aashoub-a-shahar

آشوبِ شہر

:Share

ہائے تشویش ہمیں تیراخیال ہے،جب دیکھوہم تجھ میں مبتلارہتے ہیں ۔تجھ سے محبت کرتے ہیں،ہائے ہائے کادردکرتے ہیں۔ہاں ہم اظہاریکجہتی کیلئے تصویریں بناکراخبارات میں چھپواتے ہیں تاکہ سندرہے کہ ہم تشویش کی بیماری میں یکجہتی بھی کرتے ہیں۔یہ دیکھوتصویری ثبوت،ہم دن مناتے ہی، ماں کا دن،باپ کادن،محبوبہ کادن،اورنجانے کتنے دن۔ چنددن پہلے ہم نے یوم اطفال منایا، بچوں کے حقوق پربڑی بھرپورتشویش کے ساتھ تقریر فرمائی اورسامعین کووقتی طورپرتشویش میں مبتلاکردیا۔اخبارات نے جلی حروف میں خبریں بھی شائع کی،چنددن پہلے ہم نے ایک خبردیکھی،ٹی وی نے اپنے کیمروں کی آنکھ سے یہ منا ظرمحفوظ کیے اورپھرچل سوچل۔اب بھی غربت اورافلا س سے مجبورمائیں اپنے جگرگوشوں کوایدھی سنٹرکے حوالے کردیتی ہیں کہ بچوں کی بھوک اوربیماری ان سے برداشت نہیں ہوتی۔وہ ایدھی جو گزشتہ سات دہائیوں سے سماج سیوا میں لگے رہے اور ان بیمار اور مفلس بچوں کو کھانا کھلانے کیلئےبھیک بھی ما نگتے رہے ۔دنیاسے رخصت ہوتے ہوئے اپنی آنکھیں بھی عطیہ کرگئے اورآج دوپڑھے لکھے نوجوان جوایک بم دہماکے میں اپنی آنکھوں سے محروم ہوگئے تھے، اپنے گھروں کے اکلوتے کفیل تھے،ایک مرتبہ پھرایدھی کی آنکھوں نے ان کی تاریک دنیاروشن کردی۔وہی بیکس ایدھی جوسڑکوں پر کھڑاسسکتی انسانیت کیلئے اپنی جھولی پھیلائے کھڑا رہتا تھا اور ہر گزرنے والا غریب ریڑھی اوررکشے والا بھی اپنی بساط کے مطابق پورے یقین کے ساتھ بخوشی اپنا حصہ ڈال کرمطمئن ہو جاتا تھا ۔اس کی رخصت کاجب وقت آیاتودنیانے دیکھاکہ ہماری فورسزکے تمام سربراہ باوردی اس کو سلیوٹ پیش کر رہے تھے اور پہلی مرتبہ کسی عوامی فقیر کا جنازہ سرکاری توپ پر رکھ کر بڑی شان سے آخری آرام گاہ تک پہنچایا گیالیکن خیراتی کاموں پر اپنی تشہیر کیلئے میڈیا کو استعمال کرنے والے بیشتر سرکاری رہنماء ایدھی کے جنازے سے بھی محروم رہے یا یوں کہیں کہ میرے رب نے ان کواجازت ہی نہیں دی۔

اس سے پہلے ہم نے برداشت کا دن منایا تھا لیکن آخر کب تک برادشت!بس تبلیغ ہی تبلیغ، لیکچر ہی لیکچر، باتیں ہی باتیں، سیمینارسجائیے ،یہ شدّاد کی جنت پنج ستارہ ہو ٹل کس لیے ہیں،سجی ہوئی لمبی سی میز، ترتیب سے رکھے ہوئے گلاس جن کے اندرسفید رومال ٹھنساہوتاہے اورپھرمنرل واٹر۔میزکے کناروں اور درمیان میں تازہ پھولوں کا پیپر، ڈھیر، گہری سوچ میں ڈوبےتشویش زدہ دانشور۔ آسودہ حال ،سوشل اور ٹائم پاس سا معین،ٹشو کافی،چائے، پیسٹری کوکیز کے شوقین ۔مستعداورفرمانبردارویٹرزاورہرلمحے کومحفوظ کرنے والے کیمرے،کیاخواب ناک ماحول؟اورپھرسیمینارختم اورپیسہ ہضم ۔وہی ڈھاک کے تین پات، چکنے گھڑے۔ ہرایک پندرونصائح کاٹوکراسرپراٹھا ئے گھوم رہاہے۔باتیں لے لوباتیں کتنے کلوچاہئیں!لوگ مہنگائی کورورہے ہیں۔وہ شکوہ کررہے ہیں ارزانی نہیں ہے، ارے کتنی باتیں چاہئیں،کتنے لیکچرچاہئیں باتیں اورہاں وہ بھی بالکل مفت۔دوچارمن تومیں خودبھی اٹھائے گھوم رہاہوں۔ باتوں سے مرعوب کرنے والے روح سے خالی جسم اورویسی ہی باتیں بس بولناہے۔بولتے رہناہے کرناکرانا کچھ نہیں ۔

ہم سب اشتہارکے رسیاہیں،بس اشتہارچھپاتودوڑپڑتے ہیں۔پھرہرایک کے دل میں دردبھرجاتاہے تصویرکھنچوانی ہے ناں جناب۔ پھر کوئی راشن لیکرپہنچ جاتاہے کوئی نوکری دینے لگتاہے،سب حاتم طائی کی اولادبن جاتے ہیں۔ویسے سوشل ڈنرکرتے ہیں پارٹیاں منعقدکرتے ہیں جھوم برابرجھوم،دودولاکھ کاعروسی جوڑا،اور لاکھوں روپے کے زیورات،دکھاواہی دکھاوا۔پوچھاجائے کہ لائے کہاں سے یہ دولت؟توتیوری پربل پڑتے ہیں۔ہمارے ہرحاکم نےحج پرحج،عمرے پرعمرہ، جہازبھربھرکرلے جانے میں کوئی کسرنہیں چھوڑی،کروڑوں روپے قومی خزانے کے گئے اورخودکوثواب کاحقدارٹھہراتے رہے۔ ابھی دیکھانہیں آپ نے عید ِقرباں پرایک سے ایک بڑھ کرخبرآرہی ہے،الیکٹرانک میڈیابارباراپنے ناظرین کوقربانی کے جانوروں کے ساتھ ”سیلفیاں” بنانے کی ترغیب دے رہے ہیں کہ ہم اپنے چینلزپراس کی تشہیرکریں گے۔ الیکٹرانک کاسامان فروخت کرنے والوں کااشتہارچل رہاہے کہ قربانی کے گوشت کو محفوظ کرنے کیلئے”ڈیپ فریزر”پرسیل لگادی ہے۔

اتنے لاکھ کابکرا،اتنے لاکھ کابچھڑا،ڈیڈی نے اتنے کروڑکے جانورقربان کردئیے لیکن قربانی کاگوشت اپنے ان ملنے والوں کوبھیجا جائے گاجہاں سے واپس گوشت ملنے کی امیدہوگی۔قربانی کے گوشت کو اپنے ڈیپ فریزروں کی زینت بنایاجائے گا کہ اگلا پورا مہینہ اس کے ساتھ صحیح انصاف کیا جائے گا۔شام کو اپنے رشتہ دار اور دوستوں کو گھرپر دعوت کیلئے بلا کر اس کی”سیلفیاں”دوبارہ ٹی وی چینلز پر چلائی جائیں گی،لیکن کسی کویہ خبر نہ ہو گی کہ اس کے پڑوس میں عید قرباں کے دن بھی کوئی بھوکا یا پھرسے دال پکا کر اپنے بچوں کو اچھے وقت کی امیدکا دلاسہ دے کراپنے زخمی دل کے ساتھ آسمان کو تک رہا ہو گا۔خاک بسر لوگ قربان ہو رہے ہیں کس کی کان پرجوں تک نہیں رینگتی،سب کچھ اپنے اللے تللوں اور نمائش کیلئے،ہم وہ نمائشی بھکاری ہیں جنہیں اپنے پڑوسی کی تو خبر نہیں اور رو رہا ہوں پورے ملک کو۔ یہاں کماؤحلال حرام کے چکرچھوڑو۔باہرکے بینکوں کے پیٹ بھرو۔یہاں بھی عیش اورباہربھی عیش۔ رندکے رندرہے اورہاتھ سےجنت نہ گئی۔
تصویرِشاہکاروہ لاکھوں میں بک گئی
جس میں بغیرروٹی کے بچہ اداس ہے

سب ڈھکوسلہ،جعلی پن بکواس ڈھٹائی،بے حسی اوربے غیرتی،وہ جنابِ عیسیٰ نے باآوازبلندکہا:ماروضرورماروپتھرلیکن پہلا پتھروہ مارے گاجوپوترہو۔ہم توخودترسی کے مریض ہیں خداکیلئےترس کھاؤہم پر۔زندگی کے نام پربدترین موت۔ کبھی دوپل نہیں سوچتے کہ کب تک ایساہوتارہے گاکب تک بھیک مانگیں گے!شرم وحیا کالفظ ہی ہماری لغت سے غائب ہوگیاہے،ہمیں بھیک چاہیے دیتے جاؤ ہمارے ساتھ جوچاہے کرلوہاں جوچاہے کروبہن لے لو۔ہماری بیٹی لے لو۔جوچاہولے لوبس بھیک دے دو۔لعنت ہے ایسے جینے پر۔کچھ نہیں بدلنے کایہاں کچھ بھی نہیں۔ہم خودکونہیں بدلتے توسما ج کیسے بدل جائے گا!ہرایک اپنااُلّو سیدھا کرنے میں لگاہواہے۔بس آج کادن گزارناہے اس پیٹ کے دوزخ کوبھرناہے چاہے عزت بیچنی پڑے،گالیاں سننی پڑیں بس پیٹ بھرنے کیلئےراتب دے دو۔پھرسڑکوں پر آکریہ جیوے وہ جیوے اورتبدیلی کے نعرے،کب ہوش میں آئیں گے؟
وہی عشوہ گری ہے اوروہی رسمِ عزاداری
یہاں طرزِطرب،نہ شیوہ ماتم بدلتاہے

کہیں پرکسی مظلوم پرظلم ہوتاہے اورہم سب تماشادیکھتے ہیں۔کیاہم اخبارکی وہ سرخی بھول گئے،قبضہ گروپ کی چنگیزی،مڈل کی طالبہ کوبرہنہ کرکے کھمبے سے باندھ کرسرعام تشدد،اہل محلہ کی منتیں،حوّاکی بیٹی پرچادرڈالی گئی تھی۔آپ کہتے ہیں کہ میں بہت سخت زبان استعما ل کرتاہوں۔ایک معصوم بچی کو پورے محلے کے سامنے برہنہ کیا گیا اور پورا محلہ ان کی منتیں کرتا رہا۔اسے بے غیرتی نہ کہوں تو کیا کہوں!اگر وہ متحد ہو جاتے تو کس کے باپ میں اتنا دم تھا کہ وہ کسی معصوم بچی کو برہنہ کرتا لیکن جناب بہت پیاری ہے ہمیں اپنی جان،بے غیرتی کا شاہکار زندگی۔مجرموں کی بعد میں اوران اہل محلہ کی کھال پہلے کھینچنی چاہیے کہ تم میں سے کوئی ایک بھی غیرت مندنہیں تھا،سب کے سب بے غیرتی کامجسمہ! میں کہوں گا کہ پھرایسے بے غیرتوں کو جینے کا حق ہی نہیں ہے۔

چلیں ایک اورخبرکی یادتازہ کردوں،کہیں آپ بھول نہ گئے ہوں۔کاشانہ ہوم اسکینڈل کےلرزہ خیزواقعے پرمنوں مٹی ڈالنے کیلئے کیا کچھ نہیں کیاگیا۔یتیم بچیوں کی یہ پناہ گاہ بھی محفوظ نہ رہ سکی۔آخرکیاوجہ ہے کہ اس ادارے کی خاتون سپرنٹنڈنٹ افشاں لطیف اپنے ہی ادارے اوروزیرکے خلاف کیوں کھڑی ہوگئی؟محکمے کی بدبوقالین کے نیچے چھپانے سے انکار پرافشاں کی زبان بندی کیلئے کون سے حکومتی ہاتھ کام کررہے تھے،افشاں کاقصوریہ تھاکہ اسے جونہی محکمہ کی کالی بھیڑوں کے پوشیدہ حرکات کاعلم ہوا تواس نے اپنے ضمیرکے مطابق اس کاحصہ بننے سے نہ صرف انکارکردیابلکہ کھل کراس کے خلاف میدان میں نکل آئی۔

30مارچ،2019کورات کےایک بجے،ایک مشتبہ شخص نے کاشانہ کے گھرکادروازہ کھٹکھٹایا۔ چوکیدارمشتاق اس مشتبہ شخص سے اتناواقف نظرآتاہے کہ اس نےیہ سمجھے بغیرکاشانہ ہوم میں داخل ہونے کی اجازت دی کہ کاشانہ ہوم میں معصوم لڑکیاں ہیں ۔جیسے ہی اس شخص کی سی سی ٹی وی ویڈیولیک ہوئی ، اس وقت کے سپرنٹنڈنٹ، چوکیدار مشتاق، ڈرائیورمحمدیار، وارڈن عصمت حنیف، ایجوکیٹر فرزانہ اور سینئرکلرک غلام مصطفی شاہد کو فوری طورپران کے عہدوں سے ہٹا دیا گیا ،کیونکہ اگرانکوائری شروع ہوئی تو عملے سے پوچھ گچھ کی جائے گی اور معاملہ اسی مقام پر پہنچ جائے گا جہاں سب کوبے نقاب کر دیا جائے گا اور جہاں بھی اس کے لنکس پائے جاتے ہیں،وہ سب ننگے ہوجاتے۔افشاں کو برطرف کرکے نیا سپرنٹنڈنٹ مقرر کرکے اپنے تئیں یہ فائل بند کر دی گئی لیکن افشاں ڈٹ گئی کہ وہ اس معاملے کو انجام تک پہنچا کر دم لے گی کہ ملک کاحکمران تو پاکستان کو مدینہ ریاست بنانے کا اعلان کرتا تھا۔

ڈائریکٹرجنرل افشاں کرن امتیازکے خلاف افشاں لطیف کی درخواست پر5/اگست2019کوسی ایم آئی ٹی کے ذریعہ باقاعدہ کاروائی شروع کی گئی۔سی ایم آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ کے ممبرندیم وڑائچ نے تفتیش کے سلسلے میں5اگست کوافشاں لطیف کواپنے دفترمیں بلایا اوراس مسئلے کے بارے میں دریافت کیا۔سات اگست 2019کو،ندیم وڑائچ،محکمہ خواتین ترقیات کی سیکشن آفیسروجیہاکے ساتھ، محکمہ کی اجازت کے بغیرتین گھنٹے تک کاشانہ ہوم میں گھومتارہا۔ لڑکیوں کے کمروں میں وہ بغیراجازت کے چلاگیا۔ندیم وڑائچ نے سیکشن آفیسروجیہاکوپہلی منزل سے نیچے بھیجااورافشاں لطیف سے شرمناک سوالات پوچھتا رہا۔

چونکہ کاشانہ گھرمیں کیمرے نصب ہیں،لہذااس ساری کاروائی کوکیمرہ کی آنکھوں سے چھپادیاگیا۔ندیم وڑائچ نے افشاں لطیف پر دباؤڈالاکہ وہ افشاں کرن امتیازکے خلاف اپنی شکایت واپس لے ورنہ وہ،اس کے بچوں اورشوہرکوقتل کردیاجائے گا۔اس کے بعد، ندیم وڑائچ نے کاشنا ہوم کی تمام 57 یتیم اوربے سہارالڑکیوں کو ایک مشترکہ کمرے میں اکٹھاکیااوردھمکی دی کہ وہ انکوائری میں کسی کے خلاف کچھ نہیں کہیں گے اورافشاں کرن امتیاز کے حق میں بیان دینے کیلئےبھی دباؤ ڈالا۔جب افشاں لطیف اسپتال میں داخل لڑکی کی دیکھ بھال کیلئےاسپتال پہنچی تو،ندیم وڑائچ واپس کاشانہ گھرآیا،اورعملے کی موجودگی میں، وہ سپرنٹنڈنٹ افشاں لطیف کے کمرے سے تمام سرکاری ریکارڈلے کرواپس چلاگیا۔

سپرنٹنڈنٹ افشاں لطیف نے9/اگست2019کووزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزداراورسکریٹری بیت المال اورویلفیئر ہوم امبرین رضاکو تحریری طورپرندیم وڑائچ کے تنظیم ،تمام عملے اور لڑکیوں کو یرغمال بنانے اور دہمکیوں کی اطلاع دی لیکن جواب میں وزیربیت المال اور سوشل ویلفیئر اجمل چیمہ نے سپرنٹنڈنٹ افشاں لطیف کے خلاف ادارے میں مالی بدعنوانی کے الزام میں انکوائری شروع کرکے انتقامی کاروائی کاآغازکردیا۔افشاں نے اس مکروہ منصوبے کی تفصیلات بتاتے ہوئے الزام لگایاکہ اجمل چیمہ،افشاں کرن امتیازاوران کے باقی ساتھی جواس گروہ میں ملوث ہیں،ایک منصوبے کے مطابق، کاشانہ ہوم کی کچھ لڑکیوں کی،جن کی عمر16 سے 17سال تھی،کی شادی45سے 50سال کی عمرکےافرادسے کی جائے۔اسی کے ساتھ ہی5مرلہ کاپلاٹ خریدکراس کی تین منزلیں بنائیں اورشادی کے بعدلڑکیوں کواپنے شوہروں کے ساتھ بھیجنے کی بجائے ان فلیٹوں میں رکھناتھا۔ شادی کے دویاتین ماہ کے بعد،ان بوڑھے لوگوں کوفارغ کرکےان فلیٹوں میں لڑکیوں کووزیروں کے ذریعہ جنسی طورپراستعمال کیاجائے۔

جب افشاں لطیف پراس منصوبے پرعمل کرنے کیلئےدباؤڈالاگیاتواس نے احکامات ماننے سے انکارکردیا۔احکامات کوماننے سے انکارکرنے پروزیربیت المال نے کاشانہ ہوم کے فنڈزکوبھی روک دیاتاکہ لڑکیوں کو بھوک پیاس سے نڈھال دیکھ کرافشاں لطیف ماننے پرراضی ہوجائے۔یہاں یہ بھی کہناضروری ہے کہ انکوائری کمیٹی کے ممبرنے بھی نہ توافشاں کے ڈی جی پرلگائے گئے الزامات کی تحقیقات کی بلکہ افشاں لطیف اورعملہ سے بھی نہ پوچھاگیا بلکہ پنجاب کے دووزراء،ڈی جی افشاں کرن امتیاز اورسی ایم آئی ٹی کے ممبران نے درخواست واپس لینے کیلئے افشاں پرشدیددباؤبڑھادیا۔اسی دوران افشاں نے کاشانہ کی ایک یتیم لڑکی اقرا لطیف کی اچانک موت پرتشویش کااظہارکرتے ہوئے یہ بھی انکشاف کیاکہ وہ واحدلڑکی تھی جومختلف فلاحی تنظیموں کے چھپے مکروہ رازوں سے پوری طرح واقف تھی۔اسی دوران اس سارے معاملے کونیارنگ دینے کیلئے افشاں کے الزامات کوبے بنیادقرار دینے کیلئے سابق صوبائی وزیراجمل چیمہ کوکلین چٹ دے دی گئی۔

افشاں کی بہادری اورمستقل مزاجی کی بناءپریتیموں کی حفاظت اللہ نے کی اوروہ اس ظلم سے بچ گئيں لیکن یہ امرقابل ذکرہے کہ دارالامان میں رہنے والی یتیم لڑکیوں کووزراءاورحکومتی اعلی افرادکے مطالبات کوپوراکرنے کیلئےان کاغلط استعمال کیاجاتارہا ہے۔تاہم افشاں نے لاہورہائی کورٹ سے دارالامان کی بچیوں کوزبردستی شادیاں کرنے پرمجبورکرنے والے افرادکے خلاف کمیشن بنانے کی استدعاکی جوکہ ایک جائزمطالبہ ہے۔کیانئی حکومت اس سنگین جرم عظیم کی طرف توجہ دے گی یاپھرپنجاب میں اپنی حکومت کی سلامتی کیلئے جوڑتوڑمیں مصروف رہے گی۔

کتنی خبریں سناؤں،بالکل صحیح کہتی تھی میری ماں:جوسویاہواہواسے جگایاجاسکتاہے جوسونے کی ایکٹنگ کررہاہواسے کسی کا باپ بھی نہیں اٹھاسکتا۔مجھے یاد ہے کہ چندبرس پہلے ایدھی صاحب کو بچے دینے والی خواتین اپنے بچوں کو یہ کہہ کرواپس لے گئیں کہ وہ بچوں کوتعلیم کیلئےچھوڑگئی تھیں مگرٹی وی چینلزپر انہیں دکھاکر ان کی عزت اورغربت کا مذاق اڑایا گیااورجناب ستار ایدھی مرحوم انتہائی شرمندگی سے میڈیامیں معاملہ آنے پرمعذرت کااظہارفرمارہے تھے۔آپ نہیں جان سکتے ناں اُس ماں کادکھ !ہم سب نے انہیں زندہ درگورکردیاجیسے ہمیں توایک چٹخارے دارخبرمل گئی دوسری خبرآنے تک اس سے مزے لیں گے لیکن دوسری خبرتو اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ تھی کہ متعلقہ صوبائی وزیر قانون وپارلیمانی امورنے چائلڈایکٹ کے تحت ان والدین کے خلاف کا روائی کرنے کاحکم دے دیاتھا جنہوں نے غربت سے تنگ آکراپنے بچے ایدھی کے حوالے کیے،قانون کی حکمرانی زندہ باد۔اوہویہ تومیں بھول گیاکہ پنجاب میں ضمنی انتخابات کی گہماگہمی شروع ہوچکی ہے، جائیں ضرور جائیں،میں بھلاکون ہوتا ہوں آپ کوروکنے والا، جلسہ،جلسہ کھیلیں،باتیں بیچیں، باتیں کھائیں،جوزف ہیلرکے افسانے”آشوب شہر” کا ایک جملہ یادآگیا:”ہمارے گھر آنے والے غربیوں کو ہمارے انداز رہائش سے لطف اٹھانے کی اجازت ہے ” ۔
افلاس کی بستی میں ذرا جا کر تو دیکھو
وہاں بچے تو ہوتے ہیں مگر بچپن نہیں ہوتا

اپنا تبصرہ بھیجیں