افغان امن مذاکرات نئے موڑپر

:Share

طالبان کے ساتھ تسلسل سے جاری مذاکرات کے بعدامریکی مذاکرات کارزلمے خلیل زادنے اعلان کرتے ہوئے کہاکہ افغانستان میں امریکی انسداد دہشتگردی کے مکمل خاتمے کیلئےبنیادی معاملات طے پاگئے ہیں۔ان طے کیے گئے معاملات میں کوئی بات بھی حیرت میں مبتلاکردینے والی نہیں تھی ۔طالبان نے وعدہ کیاکہ وہ اپنی سرزمین عالمی دہشتگردگروہوں کواستعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے اورامریکانے افغانستان سے فوج کے انخلا پررضامندی کااظہار کیالیکن ابھی کچھ سوالات کے جوابات دیناباقی ہیں۔امریکی فوج کتنے عرصے میں افغانستان سے نکلے گی؟چندماہ میں،جیساکہ طالبان چاہتے ہیں اورکیایہ امریکی فوج کیلئےممکن نہ ہوگایاپھردوسے ڈھائی سال کے عرصے میں جیساکہ امریکاچاہتاہے۔ کیاامریکی سفارت خانے کی حفاظت کیلئےایک ہزارامریکی فوجی افغانستان میں موجود رہیں گے؟اورکیاان فوجیوں کوانسداددہشتگردی کے آپریشن کرنے کی بھی اجازت ہوگی یا نہیں؟(یہ تجویزاوباما کے دورمیں بھی سامنے آئی تھی)۔کیاطالبان افغان حکومت سے مذاکرات کیلئےتیارہوجائیں گے؟کیاطالبان افغان حکومت سے مذاکرات کے دوران جنگ بندی کیلئےرضا مندہوں گے؟کیامعاہدے طے پاجانے تک امریکی فوج افغانستان میں موجودرہے گی؟اوراگر ایسا نہیں ہوتاتوافغان عوام اورحکومت کوطالبان کے ساتھ خودنمٹناہوگا۔
امریکاطالبان مذاکرات کے بنیادی نکتے پرطالبان کاراضی ہونااس معاہدے کاآسان ترین ہدف تھا، جوکہ حاصل کرلیاگیا۔وہ بنیادی نکتہ یہ تھاکہ طالبان کواس بات پر راضی کیاجائے کہ وہ افغانستان سے باہرہونے والے دہشتگردحملوں کی روک تھام میں اپناکرداراداکریں اوریہ کوئی مشکل کام نہیں تھا۔ کیوںکہ طالبان خودکبھی بھی ایسے حملوں میں ملوث نہیں رہےبلکہ طالبان میں ایک گروہ توایسا بھی تھاجوالقاعدہ جیسی تنظیم کوپناہ دینے کا مخالف تھااوروہ اس بات پرافسوس کااظہارکیا کرتاتھا کہ ہم نے انھیں نوے کی دہائی میں پناہ دے کرغلطی کی تھی لیکن عوامی سطح پرالقاعدہ سے لاتعلقی کااعلان کرناابھی بھی ان کیلئےکافی مشکل ہوگاکیونکہ اس جہادی تنظیم کے نام پرپوری دنیاسے نہ صرف مالی امدادحاصل کرسکتے ہیں بلکہ القاعدہ کی وجہ سے ان کوعوام کی ایک بڑی تعدادکی جذباتی حمایت بھی حاصل رہے گی جوکہ امریکاکے نکل جانے کے بعد ہونے والی خانہ جنگی میں ان کے کام آئے گی۔طالبان نے یقین دہانی کروائی ہے کہ وہ افغان سرزمین کوکسی اور ملک میں دہشتگردی کیلئےاستعمال نہیں ہونے دیں گے۔اس دفعہ امریکابھی طالبان کی اس یقین دہانی کو تسلیم کر رہا ہے۔
طالبان2014ءسے ہی افغانستان میں داعش کے خلاف لڑرہے ہیں۔داعش میں افغان طالبان سے منحرف ہونے والے کمانڈراور افغانستان اور پاکستان میں کاروائیاں کرنے والے ازبک گروپوں کے جنگجو شامل ہیں۔سابق امریکی صدر اوباما کے دورِ صدارت میں امریکا2014ءتک افغانستان سے اپنی زیادہ ترافواج کوواپس بلانا چاہتاتھاتاہم عراق میں داعش کے بڑھتے ہوئے اقدام سے امریکاکو یہ خطرہ لاحق ہواکہ کہیں افغانستان بھی دوبارہ طالبان کے قبضے میں نہ چلاجائے۔لیکن ٹرمپ نے دسمبر 2018 ء میں اچانک ہی یہ اعلان کردیا کہ امریکا50فیصد افواج افغانستان سے نکال لے گا۔اس اعلان پرابھی تک عمل تو نہیں ہواہے لیکن اس سے واضح ہوتاہے کہ اب امریکاافغانستان سے ہرحال میں نکلنا چاہتاہے۔
امریکااورطالبان کے مابین جاری مذاکرات میں ہونے والی پیش رفت کوافغانستان میں سراہاجا رہا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک عرصے سے جاری شورش کی وجہ سے لوگ اب امن کے قیام کیلئےبے تاب تھے۔تاہم مذاکرات کے بعدکاممکنہ سیاسی نظام ناصرف اشرف غنی بلکہ سول سوسائٹی،انسانی حقوق کی تنظیموں اورخاص طورپرخواتین کیلئےخدشات کاباعث بناہواہے۔ان مذاکرات نے کچھ سوالات کوبھی جنم دیاہےاوروہ یہ کہ ان مذاکرات کاآئندہ ہونے والے صدارتی انتخابات پرکیااثرہوگااورکیا طالبان بھی ان انتخابات میں حصہ لیں گے۔اس بات کے امکانات موجود ہیں کہ عبوری حکومت میں بھی طالبان کی نمائندگی موجودہوگی۔اشرف غنی اس کے شدیدمخالف ہیں کیوںکہ اس سے ان کے اقتدارکو خطرہ ہوسکتاہے۔
اشرف غنی کے آئندہ ہونے والے صدراتی انتخابات میں سادہ اکثریت حاصل کرنے کے امکانات بہت کم ہیں۔گزشتہ چارسالوں میں ان کی حکومت کی مقبولیت میں کمی ہوئی ہے اورکئی سیاسی اتحادی بھی ان کا ساتھ چھوڑگئے ہیں۔جب تک افغان انتخابی عمل میں اصلاحات نافذنہیں ہوتیں تب تک انتخابات کے بعددھاندلی کے الزامات بھی لگتے رہیں گے اوراس کے نتیجے میں سیاسی بحران بھی پیداہوتے رہیں گے۔یہ سیاسی بحران طالبان اورافغان حکومت کے درمیان ہونے والے مذاکرات کوناکام بھی کر سکتے ہیں۔یہاں یہ سوال اہم ہے کہ امریکی افواج ایسے حالات میں کیا کریں گی؟
ایک بڑاچیلنج یہ بھی ہے کہ طالبان اپنی فوجی قوت کودیکھتے ہوئے کبھی بھی اپنے جنگجوؤں کو غیرمسلح کرنے پرراضی نہیں ہوں گے۔طالبان اپنی عسکری قوت کوبرقراررکھنے یابڑی تعدادمیں اپنے جنگجوؤں کوفوج میں بھرتی کروانے پراصرارکریں گے۔ افغانستان میں موجود عسکری گروپوں کی تعدادکودیکھتے ہوئے اس بات کا امکان کم ہے کہ طالبان غیرمسلح ہونے پر راضی ہوجائیں گے۔یہاں یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیاامریکی کانگریس ایسی افغان فوج کی مالی امداد کرے گی جس میں طالبان جنگجو شامل ہوں؟اس بات کے امکانات موجودہیں کہ طالبان جنگجوؤں کے فوج میں شامل ہونے کے باوجودافغان فوج کی افرادی قوت میں کمی آئے گی۔معاشی لحاظ سے تویہ اچھاہی ہے کیوںکہ افغانستان ایک بڑی فوج کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتالیکن خطرے کی بات یہ ہے کہ اس سے ملک میں بے روزگاری میں اضافہ ہوگااوربے روزگارافرادعسکری گروہوں کیلئےآسان ہدف ہوں گے۔
یہاں یہ سوال بھی پیداہوتاہے کہ کیاطالبان کواپنی عسکری کاروائیوں کی وجہ سے کسی قانونی کاروائی کاسامنا کرناہوگایا اسے یکسربھلادیاجائے گا؟ یقینًاطالبان قانونی کارروائی کیلئےتیارنہیں ہوں گے کیوںکہ عبدالرشیددوستم سے گلبدین حکمت یارتک کسی کمانڈرکوقانونی کاروائیوں کا سامنانہیں کرناپڑا۔
افغانستان میں طاقت کے توازن اورنئے آئین کی تیاری کے معاملات بھی کافی پیچیدہ ہیں۔ طالبان صرف انتخابات میں حصہ لینے اورکچھ مخصوص نشستوں کے اختیارپرکبھی راضی نہیں ہوں گے۔وہ حکومت میں اپنی مناسب نمائندگی پرزوردیں گے۔ اس بات کاامکان بھی موجودہے کہ طالبان ملک کے جنوبی علاقوں کا کنٹرول مانگیں۔ماضی میں طالبان کایہ مطالبہ شمال اور جنوب کے دیگراسٹیک ہولڈرزکومنظورنہیں تھا۔یہ اسٹیک ہولڈر مستقبل میں ہونے والے کسی بھی امن معاہدے کوخراب کرسکتے ہیں۔ایسامحسوس ہوتاہے کہ کرزئی،شیرازی اوراخوندزادہ جیسے بااثرخاندانوں اور بسم اللہ خان محمدی، عطامحمد نوراورامراللہ صالح جیسے سیاستدانوں کے ساتھ طالبان کے تعلقات کشیدہ ہی رہیں گے۔
اس بات کاقوی امکان موجودہے کہ بیرونی عناصرممکنہ امن معاہدے کونقصان پہنچاسکتے ہیں۔ان عناصر میں ایران،روس، بھارت اورسعودی عرب بھی شامل ہیں۔روس اورایران طالبان کے ساتھ تعلقات برقراررکھنے کیلئےانھیں خفیہ معلومات اورہتھیار فراہم کرتے رہے ہیں۔روس طالبان کو داعش کی نسبت کم خطرناک سمجھتا ہے۔تاہم بھارت افغانستان میں اپنے اسٹریٹیجک اثاثے بچانے کی بھرپورکوشش کرےگاکیونکہ وہ افغان سرزمین کوآئندہ بھی پاکستان کے خلاف دہشتگردی کیلئےاستعمال کرنا چاہتاہے۔
امن معاہدے کے بعد بننے والی حکومت کی کامیابی پربھی سوالیہ نشان موجودہے۔اس بات کابھی امکان ہے کہ افغانستان میں بھی ویتنام جیسی صورتحال پیداہو جائے۔ویتنام میں امریکانے مزاحمت کاروں سے معاہدہ کرکے اپنی افواج نکال لی تھیں لیکن مزاحمت کاروں اورویتنام کی حکومت کے درمیان ہونے والامعاہدہ اور جنگ بندی زیادہ عرصے برقرارنہیں رہی۔نتیجے کے طور پرملک میں دوبارہ خانہ جنگی کاآغازہوگیا۔ضروری نہیں ہے کہ افغانستان میں بھی دوبارہ خانہ جنگی شروع ہو جائے لیکن امریکاکاطالبان سے مذاکرات کرنے اورجلد بازی میں افغانستان سے نکلنے کا قدم افغان عوام کیلئےعدم اطمینان کا باعث ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں