینڈ ون روڈ منصوبے کی حمایت کرتے ہوئے شمولیت کااعلان کیا۔چینی صدر نے اقوام عالم پریہ واضح کیا کہ پاک چین راہداری منصوبہ نہائت اہمیت کا حامل ہے اورون بیلٹ اینڈ ون روڈکی بنیاد ہے جو خطے میں پائیدار امن میں مدد ملے گی ۔ ترک صدر رجب طیب اردوان نے فورم سے خطاب میں کہا ون بیلٹ اینڈ ون روڈ فورم سے دنیا کا مستقبل وابستہ ہے ۔ روسی صدر ولادیمر پیوٹن نے ون بیلٹ اینڈ ون روڈ فورم کی بھرپور حمایت کرتے ہوئے کہااکیسویں صدی کے چیلنجز سے نمٹنے کیلئے بیلٹ اینڈ روڈ فورم اہم منصوبہ ہے اورہم سرمایہ کاری کیلئے تیار ہیں ۔اقوا م متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گترس نے خطاب میں کہا دنیا میں پائیدار امن کیلئے سرمایہ کاری کی ضرورت ہے ، موسمیاتی تبدیلیاں سنگین خطرہ ہیں ۔ عالمی رہنماؤں نے اس امید کا اظہار کیا ، فورم سے تعلیم ، سیاحت اور ثقافت کے شعبوں میں روابط کو فروغ ملے گا ۔ بیجنگ میں ون بیلٹ ون روڈ فورم میں۲۹ممالک کے سربراہان کی شرکت نے اس کی کامیابی پر مہر ثبت کردی۔
اب چین کی ابھرتی ہوئی قوت اگر کسی سے نہیں دیکھی جارہی تو وہ بھارت ہے۔ اِدھر چین چاہتاہے کہ ایشیا کوکسی نہ کسی طورایک بھرپوربلاک کی شکل میں عالمی معیشت کے بڑے عنصر کے طورپر سامنے لائے اوردوسری طرف نئی دہلی کے پالیسی سازچاہتے ہیں کہ چین کی قوت میں اضافے کی رفتارروکی جائے۔ سوال چین کی ترقی روکنے کاہے مگراِس کے نتیجے میں خود بھارتی ترقی بھی متاثرہوسکتی ہے مگرفی الحال اس کاخیال کسی کو نہیں۔ بھارت نے جنوب مشرقی ایشیاکے چند ممالک کے ساتھ مل کرچین کے خلاف اتحاد بنانے کی سمت پیش قدمی شروع کردی ہے۔سنگا پورکے ساتھ فوجی مشقیں اِسی سلسلے کی ایک کڑی تھیں۔اس وقت بھارتی قیادت چین کے خلاف کس حد تک جاناچاہتی ہے اورکیاکرناچاہتی ہے؟علاقائی سطح پراتحاد کیلئے کی جانے والی کوششیں چین کاراستہ روکنے سے متعلق کیاہیں؟
چین کی تیزی سے پنپتی ہوئی معیشت نے ایشیا کی کئی اقوام کوپریشانی سے دوچارکردیاہے۔وہ چین کی بڑھتی ہوئی قوت کاسامناکرنے کیلئے اتحاد کی راہ پرگامزن ہیں۔جنوبی اورجنوب مشرقی ایشیا سے تعلق رکھنے والے سفارت کاروں کاکہناہے کہ عالمی معیشت وسیاست میں چین کی مستحکم ہوتی ہوئی پوزیشن متعدد ممالک کیلئے پریشانی کاسبب ہے۔وہ چاہتی ہیں کہ کسی نہ کسی طورچین کومحدود کیاجائے۔ایک بڑامسئلہ یہ ہے کہ چین کاسامناکرنے کیلئے امریکاپرکلی انحصارنہیں کیا جا سکتا۔چین کی بڑھتی ہوئی قوت کاسامنا کرنے کیلئے متعدد ممالک امریکااوریورپ پرانحصار کیے ہوئے تھے مگراب انہیں اندازہ ہوچلاہے کہ ان دونوں خطوں کے اپنے مسائل اوراندرونی سطح پر شدید کشمکش کی وجہ سے ان پرزیادہ بھروسہ نہیں کیاجاسکتا ۔
بھارت،جاپان،ویتنام اورآسٹریلیا خاصی خاموشی سے آپس میں تعاون بڑھارہے ہیں۔دفاعی امورکے حوالے اشتراکِ عمل کی بنیادیں وسیع اورمضبوط کی جارہی ہیں مگریہ سب کچھ اس احتیاط کے ساتھ کیاجارہاہے کہ چین کوبرانہ لگے۔کسی رسمی اتحاد کی بات فی الحال کوئی نہیں کررہا۔ایشیاو بحر الکاہل کے خطے کے مرکزی سیکورٹی فورم شینگری لا ڈائیلاگ کادوجون کوافتتاح کرتے ہوئے آسٹریلیا کے وزیراعظم میلکم ٹرن بل نے کہاتھاکہ آج کی جری دنیامیں ہم اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے حوالے سے بڑی طاقتوں پرانحصارپذیرنہیں رہ سکتے۔اپنی سلامتی اور خوشحالی یقینی بنانا خود ہماری ذمہ داری ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ دوستوں اورپارٹنرزکے ساتھ اجتماعی قیادت کے بوجھ کوبانٹنے سے قوت بڑھتی ہے۔آسٹریلوی وزیر اعظم کے یہ الفاظ تین روزہ کانفرنس کے دوران گونجتے رہے اوران پرتبادلہ خیال بھی کیاجاتارہا۔
ایشیا وبحرالکاہل کے خطے سے تعلق رکھنے والے اعلیٰ حکام اورتجزیہ کاروں کے مطابق ٹرمپ کے تحت کام کرنے والی انتظامیہ کے حوالے سے اور ٹرانس پیسفک پارٹنرشپ سے امریکا کے الگ ہوجانے پربداعتمادی کی فضاپیداہوئی ہے۔رہی سہی کسرماحول سے متعلق پیرس معاہدے سے امریکا کی علیحدگی نے پوری کردی۔ایشیاوبحرالکاہل کے خطے میں بہت سوں کویہ اندیشہ لاحق ہے کہ امریکا خطے کی سلامتی کے حوالے سے اپنے روایتی کردارپرنظرثانی کرتے ہوئے خود کومعاملات سے الگ کررہاہے۔ایسی صورت میں اس خطے کیلئے سیکورٹی کامعاملہ خطرناک اور پریشان کن صورت اختیارکرجائے گا۔امریکا فوری طورپرکوئی ایساتاثرنہیں دیناچاہتاکہ وہ بحر الکاہل کے خطے سے یکسر لاتعلق ہوچکا ہے۔ سنگاپور فورم میں امریکی وزیر دفاع جم میٹس نے کہا کہ امریکااب بھی ایشیا وبحرالکاہل کے خطے کی سیکورٹی کواپنی ذمہ داری کے طورپردیکھتا ہے۔ امریکا بحیرہ جنوبی چین کے خطے میں چین کی بڑھتی ہوئی عسکری سرگرمیوں کے حوالے سے غافل نہیں رہے گا۔
ایشیا و بحرالکاہل کے خطے سے تعلق رکھنے والے اعلیٰ حکام اورتجزیہ کارٹرمپ کی متلون مزاجی سے پریشان ہیں۔چھ اپریل 2017ءمیں ٹرمپ نے چینی ہم منصب شی جن پنگ سے ملاقات کے بعد انہیں سراہا تھا۔ بہت سے تجزیہ کاروں کو شبہ ہے کہ امریکا کا کوئی بھی فیصلہ چین سےمطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوا۔ ایشیا سے تعلق رکھنے والے ایک اعلیٰ فوجی افسرکاکہناہے کہ”ہمیں جیمزمیٹس اوریوایس پیسفک کمانڈر ہیری ہیرس پرپورابھروسہ ہے مگراعلیٰ ترین سطح پراس معاملے میں اعتماد متزلزل ہواہے۔ہمارے خوف کی بنیادیہ حقیقت ہے کہ چین کے سامنے اگر کوئی سرخ لکیرکھینچ سکتاہے تووہ صرف امریکاہے مگرمسئلہ یہ ہے کہ امریکی قیادت معاملات میں خاطرخواہ دلچسپی لیتی دکھائی نہیں دے رہی” ۔امریکاچین کے ایک ٹریلین ڈالرکا مقروض ہے جس کی بازیابی کیلئے چین مختلف ذرائع کوبروئے کارلارہاہے جبکہ ٹرمپ چین کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھانے کی ناکام کوششوں اورسازشوں میں مصروف ہیں۔
امریکا کیا چاہتا ہے اور کیا نہیں چاہتا، یہ کچھ کھلتا نہیں، معاملات تذبذب اور اسرار کے پردوں میں لپٹے ہوئے ہیں۔ ملائیشیا کے وزیردفاع ہشام الدین حسین کہتے ہیں کہ ایشیااب تک یہ جاننے کی کوشش کررہاہے کہ اس خطے کیلئے ٹرمپ کی پالیسی کیاہے؟ہم بالکل واضح طورپرجانناچاہتے ہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ کیاچاہتی ہے، اس کے عزائم کیا ہیں؟سنگاپور کے وزیر اعظم نیگ اینگ ہین کہتے ہیں کہ پارٹنرز کے درمیان اشتراکِ عمل بڑھتاجارہا ہے تاہم ساتھ ہی ساتھ انہوں نے امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس کے خیالات کا بھی خیرمقدم کیا۔ایک پریس کانفرنس میں نیگ اینگ ہین نے کہا کہ ہر ملک اپنے حالات کے مطابق پالیسیوں میں تبدیلیاں لاتا ہے اور ایسا کرنا ناگزیر ہوتا ہے۔ کوئی بھی ملک اس بات کو کسی حالت میں پسند نہیں کرتا کہ تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کے ہاتھوں کسی الجھن سے دوچارہو۔
آسٹریلیا،نیوزی لینڈ،برطانیہ،ملائیشیا اورسنگاپورمل کرعسکری اتحاد تشکیل دینے کی راہ پرگامزن ہیں۔اس حوالے سے بات چیت کاسلسلہ جاری ہے۔ یہ پانچ ملکی دفاعی اتحاد آگے چل کروسیع البنیاد عسکری اتحادمیں تبدیل ہوسکتاہے۔پانچوں نے طے کیاہے کہ دہشتگردی سے نمٹنے اوربحری حدود کے مؤثردفاع کویقینی بنانے کے ساتھ ساتھ وہ ایک دوسرے سےاور دیگربہت سے معاملات میں بھی تعاون کریں گے۔علاقائی سلامتی سے متعلق امورکے ایک ماہرٹیم ہکسلے نے ایک اخباری مضمون میں لکھاہے کہ ان پانچوں ممالک کوتیزی سے بدلتے ہوئے حالات اورطاقت کے توازن کی تبدیلی کے دور میں اپنی آپریشنل صلاحیتیں بڑھانا ہیں۔اس کیلئے اشتراکِ عمل ناگزیرہے۔ایک طرف چین مالی اعتبار سے انتہائی مستحکم اوراپنی بات منوانے کے حوالے سے خاصا جارح مزاج ہوتا جارہا ہے اور دوسری طرف امریکا ٹرمپ کی صدارت کے ہاتھوں غیریقینی حالات کے جال میں پھنستاجارہاہے۔ایشیاوبحرالکاہل کے خطے کے بیشترممالک شدیدغیریقینیت کاشکار ہیں۔ وہ اپنی سلامتی یقینی بنانے کیلئے امریکایایورپ کی طرف دیکھنے کی پوزیشن میں نہیں۔انہیں اندازہ ہے کہ امریکی قیادت اس وقت تذبذب کاشکارہے۔ایسے میں کوئی بھی اونچ نیچ ہوگئی توپوراخطہ عدم توازن کی نذرہوجائے گا۔ایسے میں بہترین آپشن یہ ہے کہ عسکری سطح پراپنی آپریشن صلاحیتوں کوپروان چڑھایاجائے اور پارٹنرشپ کے ذریعے علاقائی ممالک سے تعاون کادائرہ وسیع کیاجائے۔
بھارت نے شینگری لافورم میں اپنا کوئی وفدنہیں بھیجامگروہ اس خطے میں اپنی موجودگی ثابت کرنے کے حوالے سے غیرمعمولی حد تک فعال رہاہے۔ وہ چاہتا ہے کہ بحرہند کے خطے میں اس کے مفادات کسی بھی سطح پر،کسی بھی حال میں متاثر نہ ہوں۔ اس سلسلے میں وہ سنگاپور کے ساتھ بحری مشقیں کرچکاہے۔ساتھ ہی ساتھ وہ ویت نام سے عسکری سطح کے تعلقات کووسعت دینے کیلئے بھی بے تاب تھا ،اسی لئے سنگاپورمیں منعقدہ انٹر نیشنل میری ٹائم ڈیفنس ایگزیبیشن میں متعدد بھارتی کمپنیوں نے بھی حصہ لیا۔ان میں سے چند کمپنیاں کم فاصلے تک مار کرنے والے میزائل بھی تیار کرتی ہیں۔
بھارت نے امریکا اور جاپان کے ساتھ مالابار فوجی مشقوں میں حصہ لینے کی آسٹریلوی دعوت مسترد کردی تھی کیونکہ وہ فی الحال چین کوناراض کرنےموڈ میں نہیں تھا۔ چین نے بھارت کو واضح انتباہ کررکھاہے کہ اسے بحری مشقوں اورہتھیاروں کی نمائش کے حوالے سے چند حدود و قیودکاخیال رکھناہوگامگر اس کا یہ مطلب ہرگزنہیں کہ بھارتی قیادت چین کے خوف سے بین الریاستی معاہدوں کونظراندازکردے گا۔بھارت کے آسٹریلیا، سنگاپور اورویت نام سے دو طرفہ دفاعی معاہدے ہیں جن کی حدود میں رہتے ہوئے دفاعی اشتراکِ عمل بڑھتاجائے گااوریوں یہ تمام ممالک ایک پیج پر آتے جائیں گے لیکن تمام تدابیرکے باوجودمودی کے امریکی دورے جس کی عالمی طورپربھارتی حکومت نے بڑی تشہیربھی کی تھی،کے بعدبھارتی فوج نے اچانک سکم کے ڈوکلام علاقے میں ایک سڑک کی تعمیرپرسرحدی جھڑپ میں چین کے ہاتھوں جوبری طرح شرمناک ہزیمت اٹھانی پڑی وہ جہاں امریکاکیلئے ایک انتباہ ہے وہاں یقیناًبھارتی ٹائی ٹینک ڈبونے کیلئے امریکی دوستی ہی کافی ہے ۔آئندہ بھارت اپنے مربی امریکا کوخوش کرنے سے پہلے سو مرتبہ سوچے گاکیونکہ افغانستان میں امریکی ہزیمت کے بعدخطے میں جواہم تبدیلیاں وقوع پذیرہونے جا رہی ہیں،اس کے نتائج سے مقابلہ کرنے کیلئے خطے کے تمام ممالک اپنے تئیں بھرپورکوششیں کر رہے ہیں اوریقیناً چین جوسی پیک کے حوالے سے خطے میں نئی معاشی منڈیوں کے تعاقب میں ہے،اس کیلئے سوویت یونین سے آزادی پانے والی چھ ریاستوں کے ساتھ زمینی تجارتی رابطے اورراہداری کیلئے پرامن افغانستان کی اشد ضرورت ہے ۔
ادھرمودی سرکارنے “خطے کاتھانیدار”بننے کےاپنے امریکی آقاؤں کے اس جھوٹے دلاسے اور ان کی شہ پرافغانستان میں جہاں سرمایہ کاری کی وہاں امریکی کٹھ پتلی حکومت کاساتھ دیتے ہوئے طالبان کوبھی نقصان پہنچانے میں درپردہ ملوث رہنے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی دہشتگردی کے عمل میں افغانستان میں اپنے قائم کردہ نیٹ ورک کواب تک چلارہاہے،اب امریکاکی افغانستان سے روانگی کے عملی اعلان کے بعدنصف امریکی فوج کے انخلاء اورمکمل انخلاء کیلئے پینٹاگون کوباقی ماندہ افواج کوبھی فوری نکالنے کے پروگرام کومرتب کرنے کے احکام نے بھارت کی نیندیں بھی حرام کررکھی ہیں اوراب وہ افغانستان میں جاری صدارتی انتخابات میں موجودہ کٹھ پتلی حکومت کی کامیابی کیلئے سازشوں میں مصروف ہے۔تاہم طالبان نے ہرقسم کے انتخابات میں حصہ لینے کافیصلہ ابھی تک نہیں کیا لیکن تمام امیدوار،ان کی جماعتیں اورامریکا سمیت اس کے تمام اتحادی اس بات سے واقف ہیں کہ افغانستان کے60٪علاقوں پرطالبان کی حکمرانی ہے جس کی وجہ سے طالبان کی حمائت کسی بھی امیدوارکیلئے انتہائی اہمیت کی حامل ہے اورحزبِ اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یارطالبان کی حمائت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ کاغذاتِ نامزدگی جمع کروانے کے بعدانہوں نے افغانستان کے موجودہ نظام کو باطل اورفاسق قراردیاہے اورنظام کی تبدیلی کیلئے آئین میں فوری تبدیلی کاوعدہ بھی کیاہے،اس لئےیقیناً افغانستان میں صدارتی انتخابات میں سب سے زیادہ مضبوط امیدوارحزبِ اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یارجن کو افغان طالبان کی طرف سے کسی بھی مزاحمت کابھی سامنانہیں اور وہ بھی امریکی انخلاء کے بعدافغانستان کوکسی بھی قسم کی خانہ جنگی سے محفوظ رکھنے کیلئے انتخابات کاراستہ اختیارکیے ہوئے ہیں،افغانستان کے ممکنہ صدرمنتخب ہوجائیں گے کیونکہ اشر ف غنی کے حالیہ یکطرفہ اقدامات جس میں انہوں نے شمالی اتحادکی حمائت حاصل کرنے کیلئے شمالی اتحادکے امراللہ صالح سابق این ڈی ایس چیف کو اپنانائب صدربنایاہے اورامراللہ صالح کی طالبان وپاکستان دشمنی اوربھارتی وامریکی پٹھوہونے کی شہرت کسی سےڈھکی چھپی نہیں ،سب ہی واقف ہیں جس کی وجہ سے انہیں طالبان کی طرف سے کبھی بھی حمائت حاصل نہیں ہوسکتی جبکہ ڈاکٹرعبداللہ عبداللہ جمعیت اسلامی افغانستان کے امیدوارہیں اوران کے سربراہ برہان الدین ربانی کے قتل کاالزام طالبان پرعائدہے،اس لئے وہ بھی طالبان کی حمائت سے محروم رہیں گےتاہم عبداللہ عبداللہ بھی انتخابات پراثراندازہونے کی نہ صرف پوری کوشش کریں گے بلکہ اپنے علاقے میں دھونس،دھاندلی اورخوف کاماحول پیداکرنے کی بھی پوری تیاری کررکھی ہے تاہم عبداللہ عبداللہ کیلئے سب سے زیادہ خطرہ احمدولی مسعودکی جانب سے امیدوارہوناہے تاہم کاغذاتِ نامزدگی کی واپسی کے بعد اصل صورتحال سامنے آئے گی۔
اگراحمدولی مسعودانتخابات میں حصہ لیتے ہیں توشمالی اتحادکوچاردھڑوں کیلئے ووٹ دیناپڑے گا کیونکہ یونس قانونی حنیف اتمرکے نائب صدر ہیں جبکہ استادمحقق ہزارہ کی نمائندگی حنیف اتمر چینل سے کررہے ہیں۔اسی طرح اشرف غنی نے امراللہ صالح کونائب صدراوّل نامزدکیاہے جو شمالی اتحاد میں کافی اثرورسوخ رکھتاہے۔سابق سلامتی کے مشیرحنیف اتمرایک ایسے امیدوارہیں جوگلبدین حکمت یارکے بعدطالبان کیلئے قابل قبول ہیں اور ان کاطالبان کے ساتھ مذاکرات میں بھی اہم کرداررہاہے تاہم حامدکرزئی اورامریکاکے قریب ہونے کی وجہ سے ان کوبھی مسائل کا سامنا ہے جبکہ کیمونسٹوں نے نورالحق علیمی کواپنا صدارتی امیدوارنامزدکیاہے۔اسی لئے اس بار کانٹے دار مقابلے کی توقع ہے جس کیلئے شفاف انتخابات کی تیاری کی جارہی ہےتاہم اس بارحزبِ اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار کی وجہ سے عبداللہ عبداللہ نے اشرف غنی کانائب صدربننے سے انکار کردیا ہے۔ اس سے قبل عبدالہادی ارغندیوال انتخابات میں عبداللہ عبداللہ کے نائب صدراوّل کے امیدوارتھے۔
یادرہے کہ قطرمیں افغان طالبان اورامریکاکے درمیان مذاکرات کامیابی کے ساتھ طے پاگئے ہیں جہاں امریکااورطالبان کے مابین افغانستان میں موجود نصف امریکی افواج (سات ہزار)کے فوری انخلاء اورباقی فوج کے انخلاء کیلئے ٹرمپ کاپینٹاگون کوفوری طورپرٹائم ٹیبل مرتب کرنے کے احکام اور مستقبل میں افغانستان کسی کے خلاف استعمال نہ کرنے کے دو نکاتی ایجنڈے کے علاوہ قیدیوں کے تبادلے،صدارتی انتخابات اورآئین میں تبدیلی جیسے نکات پرعملدرآمدکااعلان ہوچکاہے جس کو ساری دنیاکے تجزیہ نگارطالبان کی فتح قراردے رہے ہیں۔
طالبان کامؤقف ہے کہ تمام غیرملکی فورسزکامکمل انخلاءافغان عوام کادیرینہ مطالبہ ہے اورامریکا محفوظ انخلاءچاہتاہے جبکہ دنیاکے تمام ممالک کا مطالبہ ہے کہ مستقبل میں افغان سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہ ہوجس کیلئے طالبان نے یقین دلادیاہے تاہم صدارتی انتخابات پربات چیت نہ کرنے سے انتخابات پرطالبان اثراندازہوسکتے ہیں اورطالبان نے جس امیدوارکی کھلم کھلا یاخفیہ حمائت کااعلان کردیاتووہ یقینی طورپرافغانستان کا آئندہ صدرہوگاکیونکہ اس وقت افغانستان کے شمال سے لیکرمشرق تک 60٪سے زائدعلاقے پرباقاعدہ عملداری ہے بلکہ دن بدن طالبان کی دوسرے شہروں اورعلاقوں کی طرف بھی کامیاب پیش قدمی جاری ہے اوراب مذاکرات کی کامیابی کے بعدباقی ماندہ علاقوں کے عوام بھی درپردہ حمائت سے آگے بڑھ کرکھلم کھلاطالبان کاشدت سے انتظارکررہے ہیں جس کی وجہ سے صدارتی انتخابات میں طالبان کی حمائت فیصلہ کن کردار ادا کرے گی اور طالبان کاہی آئندہ صدرکے انتخاب میں واحدگروپ ہوگاجوصدارتی انتخاب میں کسی بھی امیداوارکی کامیابی یاناکامی کافیصلہ کن کرداراداکرے گا ۔ افغانستان کوایک ایسے صدر کی ضرورت ہے جوایک طرف امریکی انخلاء کویقینی بنائے اوردوسری جانب طالبان کے ساتھ معاہدہ کرنے اورانہیں شریک کرنے کاحوصلہ رکھتاہوبلکہ طالبان کے منشورکے ساتھ مکمل مماثلت رکھتاہو اورموجودہ امیدواروں میں گلبدین حکمت یارہی ایک ایسے امیدوارہیں جن کی پارٹی کامنشوراسلامی اورفلاحی افغانستان کاقیام ہے۔
یہ بات بھی روز روشن کی طرح واضح ہے کہ گلبدین حکمت یارکی جماعت نے جب 20 سال بعدافغانستان میں ستمبر2016ء میں حکومت افغانستان کے ساتھ ایک امن معاہدہ پر دستخط کے بعدمئی 2017ء میں باقاعدہ افغانستان کےدارالخلافہ کابل میں ایک بڑے قافلہ کے ساتھ داخل ہوئے جو
سینکڑوں گاڑیوں خصوصی طور پک اپ ٹرکس اورمشین گنوں پرمشتمل تھا،جہاں ان کا ہزاروں حامیوں نے پارٹی کاسبز پرچم لہراتے ہوئے اورپھولوں کے ساتھ استقبال کیاتھا۔اس معاہدے سے قبل اقوام متحدہ نے بھی افغان لیڈر گلبدین حکمت یار پرعائد پابندیاں اٹھالی اوران پر سفری پابندیاں ختم کرکے ان کے منجمد اثاثوں کوبھی بحال کرنے کااعلان کردیا۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی پابندیوں سے متعلق کمیٹی نے اپنے بیان میں باقاعدہ اعلان کیاکہ افغان رہنما حکمت یارپر اب اثاثوں کے انجماد،سفری پابندی اوراسلحے کی خرید فروخت کا قانون لاگو نہیں ہوتا۔اس طرح حکمت یار پرپابندیاں ختم ہونے کے بعد اب افغان حکومت اورحزب اسلامی میں امن مذاکرات اورحکمت یارکی افغان سیاست میں واپسی کی راہ ہموار ہوگئی۔ واضح رہے کہ گلبدین حکمت یار اور اس کی جماعت کو2003 ءمیں القاعدہ سے تعلق کی بنیادپردہشتگرد قراردیاگیاتھا۔
گلبدین حکمت یارنے اپنی طویل غیرحاضری کے بعدعملی واپسی کے چنددنوں بعدافغانستان کے دارلحکومت کابل میں ایک عظیم الشان جلسہ کرکے اقوام عالم پراپنی مقبولیت کااظہارکرکے سب کوششدرکردیاجس پربھارتی بنئے نے حسبِ معمول اپنی مکاری کااظہارکرتے ہوئے کابل میں اپنے سفیرکے توسط سے گلبدین حکمت یارسے ملاقات کی درخواست کی جہاں بھارتی سفیرنےاپنی مکمل حمائت کی یقین دہانی کرواتے ہوئے دوستی کاہاتھ بڑھایا لیکن اسی ملاقات کے فوری بعد حزبِ اسلامی کے ترجمان نے اس ملاقات کے بارے میں واضح شہادت دی کہ کس طرح گلبدین یار حکمت نے مقبوضہ کشمیرمیں جاری جدوجہدآزادی کی نہ صرف باقاعدہ حمائت کی بلکہ بھارتی ظلم وستم پراپنے شدیدغم وغصے کابھی اظہارکیا اور پاکستان کے ساتھ اپنے برادرانہ تعلقات پر افغانوں کی مہمان نوازی پربھرپورشکریہ بھی اداکیا۔یہی وجہ ہے کہ اب افغانستان میں امریکی ٹائی ٹینک پرسواربھارتی متعصب بنیاءمودی اوراس کے تمام ہمرکاب غرق ہونے سے پہلے یقیناً اپنی ناکامی کی صورت میں ایک مرتبہ پھرافغانستان میں خانہ جنگی کے ساتھ ساتھ پاکستان میں دہشت گردانہ کاروائیوں کے ذریعے حملہ آورہوں گے جس کیلئے ہمیں مکمل تیاری،سخت،شدید اورفیصلہ کن جوابی حملےکیلئےاپنے دست وبازوکوتیاررکھناہوگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں