کابل میں کوئی خودکش حملہ نہ بھی ہو تو اکثر یہ بندوق بردار گروہوں کی گرفت میں ہوتا ہے، جنہیں ملکی اشرافیہ کا تحفظ اور آشیرباد حاصل ہوتی ہے، اگر قومی حکومت اس بدامنی پر قابو نہیں پاسکتی تو یہ امر بہت سے لوگوں کیلئےباعث حیرت ہوگاکہ پھر یہ ملک کے دور دراز علاقوں میں پھیلی یورش پر کیسے قابو پاسکتی ہے؟کابل پولیس کے چیف جنرل سید محمد روشن دل نے نیویارک ٹائمزکو ایک انٹرویو میں بتایاکہ ’’عوام کی اکثریت کی تشویش کی وجہ وہ ٹھگ گروہ ہیں، جو طاقت کی بات کرتے ہیں، جو قانون شکنی کرتے ہیں، جن کے پاس مسلح ملیشیا ہیں‘‘۔ نئے وزیر داخلہ امر اللہ صالح اور پولیس چیف جنرل روشن دل کے مطابق اب حکومت نے کابل میں امن و امان کی بحالی کی منظم کوششیں دوبارہ شروع کر دی ہیں، جوکہ ریکارڈ ہلاکتوں کی وجہ سے ختم ہو چکی تھیں یا کرپشن اور وار لارڈز کے طاقت کے غلط استعمال کی وجہ سے کمزور پڑ چکی تھیں۔
گزشتہ موسم خزاں میں پولیس اور انٹیلی جنس ایجنسیوں نے دعویٰ کیاہے کہ کابل اور اس کے گرد ونواح میں امریکی مددسےداعش کے ٹھکانوں پر ایک بھرپور حملہ کیا گیا، جس کے نتیجے میں حملوں میں کمی آئی ہے، اگرچہ شورش پسند چوری چھپے ٹرک بم حملوں کیلئےگولہ بارود لانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ اب پولیس فورسز کابل میں قائم ’’جرائم کے اہرام‘‘ توڑنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔حکام کہتے ہیں کہ انہوں نے شہر کے ان پندرہ سو افراد کی شناخت کرلی ہے، جو جرائم پیشہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں اور جن کے پاس تیس ہزار غیر قانونی ہتھیار موجود ہیں۔ ان کی بیخ کنی کا کام نچلی سطح سے شروع کیا گیا ہے اور اوپر بیٹھے چند طاقتور ہاتھوں تک جائے گا۔ جنرل روشن دل کہتے ہیں کہ ہم جرائم کی بنیادوں کو اس لیے ہلا رہے ہیں تاکہ اوپر کی عمارت خود ہی مسمار ہو جائے۔
اب ایک نیاحکم نامہ جاری ہواہےجس کے تحت پک اَپس اورٹرکوں میں بیٹھے مسلح افراد کیلئے فوجی یا انٹیلی جنس اہلکاروں کا پیچھا کرنے پر پابندی لگا دی گئی ہے، مقامی پولیس کہتی ہے کہ وہ مجرموں کے گروہوں کاقلع قمع کرنے کیلئےہرطرح کی طاقت استعمال کرے گی اور اس سلسلے میں اسپیشل فورسز بھی اس کی مدد کیلئےتیار ہیں۔ نیا حکم جاری ہونے کے بعد پہلے ہی دن پولیس نے ملک کے نائب صدر اور پارلیمان کے طاقتور ارکان کی گاڑیاں قبضے میں لے لیں اور یہ ایسا اقدام ہے جس کا پہلے تصور بھی محال تھا۔
اس طرح کے اقدامات نے کابل میں ایک خوشگوار تبدیلی پیدا کی ہے اور اب امید ہوگئی ہے کہ پولیس طاقتور مقامی مافیا پر پوری شدت سے ہاتھ ڈالے گی۔جنرل روشن دل کو جو 14برس تک فوج میں خدمات سرانجام دے چکے ہیں، ستمبر میں اس وقت پولیس چیف مقررکیا گیا تھا جب کابل میں خود کش حملے عام تھے اور شہر ایک محاذ جنگ کا منظر پیش کر رہا تھا۔ انسداد دہشت گردی کا تجربہ رکھنے والے انٹیلی جنس چیف اور امریکی ایڈوائزرز کی مدد سے مقامی پولیس نے کابل شہر اور اس کے گرد و نواح میں دہشت گردوں کے ٹھکانے تباہ کرنے کیلئےتابڑ توڑ حملے کیے ہیں۔
امید کی اس کرن کی ایک وجہ نئے وزیر داخلہ امر اللہ صالح کی تقرری بھی ہے، جنہوں نے اس پولیس فورس کو ایک مرتبہ پھر ایک قومی ادارے کے طور پر اپنے پاؤں پرکھڑا کیا ہے، جو صرف گزشتہ چار برس میں اپنے19ہزارجوانوں سے ہاتھ دھو بیٹھی تھی۔امر اللہ صالح نے جو سابق انٹیلی جنس چیف رہ چکے ہیں، اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ پولیس پر مقامی وار لارڈز کا اثرورسوخ کم سے کم کر دیں گے اورپولیس فورس سے بدعنوانی کا خاتمہ کردیاجائے گااگرچہ ان کے اٹھائے گئے کئی اقدامات کوکابل میں سراہاجارہاہے مگرتجزیہ نگاراورمقامی شہری کہتے ہیں کہ پھیلی ہوئی تباہی سے نمٹنے کیلئےمزید گہری تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے۔ ویمین اینڈ پیس اسٹڈیز کی ایگزیکٹو ڈائریکٹروزمہ فروغ کہتی ہیں’’گزشتہ ہفتے سے عوام کی رائے تبدیل ہو گئی ہے، اب لوگ پُرامید ہیں اوروہ سمجھتے ہیں کہ صورتحال میں تبدیلی لائی جاسکتی ہے، لیکن اگر یہ کریک ڈاؤن جاری نہیں رہتا اور مجرمان اس دباؤ کی عارضی لہر کو برداشت کر جاتے ہیں تو وہ زیادہ طاقتور ہوکر ابھریں گے‘‘۔
کابل میں بیکری چلانے والے 26 سالہ محمد ظہیر کا نئے وزیر داخلہ کے بارے میں کہنا ہے کہ ’’جب آپ نئے نئے کسی عہدے پر فائز ہوتے ہیں تو آپ توانا اور پرجوش ہوتے ہیں مگر وقت یہ ثابت کرے گا کہ یہ سب کچھ محض دکھاوا ہے یاوہ سنجیدہ ہیں، مگر ایک دو ہفتوں سے کابل کی صورتحال تبدیل ہو گئی ہے۔ جرائم پیشہ افراد اس کے نام سے خوفزدہ ہیں، کیونکہ بہت سے طاقتور لوگوں کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے‘‘۔پچھلے ہفتے گرفتار کیے جانے والوں میں ملیشیا کا ایک کمانڈر بھی شامل ہے، جس پر ایک سو غیر قانونی ہتھیار رکھنے کا الزام تھا۔ ایک پارلیمانی امیدوار بھی ان میں شامل ہے، جو بزور طاقت بلند و بالا عمارتیں تعمیر کرتا تھا اور ایک رکن پارلیمان کا بھائی بھی، جس پر بھتہ لینے کا الزام تھا۔
مگر یہ سارا کام اتنا آسان نہیں ہے، جب پولیس نے ایک ملزم عبدالحمید خراسانی کو گرفتار کرنے کی کوشش کی تو وہ مقابلے پر اتر آیا، جس سے شمالی کابل مفلوج ہو کر رہ گیا اور وہ پولیس کے اندر اپنے چند بہی خواہوں کی مدد سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا۔ اب ایسی ویڈیو منظر عام پر آگئی ہیں جن میں خراسانی نے خود کو انصاف کیلئےلڑنے والے ایک جنگجو کے طور پر پیش کیا ہے، جسے وزیر داخلہ اپنے انتقام کا نشانہ بنا رہا ہے اس کے بقول جو خود سی آئی اے کا جاسوس ہے۔حال ہی میں ایسی تصاویر بھی بانٹی گئی ہیں، جن میں خراسانی ایک ہاتھ میں کلاشنکوف تھامے اپنی کتاب کی نمائش کرتادکھائی دیتاہےجس کاعنوان ہے Introduction to the Science of Politics اوراس کے عقب میں عراق کے سابق صدر صدام حسین اورلیبیاکے سابق صدرمعمر قذافی کے بڑے بڑے پوسٹر بھی نظر آتے ہیں۔
امراللہ صالح نے اپنے اسٹاف ممبرز کو بتایا کہ وہ پروفیشنلزم کے نئے معیار مقرر کرنا چاہتے ہیں، جس کے بعد پولیس کا بھی احتساب کیا جاسکے گا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے پولیس کو ترقی و تنزلی کے معاملات میں مقامی وار لارڈز کے اثر و رسوخ سے بچانے کا عزم بھی دہرایا۔کابل میں امر اللہ صالح نے مشتبہ افراد کے ناموں کا اعلان کیا، جن میں نیچے سے لے کر اوپر تک لوگ شامل ہیں اور انہیں الٹی میٹم دیا گیا ہے کہ وہ سرنڈر کرکے اپنے اوپر لگنے والے الزامات کا جواب دیں۔ اگر پولیس کو اپنے کام میں کسی قسم کی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تو ان کی مدد کیلئےاسپیشل کمانڈوز کوہائی الرٹ کردیا گیا ہے ۔جنرل روشن دل کہتے ہیں’’وہی پولیس جوکل تک ان بدمعاشوں کا مقابلہ کرنے سے قاصرنظرآتی تھی یاتھوڑاسادباؤپڑنے پرکنی کتراجاتی تھی،اب وہ سینہ تان کر کھڑی ہوتی ہے،حالانکہ ان کی تعداد میں بھی کوئی اضافہ نہیں کیا گیااورنہ ہی انہیں کوئی نئی ٹریننگ دی گئی ہے۔ اب وہ نئی امید پیدا کر رہے ہیں، ہم نے عوام کیلئےجو نئی توقعات پیدا کر دی ہیں، ہم انہیں ایک یقین میں بدلنا چاہتے ہیں اور ہم یہ کام اسی پولیس کے ذریعے کرنا چاہتے ہیں، جس پر کل تک کوئی اعتماد کرنے کیلئےتیار نہیں تھا‘‘۔دراصل افغانستان میں یہ تمام سرگرمیاں محض اس لئے شروع ہوگئی ہیں کہ امریکااپنی افواج کے پرامن انخلاء کیلئے صرف طالبان سے مذاکرات میں مصروف ہے جس سے افغانستان میں امریکی کٹھ پتلی حکومت کواپنی بقاء کاشدید خطرہ لاحق ہوگیاہے اورایک اطلاع کے مطابق کٹھ پتلی حکومت کابل اوراس کے گردونواح میں اپنی گرفت کو مضبوط بنانے کیلئے اس لئے بھی فکرمندہے تاکہ افغان طالبان کیلئے کابل کاقبضہ مشکل ترین بنادیاجائے اورایک خانہ جنگی کاماحول پیداکرکے اقوام عالم کویہ پیغام دیاجائے کہ افغانستان میں ان کے بغیرامن قائم نہیں رہ سکتا۔
ادھرافغانستان میں بہت کچھ تبدیل ہو رہا ہے۔ ایک متوقع بادشاہ گر نے بہتوں کو قیاس آرائیوں کی دلدل میں دھکیل دیاہے۔افغانستان میں کابل سے باہرکم ہی لوگ اتنے طاقتورہیں جتنے بلخ کے گورنر ہیں۔ عطا محمد نورسے کچھ ہی دیرکی گفتگومیں آپ کواچھی طرح اندازہ ہوجائے گا کہ ان کی پوزیشن اگراس قدرمستحکم ہے توکیوں ہے۔ وہ اپنے مہمانوں کاایک بڑے ہال میں سنہرے تخت پر استقبال کرتے ہیں۔ صوبائی دارالحکومت مزارشریف پران کی مکمل گرفت ہے اورازبکستان سے ملنے والی سرحد کے علاقے ہیراتن پربھی ان کاخاصا تصرف ہے۔عطا محمد نوراستاد رہ چکے ہیں،اس لیے انہیں استاد عطا کہا جاتا ہے۔ انتظامی طور پر عطا محمد نور کابل میں مرکزی حکومت کے تابع ہیں۔ وہ حامدکرزئی کے زمانے سے اب تک بلخ کے گورنر ہیں اوراشرف غنی کے ساتھ وہ اپنی بھرپور قوت کے ساتھ خوشگوار تعلقات کے حامل ہیں۔ دیگر صوبائی گورنروں کے مقابلے میں عطا محمد نورکوغیرمعمولی آزادی دی گئی ہے۔افغانستان میں اگلے دوماہ میں صدارتی انتخابات ہونے والے ہیں۔ غالب امکان اس بات ہے کہ صدر اشرف غنی یاعبداللہ عبداللہ پھر منتخب نہ ہوسکیں گے اور ایسے میں عطا محمد نور بادشاہ گر ثابت ہوں گے۔
عطا محمد نور تاجک نسل سے ہیں۔ انہوں نے پہلے سابق سوویت افواج سے مقابلہ کیا۔ اس کے بعد احمد شاہ مسعود کے ساتھ مل کر طالبان سے ٹکر لی۔ دونوں محاذوں پر وہ کامیاب رہے۔ امریکا نے جب 2001ء میں طالبان کواقتدارسے محروم کیا تب شمالی اتحاد کے بڑے کمانڈروں میں عطا محمد نورنمایاں تھے۔شمالی اتحاد کے مخالفین کوکمزورکرنے کے ہنرسے آشناعطامحمد نورکواقتدارکی مضبوط بنیاد ڈالنی آتی ہے۔ انہوں نے خاصی تیزی سے ان مغربی طاقتوں کااعتماد حاصل کیا جو عطیات دیاکرتی تھیں۔ 2004ء میں وہ گورنر مقرر کیے جاچکے تھے۔
مزارشریف ایک ایساشہرہے جس میں بھرپورترقی اوراستحکام دکھائی دیتا ہے۔ طالبان نے افغانستان کے طول وعرض میں دوبارہ عروج پایاہے مگران کے اثرات مزارشریف میں کم کم دکھائی دیتے ہیں۔ بلخ میں زرعی اراضی کافی ہے۔ کپاس، اناج اور پھلوں کی پیداوار خاصی نمایاں ہے۔ مزار شریف کے بارے میں مشہور ہے کہ یہاں نبی کریمﷺ کے ایک داماد مدفون ہیں۔ یہ شہر اب تجارتی مرکز اور اہم گزر گاہ میں تبدیل ہوچکا ہے۔ سابق سوویت فوج بھی اس شہر کو فوجی ساز و سامان کی ترسیل کیلئےاستعمال کیا کرتی تھی۔ نیٹو کی شمالی سپلائی لائن میں مزار شریف کا اہم کردار ہے۔مزار شریف نے گزشتہ برس ازبکستان سے 73کروڑ ڈالر کی تجارت کی۔ 80کلومیٹر طویل ریلوے ٹریک اس شہرکووسطی ایشیا کے عظیم ریلوے نیٹ ورک سے جوڑتا ہے۔ مستقبل قریب میں تجارت کاحجم بڑھنے کاامکان ہے۔ مقامی ایئرپورٹ بہت جلد ترکی،بھارت اوردبئی سے آنے والی پروازوں کاخیرمقدم کرے گا۔تعمیراتی منصوبے تیزی سے بڑھے ہیں اور تکمیل کی طرف رواں ہیں۔اس وقت مزار شریف کے وسطی حصے میں زیر زمین شاپنگ مراکز کے قیام کی تیاریاں جاری ہیں۔
عطا محمد نور ایک کامیاب بزنس مین ہیں۔ ان کے اثاثوں کی مالیت بڑھتی جارہی ہے۔ ناقدین کہتے ہیں کہ وہ ہر بڑے ادارے سے رشوت وصول کرتے ہیں۔ دوسرے بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ کماتے وہ کاروبار ہی میں ہیں مگر اس سلسلے میں اپنی سیاسی قوت کو بھرپور طور پر بروئے کار لاتے ہیں۔حقیقت خواہ کچھ ہو،عطامحمدنورکی بڑھتی ہوئی قوت سے انکارنہیں کیاجاسکتا۔ 2009 کے صدارتی انتخاب میں عطا محمد نور واحد گورنرتھے جنہوں نے حامد کرزئی کے حریف اور سابق وزیر خارجہ عبداللہ عبداللہ کی حمایت کی۔ تب سے اب تک حامد کرزئی سے ان کی بنی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صدر کرزئی متعدد مواقع پر الزام لگاتے رہے کہ شمالی اتحاد کا علاقہ محصولات میں اہم کردارادا نہیں کررہا۔عطامحمدنورپرمحصولات میں ڈنڈی مارنے اورسرکاری اراضی ہڑپ کرجانے کاپراناالزام آج بھی عائدکیاجارہا ہے مگر اشرف غنی کو یہ بھی اندازہ ہے کہ بلخ میں عطامحمد نورکی مقبولیت غیر معمولی ہے۔یہ حقیقت بھی نظرانداز نہیں کی جاسکتی کہ عطامحمد نورکے دورمیں صوبے نے غیر معمولی رفتار سے ترقی کی ہے اور لوگوں کو بہتر زندگی بسر کرنے کابھرپورموقع ملاہے۔اشرف غنی نے عطامحمدنورپر ڈھکے چھپے انداز سے تنقید پراکتفا کیا ہے،کبھی انہیں برطرف کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ایسا کوئی بھی قدم اٹھانے کی صورت میں صوبہ مکمل طورپرہاتھ سے نکل سکتا ہے۔
اب عطا محمد نور ایک بار پھر اسپاٹ لائٹ میں ہیں۔ عبدالرشید دوستم، احمد ضیاء مسعود اور محمد محقق نے کہا ہے کہ عطا محمد نور صدارتی انتخاب میں جس امیدوارکی حمائت کریں گے ،ہم سب اس کی بھرپورتائیدکریں گے۔چندماہ قبل عطامحمدنورنے کہاتھاکہ اگر موزوں امیدوار میدان میں نہ آئے تو وہ صدارتی انتخاب لڑنے سے گریز نہیں کریں گے۔ان خیالات کے اظہار کے بعد جب معاملہ تھوڑا سا بگڑتا دکھائی دیا تو عطا محمد نور نے کابل جاکر صدر اشرف غنی کو اعتماد میں لیا۔ ان کا کہنا تھا کہ فی الحال وہ صدارتی انتخاب لڑنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ انہوں نے ٹی وی چینلز کو انٹرویو میں کہا کہ صدر اشرف غنی سے ان کے تعلقات اچھے ہیں اور اچھے ہی رہیں گے۔ عطا محمد نور کو بھی اپنی حدود کا اندازہ ہے۔ وہ پشتون اکثریتی علاقوں کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکیں گے۔ ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ عطا محمد نور پشتو برائے نام بھی نہیں بولتے۔ اگر وہ پشتون علاقوں میں اپنی بنیاد مضبوط کرنا چاہتے ہیں تو کم از کم زبان کے معاملے کو اہمیت دینا ہوگی۔ ایسے میں انہوں نے یہ فیصلہ کیاہے کہ صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کی بجائے وہ نائب صدر یا بادشاہ گر بننا پسند کریں گے۔
ادھر سعودی ولی عہدکے دورہ کے دوران افغان طالبان کے ایک وفدکی ملاقات کابہت چرچاتھا، اگرچہ طالبان ترجمان کی طرف سے اس بیان میں وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا تھالیکن اطلاعات کے مطابق اس دورے کے دوران امریکی اور طالبان کے وفود نے عمران خان سے بھی ملاقات کرنا تھی۔یہ دورہ ایسے وقت میں ہونا تھا جب سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان بھی پاکستان کے دو روزہ دورے پر تھے۔اسلام آباد میں دو دنوں سے یہ اطلاعات بھی گردش کرتی رہی کہ شاید طالبان وفد کی ایک ملاقات شاہ سلمان سے بھی طے کی گئی تھی لیکن سرکاری طورپر اس بات کی تصدیق نہیں ہوسکی تھی تاہم افغان طالبان کی جانب سے اسلام آباد میں امریکی وفد اور وزیراعظم پاکستان عمران خان کے ساتھ پہلے سے طے شدہ ملاقات منسوخ کرنے کے اعلان نے ایک مرتبہ پھر کئی شکوک شبہات کو جنم دےدیا بعض ذرائع نے ملاقات کی منسوخی کی وجہ طالبان گروپوں میں اختلافات کو قرار دیا لیکن افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ذرائع ابلاغ کو جاری کردہ ایک مختصر بیان میں کہا تھا کہ اٹھارہ فروری کواسلام آباد میں”امارت اسلامی”اورامریکی وفد کے درمیان ملاقات طے کی گئی تھی نہ کہ سعودی ولی عہداورعمران خان کے ساتھ ایسی کسی بھی ملاقات کاکوئی پروگرام طے تھا۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ طالبان نے اس ملاقات کیلئےتمام تر تیاری مکمل کرلی تھی لیکن بدقسمتی سے طالبان کی مذاکراتی ٹیم کے بیشتر افراد پر امریکا اور اقوام متحدہ کی طرف سفری پابندیاں عائد ہے لہذا یہ ملاقات منسوخ کردی گئی ہے۔ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق ملاقات کی منسوخی کا طالبان سےکوئی تعلق نہیں ہے اور اس ضمن میں میڈیا پر چلنے والی ان افواہوں میں بھی کوئی حقیقت نہیں کہ ملاقات میں تاخیر ان کی جانب سے کی گئی ہے۔
یہ طالبان کا کوئی رسمی دورہ نہیں تھا اور نہ ہی اس میں کوئی باقاعدہ امن مذاکرات ہونے تھے بلکہ یہ تو ایک عام سی ملاقات تھی جس کا مقصد شاید خیرسگالی کا پیغام دینا اور امن کے عمل کو آگے بڑھانا تھا۔ طالبان نے اس دورے کی منسوخی کی وجہ سفری پابندیاں بتائی ہے لیکن یہ کوئی زیادہ موثر دلیل نہیں لگتی کیونکہ طالبان اس سے پہلے پاکستان، روس، انڈونیشیا، چین، ایران اور ازبکستان کے دورے کرچکے ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ طالبان قیادت میں اس دورے پر اتفاق رائے نہیں تھا کیونکہ جب مذاکرات کا ایک سلسلہ پہلے ہی جاری ہے اور جس کا اگلا مرحلہ قطر میں ہونا ہے تو ایسے میں شاید کچھ طالبان رہنما اسلام آباد دورے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کررہے تھے ۔یہ امر بھی اہم ہے کہ چند دن پہلے جب طالبان کی طرف سے اسلام آباد دورے کا اعلان کیا گیا تو افغان حکومت کی طرف سے اس پر شدید ردعمل سامنے آیاتھا۔ افغان حکومت نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو ایک شکایتی مراسلہ بھیجا تھا جس میں کہا گیا کہ طالبان کےدورے پر ان کو اعتماد میں نہیں لیا گیا ہے لہذا اس سے امن کے عمل کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔ اور یہ اقوام متحدہ کی قرارداد1988کی بھی خلاف ورزی ہے۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق اس دورے کی ٹائمنگ ایسی تھی جس سے بالخصوص طالبان کےلیے کنفیوژن کی صورتحال پیدا ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ طالبان نے ایسے وقت پاکستان آنا تھا جب سعودی ولی عہد شاہ سلمان بھی پاکستان میں موجود تھے جس سے ایک ایسا تاثر جارہا تھا کہ شاید ان کی ملاقات سعودی شہزادے سے بھی ہوگی۔ان کے مطابق اگر طالبان سعودی شہزادے سے ملاقات کرتے تویہ ان کیلئےایک اورمسئلہ بن سکتا تھاکیونکہ ان کا سیاسی دفتر قطر میں ہے اور قطر اور سعودی عرب کے درمیان کچھ عرصہ سے تعلقات انتہائی کشیدہ ہے لہذا ان کیلئےکئی قسم کے مسائل پیدا ہوسکتے تھے۔
ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ طالبان کے سربراہ ملا ہبت اللہ بھی طالبان وفد کا پاکستان کا دورہ کرنے اور عمران خان سے ملاقات پر راضی نہیں تھے اگرچہ طالبان کی طرف سے 25 فروری کو دوحہ میں ہونے والے امن مذاکرات میں تعطل کا کوئی عندیہ تو نہیں دیا گیا ہے لیکن بعض اہم افغان ذرائع کادعویٰ ہے کہ طالبان گروپوں میں اختلافات کے باعث حالیہ مذاکراتی عمل کچھ عرصے کیلئے تعطل کا شکار ہوسکتا ہے۔بعض ذرائع یہ دعوی بھی کرتے ہیں کہ شاید طالبان کی جانب سے چند دن پہلے اعلان کردہ مذاکرتی ٹیم میں مزید تبدیلیاں لائی جائیں۔خیال رہے کہ طالبان نے چند دن پہلے عباس ستنگزئی کی سربراہی میں 14 رکنی ٹیم کا اعلان کیا تھا جو امریکہ سے اگلے مرحلے میں مذاکرات میں حصہ لیں گے۔ ان میں طالبان کے وہ پانچ رہنما بھی شامل ہیں جو ماضی میں امریکی جیل گوانتاناموبے میں قید رہ چکے ہیں۔
طالبان کی جانب سے اتوار کو جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکا اور اقوامِ متحدہ نے طالبان کے وفد کو مذاکرات کیلئےپاکستان جانے سے روک دیا ہے کیونکہ اُن کے وفد کے9اراکین اقوامِ متحدہ اورامریکی پابندیوں کی فہرست میں شامل ہیں۔ بیان میں کہاگیا ہے کہ طالبان کے نمائندے جانے کیلئےآمادہ تھے اور تیاریاں بھی تھیں۔ بیان میں دورہ نہ ہونے پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے اورکہا گیا ہے کہ نئی تاریخ طے کی جائے گی۔ افغان سروس کے مطابق اِس بیان کے جاری ہونے سے پہلے اتوارکوہی طالبان کے ذرائع نے تصدیق کی تھی کہ طالبان کے رہنماؤں کا پاکستان کادورہ معطل کر دیا گیا ہے۔طالبان ذرائع نے بتایا کہ ان کے امیر ملا ہیبت اللہ کہتے ہیں کہ پاکستانی وزیراعظم عمران خان سے ملنا اچھا نہیں ہو گا۔ اس سے پہلے 13 فروری کو طالبان کا بیان سامنے آیا تھا جس میں کہا گیا کہ قطر میں ان کے سیاسی دفتر کے کچھ ارکان 18 فروری کو اسلام آباد جائیں گے اور زلمے خلیل زاد کی قیادت میں امریکی مذاکراتی ٹیم سے ملاقات کریں گے۔ یہ وہی امریکی ٹیم ہے جس سے قطر میں بھی طالبان کی کئی مرتبہ ملاقات ہو چکی ہے۔ طالبان کے بیان کے مطابق اس مرتبہ اسی سلسلے میں یہ ملاقات اسلام آباد میں ہو گی۔
13فروری کو طالبان کے بیان میں کہا گیا کہ اسی دورے میں وہ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان سے بھی ملیں گے اور پہلے کی طرح اس مرتبہ بھی طالبان کے رہنما شیر محمد عباس استانکزئی کی قیادت میں یہ ملاقات ہو گی۔یادرہے کہ 15 فروری کو اقوامِ متحدہ میں افغانستان کے مستقل وفد کی جانب سے سکیورٹی کونسل کی کمیٹی 1988 کو خط لکھا گیا کہ طالبان کے نمائندوں کے اس دورے کے بارے میں افغان حکومت سے کوئی صلاح مشورہ نہیں کیا گیا ہے۔ خط میں یاد دہانی کروائی گئی کہ طالبان کے وفد میں شامل کم از کم نو افراد اقوامِ متحدہ کی پابندیوں کی لسٹ میں ہیں۔ خود شیر محمد عباس استانکزئی پر بھی پابندیاں ہیں۔ اس کے علاوہ اِن افراد پر امریکی پابندیاں بھی ہیں۔ ان پابندیوں کے تحت ان کے بینک اکاونٹ منجمد ہیں اور یہ سفر نہیں کر سکتے۔ اس سے پہلے قطر اور ماسکو جانے کیلئےطالبان نے پیشگی اطلاع دی تھی اور امریکا اور اقوامِ متحدہ نے افغان حکومت سے مشورہ کے بعد جانے کی اجازت دی تھی۔ افغان حکومت کے مطابق وہ ہر مرتبہ اجازت دیتی ہے۔ افغان حکومت نے ماسکو جانے پربھی اعتراض کیا تھا لیکن ایسا دیر سے کیا گیا اوراتنی دیرمیں طالبان کاوفد ماسکو پہنچ چکاتھا۔