افغانستان میں امریکی شکست۔۔۔۔نوشتہ دیوار

:Share

جب سے قصرسفیدمیں ٹرمپ براجمان ہوئے ہیں وہ امریکی سفارتی پالیسیوں کوبھی کاروباری اندازمیں حل کرتے نظرآرہے ہیں اورجس تیزی کے ساتھ وہ خودعجلت میں ان کی تقرری کا پروانہ جاری کرتے ہیں اس سے کہیں سرعت کے ساتھ اپنے ہی تعینات اعلیِ عہدیداروں کوبیک قلم جنبش فارغ کرنے میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔ابھی حال ہی میں ٹرمپ نےامریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن کی جگہ سی آئی اے چیف مائیک پومپیو کومقرر کردیاہے۔ریکس ٹلرسن کے ترجمان نے کہا کہ ٹرمپ کی ٹویٹ سے ہی یہ سیکھاکہ اب ریکس ٹلرسن کوامریکی سفارتکار کے طور پر ان کی خدمت کیلئے شکریہ ادا کرکے اس عہدے سے فارغ کردیاگیاہے۔ مسٹر ٹرمپ نے منگل کو وائٹ ہاؤس کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ریکس ٹلرسن کے ساتھ ان کے اختلافات ذاتی “کیمسٹری “میں آتے ہیں۔ہم واقعی بہت اچھی طرح سے ہم خیال تھے لیکن اب کچھ معاملات پرمتفق نہیں ہیں۔ٹلرسن ایرانی نیوکلیر معاہدے کودرست سمجھتے تھے جبکہ میں اسے ایک خوفناک معاہدہ سمجھتاہوں۔میں اس معاہدے کوختم کرنا چاہتا ہوں یا اس میں ترمیم دیکھناچاہتاہوں جبکہ ٹلرسن ایسانہیں سوچتے تھے،اس نے تھوڑاسا فرق محسوس کیا،لہذا ہم واقعی وہی سوچ نہیں رہے تھے جس میں اتفاق ہو۔مجھے یقین ہے کہ مائیک پومپیواورمیرے خیالات میں یکسانیت ہے۔تاہم سینئر حکام کی ایک طویل فہرست سے فارغ کردیئے جانے والے ٹلرسن تازہ ترین نام ہے جس کو ٹرمپ نے فارغ کردیا ہے۔
عالمی سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق ٹلرسن ،ٹرمپ کی افغانستان پالیسی میں شدت آمیزرویے اورپالیسیوں سے بھی اتفاق نہیں رکھتے تھے۔ٹرمپ افغانستان کی جنگ میں فتح کے حصول کیلئے بے قرار دکھائی دیتے ہیں۔ مگر وسط ایشیا میں واقع اس ملک کے ساڑھے تین کروڑعوام کی ایسی شدید مزاحمت برقرار ہے جہاں بہت سی قوموں کے ہزاروں جنگجوؤں نے اپنے خون سے تاریخ رقم کی ہے۔ ٹرمپ کو اپنے پیشرو اوباما کی طرح صورتحال سمجھنے میں مشکلات کا سامنا ہے،وہ یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ امریکا اور طالبان کیلئے فتح اور شکست کے پیمانے مختلف ہیں۔ طالبان کیلئے فتح کا مطلب ہے غیر ملکی حملہ آوروں سے جنگ کو طول دینا، اس طرح موجودہ صورتحال میں طالبان کو فاتح کہا جاسکتا ہے لیکن ٹرمپ اوراس کے جنگ جاری رکھنے والے مشیرسمجھتے ہیں کہ یہ صورتحال زیادہ عرصہ جاری نہیں رہ سکتی، کیونکہ امریکا پوری طاقت سےافغانستان میں مخالفین کوکچل کرافغانستان میں مستحکم اورمغرب نواز حکومت کا قیام یقینی بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
طالبان اس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ اپنے ملک میں نقصان برداشت کرنے کی ان کی صلاحیت لامحدودہے لیکن امریکاکیلئے ایسا کچھ نہیں ہے۔طالبان کے سامنے پچھلے گیارہ سالوں پرمحیط جاری جنگ کاسارانقشہ موجود ہے جہاں امریکااپنے درجن سے زائداتحادیوں کے ساتھ خوفناک جنگی سازو سامان اوردیوہیکل فضائی قوت کے ساتھ بھی اپنی مرضی کے نتائج حاصل نہیں کرسکا جیسا کہ وہ عراق اورمشرق وسطی میں حاصل کرچکاہے اورسب سے اہم بات یہ ہے کہ اب پاکستان نے مکمل طورپرافغان جنگ میں کسی بھی قسم کے تعاون سے انکارکردیاہے اوراب اس خطے میں پاک، چین اورروس کاایک نیا بلاک تشکیل پاچکاہے اوراگرٹرمپ ایرانی نیوکلئیرمعاہدے میں کسی ترمیم یاختم کرنے کااعلان کرے گاتویقیناً ایران کے پا س اورکوئی راستہ ہی نہیں بچے گاکہ وہ فوری طورپراس نئے بلاک میں شمولیت اختیارکرلے ۔
امریکااپنے اتحادیوں بھارت اوراسرائیل کویقیناًاس خطے میں استعمال کرنے کیلئے کئی خوفناک پالیسیاں ترتیب دے چکاہے اورخودامریکی جنگی مشینری بھی ٹرمپ کویہ مشورہ دے رہی ہے کہ امریکاکیلئے ضروری ہے کہ وہ طالبان کوشکست دے اوران کواتناکمزورکردے کہ وہ امریکاکی شرائط پرامن قائم کرنے کیلئے رضامندہوجائیں مگر طالبان کی اس طرح کی شکست کاکوئی امکان نہیں، طالبان نے افغانستان کے بڑے حصے پر قبضہ کررکھا ہے۔ حالات کا دھارا جنگ میں طالبان کی فتح کوظاہرکررہاہے۔ اگراس کبھی نہ ختم ہونے والی جنگ کے بارے میں کسی افغانی سے سوال کیاجائے تواس کاجواب طالبان کے حق میں ہی ہوتاہے اورامریکاکے اعلیٰ فوجی افسران بھی اس حقیقت کوتسلیم کرتے ہیں۔ لیکن عوام کے سامنے یہ بات کہنے پرآمادہ نہیں ہوتے،ان حالات میں ابھی یاپھرمستقبل میں افغانستان کوکھودینے کایقینی امکان برقرارہے۔
امریکامیں دفاعی اورسول اہلکاروں کی بڑی تعداد نہ ختم ہونے والی جنگ سے اچھا کما رہی ہے۔ بہت سے اہم سیاستدان سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں فتح کا کوئی امکان نہیں، مگر ان کے پاس حکمت عملی میں تبدیلی لانے کے اختیارات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ۲۰۱۶ء کے صدارتی انتخابات میں افغان جنگ عوامی بحث کا موضوع نہ بن سکی، صدارتی امیدوار کی حیثیت سے ٹرمپ نے اس تنازعہ کے حل کا کبھی اشارہ بھی نہیں دیا، جبکہ ہیلری کلنٹن طالبان کو شکست دینے میں ناکامی پر اوباما پر تنقید کیے بغیر اس موضوع پر بات ہی نہیں کرسکتی تھیں۔
افغانستان میں امریکی فوج کے کمانڈر جنرل جان ڈبلیو نیکولسن نے مسئلہ کا حل طالبان کے زیر قبضہ علاقوں میں افیون کی کاشت پربمباری کرنا قراردیا، ان کو امید ہے کہ طالبان کومالی طورپرتباہ کرکے جنگ لڑنے سے بازرکھاجاسکتا ہے۔ انہوں نے اصولی طورپرایک مناسب نتیجہ اخذ کیا ہےمگر اس میں طالبان کے مسلسل جنگ کرنے کے عزم کونظراندازکردیاگیاہے۔حال ہی میں شائع شدہ رپورٹ کے مطابق طالبان نے کئی برسوں کی غیر قانونی سرگرمیوں اور افیون کی پیداوار سے اربوں ڈالر جمع کرلیے ہیں۔ صدر ٹرمپ کی جانب سے نئی قومی سلامتی پالیسی کی منظوری کے بعدبریگیڈیئر جنرل لانس طالبان سے لڑنے کیلئے پُرامید ہیں۔ دی واشنگٹن ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق “نئی پالیسی کا مرکزی نقطہ لانس کے نزدیک فضائی حملے ہیں،جو طالبان کے منافع بخش کاروبار کو تباہ کرنے کیلئے ڈیزائن کیے گئے ہیں”۔ رپورٹ کے مطابق نئی انتظامیہ نے امریکی فوجی کمانڈروں کو طالبان کے نیٹ ورک اور آمدنی کے ذرائع کو نشانہ بنانے کی اجازت دے دی ہے، اس کے ساتھ ہی زمین پر لڑنے والی افغان فوج کو بھی فضائی مدد فراہم کی جائے گی۔ اس سے قبل یہ اجازت نہیں تھی۔ایک اور اہم تبدیلی کی گئی ہے جس کے مطابق اب میدانِ جنگ میں موجود افغان فوجیوں کے ساتھ امریکی مشیر رابطے میں رہیں گے۔ پینٹاگون نے ٹرمپ کویہ بھی بتایا ہے کہ شام اور عراق میں داعش کے خلاف استعمال کی گئی حکمت عملی کو طالبان کے خلاف استعمال کرنا بھی اس منصوبے کا حصہ ہے لیکن اس کیلئے امریکا کو بھی ماضی کے مقابلے میں سنجیدگی اور مختلف انداز سے سوچنے کی صلاحیت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ کیونکہ امریکا کو دوسرے ممالک کے تعاون کی ضرورت ہوگی۔
افغانستان میں جنگ کودومحاذوں پرلڑنے کی ضرورت ہے، ایک عسکری محاذ اور دوسرا سفارتی محاذ جو مشکل محاذ بھی ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ اپنے اتحادیوں کوابھی تک یہ کہہ کرگمراہ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے کہ جنگی نقطہ نظر سے افغانستان پر امریکی برتری واضح نظرآرہی ہےلیکن اس کے ساتھ ساتھ امریکااورتمام مغربی اتحادی اس بات کوبھی تسلیم کرتے ہیں کہ طالبان پر تزویراتی فتح حاصل کرنے کیلئے دوعلاقائی کردار پاکستان اورچین کو ساتھ ملانا ہو گا۔اوراس کے ساتھ ہی طالبان کو افغانستان کی مستقبل کی حکومت کاحصہ بنانے کی خواہش کو قبول کرنا ہوگا، اگر ٹرمپ انتظامیہ ان باتوں سے اتفاق کرتی ہے توفوری طورپرایک اورامریکی پالیسی بنانے کی اشد ضرورت ہے جس میں ان نکات کواہمیت دی جائے ۔ اس پالیسی میں طالبان کومذاکرات کی میز پر لانے کیلئے اقدامات کرنے پر پاکستان اور چین کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔
امریکی دفاعی وسیاسی تجزیہ نگارمسلسل ٹرمپ انتظامیہ کواپنی موجودہ پالیسیوں کوتبدیل کرنے کامشورہ دے رہے ہیں۔ان کاکہناہے کہ افغان تنازعے کے حوالے سے امریکا کیلئے سب سے حوصلہ افزا بات یہ ہوسکتی ہے کہ موجودہ حالات میں چین کو پاکستان اور وسط ایشیائی ممالک میں بیلٹ اور روڈ منصوبے کی کامیابی کیلئے فوری طور پر افغانستان میں استحکام کی ضرورت ہے جبکہ پاکستان اورچین پہلے دن سے ایران کوبھی اس منصوبے میں شمولیت کی دعوت دے چکے ہیں۔ چین کی حکومت نے اس حوالے سے بڑے سیاسی اور اقتصادی وعدے کرکے بہت کچھ داؤ پر لگا دیا ہے۔ چین تسلیم کرتا ہے کہ طالبان بنیادی طور پر افغانستان کی مستقبل کی حکومت میں کردار چاہتے ہیں۔ داعش کے برعکس طالبان عالمی جہاد کو افغانستان لانے کے خواہش مند نہیں ہیں۔ چین کے طالبان سے درپردہ رابطوں کی وجہ بھی یہی تھی،اس کے ساتھ ہی چین کو مکمل طور پر ادراک ہے کہ صوبے سنکیانگ کے شدت پسندوں نے طالبان سے طویل عرصے سے تعلقات قائم کررکھے ہیں،جس کے ذریعے وہ سیاسی طاقت کو فروغ دینے کی کوشش کررہے ہیں،اس معاملے میں پاکستان نے چین کی بھرپورمددکی ہے۔پاکستان چین کو بڑی طاقت کے طورپراہمیت دیتاہے اورچین اس خطے میں پاکستان کی جغرافیائی حیثیت کوتسلیم کرتے ہوئے پاکستان کوایک مستحکم اورمضبوط طاقت دیکھنے میں پوری طرح مددگارہونے کاعملی یقین دلا چکاہے۔ دونوں ممالک ایک دوسرے کو ’’ہر موسم‘‘ کا دوست تسلیم کرتے ہیں۔ ادھر پاکستانی سیاسی مقتدرقوتیں اورعسکری طاقت اس معاملے میں یہ فیصلہ کر چکےہیں کہ روایتی پاک امریکا تعلقات کی غیر موجودگی میں چین کی تزویراتی ترجیحات کا ساتھ دیا جائے۔ اس طرح پاکستان کی افغان امن عمل میں کردار ادا کرنے کی خواہش بھی پوری ہوجائے گی۔ اس لئے ٹرمپ انتظامیہ کیلئےیہ بہت ضروری ہے کہ بھارت کا کردار بڑھائےپاکستان کو افغانستان میں مستحکم کرنے میں مددفراہم کی جائے۔ پاکستان پہلے ہی مصدقہ اور ٹھوس شواہد کی بناء پراقوام متحدہ ،امریکااوریورپی یونین کواس بات سے آگاہ کرچکاہے کہ بھارت افغانستان میں سفارتی موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بلوچستان کے حالات خراب کررہاہے۔ امریکا کو سمجھنا چاہیے کہ پاکستان کیلئے افغانستان میں بھارت کے سفارتی اور فوجی اہلکاروں کی موجودگی میں اضافہ سرخ جھنڈے کی طرح ہے۔ افغانستان میں بھارت کی موجودگی پر پاکستانی تشویش کو دور کرنے کیلئے اوباما اورٹرمپ نے کبھی اقدامات نہیں کیے لہٰذا امن مذاکرات میں پاکستان کو دوبارہ شامل کرنے کیلئے پاکستان کی بھارت کے حوالے سےتشویش پرغور کیا جاناچاہیے۔ اس کا ایک طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ دونوں پڑوسی جنوبی ایشیائی ممالک کو ایک دوسرے سےتعاون کر نے کیلئے اکسایاجائے۔
انہوں نے اپنی تشویش کااظہارکرتے ہوئے یہ بھی مشورہ دیاہے کہ۴جنوری کو محکمہ خارجہ کی جانب سے پاکستان کی سیکورٹی امداد معطل کرنے کے اعلان سے خارجہ پالیسی کے حوالے سے ٹرمپ کی خالص کاروباری سوچ ظاہر ہوگئی ہے۔ اس عمل کے بارے میں ٹرمپ نے چند دن قبل ٹویٹ کر کے وارننگ دی تھی کہ’’امریکا نے پاکستان کو۳۳؍ارب ڈالر دے کربے وقوفی کی،جس کے بدلے کچھ حاصل نہیں ہوا‘‘۔امریکا کو توقع ہے کہ پاکستان پردباؤڈال کرکام کرایاجاسکتا ہےمگردباؤپاکستان کی مزاحمت میں اضافہ کرے گا۔ یہاں اس بات کی نشاندہی ضروری ہے کہ ٹرمپ امریکا کے دوستوں کے ساتھ بھی خالص کاروباری سوچ کے ساتھ معاملات طے کررہے ہیں۔ بہرحال اتحادیوں اور مخالفین کو پاکستان اور چین کے تعاون کی ضرورت ہے، ان دونوں ممالک کے تعاون کرنے کی بنیادی وجوہات بھی موجود ہیں۔ پاکستان اور چین افغانستان میں استحکام اور امن چاہتے ہیں۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کیلئے ضروری ہے کہ خاموش سفارت کاری کی جائے نہ کہ عوامی سطح پر لعنت ملامت کی جائے۔ افغانستان میں استحکام کیلئے پاکستان اور چین کا تعاون حاصل کرنے میں امریکی محکمہ خارجہ اور دفاع کا کردار بہت اہم ہوگا۔ ٹرمپ کی جانب سے محکمہ خارجہ کی اہمیت کو کم کرتے ہوئے اس کے بجٹ میں کٹوتی کرنااورعلاقائی تنازعات کے حل کیلئے فوج پرانحصار کرناامریکا کو درپیش سنگین چیلنجوں میں سے ایک ہے ۔ افغانستان میں استحکام کیلئے ٹرمپ انتظامیہ نئی حکمت عملی اپنانے کی ضرورت کا اندازہ ہی نہیں کرسکی ہے جبکہ امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن کی جگہ سی آئی اے چیف مائیک پومپیو کو پاکستان، جنوبی ایشیا اور چین کے حوالے سے سفارتی تجربہ نہیں ہے۔ وزیر دفاع جیمز میٹس اس حوالے سے کافی تجربہ کار ہیں۔ ان کو کوئی اہم کردار سونپا جاتاتو بہترتھا۔ افغانستان میں امن و استحکام کے طویل مدتی امریکی وعدے کو پورا کرنے کیلئے پاکستان اور چین کو سیاسی معاملات میں یقین دہانی کرانا ہوگی، جو امریکی محکمہ خارجہ صبر آزمااور پیچیدہ مذاکرات کے ذریعے کرواسکتا ہے۔ ٹیلرسن کو عہدے سے ہٹایا جانا اس بات کی علامت ہے کہ امریکا اس خطے سے نکلنے سے قبل مسئلے کا فوری اور جزوی حل چاہتا ہے۔ افغان تنازعے کے حل کیلئے امریکا کو مختلف طریقے اپنانا ہوں گے۔ ورنہ مکمل شکست کا امکان ہمیشہ موجود رہے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں