“پوراپنڈ نہی سُتا”

:Share

برادرم فاروق بھٹی کاپیغام ملاکہ ہمارے میڈیا کی ترجیحات میں کشمیرآخری نمبرپرچلاگیاہے۔پہلے نمبرپرنوازشریف،پھر مولانا فضل الرحمٰن،پھرسرفراز،پھرکراچی کاکچرا،پھر۔۔۔پھرجاکرکشمیرکے 84 روزہ کرفیوکاذکر!
نجانے کیوں پنجابی کایہ شعریادآگیا:
ماڑے دی مرگئی ماں تے کوئی نی لینداناں
‏تگڑے دامرگیاکُتا،غم وچ پوراپنڈ نہی سُتا
تاریخ یہ لکھے گی کہ کشمیر میں ماؤں بہنوں کی عزتیں لٹ رہی تھی اورپاکستانی لیڈراپنے اقتدارکیلئے لڑرہے تھے۔شہ رگ کہنے والو ں کابھرم اس دن کھل جائے گاکہ وہ اپنے فائدے اوراقتدارکے حصول کیلئے کشمیرکاتذکرہ کرتے رہے۔

ہائے رے انسان!ہررات موت کی آغوش میں جاتاہے لیکن پھربھی موت کویادنہیں کرتا۔کمزوری انسان کوبھولنے کے مرض میں مبتلاکردیتی ہے۔آج امت مسلمہ پربھی کمزوری کاغلبہ ہے۔اس لئے اسے نسیان کامرض لاحق ہے۔ یہ بہت جلد بھول جاتی ہے اپنے دشمنوں کو،دشمنوں کی تباہ کاریوں کو،بربریت اوردہشتگردی کو۔امت مسلمہ بھول گئی بوسنیا،افغانستان،عراق، لیبیا ، صومالیہ،شام،یمن وغیرہ کودشمنوں نے کس طرح اپنی بربریت کانشانہ بنایا۔امت مسلمہ بھول گئی تورابورامیں ڈیئزی کٹربم گرائے جانے کو،ادلب،حمص،حلب،رقہ وغیرہ میں دشمنوں کے شہری آبادیوں پر ہزاروں بم برسانے کو۔

امت مسلمہ بھول گئی گوانتانامابے اورابوغریب جیل میں مسلمان قیدیوں پرانسانیت کوشرمادینے والے مظالم اورقیدیوں پر کتوں کے کتے چھوڑے جانے کے اُن ویڈیوزکوجوجنسی درندہ صفت دشمنوں نے امت کے ہر فردکودکھایاتھا۔امت مسلمہ اب توکل کی بات بھی بھولنے لگی ہے۔یہ بھول گئی میانمارمیں روہینگائی مسلمان بچوں کے زندہ جلائے جانے کو،عورتوں کی ننگی لاشوں کواوریہ بھولنے لگی ہے بیت المقدس کوناپاک یہودیوں کی دارالحکومت قراردینے کواوراس کمزورامت کوبھول جانا ہی چاہئے،خوابِ خرگوش میں محورہناچاہئے۔

لیکن سال میں ایک یادوباراس امت کی یادداشت واپس آجاتی ہے یوم القدس پرسیاست کرنے کیلئے،یوم کشمیرپرسیاست کرنے کیلئے،دوچارریلیاں نکالنے کیلئے،چندگرماگرم تقاریرکرنے کیلئے،دشمن کواپنی لفاظی سے للکارنے کیلئے جونہ اسوۂ رسول ﷺ ہے اورنہ ہی خلفائے راشدین کاطریقہ ہے اورنہ ہی کبھی کسی مسلمان جرنیل سے اس لفاظی کی جنگ کاثبوت ملتاہے۔
دشمن کولفاظی سے نہیں،جنگی ایکشن اورحکمتِ عملی سے مات کیاجاتاہے،فلمی ایکشن سےنہیں لیکن اس کمزورامت میں اب اس کی طاقت کہاں،ایسی صلاحیت کہاں،ایسے مرد مومن کہاں جویہ فریضہ انجام دے؟ٹکروں میں بٹی نفسانی خواہشوں کی دلدادہ دنیامیں مست،موت سے ڈرنے والی کمزورامت لفاظی کے سواکربھی کیاسکتی ہے؟

توکرتے رہو سیاست،نکالتے رہوریلیاں،للکارتے رہودشمنوں کواورلڑتے رہو لفاظی کی جنگ یہاں تک کہ دشمن تمہارانام مٹا دے،اللہ تمہیں نابودکردے اورتمہاری جگہ دوسروں کودین کاوارث بناکران سے اپنے دین کی سربلندی کاکام لے۔جس طرح ماضی میں تاتاریوں سے لیاتھا۔اے نسیان زدہ امت!شایدکہ تمہیں کچھ یادہو،ماضی میں جب تمہاری روش آج جیسی ہی تھی تب اللہ نے تمہارے دشمن تاتاریوں سے تمہیں خوب تہس نہس کیا،تمہارے خون سے دجلہ اورفرات کورنگین کیا، تمہاری کھوپڑیوں کے میناربنوائے اورپھران ہی تاتاریوں سے اپنے دین کاکام لیااورایساکرنااللہ کیلئے کچھ مشکل نہیں ہے بقولِ شاعر مشرقؒ:
ہے عیاں یورش تاتارکے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کوصنم خانے سے

یہی اللہ تعالٰی کی سنت ہے۔وہ اپنے نافرمانوں کواسی طرح سزائیں دیتاہے۔وہ اپنی دین کی وراثت نافرمان قوم سے چھین کر دوسری قوم کودے دیتاہےجودینِ الہی کیلئے اپناجان ومال قربان کرتی ہے اوردین کوسربلند کرتی ہے۔اگرموجودہ امت محمدیہ نے اپنی منافقت کی روش نہیں بدلی تواللہ کیلئے یہ کوئی مشکل نہیں کہ اسے نیست ونابود کرکے اپنے دوسرے بندوں کواس دین اسلام کاوارث بنادے اوران سے دین کی سربلندی کاکام لے،قرآن کی متعدد مقامات پراللہ تعالٰی کی وعیدہے:

اے لوگو!اگروہ(اللہ) چاہے توتمہیں نابودکردے اور(تمہاری جگہ) دوسروں کولے آئےاوراللہ اس پربڑی قدرت والاہے۔( سورة النساء:133)
اورآپ کارب بے نیازہے(بڑی)رحمت والاہے،اگرچاہے توتمہیں نابودکردے اورتمہارے بعدجسے چاہے(تمہارا)جانشین بنادے جیساکہ اس نے دوسرے لوگوں کی اولاد سے تم کو پیدا فرمایا ہے:(سورة الأنعام:133)
وہ (اللہ)چاہے توتم لوگوں کولے جائے اورایک نئی خلقت تمہاری جگہ لے آئے۔ایساکرنا اللہ پرکچھ دشوارنہیں ہے۔(سورۃ ابراھیم 19:20)
پس نہیں، میں قسم کھاتاہوں ، مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی، ہم اس پر قادر ہیں کہ ان کی جگہ ان سے بہتر لوگ لے آئیں اور کوئی ہم سے بازی لے جانے والا نہیں ہے۔(المعارج:41)
اوراگرتم(حکمِ الٰہی سے) رُوگردانی کروگے تووہ تمہاری جگہ بدل کردوسری قوم کولے آئے گاپھروہ تمہارے جیسے نہ ہوں گے (سورۃ محمد:38)

آج یہ امت انفرادی و اجتماعی طور پر حکم الٰہی سے روگردانی کر ہی رہی ہے اور اس کی سزا بھی بھگت رہی ہے لیکن پھر بھی سبق لینے کو تیار نہیں ہے۔

اللہ نے اس موجودہ امت کوہرطرح کے خزانوں سے نوازکرسوسال کاوقت دیاکہ یہ دین اسلام کودیگرادیان پرغالب کرے لیکن یہ کمزورامت آپس کی تفرقہ بازی سے کمزورسے کمزورترہوتی گئی اوردین کے غلبے کاکام کرنے سے قاصررہی۔ دین اسلام غالب رہنے کیلئے ہے،مغلوب رہنے کیلئے نہیں اوراللہ اس دین کوضرورغالب کرے گا۔اللہ نے ایک باران سے دین کی وراثت چھین کران کے دشمن تاتاریوں کودین کاوارث بنایاتھااورپھران ہی تاتاریوں سے اپنی دین کی سربلندی کاکام لیاتھا۔ شاید تاریخ پھرکسی تاتاری کے انتظارمیں ہے جوموجودہ امت مسلمہ کوسبق سکھائے۔

پھرکوئی شیخ جمال الدین انہیں یہ سبق پڑھائے کہ”جس کے پاس سچادین نہیں وہ کتے سے بھی برُاہے اورکوئی شیخ رشید الدین دشمن کے ایوانوں میں دستک دے اوراسلام ومسلمانوں کے دشمنوں کوحلقہ بگوشِ اسلام کرےاورپھروہ سب مسلمان ہوکردین کی سربلندی کیلئے دشمنوں سے قتال کریں اوراللہ سبحانہ وتعالٰی انہیں فتحیاب کرےاوربیت المقدس فتح ہو، کشمیر فتح ہو،ظلم وبربریت کاشکارروہینگا،بوسنیا،افغانستان،عراق،لیبیا،صومالیہ،شام،یمن وغیرہ کے مسلمانوں کی دادرسی ہو، انسانیت کی فلاح ہواوردین اسلام غالب ہواورآنے والی نسلیں ایک بارپھر “پاسباں مل گئے کعبے کوصنم خانے” کاترانہ گنگنائے!
دلوں میں نیزے، جگر میں خنجر، چھبے ہوئے تھے، پر ہم کھڑے تھے
ہماری نظروں کے سامنے تَن، کٹے ہوئے تھے، پر ہم کھڑے تھے
یہ حالِ غیرت، یہ سوزِ ایماں، یہ کیفِ ہستی، کہ فربہ ہو کر
عدو کے ہاتھوں ، گلے ہمارے، دبے ہوئے تھے ، پر ہم کھڑے تھے
ہمارے نیزوں، ہماری ڈھالوں، پہ تھا بھروسہ، جنھیں ازل سے
ہمارے آگے ، وہ سر بریدہ، پڑے ہوئے تھے، پر ہم کھڑے تھے
جنھیں دلاسہ، دہائیوں سے، وفا کا ہم نے، دیا ہوا تھا
وہ خواب آزادیوں کا لے کر، مَرے ہوئے تھے، پر ہم کھڑے تھے
جو اہلِ باطل تھے، ان کے سینوں پہ، سج رہے تھے، عرب کے تمغے
جو اہلِ حق تھے، وہ سولیوں پر ، چڑھے ہوئے تھے، پر ہم کھڑے تھے
لکھو مورخ! یہ المیہ کہ، جہان بھر کے، ستم کدوں میں
ہماری بہنوں کے جسم سارے، چِھلے ہوئے تھے، پر ہم کھڑے تھے

اپنا تبصرہ بھیجیں