خیبرپختونخواہ میں گزشتہ پانچ سال سے برسراقتدارتحریک انصاف نے 2013ء میں اقتدارمیں آنے کے بعداس وقت اپنی حکومت کونیب سے بچانے کیلئے راتوں رات خیبرپختونخواہ احتساب کمیشن کے نام سے ادارہ قائم کیااوراسے اسمبلی سے منظورکرایاگیااورموجودہ وزیراعظم اورتحریک انصاف کے سربراہ عمران خان ،اس وقت کے وزیراعلیٰ خیبرپختونخواہ پرویز ختک ،ان کے وزراء اورپارٹی کے رہنماؤں نے سوشل میڈیاسے لیکر دھرنوں تک احتساب کمیشن کے بارے میں اتناڈھنڈوراپیٹاکہ خیبرپختونخواہ کے عوام کو احتساب ہی احتساب نظرآنے لگا۔خیبرپختونخواہ احتساب کمیشن کواس وقت پذیرائی ملنے لگی جب انہوں نے صوبے کے وزیرمعدنیات تحریک انصاف کے رکن ضیاء اللہ آ فریدی کوگرفتارکرکے ان پرمقدمہ چلایاتاہم بعد میں جلدہی پتہ چل گیاکہ ضیاء ا اللہ آ فریدی پرسیاسی طورپرمقدمات چلائے گئے تھے اوروزیراعلیٰ سے اختلاف پران کونشانہ بناکران پرمقدمات قائم کئے گئے تھے ۔ضیاء اللہ آفریدی رہاہوکراسمبلی میں بیٹھے رہے اورپھرپیپلزپارٹی میں شامل ہوگئے۔
اس دوارن احتساب کمیشن نے وزیراعلیٰ تک ہاتھ بڑھایااورتحریک انصاف کے وزراء اوروزیر اعلیٰ پرویزختک کے خلاف انکوائریاں شروع کیں تو تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے احتساب کمیشن کے پرکاٹنے شروع کردیئے اوربالآخراحتساب کمیشن کے اس وقت کے ڈی جی کوعمران خان کوخط لکھ کرمداخلت کی اپیل کرناپڑی تاہم وزیراعلیٰ اس قدرطاقتورنکلے کہ اپنے عمل پرڈی جی احتساب کمیشن کواستعفیٰ دیناپڑااورپھرتین سال تک خیبر پختونخواہ احتساب کمیشن کوقائم مقام لوگوں سے چلایاگیا ۔اس دوران درجنوں ملازمین رکھے گئے،قیمتی گاڑیاں خریدی گئیں ۔گزشتہ چندسالوں میں خیبرپختونخواہ احتساب کمیشن پر55کروڑ روپے سے زائدپھونک دیئے گئے ۔2018ء کے عام انتخابات میںپی ٹی آئی کی کامیابی اور مرکزمیں حکومت بنتے ہی پی ٹی آئی نے صوبائی احتساب کمیشن ختم کرنے پرغورشروع کردیاتھاکیونکہ قومی احتساب بیوریوخیبرپختون خواہ اور خیبرپختون خواہ احتساب کمیشن ادارے ایک دوسرے کے مدمقابل تھے تاہم اس دوران نیب کی کارکردگی بہتر رہی اورنیب کے مرکزی طورپرپی ٹی آئی حکومت کے زیرتابع ادارے کی صورت میں پی ٹی آئی نے تحقیقات کمیشن ختم کرنے کااعلان کردیاتاہم اے این پی کے اسفندیارولی خان،پارلیمانی لیڈرسردار حسین بابک ،جے یوآئی کے فضل الرحمان ،صوبائی اپوزیشن لیڈراکرم درانی نے احتساب کمیشن کے خاتمے پرشدیدنکتہ چینی کی جس کی مدمیں غریب صوبہ کے 55 کروڑ کی خطیررقم اڑادی گئی اوراب اس کی تدفین کی جارہی ہے۔
واضح رہے کہ کابینہ نے چندروزقبل باضابطہ طورپرصوبائی احتساب کمیشن کوعملاًدفن کردیاہے ۔اس کے سرکاری ملازمین کودیگرمحکموں میں ضم کرنے،کنٹریکٹ ملازمین کوفارغ کرنے،قیمتی گاڑیوں کوصوبائی محکموں کودینے یاانہیں نیلام کرنے کافیصلہ کیاگیاہے ۔خیبرپختون خواہ کی صوبائی کابینہ نے احتساب کمیشن ختم کرنے کی منظوری دینے کے بعدصوبائی اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے کی تیاریاں شروع کردی ہیں تاکہ باضابطہ طورپر اس کمیشن کی فاتحہ خوانی اسمبلی کے ذریعے کرائی جاسکے۔ خیبرپختون خواہ احتساب کمیشن نے پرویزختک اوران کے ساتھیوں کے کہنے پرصوبائی بیوریو کریسی کوڈرائے دہمکائے رکھااور55کروڑخرچ کرنے کے باوجود دو کروڑسے زائدکی ریکوری کی جوخرچ کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔اس کے مقابلے میں صوبائی نیب نے کئی متاثرین کونہ صرف ان کے ڈوبے ہوئے پیسے دلوائے بلکہ مضاربہ اسکیموں، خوشحال گارڈن نوشہرہ،شیخ یاسین ٹاؤن جس میں لوگوں کے ڈوبے ہوئے اربوں روپے نہ صرف نکلوائے بلکہ انہیں متاثرہ افرادکے حوالے بھی کیا گیا۔
گزشتہ دنوں خوشحال گارڈن کے کروڑوں روپے متاثرین میں تقسیم کئے گئے جبکہ اس کے مقابلے میں نہ صرف صوبائی احتساب کمیشن ناکام رہابلکہ صوبائی احتساب کمیشن بنانے کے بعدپی ٹی آئی حکومت نے صوبائی محکمہ اینٹی کرپشن کوبھی غیرفعال کردیاتھاجس کی وجہ سے صوبے کے قیمتی چار سال ضائع کر دیئے گئے جبکہ کروڑوں روپے الگ اڑادیئے گئے۔ اپوزیشن نے احتساب کمیشن کوختم کرنے پرسوالات اٹھادیئے ہیں اور صوبائی اسمبلی میں اس پر گرماگرم بحث کی بھی توقع کی جارہی ہے۔اس وقت اپوزیشن ارکان نے اس احتساب کمیشن کووقت کازیاں قراردیاتھااورپی ٹی آئی حکومت پرالزام عائدکیاتھاکہ صوبائی حکومت نیب سے اپنے آپ کوبچانے کیلئے احتساب کمیشن بنوارہی ہے اوراحتساب کمیشن کاکوئی فائدہ نہیں تاہم اس وقت صوبائی حکومت کامؤقف تھاکہ قومی احتساب بیوریوکے قوانین کی وجہ سے جلداحتساب ممکن نہیں جبکہ سرکاری اہلکاروں،حکومتی عہدیداروں اورزمینوں کے معاملات میں سستاانصاف اورجلداحتساب کیلئے احتساب کمیشن بنایاجارہاہے تاہم اب صوبائی حکومت کو احساس ہو گیا ہے کہ فوری احتساب ممکن نہیںہے اورحکومت کے اخراجات میں اضافہ ہورہاہے۔
تاہم اہم ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کی حکومت پانچ سال مسلم لیگ ن کے زیراثرقومی احتساب بیوریوسے اپنے آپ کوبچانے میں کامیاب رہی اور اب قومی سطح پرحکومت میں آنے کے بعد صوبائی کمیشن کی ضرورت نہ ہونے کی وجہ سے اسے ختم کیاجارہاہے،یہاں یہ بات واضح رہے کہ عمران خان کی حکومت کوصوبائی حکومت کاہیلی کاپٹرمبینہ طور پر غیر قانونی طورپراستعمال کرنے جبکہ سابق چیف سیکرٹری اوروزیراعظم کے پرسنل سیکرٹری اعظم خان اورسابق وزیر اعلیٰ پرویزخٹک کومالم جبہ میں مبینہ طورپرغیرقانونی طورپرجنگلات کی زمین لیزپردینے جیسے اہم الزامات کا سامنا ہے جبکہ اب نیب نے خیبرپختونخواہ سے تعلق رکھنے والے سابق وفاقی وزیر مواصلات ارباب عالمگیر،ان کی اہلیہ عاصمہ عالمگیرکے خلاف کرپشن کرنے کے الزام میں ریفرنس دائرکرنے جبکہ پیپلزپارٹی کی سینیٹرروبینہ خالد کے خلاف انکوائری کرنے کی بھی منظوری دی ہے تاہم بینک آف خیبر کے معاملے پرابھی تک نیب بھی کسی قسم کاایکشن لینے میں ناکام ہے۔ایک مثل بہت مشہورہے کہ ”دوسروں کونصیحت اورخودمیاں فصیحت” کے مصداق اب ضروری ہوگیاہے کہ عمران خان اوران کے ساتھیوں پرہیلی کاپٹر،بنی گالہ کی ناجائزتجاوزات کے علاوہ پی ٹی آئی کے بنیادی رکن ایس اکبرکے عمران خان پربیرونی فنڈزلینے اوراس میں میں خرد بردکرنے کے تمام الزامات کا بھی نوٹس لیاجائے۔۔
یادرہے کہ تحریک انصاف کے منحرف رہنماورکن صوبائی اسمبلی ضیا اللہ آفریدی نے نجی ٹی وی کوانٹرویومیں الزمات کی بوچھاڑکرتے ہوئے الزام لگایاتھا کہ عمران خان ہمیں مغربی اخلاقیات کادرس دیتے ہیں خودبھی اخلاقیات پرعمل پیراہوں،سیاستدانوں کی پگڑیاں اچھالنے اوراحتساب کمیشن بنانے پرقوم سے معافی مانگیں۔عمران خان اور تحریک انصاف نے احتساب کمیشن کے نام پرسیاست چمکائی،قوم کوبیوقوف بنایا،صوبائی احتساب کمیشن کے افسران غریب صوبے کے اربوں روپے کھاگئے،مشتاق غنی کاجلد3ارب روپے کی کرپشن کا سکینڈل جوسامنے آنے والاہے، اس کوکیوں دبالیا گیاہے؟ اب ضرورت اس امرکی ہے کہ احتساب کانیاادارہ قائم کیاجائے جہاں عمران خان اوران کے کرپشن میں ملوث سب ساتھی احتساب کیلئے پیش ہوں۔