Alchemy Prescription

نسخہ کیمیا

:Share

“تم نے اس سال ٹانگوں کی زکوٰة دی”۔باباجی نے عجیب سوال پوچھا۔میں پریشان ہوکررک گیا،سامنے لندن کاخوبصورت باغ ریجنٹ پارک بکھرا پڑاتھا،شام دھیرے دھیرے کھڑکیوں میں اتررہی تھی،درختوں،پھولدارپودوں کی ہریالی میں برسات کی خوشبورچی ہوئی تھی۔ہم چندلمحوں میں پارک کے اندربنے خوبصورت ٹریک پر آہستہ آہستہ چل رہے تھے۔وہ”کرونا”جیسی مہلک وباکے حملے سے صحت یاب ہونے کے بعدایک مرتبہ پھرمیرے ساتھ چہل قدمی کیلئے لوٹے تھے،وہ مجھے اپنی نصف صدی قبل کی بھولی بسری یادوں”کشمیرجنت نظیر”کے مضافات کی شاموں کے قصے سنارہے تھے۔شام بھی خوبصورت تھی،منظربھی لاجواب تھااورگفتگوبھی زندگی سے بھرپورتھی۔ہم چلتے چلتے پارک کے سب سے اونچے کونے میں پہنچ چکے تھے جہاں سے لندن شہرکاکچھ حصہ نظرآنے لگا۔لیکن چلتے چلتے نجانے ان کے دل میں کیاآیا،وہ رکے اور ایک لایعنی سوال داغ دیا۔ “کیاتم نے اپنی آنکھوں کی زکوٰة دی ہے؟”میری خاموشی میں حیرت بھی تھی اور پریشانی بھی۔باباجی نے خوشبودارنفیس دلپذیر چھڑی سے جوتے کی نوک کریدی اورہنس کربولے”اچھاپھرتم نے اپنے بازوؤں، ہاتھوں،آنکھوں، کانوں اورزبان کاٹیکس تودے ہی دیاہوگا”۔یادرہے کہ ہم سب کوباباجی کی دانش مندانہ گفتگوسننے کاایسانشہ ہے کہ ان کے منہ سے نکلے ہوئے جواہرات کیلئے ہرکسی کواپنی جھولی تنگ نظرآتی ہے لیکن اچانک ان کی گفتگوکےحیران کن رخ نے مجھے جہاں ششدرکردیاوہاں مجھے ندامت کےگھڑوں پانی میں شرابورکردیا۔

میری پریشانی خوف میں بدل گئی،مجھے محسوس ہوا،باباجی کاتعلق ان لوگوں سے ہے جن کادماغ ایسے خوبصورت پارک کے اس بلند کونے پرکام کرنا چھوڑ دیتاہے یا پھر”کرونا”کی وبا سے روبصحت ہونے کے باوجودان کی ایسی حالت ہوگئی ہے۔میں نے ڈرے ہوئے پرندے کی طرح آگے پیچھے دیکھا ،دوردورتک کوئی بندہ بشرنہیں تھا ،صرف گھنے درخت تھے، جھاڑیاں تھیں اورسامنے پارک کے قدموں میں لندن شہرتھا،وہ تھے اورمیں تھا ۔ میری ریڑھ کی ہڈی میں کرنٹ ساسرکنے لگا،مجھے لگاوہ ابھی آگے بڑھیں گے،میری گردن دبوچیں گے اورمجھے مارکرکسی جھاڑی میں پھینک دیں گے۔وہ میری کیفیت بھانپ گئے،انہوں نے قہقہہ لگایااورآہستہ آہستہ واپس چلنے لگے۔میں بھی ذرافاصلہ رکھ کرچلنے لگا۔”تین سال پہلے”ان کی آوازنشیب میں لڑکھڑاتی چٹان کی طرح میری سماعت سے ٹکرائی،”تین سال پہلے جب ایک شخص نے مجھ سے یہ سوال پوچھاتومیرے بھی یہی احساسات تھے لیکن غورکیاتومیں نے جانا،پاگل تومیں اس سوال سے پہلے تھا،تم بھی میرے اس سوال پراسی نتیجے پر پہنچوگے”۔میرا شک حقیقت میں بدل گیا،مجھے یقین ہوگیاکہ باباجی حقیقتاًپاگل ہوچکے ہیں۔ میں نے زندگی میں ان کے منہ سے ایسی لایعنی اوربے سروپاباتیں کبھی نہیں سنی تھیں ۔ تھوڑی دیرکیلئے رکے اورآسمان کی طرف دیکھ کربولے”دیکھو!ہم معاشرتی زندگی میں جوکچھ کماتے ہیں حکومت اس میں سے اپناحصہ وصول کرتی ہے،یہ حصہ وہ ماحول کوپہلے سے بہتر،پہلے سے زیادہ سازگاربنانے پرصرف کرتی ہے تاکہ ہم مزیدکماسکیں،زیادہ بہترزندگی گزارسکیں،حکومت کے اس حصے کوہم ٹیکس کہتے ہیں۔مذہب بھی ہماری سالانہ بچتوں،ہماری کمائیوں میں سے کچھ حصہ طلب کرتاہے،اسے زکوٰة کہتے ہیں۔ہم ہرسال ٹیکس دیتے ہیں،زکوٰةنکالتے ہیں،یہ ہمارافرض بھی ہے اورہماری ذمہ داری بھی، سن رہے ہو،میں ٹھیک کہہ رہاہوں ناں”!

انہوں نے آگے بڑھ کرمیرے کندھے پرہاتھ رکھتے ہوئے اس کی تصدیق چاہی،مجھے ان کی آنکھوں میں ایک عجیب قسم کی وحشت نظرآئی،میں نے فوراًہاں میں سرہلا دیا۔وہ ہنسے اورچھڑی کوپھرتلوارکی طرح ہوامیں لہرایااورآگے چل پڑے۔ہم اپنا اصل فرض،اپنی اصل ذمہ داری بھول جاتے ہیں ۔ مجھے ان کی آوازجھاڑیوں سے الجھتی محسوس ہوئی،ہماری ٹانگیں ہیں،یہ قدرت کامعجزہ ہیں،بہت بڑاانعام،بہت بڑی نوازش ہیں۔میں نے لوگوں کوٹانگوں کے بغیرزندگی گزارتے بھی دیکھا،یقین کرواس زندگی کوزندگی اورانسانوں کاانسان کہتے ہوئے دل دکھ سے اورالفاظ خون سے بھر جاتے ہیں۔ہمارے بازوہیں،ہماری زندگی کا آدھاگلاس ان کے بغیرخالی ہے،ہاتھ ہیں، ہم ان کے بغیرزندگی کوزندگی نہیں کہہ سکتے،ذراسوچو! جو شخص انگلیوں سے برف کی ٹھنڈک اورگرم کپ کی حدت محسوس نہیں کرسکتا،اس کی زندگی کتنی ادھوری،کتنی نامکمل ہے،ہماری آنکھیں ہیں،وہ دیکھواس بلندٹاورکے اوپرسے اترتی شام تک قدرت کے کتنے ہزاررنگ،کتنے لاکھ عکس ہیں،زندگی ان رنگوں اورعکسوں کے بغیرمکمل سمجھی جاسکتی ہے؟نہیں،بالکل نہیں،تم جب تک اپنی پوتی کی آنکھوں میں تیرتی چمک نہ دیکھ لو،تمہیں اپنے ہونے کااحساس ہی نہیں ہوگا۔پھولوں کے رنگ، برسات کی اڑتی پھوار،وہ سامنے خوبصورت رنگوں سے مزین نظرآنے والی قوسِ قزاح،کروٹیں بدلتاآسمان اورجھیلوں میں لرزتے کانپتے ایک دوسرے کا تعاقب کرتے دائرے ہی ہماری لئے زندگی ہیں۔

یہ آنکھیں نہ ہوں توہاتھوں کورنگ ٹٹولنے پڑیں،چڑھتے سورج اورگہری ہوتی شام کے معانی ایک ہوجائیں۔ایک گھنٹے میں بارہ کھرب چالیس ارب اسی کروڑبہترلاکھ شعاعیں پھینکنے والاسورج دوملی میٹرپتلی میں غروب ہوجائے۔ہمارے کان ہیں،ذرا سنو!تمہارے کان ان سرسراہتی ہواکی درختوں سے سرگوشیاں سن رہے ہیں،پتوں کی پازیب تم سے کچھ کہہ رہی ہے،وہ دیکھوڈیزی کے پھول سے تتلی اڑی،اس کے پروں کی سرسراہٹ سنو،اس سرسراہٹ میں زندگی ہے۔سامنے پارک کے قدموں میں بہتے شہر سے آوازیں اٹھ اٹھ کرتم تک پہنچ رہی ہیں،ذراسوچو!ایک لمحے کیلئے سوچو،یہ ساری آوازیں گونگی ہوجائیں ،تمہارے کان پتھرہوجائیں،تم کچھ نہ سن سکو، تمہیں پانی تونظرآئے،اس کے وجودسے اڑتی جھاگ بھی دکھائی دے لیکن تم ان کی آوازنہ سن سکوتوتمہاری زندگی کتنی بہری،کتنی گونگی ہو۔ادھوراہونے کاشدید احساس کہاں کہاں تمہاراراستہ روکے، لوگ تمہیں آوازکی بجائے ہاتھ لگاکرمتوجہ کریں اورتم ٹھوکروں اورٹھڈوں کوآوازسمجھواوریہ جوہماری زبان ہے،یہ ہماری سوچ ،ہمارے خیال کوخدوخال دیتی ہے۔انہیں ملکوتی حسن،انہیں جسم اورانہیں بدن عطا فراہم کرتی ہے۔انہیں لفظوں،تشبیہوں اور استعاروں کالباس دیتی ہے۔یہ زبان نہ ہوتولفظ نہ ہوں،لفظ نہ ہوں توخیال کہیں سوچ کی گھاٹیوں ہی میں دم توڑدیں،نہ میں تمہیں کچھ کہہ سکوں اورنہ تم مجھ سے کچھ سن سکو۔ اتنا کہہ کروہ خاموش ہو گئے!

میں ان کے خیالات کی روانی میں بہتاجارہاتھاکہ دوبارہ گویاہوئے”میرے دوست یہ ٹانگیں،یہ بازو،یہ ہاتھ،یہ آنکھیں،یہ کان اور یہ زبان ہمارا اصل ریزروبینک ہیں، ہماری زندگی کی ساری کمائی،ہماری ساری پونجی اسی میں جمع ہے۔اس میں سے کوئی ایک لاکرہمیشہ کیلئے لاک ہوجائے توہماری پونجی،ہماری کمائی ضائع ہوجائے گی،ہم کنگال ہوجائیں گے،ہم مفلس اورقلاش ہو جائیں گے۔غریب وہ نہیں ہوتاجس کے پاس زادِراہ نہیں ہوتا، غریب وہ ہوتاہے جس کے پاس پاؤں نہیں ہوتے۔اپنے ان پاؤں،ان ٹانگوں،ان بازوؤں اوران آنکھوں کاٹیکس دو،ان کی زکوٰة نکالو،اگرنہ نکالی توقدرت یہ ٹیکس،یہ زکوٰة اسی طرح وصول کرے گی جس طرح حکومتیں قرقی کے ذریعے وصول کیاکرتیں ہیں اورانسان سڑک پراس طرح آ جاتاہے کہ اپنے تمام قریبی احباب اس طرح آنکھیں پھیرلیتے ہیں کہ کہیں آپ سے ان سے کسی مددیادرخواست کیلئے مارے ندامت کے کچھ مانگ نہ لیں۔”وہ خاموش ہوگئے تومیں نے ان کی طرف دیکھاتووہ اپنامنہ دوسری طرف کرکے اپنی بہتی آنکھوں کے اشک مجھ سے چھپانے کی کوشش کر رہے تھے۔

یہ ٹیکس،یہ زکوٰة دی کیسےجاتی ہے۔میں نے پہلی مرتبہ سوال کیا؟”ہاں”انہوں نے چھڑی گھمائی”سال میں ایک ویل چئیر، لکڑی کی ایک ٹانگ، ایک بازو،ایک اندھے کی آنکھوں کاآپریشن،ایک آلہ سماعت زندگی کے اس ریزروبینک کی زکوٰة ہے اوربہت ساراشکراورڈھیرساری توبہ اس کمائی، اس پونجی کاصدقہ”وہ خاموش ہوئے، انہوں نے کچھ سوچااورپھر آہستہ سرد ہوتی آوازمیں بولے”ہم کتنے بے وقوف ہیں،جودنیامیں کماتے ہیں، اس کاٹیکس توساری عمربھرتے رہتے ہیں لیکن جودولت انعام میں ملتی ہے،جوکچھ ہمیں قدرت عطاکرتی ہے اس کاہم شکرتک ادانہیں کرتے۔ افسوس ہمارے پاس آنکھیں ہیں،لیکن ہمیں اندھوں کااندھاپن دکھائی نہیں دیتا،اپنے مولاکے رنگ نظرنہیں آتے!

آپ یقین کریں کہ باباجی کی اس ساری گفتگومیں اس خاص فقرے نے تومیری ریڑھ کی ہڈی تک میں ایسی سنسنی پیداکردی کہ” زکوٰة نکالواگرنہ نکالی توقدرت یہ ٹیکس،یہ زکوٰة اسی طرح وصول کرے گی جس طرح حکومتیں قرقی کے ذریعے وصول کیاکرتیں ہیں۔۔۔۔۔۔”میں یہ سوچ رہاہوں کہ ان دنوں اکثرہردوسراشخص اپنے ازدواجی زندگی اورشب وروزکی محنت شاقہ سےپالی ہوئی اولادکے ہاتھوں کون کے آنسوبہاتاہواشائداسی لئے نظر آرہاہے کہ ہماراسب کچھ قرقی کرلیاجاتاہے جس کی پاداش میں ہمیں باعثِ عبرت بنادیاجاتاہے۔مختلف قسم کی بیماریوں میں مبتلاہوکربالآخر ایڑیاں رگڑتے ہوئے اس طرح جہانِ فانی سے کوچ کرجاتے ہیں کہ کفن دفن کیلئے چندہ جمع کرنے کی نوبت آجاتی ہے۔
پس تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کوجھٹلاؤگے…….!

میں ابھی باباجی کے پندونصائح کواپنی روح ودل میں اتارنے اوراپنے حافظہ میں محفوظ کرنے کیلئے جتن کررہاتھاکہ مقبوضہ کشمیرسے میرے ایک انتہائی عزیزنے فون پرایساہی پیغام ارسال کیاتوضروری سمجھاکہ اس کابوجھ بھی آپ سے شئیرکرلوں کہ ممکن ہے کہ ان پرعمل ہماری زندگی کے شب وروزمیں عقبیٰ وآخرت کی نجات کا وسیلہ بن جائیں:

“انسان جب اپنی غلطیوں کاوکیل اوردوسروں کی غلطیوں کاجج بن جائے توپھرفیصلے نہیں فاصلے بڑھ جاتے ہیں،اگرکچھ الگ کرناہے توبھیڑسے ہٹ کرچلو،بھیڑہمت تو دیتی ہے مگرشناخت چھین لیتی ہے۔انسان ہمیشہ تکلیف ہی میں سیکھتاہے، خوشی میں توپچھلے سبق بھی بھول جاتاہے۔ہارناتب ضروری ہوتاہے جب لڑائی اپنوں سے ہواورجیتناتب ضروری ہوتاہے جب لڑائی اپنے آپ سے ہو۔خامیاں سب میں ہوتی ہیں مگرنظرصرف دوسروں میں ہی آتی ہیں۔قدرکرنی ہے توزندگی ہی میں کرو، چہرے سے کفن اٹھاتے وقت تونفرت کرنے والے بھی روپڑتے ہیں۔اگرکبھی ایسالگے کہ تم تھک چکے ہو،دعامانگنابھی مشکل لگے تواپنے رب کے سامنے ہاتھ پھیلالیا کرو، تمہارے پھیلے ہوئے ہاتھ اس بات کاثبوت ہے کہ تم ربِّ کائنات کے محتاج ہو اور بے شک میرارب خاموشیوں کوبھی سنتاہے۔میراکریم رب تواپنے بندے سے فرماتاہے کہ میرے لئے لُٹ کے تودیکھ،رحمت کے خزانے نہ لٹادوں توکہنا۔آپ کبھی بھی اپنے بارے میں لوگوں کی سوچ کوتبدیل نہیں کرسکتے اس لئے لوگوں کی پرواہ کئے بغیراپنی زندگی اس طرح بسر کیجئے جوآپ کوخوشی دے۔کوشش کروسب ٹُوٹ جائے مگروہ مان نہ ٹُوٹے جوکسی بہت اپنے نے خودسے زیادہ آپ پرکیاہو۔جوانسان لڑنے کے بعد بھی آپ کومنانے کاہنرجانتاہوتوسمجھ لیں وہ آپ سے بے پناہ محبت کرتاہے۔محبت اورعبادت بتائی نہیں جاتی بس کی جاتی ہے۔اللہ کی چاررحمتیں جوانسان سے برداشت نہیں ہوتیں،بیٹی،بارش، مہمان اوربیماری اورچارعذاب جوانسان خوشی سے قبول کرتاہے،جہیز،سود،غیبت اورجھوٹ۔ جو رشتہ آپ کےباربارآنسوبہانے کاسبب بنے تو سمجھ لیں اس نےاپنی مدت پوری کرلی اوراس سے جان چھڑانے ہی میں عافیت ہے۔زندگی میں سب لوگ رشتہ داریادوست بن کرنہیں آتے،کچھ لوگ سبق بن کربھی آتے ہیں۔دوسروں کی خوشیوں میں خوش ہوناسیکھیں،اللہ آپ کودینے میں بھی تاخیرنہیں کرے گا۔

چلتے چلتے نسخہ کیمیابھی ساتھ لیتے جائیں،یقیناًیہ نسخہ زندگی کی کایاپلٹ دینے کی طاقت رکھتاہے:
حضرت شبلی نے ایک حکیم سے کہا:مجھے گناہوں کامرض ہے اگراس کی دوابھی آپ کے پاس ہوتوعنائت کیجئے!یہاں یہ باتیں ہورہی تھیں اور سامنے میدان میں ایک شخص تنکے چننے میں مصروف تھا،اس نے سراٹھاکرکہا:
جوتجھ سے َلولگاتے ہیں وہ تنکے چنتے ہیں!شبلی !یہاں آؤمیں اس کی دوادیتاہوں۔

حیاکے پھول،صبروشکرکے پھَل،عجزونیازکی جڑ،غم کی کونپل،سچائی کے درخت کے پتے،ادب کی چھال،حُسنِ اخلاق کے بیج،یہ سب لے کر ریاضت کے ہاون دستہ میں کوٹناشروع کرواوراشکِ پشیمانی کاعرق ان میں روزملاتے رہو۔ان سب کودل کی دیگچی میں بھرکرشوق کے چُولہے پرپکاؤ ۔جب پک کرتیارہوجائے توصفائے قلب کی صافی میں چھان لینااورشیریں زبان کی شکرملاکرمحبت کی تیزآنچ دینا۔جس وقت تیارہوکراترے تواس کوخوفِ خداکی ہواسے ٹھنڈاکرکے باوضوہوکراستعمال کرنا”۔
حضرت شبلی نے نگاہ اٹھاکردیکھا،وہ دیوانہ غائب ہوچکاتھا!
وہ جوبیچتے تھے دوائے دل
دوکان اپنی بڑھاگئے
خوش رہیں،خوشیاں بانٹتے رہیں،میں تومنادی کرنے آیاتھا،اپناکام کرکے جارہاہوں:

اپنا تبصرہ بھیجیں