افغانستان اوربلیک واٹر

:Share

قصرسفیدکے نئے فرعون ٹرمپ کی افغانستان کے بارے میں نئی پالیسی کوگیارہ مہینے گزرچکے ہیں اوراس پالیسی میں درجنوں مرتبہ ترمیم کے باوجود ہرمرتبہ ناکامی کامنہ دیکھناپڑاہے اوراب ایک مرتبہ پھرآخری بنانبارکامیاب ے کیلئے افغانستان میں سابق امریکی سفیرزلمے خلیل زاد کو افغانستان اور پاکستان کیلئے خصوصی نمائندہ تعینات کرکے آئندہ چنددنوں میں عملدرآمد کیلئے بھیجاجارہاہے۔یوں اب ایک بارپھرافغانستان میں زلمے کے ذریعے نئے ظلم وستم کی تیاری مکمل کرلی گئی ہے اورامریکی وزیرخارجہ نے امریکی صدرٹرمپ کواس حوالے سے اعتمادمیں لیاہے۔زلمے خلیل زاد افغانستان میں نہ صرف سفیرکے فرائض سرانجام دے چکاہے بلکہ افغانستان سے تعلق ہونے اورپشتون ہونے کی بناء پراسے افغانستان کے کئی اہم حلقوں تک رسائی حاصل ہے۔زلمے خلیل زادکی تعیناتی سے قبل افغان جنگ کوبلیک واٹرکے حوالے کرنے پربھی غورکیاجارہاہے جس سے افغانستان میں نئی اور خوفناک جنگ کی تیاری ہو رہی ہے اورافغانستان میں بلیک واٹرکے ذریعے طالبان کے اہم رہنماؤں کوقتل کرنے کی کوشش کی جائے گی ۔اس حوالے سے بلیک واٹرکے سربراہ ایرک پرنس کے ساتھ بات چیت آخری مراحل میں ہے اورایرک پرنس حالیہ دنوں میں دومرتبہ افغانستان کا دورۂ کرچکا ہے۔
زلمے خلیل زادکرزئی کے آخری دورِ حکومت میں افغانستان میں امریکی سفیرتھااوراس نے نہ صرف حامدکرزئی کودوبارہ انتخابات میں کامیاب کروایا تھابلکہ زلمے خلیل زادکادورہی افغانستان میں انتہائی ظلم وتشدداوربربریت کاخونی دورتھا۔اس کے پانچ سالہ دورمیں ہی بلیک واٹرکو افغانستان میں تعینات کیاگیاتھاجس نے نہ صرف بے گناہ افغانوں کوشہیدکیابلکہ اس کے کئی جاسوس پاکستان میں بھی پکڑے گئے جوبراہِ راست پاکستان میں دہشتگردی میں ملوث تھے ۔ پاکستان کی جوابی کاروائی میں بالآخربلیک واٹرکوافغانستان اورپاکستان سے فرارہونا پڑاتاہم خلیل زاد کی تعیناتی کے ساتھ افغانستان میں بلیک واٹرکی تعیناتی کی راہ ہموارہوجائے گی اورافغانستان کوایک بارپھرپیشہ وراوربے رحم قاتلوں کے حوالے کرنے کی تیاری کی جارہی ہے۔زلمے خلیل زادکرزئی دورِ حکومت میں امریکی سفارتخانے میں کم اورافغان صدارتی محل میں زیادہ وقت گزارتے تھے اوراکژکہاکرتے تھے کہ وہ افغانستان کے صدرسے زیادہ بااختیارہیں اوریہی وجہ تھی کہ کرزئی دورِ حکومت میں ساری اہم تعیناتیوں میں خلیل زاد کابنیادی کردارتھا ۔
زلمے خلیل زاد کے روس کے افغانستان پرحملے کے بعدمجاہدین کے ساتھ بھی خصوصی تعلقات وروابط بھی رہے اورپشاورمیں حکمت یار کے دفترکے باہرگھنٹوں انتظارکیاکرتے تھے۔زلمے خلیل زادچاہتے ہیں کہ وہ سابق مجاہدین کے ساتھ دوبارہ اپنے روابط بحال کریں اوراگرحکمت یار پارلیمانی انتخابات میں کامیابی حاصل کرلیتے ہیں اورخلیل زادامریکی فوج کے انخلاء کیلئے کوئی راستہ نکالتے ہیں تویہ ان کی بڑی کامیابی ہوگی۔ امریکا زلمے خلیل زاد کے ذریعے افغانستان کے آئندہ صدارتی انتخابات میں ایک متفقہ امیدوارلانے کی بھی کوشش کررہے ہیں تاکہ امریکی انخلاء کیلئے راہ ہموارکی جا سکے۔ خلیل زادکی ممکنہ تعیناتی سے ایک طرف افغانستان میں کرزئی اور ان کے قریبی ساتھیوں کواقتدارمیں واپس لانے کی امید پیدا ہوگئی ہے جبکہ دوسری جانب پاکستان پرمزیددباؤبڑھانے کی حکمت عملی اپنائی جارہی ہے کیونکہ خلیل زادامریکامیں سابق پاکستان کے سفیر حسین حقانی کے ساتھ ان کی اہلیہ کے مختلف پراجیکٹس پرمشترکہ کام جاری ہے۔خلیل زاد اوران کی اہلیہ کے حسین حقانی کے ساتھ بڑے گہرے اورخصوصی تعلقات ہیں اورحسین حقانی کوپاکستانی عدالتوں سے بچانے کیلئے خلیل زاداپنی خصوصی کوششوں کوبروئے کارلانے کیلئے اپنے تعلقات کواستعمال کرنے کی پوری کوشش کریں گے تاہم خلیل زادکواس مرتبہ افغانستان اور پاکستان میں کامیابی ملنابہت مشکل ہے کیونکہ افغان طالبان نہ صرف زیادہ طاقتورہوگئے ہیں بلکہ افغانستان میں خلیل زادکی تعیناتی پربالکل حیران نہیں ہیں۔
طالبان ذرائع کاکہناہے کہ خلیل زادسمیت کسی بھی امریکی سفیرکی تعیناتی اب امریکاکے حق میں مفیدنہیں ہیاورنہ ہی بلیک واٹراب بے گناہ افغانوں کوہاتھ لگاسکتی ہے۔اگر افغانستان میں بلیک واٹر کوتعینات کیاگیایان کوافغان جنگ ٹھیکے پردی گئی توطالبان بلیک واٹرسے پرانی کاروائیوں کابدلہ لینے کیلئے پوری طرح نہ صرف تیارہے بلکہ اس کوسبق سکھانے کیلئے بیتاب بھی ہے خاص طورپرطالبان قیدیوں پرتشددکابدلہ تو ضرورلیاجائے گا۔طالبان اس حوالے سے مکمل مقابلے کیلئے پوری طرح تیارہے۔طالبان ذرائع کامزید کہناہے کہ بلیک واٹرکی تعیناتی سے افغانستان کے مسئلے کاحل نہ صرف ناممکن ہے بلکہ امریکانے اب مزیدخسارے کیلئے تیاررہناچاہئے۔افغانستان کے مسئلے کاسیدھاسادہ حل امریکی انخلاء میں ہے،امریکاخفیہ مذاکرات بھی کررہاہے اوردہمکیاں بھی دے رہاہے۔طالبان دونوں محازوں پرامریکاکامقابلہ کرنے کیلئے مکمل تیارہیں ۔
افغانستان میں بھی اب طالبان کوکوئی نہیں روک سکتاہے اوراس امرکااندازہ اس بات سے لگایاجا سکتاہے کہ شمالی افغانستان میں طالبان نے نادرن کوریڈورکیلئے ایک اصلاحاتی کمیشن قائم کر دیا ہے جس کی روڈکی دوبارہ تعمیر،پلوں اورخاص کربچیوں کی سکولوں کی تعمیرکیلئے نئے ٹیکس کی شرح کا اعلان کیاہے اوربغلان سے مرکزی افغانستان جانے والے بڑے آئل ٹینکروں سے تین سوپچاس ڈالرسے لیکرچھوٹی مال مالدارگاڑیوں تک ستر ڈالر ٹیکس لگادیاہے اوراس کیلئے ایسا کمیشن بنایاہے جوان پیسوں پرشمالی افغانستان میں بچیوں کے اسکول،سڑکوں کی دوبارہ تعمیر اور پلوں کی تعمیرکررہے ہیں۔اس کمیشن کے سربراہ ملافریدکاکہناہے کہ افغان طالبان افغانستان کے اصل حکمران ہیں اورمزیدشعبوں میں اصلاحات لائی جائیں گی تاہم خلیل زادکی تعیناتی سے موجودہ افغان صدراشرف غنی اوران کے ساتھی ناخوش ہیں کیونکہ خلیل زادموجودہ حکومت کو افغانستان میں طالبان کے اثرورسوخ بڑھانے کے ذمہ دارقراردے رہے ہیں کہ کرزئی کے بعد موجودہ صدرشمالی اتحادکے ہاتھوں نہ صرف بلیک میل ہواہے بلکہ کرپشن پر قابوپانے میں بھی مکمل طورپرناکام ہواہے۔ستمبر کے بعدامریکاافغانستان کی موجودہ پالیسی پرنظرثانی کرے گا اور قوی امکانات ہیں کہ امریکاسخت اقدامات اٹھانے کااعلان کرے گاجواس کے آخری اقدامات ہوں گے ۔بعض اہم ذرائع کاکہناہے کہ خلیل زادکی تعیناتی افغانستان میں امریکی پالیسی کوکامیاب بنانے کی آخری کوشش ہے اوراس میں ناکامی پرفوری اچانک انخلاء کااعلان بھی کرسکتاہے۔
امریکی ذرائع ابلاغ کے اہم رپورٹوں کے مطابق صدرٹرمپ امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کی حکمت عملی سے قطعی مایوس ہوچکے ہیں چنانچہ انہوں نے بلیک واٹرکے بانی ایرک پرنس کی اس تجویزپرغورکرناشروع کردیاہے کہ افغان جنگ کوپرائیویٹ ٹھیکیداروں کے حوالے کردیاجائے ۔ بلیک واٹرکے بانی نے گزشتہ سال افغان جنگ سے متعلق امریکی کمانڈر انچیف کی نظرثانی کے دوران ٹرمپ کومشوردیاتھاکہ وہ پرائیویٹ مسلح افرادسے مددلیکر افغانستان پرتسلط جاری رکھ سکتے ہیں۔ایرک پرنس کے خیال میں امریکی محکمہ دفاع نے جوکچھ مانگا اسے دیاگیا لیکن اس کے خاطرخواہ نتائج برآمدنہیں ہوئے۔افغانستان میں شدیدجانی مالی وجانی نقصانات کے بدلے میں امریکااوراس کے اتحادیوں کوکچھ نہیں ملا،نتیجہ یہ کہ انہیں اپنے ڈیڑھ لاکھ کے قریب فوجیوں کوافغانستان سے واپس بلاناپڑا۔امریکاکے چندہزارفوجی افغانستان میں موجودہیں جوکٹھ پتلی افغان حکومت کے تحفظ میں لگے ہوئے ہیں ۔وہ ملک سے طالبان کوزورتوڑنے میں بری طرح ناکام ہوئے رہے جوغزنی سے کابل کی طرف پیش قدمی کررہے ہیں۔
عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق افغان طالبان کاملک کے سترسے اسی فیصدعلاقوں پرقبضہ یاشدید ترین اثرونفوذہے۔اشرف غنی خوداوران کی حکومت کے ارکان کابل کے صدارتی محل اورصدارتی عمارتوں سے باہرنکلنے کی ہمت نہیں کرتے جبجکہ امریکی فوجیوں کی جانب سے ان کے تحفظ و سلامتی کے زبردست انتظامات کئے جاتے ہیں۔امریکاکے بعدافغان طالبان بھی اپنے ملک سے جنگ ختم کرنے کیلئے مذاکرات کیلئے آمادہ ہیں تاہم طالبان قیادت کاکہناہے کہ جب تک افغانستان پر”غیرملکی فوجی قبضہ”جاری رہے گا،جنگ ختم نہیں ہو سکتی۔طالبان اپنے ملک میں امریکی فوجی دستوں کی موجودگی کوغیرملکی قبضے کانام دیتے ہیں اوراس کامکمل خاتمہ چاہتے ہیں۔ گزشتہ چنددن کے دوران کابل کے اردگردطالبان کے حملوں اوردارلحکومت کی جانب ان کی تیزی سے پیش قدمی کے باعث ،جہاں امریکی تربیت یافتہ کٹھ پتلی حکومت کے سرکاری فوجی خوفزدہ ہیں۔اس کے ساتھ ہی وہاں موجود امریکی فوجیوں کے حوصلے بھی پست ہوتے جارہے ہیں اوروہ ہرصورت میں افغانستان سے نکلناچاہتے ہیں۔
سترہ سال کے قبضہ وتسلط کے بعدامریکاکواپنی مکمل شکست اورپسپائی کاداغ قبول نہیں،اس لئے اب بلیک واٹر کی خدمات حاصل کرنے پرغورکیا جارہاہے۔یادرہے کہ بلیک واٹرکرائے کے فوجیوں پرمشتمل ایک ایسی خونخوارپرائیویٹ تنظیم ہے جو 1997ء میں سابق بحری افسراوراربوں ڈالر کے مالک ایرک پرنس نے قائم کی تھی۔مختلف ملکوں خاص طور پر عراق میں دہشتگردسرگرمیوں سے بدنامی کے بعداس کانام پہلے تبدیل کرکے” ایکس ای” کیاگیا لیکن اب یہ ایکمی کہلاتی ہے۔ابتدائی طورپراسے امریکی فوجیوں کیلئے تربیتی سہولتیں اورانفراسٹرکچرفراہم کرنے کیلئے قائم کیاگیا تھا لیکن بعد میں اسے کچھ ملکوں میں امریکاکی وحشت اوردہشت قائم رکھنے اورپھیلانے کیلئے استعمال کیاجانے لگا۔آہشتہ آہستہ بلیک واٹرنیاپنادائرہ کاروسیع کرنا شروع کیاتواس نے فوجی سامان کی ترسیل،بحرانوں پرقابوپانے،سفری سہولتیں فراہم کرنے،سیکورٹی کے امورسنبھالنے اور آپریشنزکی ذمے داریاں بھی قبول کرنی شروع کردیں۔
ادھرپاکستان کے نئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنے عہدے کا حلف اٹھاتے ہی پہلی پریس بریفنگ میں خارجہ پالیسی کا ازسر نو جائزہ لینے اور سفارتی مشنز کی بلاجواز اکھاڑ پچھاڑ نہ کرنے کا عندیہ دیاتھا۔ شاہ محمود قریشی حکمراں جماعت میں ایک اہم مقام بھی رکھتے ہیں ۔ پاکستان مسلم لیگ سے پاکستان پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف میں آنے والے شاہ محمود قریشی پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں بھی وزیر خارجہ رہ چکے ہیں اور انہیں پاکستان کو درپیش خارجی معاملات پر مشکلات کا ادارک ہے۔ پاکستان کیلئے سب سے بڑا مسئلہ اس وقت امریکی انتظامیہ بنی ہوئی ہے او ر نئی حکومت کو بھی امریکی انتظامیہ نے اپنے پیغام میں سابقہ رویوں کو ہی دہرایا ہے۔ امریکی اعلی عہدے دار نے امریکی پالیسی کے عنوان سے صحافیوں کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے ایک مرتبہ پھر پاکستان پر الزام لگایا ہے کہ دہشتگرد گروپ پاکستان کی سر زمین میں موجود ہیں ۔ امریکا نے زور دیتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ وہ دہشتگردوں کے خلاف کاروائی کرے یا افغانستان دھکیلے۔
اپنی گفتگو میں امریکی محکمہ خارجہ کی اعلی عہدیدار کا کہنا تھا کہ امریکہ پاکستان کی نئی حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے کا خواہاں ہے اور امریکی حکومت پاکستان کی سرحدوں کے دونوں جانب امن کی اہمیت سے متعلق وزیرِ اعظم عمران خان کے بیان کا خیرمقدم کرتی ہے۔ افغانستان اور خطے میں سکیورٹی کی صورتِ حال سے متعلق ایک سوال پر ایلس ویلز کا کہنا تھا کہ افغانستان کی صورتِ حال میں بہتری کیلئے پاکستان کا کردار بہت بنیادی ہے۔انہوں نے کہا کہ امریکہ پاکستان پر زور دیتا آیا ہے کہ وہ یا توافغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کیلئے سخت اقدامات کرے یا پھر انہیں اپنی سرزمین سے بے دخل کرکے واپس افغانستان جانے پر مجبور کرے۔ امریکی عہدے دار نے ایک مرتبہ پھر خطے میں بھارت کے کردار کو بڑھانے کی ضرورت پر زوردیا ہے۔ پاکستانی حکام ان الزامات کی تردید کرتے آئے ہیں اور ان کا مؤقف ہے کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران سرحدی علاقوں میں پاکستانی فوج کی کارروائیوں کے بعد ایسے تمام مبینہ ٹھکانے ختم کیے جاچکے ہیں۔لیکن امریکا پاکستان کے موقف پر اپنی ضد اورڈومورکوترجیح دیتے ہوئے پاکستان پردباؤبڑھانے کی ہرسطح پرکوشش کررہاہے،یہی وجہ ہے کہ امریکی وزیرِخارجہ مائیک پومپیوستمبر کے پہلے ہفتے میں پاکستان کا دورہ کرنے کے بعدکوئی مشترکہ اعلامیہ سامنے نہیں آیاجبکہ شاہ محمودقریشی نے “ڈوموڑ”کے بار ے میں جاری پروپیگنڈے کی سختی سے تردیدکی ہے۔
اپنی دو تقاریر میں عمران خان نے امریکا کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کو برابری کی سطح پر قائم رکھنے کا عندیہ دیا تھا ۔ لیکن گذشتہ حکومتوں کے بھی اس قسم بیانات سامنے آتے رہے ہیں۔ نئی حکومت کیلئے امریکی انتظامیہ کا رویہ کس قدر معاوندانہ ہوتا ہے اس کا اندازہ تو امریکی عہدے داروں کے ان نئے بیانات سے ہورہا ہے کہ امریکا پاکستان کو درپیش معاشی دشواریوں کی آڑ میں دبا ؤبڑھا کر ماضی کی طرح مطالبات کو منوانے کی کوشش کرسکتا ہے۔ نئی حکومت سے اس بات کی توقع تو نہیں کی جاسکتی کہ وہ امریکا کے ساتھ اپنے تعلقات کو خراب کرنے کیلئے سرد ست سخت عمل کا مظاہرہ کرے گی کیونکہ پاکستانی معیشت بہرحال اس وقت امریکی مالیاتی اداروں کے چنگل میں ہے اور کسی بھی معاشی کمزور حکومت کیلئے اس وقت سخت اقدامات لینا نہایت دشوار گزار فیصلہ ہو گا۔
پاکستانی وزیرخارجہ شاہ محمودقریشی امریکا کے ساتھ تعلقات کی سرد مہری کو کس طرح کم کرسکتے ہیں اس کاباقاعدہ لائحہ عمل سامنے نہیں آیا ہے۔ نئی حکومت کی جانب سے مستقبل کی پالیسیوں کے حوالے بڑے دعوے توسامنے آرہے ہیں لیکن زمینی حقائق کے مطابق لائحہ عمل کا ایسا کوئی منصوبہ بہرحال نہیں آسکا ہے جس کے بعد یہ رائے قائم کی جاسکے کہ پاک امریکا تعلقات میں تنا ؤکم ہو سکتا ہے۔ نومنتخب وزیراعظم عمران کی جانب سے یہ اعلان بھی سامنے آچکاہے کہ وہ تین مہینے دوران کسی بیرون ملک دورے پربھی نہیں جائیں گوکہ وزیراعظم کاحلف اٹھانے سے قبل عمران خان کوبھارت،افغانستان،ایران اورپھر چین سمیت دیگرممالک سے دورے کی دعوت مل چکی ہے لیکن وہ سعودی عرب کے دورے پرجلدہی روانہ ہونے والے ہیں۔ اقوام متحدہ کے آئندہ ماہ اجلاس میں بھی پاکستانی وفد کی قیادت وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ہی کریں گے۔اقوام متحدہ میں پاکستانی مندوب ملیحہ لودھی نومنتخب وزیراعظم سے بنی گالہ میں ملاقات کرچکی تھی جس میں انہوں نے اقوام متحدہ کے اجلاس کے حوالے سے بریفنگ بھی دی تھی۔ تاہم اس وقت پاکستان جن مسائل کاشکار ہے اس سے باہرنکلنے کیلئے پاکستان کی نئی حکومت کوابتداہی میں بڑے سفارتی چیلنج کاسامناکرناپڑگیاہے۔
ادھرافغانستان میں تیزی سے تبدیل ہوتی صورتحال اورکابل دوہری حکومت کی عسکری کمزوریوں اورپاکستان پرالزام تراشیوں کی روش پاکستان کی نئی حکومت کیلئے ایک بڑے چیلنج کادرجہ رکھتی ہے۔ شاہ محمود قریشی نوآموزوزیرخارجہ نہیں ہیں۔پاک امریکاتعلقات کے علاوہ پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات کے مد وجزرکو اچھی طرح جانتے ہیں اورانہیں ان مشکلات کابھی ادارک ہے کہ ان کیلئے ان مشکلات کوانفرادی حیثیت میں دورکرناممکن نہیں ہے۔ پاکستان کی عسکری قیادت اوران پالیسیوں کولیکرچلنا سول حکومت کیلئے بھی ایک امتحان ہے کہ خارجہ پالیسی کے معاملات میں ماضی میں جو مشکلات درپیش رہی ہیں ا ب سول،ملٹری تعلقات احسن اندازمیں آگے بڑھ سکیں۔عموماًیہی ہوتارہاہے کہ امریکی عہدے دارسول حکومت سے علیحدہ اورعسکری قیادت سے جداگانہ ملاقاتیں کرکے یہ تاثر دیتی رہی ہے کہ پاکستان کی سول وملٹری قیادت ایک صفحے پرنہیں ہیں۔سابق حکومت میں ایک مرتبہ ایساعمل ضرورہواجب سول وملٹری قیادت نے ایک ساتھ بیٹھ کرامریکی اہم عہدے دارسے ملاقات کی اورپاکستانی مؤقف پردونوں سول ملٹری قیادت نے یکجا ہوکرایک مثبت پیغام دیاچونکہ عمران خان تبدیلی کانعرہ لیکرآئے ہیں اور امریکاکے ساتھ ماضی کی غلطیوں کاازالہ کرنے کادعویٰ کرتے ہیں توان کیلئے یہ امتحان بھی ہے اوران کے بلند بانگ دعوؤں کاامتحان بھی۔
عمران خان وزیر اعظم بننے کے بعدعالمی سیاست کی پرخاروادی میں قدم رکھ دیاہے اوراب ان کے وزیرخارجہ کاامتحان ہے کہ آئندہ دنوں میں امریکا کوکس طرح مطمئن کرپاتے ہیں کہ پاکستان میں دہشتگردوں کے ٹھکانے موجودنہیں ہیں۔ سابق وزیراعظم میاں نوازشریف اورعسکری قیادت تو کئی بارامریکاکوباورکراچکے ہیں کہ پاکستان میں دہشتگردوں کی پناہ گاہوں کاقلع قمع کیاجاچکاہے لیکن افغانستان میں پاکستان کی بقاوسلامتی کے دشمن بہرحال موجودہیں جن کے خلاف امریکااور افغانستان کی دوہری حکومت قابل ذکرکوئی کردارادانہیں کررہی۔عام انتخابات میں افغانستان کی سر زمین میں موجوددہشتگردتنظیموں نے پاکستانیوں کابڑاجانی نقصان کیاتھالیکن اس کے باوجود پاکستان کے خلاف امریکااورافغانستان کی ہرزہ سرائی میں کمی واقع نہیں ہورہی۔ کابل میں حالیہ دھماکوں کاالزام کابل حکومت نے ایک مرتبہ پھرپاکستان پرعائد کرتے ہوئے اعتمادکی فضاکو نقصان پہنچایاہے۔کابل حکومت افغان طالبان کی بڑھتی قوت سے سخت خوف زدہ ہوچکی ہے ۔ افغان طالبان جب چاہتے ہیں کسی بھی شہر میں بڑا حملہ کرکے افغان سیکورٹی فورسزکوشدید نقصان پہنچاتے ہیں اورحملے کے بعد اپنی قوت کامظاہرہ کرکے واپس اپنی محفوظ پناہ گاہوں میں بھی چلے جاتے ہیں۔یہ عمل کابل حکومت اورامریکی انتظامیہ کیلئے دنیابھرمیں سبکی کاباعث بنا ہواہے۔افغانستان کادارالحکومت کاصدراتی محل بھی اب مزاحمت کاروں کے حملوں سے محفوظ نہیں رہاہے۔افغانستان کی 99ویں یوم آزادی کی تقریبات اورصدارتی محل میں صدراشرف غنی کی تقریر کے دوران مسلح راکٹ حملوں سے دنیابھریہ پیغام ایک مرتبہ پھرگیاکہ کابل دوہری حکومت کی عمل داری مکمل طور پرکمزورہوچکی ہے۔
وزیر اعظم پاکستان عمران خان اپنے سیاسی جلسوں میں کئی بارایسی مناظرچلاچکے ہیں کہ امریکا،ماضی میں پاکستانی صدر کا کس طرح استقبال کیاکرتے تھے بقول عمران خان اب پاکستان کی یہ حالت ہوگئی ہے کہ منتخب وزیراعظم کے کپڑے تک اتارلئے جاتے ہیں۔ سفارتی معیارو اقدارکے مطابق ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ کسی بھی ملک کاہم منصب اپنے ہم منصب سے ہی ملاقات وگفت وشنیدکرے،پاکستانی قوم اس بات کی توقع نومنتخب وزیراعظم سے بلاشبہ ان کی تقاریرکی روشنی میں بجاطورپرکررہی تھی لیکن وزیراعظم عمران خان امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیوکے پاکستانی دورے میں ان سے ملاقات کیلئے کیوں مجبورہوگئے،اس کاجواب تووہ خودیں گے۔ بظاہریہ ایک مشکل عمل ہے لیکن یہ ناممکن نہیں ہے کیونکہ پاکستان اپنی جغرافیائی اہمیت اوراصولی مؤقف کی وجہ سے امریکی انتظامیہ کے اہم عہدے دارکے ساتھ برابری کی سطح پرگفت وشنید کرچکاہے۔
امریکا،پاکستان پرجتنا دباؤبڑھاناچاہتا تھاوہ بڑھاچکا،امریکاکوپاکستان کی جتنی امدادکم کرناتھی وہ اس نے کم کردی،بھارت کی چاپلوسی کے تمام ریکارڈامریکاتوڑچکاہے۔افغانستان کے دشنام طرازیوں کی پشت پناہی میں کسی قسم کی کسر نہیں چھوڑتا تو پھر اس کے بعد امریکا کا پاکستان پردباؤبڑھانے کیلئے کیاکرداررہ جاتاہے؟مذہبی عدم برداشت کی واچ لسٹ میں پاکستان کوشامل کرا چکاہے ۔پاکستان پردباؤ بڑھانے کیلئے ایف ٹی ایف کی گرے لسٹ میں نام دوبارہ داخل کراچکا ہے ۔ بلیک لسٹ میں پاکستان کانام ڈلوانے کی ہرسعی کرچکاہے۔سی پیک منصوبے پرامریکی عزائم ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔دیامیرمیں پانی کی قلت کودورکرنے کیلئے ڈیم بنانے کی اشد ضرورت ہے، لیکن مالیاتی اداروں کوامریکا ڈکیٹیشن دے چکاہے کہ دیامیر اوربھاشاڈیم پرپاکستان کی مالی امداد نہ کی جائے،یہاں تک کہ ابھی پاکستان نے اپنے قرضوں کی ادائیگی کیلئے آئی ایم ایف میں بیل آؤٹ پروگرام کی کوئی درخواست بھی نہیں دی تھی کہ مالیاتی ادارے کوامریکا نے براہ راست ڈکٹیشن دے کرپاکستان کو بیل آؤٹ فنڈ دینے سے منع کردیا۔امریکا نے پاکستان کےفوجیوں کی تربیتی پروگرا م کو بھی ختم کردیااورحالیہ بجٹ میں مختص فنڈزمیں ختم کردیا ۔
پاکستان کو اپنی مربوط اوردوررس خارجہ پالیسی بنانے کیلئے جہاں عسکری قیادت کی تجاویز کی ضرورت ہوگی وہاں پارلیمنٹ کوبھی اعتماد میں لیکرایک ایسی پالیسی منظورکرانی ہوگی جس کے بعدکسی بھی عالمی قوت کے دبا ؤکوبرداشت کرنے اوراسے جواب دینے کیلئے وزارت خارجہ کو پریشانی کاسامنا نہیں ہوگا۔پاکستان وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کایہ کہنا دلچسپ ہے کہ”یہ تو وہی جگہ ہے گزرے تھے ہم جہاں سے”لیکن اب حالات وواقعات وعالمی سیاسی منظرنامہ مکمل طور پربدل چکاہے۔اس بات کا ادارک بھی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو ہوگا کہ لفاظی سے پاکستان کے مسائل کوختم یاکم نہیں کیاجاسکتا۔اس کیلئے پارلیمان کواعتماد میں لےکرجرأت اورخوداعتماد ی کا مظاہرہ کرناہوگاکیونکہ اس وقت پاکستان جس نازک دورسے گزررہاہے اس کی درستگی کیلئے کافی وقت،قوت ووسائل درکارہوں گے تاہم پاکستان کوان دنوں خطے کے بدلتے حالات سے فائدہ اٹھانے کیلئے روس اورچین کی مشاورت کے بعدامریکاکے بڑھتے ہوئے دباؤکامقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔
افغانستان میں کابل دوہری حکومت ایک مرتبہ پھرافغان طالبان کومشروط مذاکرات کی پیشکش کر چکی ہے جس کاپاکستان نے بھی خیرمقدم کیاہے ۔کابل حکومت نے عیدالفطر کی طرح افغان طالبان سے تین مہینے کی جنگ بندی کی بھی اپیل کی ہے جیسے افغان طالبان مستردکرچکاہے کیونکہ عید الفطرمیں سیزفائرسے غلط فائدہ اٹھاکر افغان طالبا ن کے اجتماع کوجانی نقصان اورغلط پروپیگنڈا کیاگیاتھا۔اس وقت افغان طالبان کی مسلح مزاحمت پوری قوت کے ساتھ کابل حکومت اورامریکی اتحادیوں کیلئےدر سر بنی ہوئی ہے۔ پاکستان میں اس وقت نئی حکومت آئی ہے۔اس لئے امریکا و کابل حکومت کے ساتھ افغان طالبان کومذاکرات کی میزپرلانے کیلئے حقیقی معنوں میں وقت درکار ہوگا۔چین،ایران اورروس کے ساتھ پاکستان کی سہ فریقی کانفرنسوں کے بعد افغان طالبان کاامریکا کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے اصولی مؤقف کوبھی دیکھناپاکستان کیلئے اہمیت کاحامل ہے۔ پاکستان کے نو منتخب وزیراعظم عمران خان بھی جنگ کی بجائے مذاکرات کے حامی ہیں لیکن اس کیلئے دشوارراستوں کوہموارکرنے کیلئے امریکااورنیٹو اتحادیوں کواپنے مؤقف میں بھی لچک پیداکرناہوگی۔خاص طورپرافغان طالبان اورسعودی حکومت کے درمیان تعلقات میں جو دوریاں پیدا ہوئی ہیں،اس نے افغانستان کے مسئلے کومزید گھمبیربنادیاہے۔متحدہ عرب امارات اورسعودی حکومت ماضی کے بجائے اس بارامریکی مفادات کوترجیح دے رہے ہیں جس پرافغان طالبان کے امیرنےعید الاضحی میں دیئے گئے پیغام میں اپنی ناراضگی کااظہارکرتے ہوئے سعودی عرب کو اپنا پراناموقف اپنانے کی ضرورت پرزوردیاہے کہ جس طرح سعودی حکمرانوں نے روس کی جنگ میں افغان طالبان کی اس لئے مدد کی تھی کیونکہ سوویت یونین جارح تھا،اسی طرح امریکا بھی ایک ایک جارح مملکت ہے جس نے افغانستان میں بزور طاقت قبضہ کرنے کی کوشش کی ہے جو 17برسوں میں بھی کامیاب نہیں ہوسکے ۔
زمینی حقائق پاکستان کیلئے بڑے دشوارگزارہیں کیونکہ ایک جانب پاکستان نے لاکھوں افغان مہاجرین کو مملکت میں پناہ دی ہوئی ہے جسےکابل حکومت واپس لینے میں لیل وحجت کررہی ہے تو دوسری جانب پاکستان سوویت یونین کی جنگ کے مضمرات سے باہر نہیں نکل سکا اور افغان، سوویت یونین جنگ کے مسلح گروپوں نے پاکستان میں محفوظ پناہ گائیں بنا لی تھیں جن کوپاکستانی افواج نے بڑی قربانیوں کے بعدمکمل طورپر خالی کروالیاہے۔اب اگرپاکستان افغان طالبان کے خلاف امریکی وسعودی پالیسی پرمصررہتاہے اوراس جنگ کاحصہ بنتاہے جس کامطالبہ امریکا کر رہا ہے توایسی جنگ کا متحمل پاکستان نہیں ہوسکتا۔پاکستان کے نومنتخب وزیراعظم عمران خان اوروزیر خارجہ شاہ محمودقریشی خارجہ پالیسی کب بناتے ہیں اوراس خارجہ پالیسی پرعمل پیرابھی رہ پاتے ہیں،یہ آنے والاوقت بتائے گاتاہم نئی حکومت سازی کے اس موقع پرامریکی منفی بیانات اورڈومور کے مطالبے انتہائی مشکل کاسبب بننے کاامکان ہے۔
ایک بارپھریہ اطلاعات سامنے آرہی ہیں کہ امریکی انتظامیہ بھی افغانستان کی موجودہ صورتحال سے سخت نالاں،بیزاراوربھاری جانی ومالی تقصانات کی وجہ سے افغانستان کی جنگ کوامریکی فوجیوں کی جگہ پرائیوٹ سیکورٹی ادارے بلیک واٹرکوٹھیکہ پردینے کیلئے پرتول رہی ہے جو انسانی حقوق کی سخت خلاف ورزیوں کی وجہ سے سفاک و بدترین قاتلوں کی دہشتگرد تنظیم قرار دی جاچکی ہے۔ مغربی ذرائع ابلاغ سے موصولہ اطلاعات کے مطابق ایرک پرنس نے بلیک واٹر کی بدنامی کے بعدکمپنی بیچ کر ایک نئی سیکیورٹی کمپنی قائم کرلی اوراب وہ اس کیلئے افغانستان کاکنٹریکٹ حاصل کرناچاہتے ہیں۔ارب پتی امریکی کاروباری شخصیت ایرک پرنس نے افغانستان میں امریکاکی جنگ پرائیویٹ کمپنی کودینے کی تجویز پیش کی ہے جس پراطلاعات کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ دلچسپی لے رہی ہے جب کہ کئی عہدےدار اس تجویز کوگمراہ کن قراردے رہے ہیں ۔ ایرک پرنس افغانستان کی جنگ ٹھیکے پر حاصل کرنے کیلئے باقاعدہ میڈیا مہم چلا رہا ہے ۔ ایرک پرنس افغانستان کی جنگ میں45/ارب ڈالر سالانہ امریکی اخراجات کی جگہ 10ارب ڈالر اور 90 پرائیوٹ طیاروں کے ساتھ کام کرنے کی تجویز امریکاکو دے رہا ہے ۔
ایرک پرنس گزشتہ ایک برس سے اپنے منصوبے پرامریکی انتظامیہ کوقائل کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور مغربی ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکی صدر ٹرمپ نے امریکی فوجیوں کی ناکامی اور بھاری اخراجات کی لاحاصل جنگ سے باہرنکلنے کیلئے ایرک پرنس کی تجویزپرغورکرنا شروع کردیا ہے۔ نئی افغان حکمت عملی کاایک سال مکمل ہونے اورمطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکامی کی وجہ سے ایرک پرنس کوامیدہے کہ اس باران کا منصوبہ توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے گا۔این بی سی نیوز نے پچھلے ہفتے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ صدر ٹرمپ پرنس کی نئی ویڈیو سے متاثردکھائی دیتے ہیں اورنیوی سیل کے سابق عہدے دارکے منصوبے میں دلچسپی لے رہے ہیں کیونکہ انہیں افغانستان میں امریکی حکمت عملی ناکام ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ اطلاعات کے مطابق اگر پرنس افغان جنگ کاٹھیکہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں توہزاروں امریکی فوجی اپنے گھروں کوواپس چلے جائیں گے اوران کی جگہ نسبتاً کم تعداد میں پرائیویٹ سیکیورٹی اہل کارلے لیں گے جنہیں 90 طیاروں پرمشتمل ایک پرائیویٹ ایئرفورس کی مددحاصل ہو گی۔پرنس کاکہنا ہے کہ ان کی پرائیویٹ سیکیورٹی کمپنی امریکاکی افغانستان حکمت عملی کوآگے بڑھائے گی اورپرنس کے بقول ان کی کمپنی افغانستان میں امریکاکے ایک وائسرائے کے طورپرکام کرے گی۔بلیک واٹرکانیانام کچھ بھی ہو،یہ اب تک پرانے نام سے ہی پہچانی جاتی ہے۔امریکاکے موجودہ انتہاء پسنداورجنونی صدرٹرمپ افغانستان کیلئے اس دہشتگردتنظیم کی خدمات حاصل کرنے پرغور افغان مسئلہ حل کرنے سے زیادہ،اسے مزیدپیچیدہ اورخطرناک بنادے گا۔اسی لئے امریکی سیکورٹی کونسل کے کے ترجمان کوفی الحال یہ وضاحت کرنے کی ضرورت پیش آئی کہ افغانستان میں بلیک واٹرتنظیم کوجنگ کی ذمے داری دینے پرکوئی غورنہیں کیاجارہاہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں