افغان امن مذاکرات ،اشرف غنی کی رسوائی

:Share

ایک اطلاع کے مطابق ٹرمپ نے پاکستان سے افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات میں مزیدمدد مانگی ہے۔ایک ایسے وقت جب امریکاخودطالبان کے ساتھ مذاکرات میں مصروف ہے،اسے پاکستان کی کیاضرورت ہے؟وہ پاکستان سے کیاچاہتاہے؟وزیر اعظم کے دفترسے اس مکتوب کی کوئی اصل کاپی توجاری نہیں کی گئی تاہم اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ افغان طالبان پر”پاکستانی اثرو رسوخ”سے کام لینے کی استدعا کی گئی ہے۔قصرسفیدکی طرف سے عمران خان اورٹرمپ کے درمیان ٹوئٹرپربیانات کی جنگ کے بعدایک صحت مند پیش رفت قراردیاجاسکتاہے۔پیغام توہمیشہ کی طرح “ڈو مور”ہی سمجھاجارہاتھالیکن اس مرتبہ امریکاکاافغانستان سے جلدسے جلدانخلاکی خواہش سے پتہ چل رہا ہے کہ وہ اس سلسلے میں مزیدتاخیرکا متحمل نہیں ہے جس کی وجہ حال ہی میں افغان طالبان کا وہ حملہ ہے جس میں ٹرائیکا”را،موساداورامریکی اڈے ”کوبری طرح نیست نابودکردیا گیاہے جس کوعالمی میڈیاسے چھپانے کی ازحدکوشش کی گئی ۔
ادھراشرف غنی نے امریکااورافغان طالبان کی جانب سے نظراندازکرنے پرانتہائی شدیدردّ ِ عمل کا اظہارکرتے ہوئے ماسکوجانے والے وفدمیں شامل صدارتی امیدواروں کوسبق سکھانے کیلئے افغان الیکشن کمیشن کے قوانین میں ردّوبدل کرتے ہوئے اصلاحاتی کمیٹی اورتحقیقاتی کمیٹیوں کو برطرف کردیااوریہ اختیارصدرکوتفویض کردیا کہ افغانستان کے صدارتی انتخابات کے حوالے سے تنازعات کے حل کیلئے افغان صدرکمیشن تشکیل دینے کااختیاررکھتے ہیں،اس کے علاوہ کسی کو کمیشن کی تشکیل کااختیارنہیں ہوگااورافغان الیکشن صرف صدارتی انتخابات کاانعقادکرسکتے ہیں اوراگرکوئی تنازعہ پیداہوتاہے تواس کے تصفیہ کیلئے افغان صدرہی کوئی کمیشن بناسکتاہے۔ افغانستان کے دیگرصدارتی امیدواروں حنیف اتمر ،یونس قانونی،ڈاکٹرعبداللہ عبداللہ اوردیگرنے شدید ردّ ِ عمل کااظہارکرتے ہوئے افغان صدرپرالزام عائدکیاہے کہ وہ دھاندلی کاپروگرام بناچکے ہیں اورافغانستان میں شفاف صدارتی انتخابات نہ ہونے کی وجہ سے افغانستان مزیدمشکلات کا شکار ہو گا۔
اکیس صدارتی امیدواروں کی جانب سے افغان صدرکی جانب سے انتخابات میں ردّوبدل پرشدیدردّ ِ عمل کااظہارکیاگیاہےاورانہیں طالبان اور امریکاکی جانب سے نظراندازکرنے پرغصے سے تعبیر کردیاہے ۔افغان صدراگردھاندلی کرتاہے توملک میں انارکی پیداہوجائے گی جبکہ اس وقت ملک کو استحکام کی ضرورت ہے۔افغان صدارتی انتخابات کاانعقادخطرے میں پڑگیاہے اورطالبان اور امریکاکے درمیان جس تیزی سے مذاکرات بڑھ رہے ہیں اس میں اشرف غنی کاکردار نہ ہونے پر صدارتی انتخابات کومتنازعہ بناناچاہتے ہیں تاہم سب سے مشکل امریہ ہے کہ افغان صدرکواپنے ساتھیوں کی حمائت بھی حاصل نہیں ہے اوران کے قریبی ساتھی حنیف اتمر،پاکستان میں سابق سفیرعمرذاخیلول سمیت ان کے دوست طالبان سے مذاکرات کیلئے ماسکوپہنچ گئے تھے جس پر افغان صدرکوشدیدغصہ ہے ، اس لئے افغان صدرکی جانب سے لویہ جرگہ بلانے کے مطالبے پر مثبت ردّ ِ عمل سامنے آیاہے لیکن افغان صدارتی انتخابات کا انعقاد مشکل ہوتانظرآرہاہے کیونکہ طالبان کی جانب سے مذاکرات کی کامیابی کی صوت میں یہ مطالبہ بھی سامنے آسکتاہے کہ افغانستان میں مختصرمدت کیلئے ایک وسیع البنیادحکومت قائم کی جائے۔
ماسکومذاکرات میں افغان طالبان نے یہ تجویزپیش کی کہ افغانستان کی تعمیرنوکیلئے طویل مدت ایک وسیع البنیادحکومت قائم کی جائے جس میں تمام دھڑے شامل ہوں اور وہ افغانستان کی تعمیرنو میں حصہ لے اورجب تعمیرنومکمل ہوجائے اورافغانستان مکمل امن کی طرف لوٹ جائے توپھر انتخابات پرغورکیاجائے اورافغان آئین میں بنیادی تبدیلی بھی لائی جائے۔یہی وجہ ہے کہ افغان صدر کے علاوہ افغانستان کے دیگر صدارتی امیدواروں نے ابھی تک انتخابی مہم شروع نہیں کی ہے ۔افغان صدرنے گزشتہ دنوںننگرہارسے اپنی انتخابی مہم کاآغاز شروع کیااورپہلے روزہی افغان صدر کوشدیدمشکلات کا سامنا کرناپڑااورمظاہروں کے بعدافغان صدراپنی تقریرادھوری چھوڑ کرواپس چلے گئے جبکہ ملک کے دیگرحصوں میں بھی مظاہرے ہوئے ہیں اورافغان صدرسے مطالبہ کیا جارہاہے کہ وہ افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کیلئے حالات سازگاربنائیں نہ کہ اپنے ذاتی مفادات کیلئے افغانستان کے عوام کوداؤپرلگادیں ،اسی لے افغان صدرانتخابی مہم نہ چلائیں بلکہ کوشش کریں کہ افغانستان میں امن ہو۔
افغانستان کے صدرانتخابی مہم کے دوران بڑے جلسوں کاانعقاد چاہتے ہیں لیکن ننگرہارمیں شدید مخالفت سامنے آنے کے بعد افغان صدرنے مزید جلسے منعقدکرنے کاارادہ ترک کر لیاہے اور یہی وجہ ہے کہ افغان صدرنے لویہ جرگہ بلانے کامطالبہ کیاہے جس میں طالبان بھی اپنامنصوبہ پیش کریں اوراگرلویہ جرگہ اس کی حمائت کرتاہے توپھرحکومت کووہ بات ماننی پڑے گی تاکہ افغان صدارتی انتخابات کے ہونے اورنہ ہونے کادارو مدارآئندہ ہفتے قطرمیں ہونے والے مذاکرات ہیں جس کیلئے افغان طالبان نے اپنی ٹیم میں تبدیلی کی ہے اورملاعمر کے بھائی ملاعبدالمنان اور سراج الدین حقانی انس حقانی کومذاکرات میں شامل کیاہے۔اگرمذاکرات کامیاب ہوجاتے ہیں اورایک عبوری حکومت قائم ہونےکااعلان کیاجاتاہے تو افغانستان کے صدارتی انتخابات نہ صرف ملتوی ہو سکتے ہیں بلکہ اشرف غنی کواستعفیٰ دیناپڑے گاکیونکہ موجودہ حالت میں افغانستان میں طالبان معاہدے کی مخالفت کرنانہ صرف سیاسی طورپرنقصان دہ ہوگابلکہ افغانستان کے اندربھی شدیدردّ ِ عمل آسکتاہے اوروہ اس وقت دنیاجنگ کااختتام چاہتی ہے جبکہ امریکیوں نے انخلاء کی تیاریاں شروع کردی ہیں اوراس سلسلے میں امریکی قائمقام وزیردفاع پیٹرک نے باگرام میں امریکی فوجیوں سے اپنی ملاقات میں انہیں بتایاہے کہ امریکااورطالبان کے درمیان مذاکرات کی کامیابی کی صورت میں انخلاء کیلئے فوجی تیار رہیں اوراگرمذاکرات ناکام ہوجاتے ہیں توامریکی صدراچانک انخلاء کااعلان کرتے ہیں تواس وقت امریکی فوجیوں کوانخلاء کے ساتھ ساتھ اپنی دفاعی تیاریاں بھی مکمل کرلینی چاہئیں کیونکہ اگرطالبان سے معاہدہ ہوجاتاہے توامریکی فوجیوں کے انخلاء میں حائل مشکلات دورہوجائیں گی اورامریکی فوجی پھرمعاہدے کے مطابق انخلاء شروع کریں گے لیکن اگرمعاہدہ نہیں ہوتا اورامریکی صدراپنے اعلان پرعملدرآمدکرتے ہیں اور فوجیوں کواچانک انخلاء کرناپڑے گاتوان پربڑے حملوں کاخدشہ بھی ہوگاتاکہ جاتے ہوئے فوجیوں کوپھردفاع کیلئے تیاررہناپڑے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں