افغان امن اوربھارتی بنیاء

:Share

غیرملکی ایجنسی کے مطابق طالبان اورامریکاکے درمیان امن مذاکرات کی شرائط پراتفاق ہوگیاہے جس کے تحت غیرملکی فوجیں 18مارچ تک افغانستان چھوڑدیں گی جبکہ طالبان نے واشنگٹن کااہم مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے افغان سرزمین امریکی مخالفت میں استعمال ہونے دینے اورواشنگٹن میں داخل ہونے سے روکنے کی بھی یقین دہانی بھی کرائی ہے۔افغان میڈیاکے مطابق طالبان نے جنگ بندی کوامریکاکے افغانستان چھوڑنے سے مشروط کردیاہے اورکہاہے کہ جنگ بندی کے بعدافغان حکومت سے بھی مذاکرات ہوسکتے ہیں۔ واضح رہے کہ کچھ دن قبل ترجمان پاک فوج میجر جنرل آصف غفورنے غیرملکی میڈیاسے بات چیت کرتے ہوئے کہاتھاکہ پاکستان نے افغان طالبان اورامریکی حکام سے دوبارہ مذاکرات کی میزپر لا کر اپناسہولت کارکاہدف پوراکردیاہے۔پاک فوج کے ترجمان نے مزید کہاکہ افغان طالبان دوحامیں حالیہ امریکی قیادت میں مذاکرات سے پاکستان کو نکال نہیں رہے ۔اس عمل میں طالبان کے متعددگروپس اوراسٹیک ہولڈرزہیں ،اس لئے رابطہ میں وقت درکارتھا اور پاکستان کیلئے وقت اورجگہ کیلئے کوئی ترجیح نہیں تھی ،ایک گروپ یا پارٹی رابطے سے ہٹتی ہے نتیجتاً شیڈول یاجگہ میں تبدیلی ہوسکتی ہے۔
امریکی مذاکرات کے نتیجے میں کتنے ہی پرامیدکیوں نہ ہوں لیکن پاکستان کویہ مؤقف کہ اس عمل میں طالبان کے متعددگروپس اوراسٹیک ہولڈرز ہیں ۔سوفیصدحقائق پرمبنی ہے لہنداامریکی حکام طالبان کے ساتھ اپنے مذاکرات کے حوالے سے کتنے ہی پرامیدکیوں نہ ہوں لیکن ان خدشات سے آنکھیں چرائی نہیں جاسکتیں کہ آیاطالبان اپنی مرضی سے افغانستان میں امن کے قیام کی ضمانت دے سکیں ؟جب اس سوال پرغورکیاجائے توپھر افغانستان کے اندرونی حالات پرغورکرنالازمی امرہے کہ وہاں جنگ میں کون کون فریق شامل تھے اورقیام امن کیلئے کن کن فریقین کامتفق ہونا ضروری ہے۔جہاں تک جنگ میں شامل فریقین کاتعلق ہے تواس میں دوتوواضح فرق ہیں۔ایک طالبان اوردوسرافریق شمالی اتحادجبکہ ان کے علاوہ خودطالبان میں کئی دھڑے ہیں جواس جنگ میں مصروف تھے اورسب سے بڑھ کربھارت کی قیادت وہ داعش جس کوبھارت نے اپنے مفادمیں وہاں تیار اورپھراس کومضبوط کیا،اس سے بھارت کامقصدیہ تھاکہ جب بھی افغانستان میں امن کی فضاء قائم ہونے لگے توداعش کواستعمال کرکے امن کی فضاء سبوتاژکردے کیونکہ افغانستان میں امن بھارتی مفادکے حق میں نہیں اوراس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بھارت پاکستان میں دہشتگردی کی فضا برقرار رکھناچاہتاہے تاکہ دہشتگردی کے ذریعے سے پاکستان کی دفاعی قوت اس حدتک ضعیف کردے کہ ہم بھارت کامقابلہ کرنے کے قابل نہ رہیں اوراس کے سامنے گھٹنے ٹیک دیں۔
اس ضمن میں افغانستان میں بدامنی اس لئے بھارتی مفادمیں ہے کہ وہ پاک بھارت سرحدسے پاکستان میں اپناکوئی ایجنٹ داخل نہیں کرسکتاکیونکہ یہاں بہت سخت نگرانی ہے البتہ پاک افغان سرحداتنی سخت اوربعض جگہوں سے ناقابل عبورہے لیکن وہاں کے مقامی باشندے ان ناقابل عبور چٹانوں میں بھی سرحدآرپارآنے جانے کے راستے جانتے ہیں اوربھارت انہی راستوں کے ذریعے سے پاکستان میں اپنے ایجنٹ اوردہشتگردبھیجنے کی سازش میں ملوث ہے اورجب تک افغابستان میں بدامنی قائم رہے گی اس وقت تک بھارت آسانی سے افغان سرزمین کوپاکستان کے خلاف استعمال کرسکے گا۔اگروہاں امن قائم ہوگیاتوپھرافغان حکومت بھارت کویہ کام نہیں کرنے دے گا، اسی لے افغانستان میں شورش اوربدامنی بھارت کےمفادمیں ہے۔
اب اگرامریکاکے ساتھ مذاکرات کے نتیجے میں طالبان جنگ سے ہاتھ روک بھی لیں توبھی داعش کے گروپ بھارتی ایماءپرافغانستان میں حملے شروع کرسکتے ہیں جن میں زیادہ ترافغان حکومت کے ارکان،سرکاری فوجوں اوریہاں تک ممکن ہوگاکہ امریکی فوجون کونشانہ بنایاجائے تاکہ امریکا پر یہی تاثر قائم ہوکہ طالبان میں کئے گئے اپنے قول سے پھرگئے ہیں اس طرح امریکاافغانستان سے اپنی فوجوں کے انخلاء کے پروگرام سے منحرف ہو جائے گابلکہ امکان یہ ہے کہ طالبان کے خلاف بھرپور انداز میں کاروائی شروع کردے اورحالات میں بھارتی داعش کے ایجنٹ سے امریکا اورطالبان کی لڑائی کاجائزہ لیں گے اور جہاں ضروری سمجھیں گے طالبان امریکی فوجوں کے خلاف کاروائی کریں گے اوریہ کاروائی طالبان کی محبت میں نہیں بلکہ امریکی فوجوں کومشتعل کرنے کیلئے ہوگی۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ طالبان کے ساتھ امریکی مذاکرات کامیاب ہوئے ہیں اورطالبان بھی مذاکرات میں کئے گئے اپنے وعدوں کے مطابق عمل کریں گے لیکن افغانستان کے اندرونی حالات کیاطالبان کے کئے گئے وعدوں ان کی روح کے مطابق عمل ہونے دیں گے؟یقینا ًنہیں لہندا اگر امریکا افغانستان میں پوری طرح امن چاہتاہے تواسے بھارت پردباؤڈالناہوگاکہ وہ افغانستان کے راستے پاکستان کے خلاف اپنی کاروائیاں مکمل طورپر بندکرے ،جب تک یہ کاروائیاں نہیں رکیں گی اس وقت تکافغانستان میں امن قائم نہیں ہوگااوردہشتگردانہ حملوں کاسلسلہ جاری رہے گا۔اس سے واضح ہوتاہے کہ امریکاافغانستان میں مکمل امن چاہتاہے کہ اس کی فوجیں امن وسکون کے ساتھ واپس امریکالوٹ سکیں تواس کوطالبان کے ساتھ ساتھ بھارت قیادت کوبھی اس امرکیلئے مجبورکرناہوگاکہ وہ بھی افغانستان میں اپنی قائم کردہ داعش کوکسی بھی قسم کی کاروائی سے روکے ، جب تک ایسا نہیں ہوگاافغانستان میں امن،غذائی اجنس مہنگی اورموت سستی رہے گی۔
اس ضمن میں پاک فوج کی قیادت کوچاہئے کہ وہ پاک افغان سرحدپرزیرتعمیرباڑاورنگرانی کرنے والی چوکیوں کی تعمیرمیں تیزی لاتے ہوئے اس منصوبے کوجلدازجلد تکمیل کے مراحل تک پہنچائے تاکہ پاک افغان سرحدمحفوط بنائی جاسکے اوروہاں سے آرپارجانے والوں کومکمل طور پرچیک کیاجاسکے اورکسی بھی ناپسندیدہ شخص کووطن عزیزمیں داخل نہ ہونے دیاجائے کیونکہ بھارت پاکستان دشنی کی تصدیق اس امرسے بھی ہوتی ہے کہ وہ صرف افغانستان کوہی بنیادبنائے نہیں بیٹھابلکہ پاکستان کے خلاف مختلف محاذوں پربرسرپیکارہے جن میں ثقافتی جنگ اورآبی جنگ بھی زورشور سے جاری ہے کہ بھارت پاکستان کاپانی بند کرنے کی سازشوں میں مصروف ہے اورپاکستانی دریاؤں پربھی بندتعمیرکررہاہے،گوگزشتہ چندروزقبل پاکستانی وفداس سلسلے میں بھارت گیالیکن اس سے کسی مثبت نتیجے کی امیدنہیں کیونکہ پاکستانی دریاؤں پرڈیموںکی تعمیر بھارت کی ضرورت نہیں بلکہ پاکستان کے خلاف سازش کاحصہ ہے لہنداوہ پرامن طریقے سے کئے جانے والے مذاکرات کے نتیجے میں کوئی ایسی بات نہیں کرے گاجس سے پاکستان دفاعی لحاظ سے یااپنی ضرورت پوری کرنے کے لحاظ سے مضبوط اورخودکفیل ہوسکے۔اب یہ امریکی قیادت کی ذمہ داری ہے کہ وہ سازش سمجھے اور پھرافغانستان میں قیام امن کیلئے کوششیں روبۂ عمل میں لائے تاکہ افغان عوام کوجوکئی عشروں سے جنگ کے شعلوں میں گھرے ہوئے ہیں ،وہ بھی امن کے ماحول میں زندگی گزارسکیں اوروہ افغان جنہوں نے جنگ کے شعلوں اوردہماکوں میں آنکھ کھولی ہے وہ بھی اپنی آنکھوں سے امن کے پر بہارچمن کی بہاردیکھ سکیں اورپرامن ماحول میں سانس لے سکیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں