افغان انتخاب کاانعقادمشکوک

:Share

یکم اپریل 2018 ء کوافغانستان کے خود مختار الیکشن کمیشن نے رواں سال 20 اکتوبرکوپارلیمانی انتخابات کرانے کاجواعلان کیاتھااس کے بعد تسلسل کے ساتھ جاری رجسٹریشن سینٹرز پر خودکش حملوں کی وجہ سے انتخابات کیلئے رجسٹریشن میں انتہائی کمی آگئی ہے۔یادرہے کہ افغانستان میں پارلیمانی اور ضلعی کونسلزکے طویل عرصے سے نہ ہونے والے انتخابات تمام تر سکیورٹی مسائل کے باوجودرواں سال کرائے جانے کی جوامید پیدا ہوگئی تھی ،وہ دم توڑتی ہوئی نظرآرہی ہے۔افغانستان میں گزشتہ 3 سال سے پارلیمانی انتخابات کی تاریخ باربارتبدیل ہورہی ہے اور ووٹررجسٹریشن سمیت سکیورٹی مسائل کے باعث انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ہوپارہا ہے تاہم حزب اسلامی کے امیرگلبدین حکمت یارکی افغانستان واپسی پر امیدہوگئی تھی کہ افغانستان میں انتخابات کے بعدامن کاعمل شروع ہوجائے گالیکن اب حزب اسلامی کے سربراہ نے حکومت پرمسلح گروہوں کی سرپرستی کرنے کاالزام عائدکرتے ہوئے اسے الیکشن ملتوی کرنے کی سازش قراردیاہے جبکہ شمالی اتحادکے زیرکنٹرول علاقوں میں بھی پختونوں کو رجسٹریشن کرنے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے تاکہ حکمت یارکی اقتدارتک رسائی روک سکیں۔
افغانستان کے طول وعرض میں انتخابات کیلئے جاری رجسٹریشن کے سنٹرزپرخودکش حملوں سے سینکڑوں افرادجاں بحق ہوئے ہیں جس کے بعد افغانستان کے ان علاقوں میں جہاں پرپختونوں کی آبادی زیادہ ہے اورجہاں سے حزب اسلامی کوآئندہ انتخابات میں یقینی کامیابی مل سکتی ہے،وہاں پررجسٹریشن میں نہ صرف خاصی کمی آئی ہے بلکہ کنٹرمیں اب تک صرف تین ہزارافرادنے رجسٹریشن کرائی ہے۔اسی طرح غزنی،قندھار،لوگر میدان وردگ ،خوست ،پکتیا،پکتیکا،نورستان، کابل،اورزگان،زابل،ہلمند،ننگرہار،لغمان اوردیگر صوبوں جہاں پرپختونوں کی اکثریت ہے،وہاں پر رجسٹریشن نہ ہونے کے برابرہے اورشنیدیہ ہے کہ رجسٹریشن سنٹرپرخودکش حملوں سے پختونوں کوانتخابات میں اپنی وفاداریاں تبدیل کرنے کاپیغام دیاجارہاہے۔ان علاقوں میں رجسٹریشن سینٹرزپرداعش کے حملے کئے گئے جبکہ شمالی افغانستان کے ان علاقوں میں جہاں پرپختونوں کی نمائندگی پائی جاتی ہے وہاں پرپختونوں کورجسٹریشن سے روکاجارہاہے جبکہ شمالی اتحادکے ووٹرزکوبڑے پیمانے پررجسٹریشن دی جارہی ہے۔
حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یارنے شمالی افغانستان کے دورے کے دوران عمائدین، طلبا،صحافیوں اوردانشوروں سے پردان اور دیگر علاقوں میں طویل نشستیں کی ہیں اوراس کے بعدتفصیلی بیان جاری کیاہے۔حکمت یار کی جانب سے جاری بیان میں کہاگیاہے کہ اس وقت ملک میں داعش کے تین گروہ پائے جاتے ہیں جس میں ایک گروہ وہ ہے جوعراق اورشام میں لڑائی کیلئے گیاتھااوراب ایران کے راستے افغانستان میں داخل ہورہاہے اورافغانستان میں نئی جگہ ڈھونڈ رہاہے۔داعش کادوسراگروہ وہ ہے جوافغان طالبان سے ناراض ہے اورتشددپرزیادہ یقین رکھتاہے،وہ گروہ افغانستان میں سرگرم ہے تاہم ایک تیسراگروہ ہے جومسلح ملیشیاپرمشتمل ہے اوراس کی سرپرستی افغان حکومت کررہی ہے جونہ صرف زیادہ خطرناک ہے بلکہ وسائل کے اعتبارسے اس کی ہرجگہ رسائی ہے اوریہ گروہ کابل،بغلان اورخوست میں ہونے والے حملوں میں ملوث پایا جاتا ہے کیونکہ حکومت میں شامل بعض عناصرچاہتے ہیں کہ اکتوبرمیں پارلیمانی انتخابات کانعقادنہ ہو اوراگرانتخابات کاانعقادہوبھی توٹرن اووراتناکم ہوکہ پختون علاقوں سے حزب اسلامی کے لوگ کامیاب نہ ہوں اورنہ ہی سابق جہادی اورسابق طالبان رہنماء پارلیمان پہنچیں بلکہ شمالی افغانستان سے اراکین کوپارلیمان پہنچایاجائے جبکہ دیگرلوگوں کاراستہ روکاجائے تاکہ شمالی افغانستان کے لوگ گزشتہ سولہ سال کی طرح افغان عوام پرمسلط رہیں اورامن اورروزگارکے حالات مزیدابترہوں اورافغانستان کے مشرقی و جنوب مشرقی علاقوں میں حالات جوں کے توں رہیں تاکہ ان کی سیاست جاری رہے۔
حزب اسلامی کی جانب سے جاری بیان میں حکومت کومتنبہ کیاگیاہے کہ وہ ان مسلح افرادکی سرپرستی چھوڑدے جوداعش کے نام پرعام افغانوں کوقتل کر رہے ہیں،اس سے افغانستان میں مزیدخون خرابے کاقوی امکان ہے۔اگرافغانستان میں جمہوری طریقے سے تبدیلی نہیں لائے گی توپھرلوگ مسلح راستہ اختیارکریں گے۔حزب اسلامی نے افغان طالبان سے بھی درخواست کی ہے کہ وہ انتخابات کے انعقادمیں اپناکرداراداکریں اور رجسٹریشن سینٹرزکے عملے کودہمکانے سے بازرہیں بلکہ رجسٹریشن کیلئے آنے والوں کی حوصلہ افزائی کریں اوراپنے زیرکنٹرول علاقوں میں زیادہ سے زیادہ ووٹ رجسٹرکریں کیونکہ مستقبل میں یہی کم رجسٹریشن طالبان کیلئے مسائل پیداکرے گی جبکہ طالبان کے وہ عناصرکوجومسلح کاروائیوں کا حصہ نہیں ہیں ،انتخابات میں حصہ لیں تاکہ پارلیمان میں پہنچ کرایک مضبوط سیاسی قوت کے طورپرغیرملکیوں کے انخلاء میں حزب اسلامی کی کوششوں کاحصہ بن جائیں۔
حزب اسلامی کاکہناہے کہ آج کل طالبان کم رجسٹریشن پرخوش ہورہے ہیں کل یہی رجسٹریشن طالبان کیلئے مسائل پیداکرے گی کیونکہ ساری عمر لڑائی توجاری نہیں رہے گی جبکہ حزبِ اسلامی کواقتدارسے روکنے کیلئے سازشیں کی جارہی ہیں جس میں رجسٹریشن سینٹرزپرخودکش حملوں سے خوف وہراس پیداکیاجارہاہے۔دوسری جانب افغان طالبان نے ملک کے طول وعرض میں افغان الیکشن کمیشن کے سینٹرز پرخودکش حملوں سے لاتعلقی کااظہارکیاہے۔طالبان کی جانب سے جاری بیان میں کہاگیاہے کہ طالبان کاان حملوں سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ اس طرح کے تمام حملوں پرگزشتہ عیدسے پابندی عائدکردی گئی تھی اوروہ پابندی آج بھی برقرارہے۔عوام خود رجسٹریشن میں حصہ نہیں لے رہے کیونکہ افغان عوام انتخابات کے عمل سے بیزارہوچکے ہیں اوراس عمل کوغلامی میں مددگارسمجھتے ہیں۔حکومت اپنی کارکردگی بہتربنانے میں ناکام رہی اوراقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سولہ سال میں افغانستان میں غربت میں اضافہ 37فیصدسے بڑھ کر52فیصدہوگیاہے جودنیامیں سب سے زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ افغان عوام رجسٹریشن سینٹرزمیں آکررجسٹریشن میں حصہ نہیں لے رہے تاہم طالبان کسی بھی رجسٹریشن کونشانہ نہیں بنائیں گے۔افغان طالبان عوامی مراکز،ہسپتالوں اوربازاروں کانشانہ نہیں بنائیں گے تاہم انہوں نے افغان عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ الیکشن کے ڈرامے سے دوررہیں۔
دوسری طرف افغان صدراشرف غنی نے الیکشن کمیشن سے کہاہے کہ وہ ملک کے طول وعرض میں رجسٹریشن کے عمل کوتیزکریں اورجوسیکورٹی چاہئے وہ افغان حکومت فراہم کرے گی۔ دوسری جانب یورپی یونین نے افغانستان میں الیکشن کے انعقادکیلئے مزیدامداد دینے کااعلان کیاہے اور افغان الیکشن کمیشن کاکہناہے کہ انہیں جن مالی مسائل کاسامناتھاان پراس امدادسے قابوپالیا جائے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں