افغان ایران کاآبی تنازعہ

:Share

ایران اوراُس کے پڑوسی ملک افغانستان کے درمیان پانی کے مسئلے پر کشیدگی میں اضافہ ہواہے، جس کی بنیادی وجہ بارشوں میں کمی،عرصہ دراز سے جاری خشک سالی اورپانی کے وسائل میں بد انتظامی ہے۔ جس نے دونوں ہی ممالک میں زرعی پیداواراورپینے کے پانی کی دستیابی کو بُری طرح متاثر کیاہے۔جب کہ تہران نے خبردارکیاہے کہ اگرکابل نے ایران کے جنوب مشرقی خطے کوپانی نہیں دیاتوپھرجوابی کارروائی کیلئےتیاررہے اور دوسری جانب افغان حکام ایران کے پاسداران انقلاب پراِلزام عائد کرتے ہیں کہ وہ جنوبی اور مغربی افغانستان میں ڈیم کے منصوبوں کی تخریب کاری کیلئے طالبان کی امداد کرتے ہیں۔تہران افغان حکومت کے ایرانی سرحد کے قریب بند تعمیر کرنے کے حالیہ منصوبے پر شدید اعتراض کرتا ہے۔ جب کہ افغان حکومت کا کہنا ہے کہ یہ بات 1970ء میں دونوں ممالک کے درمیان ہونے والے پانی کے اشتراکی معاہدے کے عین مطابق ہے اور اس وقت ملک میں پانی کی کمی کو مؤثر طریقے سے دور کرنے اور ملک کے محنت کش کسانوں کیلئےبند کی تعمیر انتہائی ضروری ہے۔
افغان حکومت کے مطابق ملک میں اس سال زرعی پیداوارمیں 45فیصد کمی آئی ہے، جس کی بنیادی وجہ پانی کی قلت ہے۔ ایران کی خبررساں ایجنسی (IRNA) کو ایک طویل انٹرویو دیتے ہوئے افغانستان کے سفیر ناصر احمد نور نے تہران کو اپنے مسائل سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ افغانستان کو اس وقت بارشوں میں 60فیصد کمی کا سامنا ہے، انھوں نے مزید بتایا کہ تہران اور کابُل کے درمیان پانی کے اشتراکی انتظامات کے حوالے سے بہت سے معاملات پراتفاق ہوگیا ہے مگراس کے باوجود دونوں ہی ممالک کی جانب سے لفظوں کی جنگ جاری ہے۔تہران نے افغانستان اوراس کوامداددینے والے ممالک جوبندکی تعمیرمیں افغانستان کی مدد کررہے ہیں،ان سے مطالبہ کیاہے کہ بند کی تعمیرکے متعلق کسی بھی قسم کی منصوبہ بندی سے پہلے ان سے مشورہ لازمی کیاجائےکیوںکہ ایران کاخیال ہے کہ ایسے بندتعمیرکرنے سے ایران کی طرف پانی کے بہاؤ میں کمی آئے گی مگر ایران کی یہ تجویز افغانستان اور بھارت جیسے ممالک نے مسترد کردی ہے۔
ایرانی حکام اور ذرائع اس وقت یہ پیشگوئی کر رہے ہیں کہ آنے والے وقت میں کشیدگی میں مزید اضافہ ہوگا اور دونوں ممالک میں پانی کا مسئلہ شدت اختیار کر جائے گا۔ ایرانی چینل نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’افغانستان تیزی کے ساتھ بیرونی امداد کے ذریعے دو مزید بند تعمیر کر کے ملک میں موجود بندوں کی تعداد میں اضافہ چاہتا ہے ‘‘۔تہران افغانستان کو جوابی ردِعمل کے حوالے سے خبردار کر چکا ہے۔ ایران کے وزیر برائے توانائی رضا اردکانیان نے گزشتہ ہفتے ہی اس بات کا اعلان کیا ہے کہ وہ اپنے پڑوسی ممالک جن میں افغانستان اور عراق بھی شامل ہیں میں پانی کی قلت کے پیشِ نظر ان کے ساتھ بجلی کی فراہمی کو معطل کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ پانی کی قلت اور ماحولیاتی تبدیلی نے ایران کے مسائل میں مزید اضافہ کیا ہے، جس کی وجہ سے ملک کے بیشتر حصوں میں حکومت مخالف مظاہرے جاری ہیں۔
گزشتہ سال، ایران کے انقلابی رہنما علی خامنہ ای کے ایک قریبی فوجی مشیر، میجر جنرل رحیم سفاوی نے خبردار کیا کہ پانی کی قلت میں مزید اضافہ ہوگا، جس کی وجہ سے مستقبل قریب میں ایران اور اس کے پڑوسی ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوگا۔ ایک تقریر کے دوران انھوں نے کہا کہ ’’ ہم اس مسئلے سے سختی سے نہیں نمٹنا چاہتے، بلکہ معاملات کو اچھی حکمتِ عملی کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں‘‘۔ مگر بہت سے ممالک ان کی اس تقریر کو اپنے لیے ڈھکی چھپی دھمکی سمجھتے ہیں۔ میجرجنرل نے اس بات پرزوردیاکہ ملک میں پانی کامسئلہ شدت اختیارکرتا جارہا ہے اوراس وقت ایران پانی کے وسائل 12ممالک کے ساتھ تقسیم کررہاہے،اب مستقبل میں پڑوسی ممالک کے ساتھ یاتوتعاون میں مزیداضافہ ہوگایاپھرمقابلے میں۔
پاسدارانِ انقلاب (IRGC) کے سابق چیف کمانڈر نے پڑوسی ممالک میں’غیرملکیوں‘کی موجودگی سے متعلق خبردارکیا۔ان کااشارہ عراق اورافغانستان میں امریکی افواج کی موجودگی کی طرف تھا، انہوں نے مزید کہا کہ ان غیر ملکیوں کی موجودگی ایران اور اُس کے پڑوسی ممالک کے درمیان ہونے والے پانی کے انتظامی مسائل کومزید پیچیدہ بنائے گی۔پچھلے سال ایرانی صدر حسن روحانی نے علاقائی ممالک خصوصاََ ترکی اور افغانستان پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایران میں پانی کی قلت اور ماحولیاتی مسائل کے ذمہ داریہ’’ بند‘‘ ہیں کہ جن کو ہم سے مشاورت کے بغیر ہی تعمیر کیا جارہاہے۔ صدرنے خبردارکیاکہ’’ہم اس بات سے لا تعلق نہیں رہ سکتے، جو ہمارے ماحول کیلئےنقصان دہ ہو۔افغانستان میں مختلف بندوں کی تعمیر، جس میں شمال اور جنوبی افغانستان میں کجاکی، کمال خان اور سیلما بند شامل ہیں، جو کہ ہمارے خراسان، سستان اور بلوچستان صوبے پر اثر انداز ہوتے ہیں‘‘۔
افغان حکومت نے صدر روحانی کے تبصرے پر فوراََ ردِعمل ظاہر کیا۔ افغانستان کی وزارتِ توانائی و پانی کے نائب وزیر عبدالبصیر اعظمی نے صدر روحانی کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ افغان حکومت پانی کے وسائل کا انتظام ملک کے قومی مفادات اور بین الاقوامی قوانین کے تحت کرتی ہے۔ انھوں نے مزید بتایا کہ افغانستان کی معیشت کا انحصار زیادہ تر شعبہ زراعت پر ہے، اور پانی کے بہتر انتظامات معیشت کو بہتر کرنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں، اوراس طرح کے انتظامات افیون کی کاشت کو کم کرنے اور افغانیوں کو اپنے ملک میں ہی رہنے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ اعظمی صاحب نے زور دیا کہ اگر ایران افغانستان کو مستحکم اور خوشحال دیکھنا چاہتا ہے تو اسے افغانستان میں بند کی تعمیر کو اپنے لیے خطرہ نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ ایسے تعمیراتی منصوبوں میں ہمارے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔
حیات اللہ حیات جو کہ جنوبی ہلمند صوبے کے گورنر ہیں، ان کے مطابق پاسدارانِ انقلابِ اسلامی نے طالبان کو کچھ جدید ہتھیار فراہم کر رکھے ہیں تاکہ ملک کے کچھ بند وں کو غیر فعال کر سکیں، جس کے نتیجے میں دریائے ہلمند سے پانی کا بڑا حصہ تہران کو حاصل ہو سکے۔ بالکل اسی طرح جمیلا امینی ، جو کہ ’فراہ‘ کی صوبائی کونسل کی سربراہ ہیں، (ایک ایسا افغان صوبہ جس کی سرحد ایران کے صوبے سیستان اور بلوچستان کے ساتھ لگتی ہے) اُنہوں نے بھی الزام عائد کیا ہے کہ IRGC تیزی سے طالبان جنگجوؤں کی امداد کر رہا ہے تاکہ صوبے میں بختاباد بند کی تعمیر رکواسکے۔ اس وقت صوبہ سیستان اور بلوچستان پانی کی بدترین قلت کی وجہ سے مسائل کا شکار ہیں، اور ایرانی حکام کے مطابق ہلمند میں برطانوی تعمیر شدہ ’’کجاکی بند‘‘ پر دوسرے مرحلے میں کام شروع ہوگیا ہے جو کہ ایران کیلئےمزید پریشانی کا باعث ہے۔
ایرانی رہنماؤں کی نظر میں تمام ترصورتحال کے ذمہ دار پڑوسی ممالک ، پانی کی انتظامی حکمتِ عملی ، خطے میں امریکی افواج کی موجودگی، موسمیاتی تبدیلی اور بڑھتے ہوئے ماحولیاتی مسائل ہیں، مگر وہ ملک میں بڑھتی ہوئی بدعنوانی،بدانتظامی اورغلط حکومتی پالیسیوں کونظر انداز کر دیتے ہیں، جو کہ ملک میں موجود بحران کی اصل وجہ ہے خصوصاََ مشرقی اور مغربی پسماندہ صوبوں میں اور اس کے علاوہ ایران کی طرف سے طالبان کی خاموش حمائت بھی امریکااوراس کے اتحادیوں کیلئے ناقابل قبول ہے جس کی بناء پروہ خطے میں بدترین آبی اور ماحولیاتی مسائل کوبڑھا چڑھاکرپیش کرکے اپنے مفادات کی تکمیل کیلئے سازشوں میں مصروف رہیں گے۔
دوسری طرف ایرانی نیوز ایجنسی کے مطابق ایران کے وزیرانصاف علی رضا ایوائی نےایران اورکابل کے درمیان قیدیوں کے تبادلے پرعملدرآمدکو یقینی بنانے کے لیے ریاستی معاہدے پر اطمینان کا اظہار کیاہے۔ اس ضمن میں دونوں ممالک کی جانب سے بھرپورتعاون کایقین دلایاگیا ہے ۔یاد رہے کہ ایران کی مختلف جیلوں میں تقریباً 5 ہزار افغان باشندے جبکہ 22ایرانی افغانستان کی جیلوں میں اسیری کی زندگی گزاررہے ہیں۔ اس ضمن میں ایرانی میڈیا نے بتایا کہ بیشترافغان منشیات کی اسمگلنگ میں ملوث میں گرفتارکئے گئے۔اس حوالے سے وزیرانصاف علی رضا ایوائی نے ایرانی نیوز ایجنسی کوبتایا کہ اس ضمن میں دونوں ممالک کی جانب سے بھرپورتعاون کیا گیا۔ دوسری جانب ایرانی وزیر کے ہم منصب افغان کے وزیر انصاف عبدالبصیر انور نے بتایا کہ ایران کی مختلف جیلوں میں تقریباً 5 ہزار افغان باشندے زیر حراست ہیں۔ اجلاس کے دوران افغان نائب وزیرانصاف برائے انسانی حقوق اور عالمی امورمحمود عباسی نے بتایا کہ گزشتہ دو برسوں میں تقریباً 650 افغان قیدیوں کوواپس منتقل کیاگیاہے اورمزیدقیدیوں کی واپسی کیلئے بہت جلدمعاہدے طے پاجائیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ دونوں ممالک کے مابین قیدیوں کے تبادلے کا ریاستی معاہدے نہ ہونے کی وجہ سے رکاوٹ کاسامنا ہے۔ اجلاس کے آخر میں دونوں ممالک کے وفود نے جوڈیشل تعاون پرمعاہدہ کیاہے جس کے بعدامیدہے کہ قیدیوں کے تبادلے پر جلدعملدرآمدشروع ہوجائے گا لیکن افغان ایران آبی تنازعہ پرڈیڈلاک جاری ہے جس کی وجہ افغانستان کی کٹھ پتلی حکومت پر جہاں امریکی دبائو ہے وہاں افغانستان میں ہونے والے انتخابات کے نتائج کااعلان ہوناابھی باقی ہے۔ فی الحال افغان طالبان نے اس معاملے پرمکمل خاموشی اختیار کررکھی ہے کیونکہ طالبان کی اس وقت پوری توجہ مستقبل میں ہونے والے براہ راست افغان طالبان کے ساتھ امریکی ممکنہ مذاکرات پرہیں جس کیلئے قطرمیں امریکاکے خصوصی مندوب برائے افغانستان زلمے خلیل زادنے تین رکنی وفدکے ساتھ ملاقات کرکے براہ راست مذاکرات کی خواہش کااظہارکیاہے۔ تاہم یہ بات طے ہے کہ افغانستان اورایران کے مابین یہ آبی تنازعہ مستقبل میں دونوں ممالک کیلئے پریشانی کاسبب بن سکتاہے کیونکہ عالمی طور پر آبی قلت کی بناء پرپانی کے ذخیروں میں خاطرخواہ کمی واقع ہورہی ہے اورپانی کی بنیادمیں دنیاکے کئی ممالک میں کشیدگی میں اضافے کی پیش گوئیاں جاری ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں