کچھ تومعاملہ یہ ہے کہ درون خانہ سیاست الجھ گئی ہے،کچھ یہ بات بھی ہے کہ مشرق وسطٰی کی سیاست نے تھکادیاہے اور پھریوں بھی ہے کہ عرب اتحادیوں کا سیاسی ومعاشرتی استحکام مقصودہے،اس لیے واشنگٹن نے مصر پرتوجہ دینابہت حدتک ترک کردیاہے۔امریکاکے دیرینہ حلیف اورعرب دنیا میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے ملک میں کچھ ایساہورہا ہےجو حسنی مبارک کے دورمیں بھی نہیں ہوا۔ عبدالفتاح السیسی ملک کومطلق العنان طرزِحکومت کی طرف اِس طوردھکیل رہے ہیں جس کی نظیرنہیں ملتی۔اس عمل میں جنرل السیسی خطے کوایک بارپھرعدم استحکام کی طرف دھکیل رہے ہیں۔2013 ء میں منتخب صدرمحمد مرسی اوران کی حکومت کاتختہ الٹ کرصدربننے کے بعدالسیسی نے ایک ایساآئین نافذکیاجس میں بنیادی حقوق کی بہت حد تک ضمانت فراہم کی گئی تھی اور ساتھ ہی ساتھ صدر کے اختیارات پرتھوڑی سی قدغن لگانے کی کوشش بھی کی گئی تھی۔ عبدالفتاح السیسی اوران کے ساتھیوں نے دعویٰ کیا کہ آئین میں ترامیم کے ذریعے اور حکومتی اقدامات کے توسط سے جمہوریت کومکمل بحال کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ چندبرسوں کے دوران عبدالفتاح السیسی نے آئین پرعمل سے گریزکیاہے،زیادہ سے زیادہ طاقت اپنی ذات میں مرتکزکرنے کی کوشش کی ہے ۔اسلام پسندوں کے خلاف شدید کریک ڈاؤن جاری رہاہے اور حکومت کے کسی بھی اقدام کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کو خاموش کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کی گئی۔
السیسی اب آئین میں ترمیم کے ذریعے ایک ایسی طرزحکومت کی راہ ہموارکررہے ہیں جس میں صدرکامنصب غیرمعمولی حدتک ذاتی نوعیت کی آمریت پرمبنی رہ جائے گایعنی اقدامات کوچیلنج کرنے کی گنجائش برائے نام رہ جائے گی۔یہ مصریوں کیلئےتو بری خبر ہے ہی،باقی دنیا کیلئےبھی کوئی اچھی خبرنہیں۔ علاقائی سطح پرعدم استحکام اس حد تک بڑھے گاکہ باقی دنیابھی متاثرہوئے بغیرنہ رہ سکے۔اس حقیقت سے انکارممکن نہیں کہ جب تمام اختیارات کسی ایک شخصیت میں مرتکز کر دیے جائیں تواقتدارکوطول دیناممکن ہوتاہے اورخاص طورپرایسے میں کہ جب مسلح افواج ساتھ دے رہی ہیں جیساکہ السیسی کے معاملے میں ہے۔ساتھ ہی ساتھ یہ حقیقت بھی تسلیم کرنا پڑے گی کہ تمام اختیارات ایک شخصیت میں مرتکز کرنے کی صورت میں حکومت یاطرزِحکومت کاخاتمہ ایسی حالت میں ہوتاہے کہ اچھاخاصا انتشارباقی رہ جاتاہے۔ السیسی نے آئین میں جو ترامیم کی ہیں،اُن سے تین طرح کا فائدہ ہوگا۔
٭پہلا فائدہ:السیسی کو2022ءمیں صدرکامنصب چھوڑناتھا۔آئینی ترامیم کی مددسے اب وہ2034ءتک اقتدارسے چمٹے رہنے کی گنجائش پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔2011ءمیں عرب دنیامیں اٹھنے والی بیداری کی لہرنے مصرمیں صدر کے منصب کودوبارچارچارسال کی میعاد تک محدود رکھاتھایعنی کوئی بھی شخص دوسے زیادہ مرتبہ صدرمنتخب نہیں ہو سکتاتھا۔اس وقت مصرمیں السیسی کے اقتدارکوطول دینے کے حق میں اٹھنے والی آوازیں برائے نام ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ لوگ اُن کی جابرانہ طرزحکومت سے بیزارہوچکے ہیں۔
٭دوسرافائدہ:آئینی ترامیم کے تحت السیسی کوصدرکی حیثیت سے عدلیہ میں اعلیٰ عہدوں پربراہِ راست تقررکااختیارمل جائے گااوربجٹ کے حوالے سے بھی وہ اہم فیصلے کرسکیں گے۔ مصر کاعدالتی نظام چاہے جتنابھی کمزورہوحقیقت یہ ہے کہ ایسے جج بڑی تعدادمیں موجودہیں،جوقانون کی حکمرانی کی بات کرتے ہیں۔
٭تیسرافائدہ:آئینی ترامیم سے مصرکی مسلح افواج کوریاست کے اجزاباہم مربوط رکھنے اورجمہوریت وآئین کاتحفظ یقینی بنانے کے نام پرسیاسی معاملات میں مداخلت کاباضابطہ اختیارمل جائے گا۔بادی النظرمیں ایسالگتاہے کہ اس حوالے سے متعارف کرائی جانے والی آئینی ترمیم صدر کے منصب کوکسی حد تک کنٹرول کرنے کامقصدحاصل کرے گی مگرحقیقت یہ ہے کہ چندبرسوں کے دوران السیسی نے مسلح افواج میں اعلیٰ ترین سطح پرتقررکے حوالے سے غیرمعمولی اختیارات اپنی مٹھی میں لیے ہیں۔اس حوالے سے انہوں نے معاشی اقدامات،خوفزدہ کرنے کی پالیسی اور برطرفیوں کاسہارابھی لیاہے۔یہ بھی ایک ناقابلِ تردیدحقیقت ہے کہ آئینی ترامیم سے بہت پہلے ہی السیسی نے بیشتر اہم ترین اختیارات اپنے ہاتھ میں لے رکھے ہیں۔ سب سے بڑھ کراہم اورقابلِ غورنکتہ یہ ہے کہ السیسی نے اپنے اقتدارکے خلاف کسی بھی نوعیت کی مہم یا تحریک کوناکام بنانے کااہتمام کررکھاہے۔آئینی
ترامیم کی ٹائمنگ بھی بہت اہم ہیں۔السیسی کو سالِ رواں کے وسط کے بعدمصری کرنسی کی قدر میں کمی اورمختلف معاملات میں زرِاعانت ختم کرنے کا اعلان کرناہے۔السیسی نے اپنی پوزیشن کوپہلے ہی مستحکم کرلیاہے تاکہ کسی بھی حلقے کی طرف سے کی جانے والی مخالفت زیادہ رنگ نہ لاسکے۔ان اقدامات سے مصرکے باشندوں کیلئےزندگی مزیدمشکل ہوجائے گی اورالسیسی سے اقتدارسے بیزارافرادکی تعدادمیں بھی اضافہ ہوگا۔السیسی چاہتے ہیں کہ یہ دونوں اقدامات ایسی حالت میں کریں کہ امریکا کی طرف سے بھرپورحمایت کااظہارکیاجائے۔ٹرمپ کے دورِحکومت میں ایسا کرناالسیسی کیلئےزیادہ سودمند ہوگا۔ دونوں اقدامات کی ٹائمنگ بہت اہم ہے۔ جولوگ مصرمیں فوج کے آمرانہ اقتدارکی تاریخ سے اچھی طرح واقف ہیں،وہ سوال کرسکتے ہیں کہ ان آئینی ترامیم سے فرق کیاپڑے گا۔حقیقت یہ ہے کہ السیسی جوکچھ کرناچاہتے ہیں وہ آئین کے پورے ڈھانچے کوشدیدمتاثرکرے گا۔ان آئینی ترامیم کے ذریعے السیسی اپنی پسند کے نظام حکومت کوباضابطہ تسلیم شدہ ادارے کی شکل دیناچاہتے ہیں۔یہ نظامِ حکومت مطلق العنانیت سے حسنی مبارک کے دورکے مقابلے میں بہت قریب ہے۔ حسنی مبارک نے برائے نام ہی سہی مگرچندایک اختیارات سویلین اداروں کوبخشے تھے۔سول سوسائٹی گروپس کے پنپنے کی گنجائش رکھی تھی،جس کے نتیجے میں عوام کوکسی حدتک توسکون کاسانس لینے کا موقع ملتاتھا۔سویلین اداروں کوپنپنے اورکچھ کرنے کی تھوڑی بہت گنجائش دینے کی صورت ہی میں حسنی مبارک کوکم وبیش تیس سال حکومت کرنے کاموقع ملا ۔ السیسی ایک ایسی طرزِحکومت کی راہ ہموارکررہے ہیں،جسے عوام کی برائے نام بھی حمایت حاصل نہ ہوگی اوریوں اِس کاوجودبہت نازک ہوگا۔کسی بھی ہنگامی کیفیت میں ایسی طرزحکومت کوختم کرنا آسان ہوگامگراس کے نتیجے میں انتشارالبتہ بڑے پیمانے پرپھیلےگا۔حسنی مبارک کے برعکس السیسی نے پارلیمان اورجامعات دونوں کو سیکورٹی فورسز کے مکمل کنٹرول میں دے دیا ہے،جس کے نتیجے میں دونوں ہی اداروں میں فوجی اقتدارکی کھل کرحمایت کرنے والوں کوبھرتی ہونے کاموقع ملاہے اوروہی آگے بھی بڑھ رہے ہیں۔السیسی نے آزاد سیاسی سرگرمیوں پرمکمل قدغن لگا دی ہے۔قانون کی بالا دستی برائے نام رہ گئی ہے اورجو بھی حکومت کے خلاف کچھ کہے اُسے بالکل برداشت نہیں کیاجاتا۔ حسنی مبارک کے دورمیں حکومت نوازجماعت کے ارکان کے ساتھ ساتھ کاروباری دنیا کی شخصیات اورمقامی عمائدین کوبھی فیصلہ سازی کے عمل میں شریک کیاجاتاتھا اورکوشش کی جاتی تھی کہ اقتدارمیں شرکت کاتھوڑابہت تصور ضرورپایاجائے مگرالسیسی کے دورمیں اس کی بھی گنجائش نہیں چھوڑی گئی۔صرف وہ لوگ اقتدارکامزاچکھ سکتے ہیں جوفوجی حکومت کے انتہائی حاشیہ بردار ہوں۔السیسی فوج کے سیلف کنٹرول کے حوالے سے جنونی کیفیت میں مبتلا ہیں۔حسنی مبارک بہت سے چھوٹے معاملات پرتوجہ نہیں دیتے مگرالسیسی نے اس معاملے میں حدکردی ہے۔اس کی ایک واضح مثال چندماہ قبل جاری کیاجانے والاوہ فرمان ہے،جس کے تحت عمارتوں کیلئےچند رنگوں کی اجازت دی گئی ہے!
نئی آئینی ترامیم سے ایک بڑی خطرناک صورت حال یہ پیداہوگی کہ السیسی کی ذات کسی بھی نوعیت کی قانونی یاعدالتی کاروائی سے مبرّیٰ ہوگی اوریوں انتقالِ اقتدارکے حوالے سے انتہائی پیچیدگی کی راہ ہموارہوگی۔ایسے میں سوچابھی نہیں جاسکتا کہ ایسی طرزحکومت پروان چڑھے جس میں تمام سیاسی کھلاڑیوں کو کھیلنے کاموقع ملے۔تمام اختیارات کواپنی ذات میں سمیٹنے کی ذہنیت بالآخرانتہائی خرابی پرمنتج ہوتی ہے۔معمرقذافی اورصدام حسین اس کی واضح ترین مثال کی حیثیت رکھتے ہیں۔کسی بھی دوسری طرزحکومت کے مقابلے میں خالص ذاتی نوعیت کی طرز حکومت کے خونیں انجام کاامکان زیادہ قوی ہوتاہے۔ تاریخ سے ثابت ہے کہ خالص شخصی نوعیت کی حکومتیں انتہائی کھوکھلے اداروں کے سہارے کھڑی رہتی ہیں اورعوام میں ان کی حمایت برائے نام ہوتی ہے۔جب تک عوام کوموقع نہیں ملتا تب تک توٹھیک ہے۔موقع ملتے ہی عوام ایسی کسی بھی حکومت سے گلوخلاصی میں زیادہ دیرنہیں لگاتے۔اختیارات کے غیرمعمولی ارتکاز، ناقص حکمرانی اورحکومت کے خلاف جانے والے تمام افراد کواقتدار کے ایوان سے دوررکھنے کی روش پرگامزن رہنے کے نتیجے میں خالص شخصی حکومت کا تختہ الٹے جانے کاخطرہ ہر وقت رہتاہے۔ایسے نظامِ حکومت کی زد میں آنے والے شہری موقع ملتے ہی تختہ الٹنے کی سوچتے ہیں اوراِس سوچ پر عمل بھی کر گزرتے ہیں۔
مصر کیلئےیہ وقت بھی بہت اہم ہے۔چند عشروں کے دوران امریکا کیلئےمصر کی سفارتی اور اسٹریٹجک اہمیت گھٹی ہے مگرپھربھی دس کروڑ کی آبادی، محل وقوع اورامریکا کے دیرینہ حلیف کی حیثیت سے اربوں ڈالر کاحصول مصرکوامریکا کیلئےاب بھی اہم ملک کادرجہ دیے ہوئے ہے۔ مصرامریکی اسلحے کے حصول کے حوالے سے بھی نمایاں رہاہے۔اس کے باوجود امریکانے مصرمیں اختیارات کے بڑھتے ہوئے ارتکازاورانتہائی درجے کی مطلق العنانیت کودیکھتے ہوئے بھی خاموش ولاتعلق رہنے کوترجیح دی ہےمگرخیر،واشنگٹن کے پالیسی ساززیادہ سے زیادہ اختیارات اپنی ذات میں سمیٹنے اور سمونے کی السیسی کی کوششوں سے زیادہ دیرتک صرفِ نظر نہیں کرسکتے کیونکہ السیسی کی غیرمعمولی مطلق العنانیت سے صرف مصرنہیں بلکہ پورے خطے کے غیرمستحکم ہونے کا خدشہ برقرار ہے۔
السیسی اپنی حکومت کے جابرانہ اقدامات پرکی جانے والی غیرملکی میڈیاکی شدیدنکتہ چینی کو مصر کے معاملات میں مداخلت قراردیکرمستردکرنے کی روش پر گامزن رہے ہیں مگرحقیقت یہ ہے کہ اپنی بقاکیلئےالسیسی کے نظامِ حکومت کو بیرونی امداد،سفارتکاری اورسلامتی کے امورمیں معاونت کی اشد ضرورت ہے۔ مصر کے سب سے بڑے شراکت دارکی حیثیت سے اب بھی امریکا کوغیر معمولی اثرونفوذ حاصل ہے۔ السیسی نے سابق امریکی صدراوباما سے تواچھے تعلقات نہیں رکھے مگرٹرمپ سے ان کے تعلقات اچھے رہے ہیں اوریوں امریکابہت سے معاملات میں زیادہ اثرونفوذ کی پوزیشن میں ہے۔وہ امریکی قانون سازبھی غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں جومصر کیلئےفوجی امداد کا ایک ارب30کروڑڈالرسالانہ کا پیکیج کنٹرول کرتے ہیں۔امریکی ایوان صدراور کانگرس دونوں کویہ بات بالکل واضح کردینی چاہیے کہ وہ السیسی کے زیادہ سے زیادہ اختیارات کوہاتھ میں لینے کے کھیل کوسمجھتے ہیں اوراِسے کسی بھی اعتبارسے بھرپورقبولیت نہیں بخشیں گے۔اس بات کی کوئی ضمانت فراہم نہیں کی جاسکتی کہ امریکا السیسی کی طرف سے تمام اوربے لگام اختیارات اپنے ہاتھ میں لینے کی کوششوں کی راہ میں دیواربن سکے گامگرہاں،اس بات کاامکان ضرورباقی ہے کہ مستقبل کے امریکی پالیسی سازآج کے معاملات پرنظر ڈالیں تواِسےسنگین غلطی اورایسا موقع گردانیں گےجسے آسانی سے ہاتھ سے جانے دیا گیا۔
Load/Hide Comments