A Symble Of Shameless Life

بے غیرتی کاشاہکارزندگی

:Share

ہائے تشویش ہمیں تیراخیال ہے،جب دیکھو ہم تجھ میں مبتلارہتے ہیں۔تجھ سے محبت کرتے ہیں،ہائے ہائے کاورد کرتے ہیں۔ہاں ہم اظہاریکجہتی بھی کرتے ہیں،تصویریں کھنچواتے ہیں اورپھراخبارات میں چھپواتے ہیں تاکہ سندرہے کہ ہم تشویش کی بیماری میں یکجہتی بھی کرتے ہیں۔یہ دیکھوتصویری ثبوت ،ہم دن مناتے ہیں….ماں کادن،باپ کادن،محبوبہ کادن،اورنجانے کتنے دن۔یوم اطفال منا یاگیا،بچوں کے حقوق پربڑے زورشورسے جذباتی تقریریں سننے کوملیں اورہرصاحب حیثیت کوتشویش میں مبتلا دیکھا۔اخبارات میں رپورٹس بھی شائع ہوئیں،دودن پہلے ایک خبردیکھی،ٹی وی چینلزنے اپنے کیمروں کی آنکھ سے یہ مناظرمحفوظ کیے اورپھرچل سو چل۔غربت اورافلاس سے مجبورماؤں نے اپنے جگرگوشے ایدھی سنٹرزکے حوالے کرنے شروع کردیئے ہیں۔ رپورٹ میں بتایاگیاکہ ایک ماں اپنے چاربچوں کوسنٹرمیں چھوڑکرچلی گئی۔اس سے پہلے ایک اورجوان ماں اپنے تین بچوں کو روتاچھوڑکرابھی سنٹرکے دروازے پرپہنچی ہی تھی کہ بیٹی کی چیخ نے اسے دروازے پرہی ڈھیرکردیا۔ایسی درجنوں مثالیں اس رپورٹ میں دکھائی جارہی تھیں،میراتودم گھٹناشروع ہوگیااورمارے بزدلی کے میں نے ٹی وی بندکردیا۔کیاکروں بچوں کی چیخ وپکاراورمائوں کی بے بسی نے میرے دل میں ایک ماتم کی مجلس سجادی ہےجس سے جان چھّٹتی نظرنہیں آرہی۔تفصیلات توآپ پڑھ چکے ہوں گے اورہائے ہائے بھی کیاہوگا۔لیکن اب بہت اچھے ہیں ہم سب۔

اب بھی غربت اورافلا س سے مجبورمائیں اپنے جگرگوشوں کوایدھی سنٹرکے حوالے کر دیتی ہیں کہ بچوں کی بھوک اوربیماری ان سے برداشت نہیں ہوتی۔وہ ایدھی جوگزشتہ سات دہائیوں سے سماج سیوامیں لگے رہے اوران بیماراورمفلس بچوں کوکھاناکھلانے کیلئے بھیک بھی مانگتے رہے۔دنیاسے رخصت ہوتے ہوئے اپنی آنکھیں بھی عطیہ کرگئے اوردوپڑھے لکھے نوجوان جوایک بم دہماکے میں اپنی آنکھوں سے محروم ہوگئے تھے،اپنے گھروں کے اکلوتے کفیل تھے، ایک مرتبہ پھرایدھی کی آنکھوں نے ان کی تاریک دنیاروشن کردی۔ وہی بیکس ایدھی جوسڑکوں پرکھڑاسسکتی انسانیت کیلئے اپنی جھولی پھیلائے کھڑارہتاتھااور ہرگزرنے والاغریب ریڑھی اوررکشے والابھی اپنی بساط کے مطابق پورے یقین کے ساتھ بخوشی اپناحصہ ڈال کرمطمئن ہوجاتاتھا۔اس کی رخصت کاجب وقت آیاتودنیانے دیکھاکہ ہماری فورسزکے تمام سربراہ باوردی اس کوسلیوٹ پیش کررہے تھے اورپہلی مرتبہ کسی عوامی فقیرکاجنازہ سرکاری توپ پررکھ کر بڑی شان سے آخری آرام گاہ تک پہنچایاگیالیکن خیراتی کاموں پراپنی تشہیر کیلئے میڈیاکو استعمال کرنے والے بیشترسرکاری اورسیاسی رہنماء ایدھی کے جنازے سے بھی محروم رہے یایوں کہیں کہ میرے رب نے ان کو اجازت ہی نہیں دی۔

اس سے پہلے ہم نے برداشت کادن منایاتھالیکن آخرکب تک برداشت!بس تبلیغ ہی تبلیغ،لیکچرہی لیکچر،باتیں ہی باتیں،سیمینارسجائیے ،یہ شدادکی جنت پنج ستارہ ہوٹل کس لیے ہیں،سجی ہوئی لمبی سی میز،اس ترتیب سے رکھے ہوئے گلاس جن کے اندرسفید رومال ٹھنساہوتاہے اورپھرمنرل واٹر۔میزکے کناروں اوردرمیان میں تازہ پھولوں کاڈھیر،گہری سوچ میں ڈوبے،تشویش زدہ دانش ور، آسودہ حال،سوشل اورٹائم پاس سامعین،ٹشوپیپر،کافی،چائے،پیسٹری اور کوکیزکے شوقین۔مستعداورفرمانبردارویٹرز،اورہرلمحے کو محفوظ کرنے والے کیمرے،کیاخواب ناک ماحول؟اورپھرسیمینارختم اورپیسہ ہضم۔وہی ڈھاک کے تین پات،چکنے گھڑے۔ہرایک پندو نصائح کاٹوکراسرپراٹھائے گھوم رہاہے۔باتیں لے لو،باتیں کتنے ٹن چاہئیں!لوگ مہنگائی کورورہے ہیں۔وہ شکوہ کر رہے ہیں،ارزانی نہیں ہے ارے کتنی باتیں چاہئیں،کتنے لیکچرچاہئیں باتیں اورہاں وہ بھی بالکل مفت۔دوچارٹن تومیں خودبھی تھامے گھوم رہاہوں۔باتوں سے مرعوب کرنے والے روح سے خالی جسم اورویسی ہی باتیں،بس بولناہے۔بولتے رہناہے،کرناکراناکچھ نہیں ۔

ہم سب اشتہارکے رسیاہیں،بس اشتہارچھپاتودوڑپڑتے ہیں۔پھرہرایک کے دل میں دردبھرجاتاہے،تصویراورسیلفی بنانی ہے ناں جناب۔ پھرکوئی راشن لے کرپہنچ جاتاہے،کوئی نوکری دینے لگتاہے،سب حاتم طائی کی اولادبن جاتے ہیں۔ویسے سو شل ڈنرکرتے ہیں، پارٹیاں منعقدکرتے ہیں،جھوم برابرجھوم، دودو لاکھ کاعروسی جوڑاتواب عام ہوگیاہے،اورلاکھوں روپے کے زیورات،دکھاواہی دکھاوا۔ پوچھاجائے کہ لائے کہاں سے یہ دولت؟توتیوری پربل پڑتے ہیں۔ عمرے پرعمرہ،جہازبھربھرکرلے کرجاتے ہیں کروڑوں روپے قومی خزانے کے اورثواب کاثواب۔خانہ کعبہ اورمسجدنبوی کے دروازے کھول کراندرداخل کیاجاتا ہے،نجانے کیاکیامانگاجاتاہے لیکن باہر نکلتے ہی نویدسنائی جاتی ہے کہ والی مکہ ومدینہ نے چارفیصدسودپرپاکستان کوتین ارب ڈالراپنے خزانے میں صرف رکھنے کیلئے عطاکردیئے ہیں،اب کیالکھوں کہ میرے رب نے توسودکواپنے خلاف کھلی جنگ قراردیاہے۔پڑوس میں افغان بھوک اورفاقوں میں مبتلاہیں لیکن چین کی کثیرامدادی پیکج کومحض اس لئے ٹھکرادیاکہ سروس کے نام پرایک فیصدسودعائدکیاگیاتھاجبکہ ہمارے وزیر خارجہ کی تصویربھی بہت وائرل ہورہی ہے جس میں وہ قرض دینے والے ملک سعودی سفیرکے سامنے ٹانگ پرٹانگ رکھ کراپنے حسن اخلاق کامظاہرہ فرمارہے ہیں اورایک درباری وخوشامدی مولوی اس کی صفائی دینے کیلئے اپنی عاقبت کوداؤپرلگارہاہے۔

ابھی دیکھتے رہیے،عید ِقرباں پرآپ کواسی ملک میں ایسی کئی خبریں پڑھنے کوملیں گی کہ اتنے لاکھ کابکرا،اتنے لاکھ کابچھڑا، بیچنے والاجوشکل سے مفلوک الحال لیکن اس کادعویٰ کہ وہ ساراسال اس جانورکوبادام اورمکھن کھلاتارہاہے،نجانے اس خبرکودیکھ کرکتنے بیکس خاندان کے افراداپنے انسان ہونے پرشرمندہ ہو کر قربانی کاجانوربننے کی خواہش کرتے ہوں گے۔پھرٹی وی پرفیشن زدہ ایلیٹ کلاس یہ کہتے ہوئی بھی نظرآئے گی کہ ڈیڈی نے اتنے کروڑکے جانورقربان کردئیے ۔خاک بسرلوگ قربان ہورہے ہیں کسی کی کان پرجوں تک نہیں رینگتی،سب کچھ اپنے اللے تللوں اورنمائش کیلئے،ہم وہ نمائشی بھکاری ہیں جنہیں اپنے پڑوسی کی خبرنہیں ہے اور رورہاہوں پورے ملک کو۔یہاں کماؤحلال حرام کے چکرچھوڑو۔باہرکے بینکوں کے پیٹ بھرو۔یہاں بھی عیش اور باہربھی عیش۔رندکے رندرہے اورہاتھ سےجنت نہ گئی،بس جہازبھرکراپنے خوشامدیوں کے ساتھ عمرہ کرکے پاک پوترہوجاؤ۔
تصویر شاہکاروہ لاکھوں میں بک گئی
جس میں بغیرروٹی کے بچہ اداس ہے

سب ڈھکوسلہ،جعلی پن بکواس ڈھٹائی،بے حسی اوربےغیرتی،وہ جناب عیسیٰ علیہ السلام نے باآوازبلندکہا:ماروضرورماروپتھر لیکن پہلاپتھروہ مارے گاجو پوتر ہو۔ہم توخودترسی کے مریض ہیں،خداکیلئےترس کھاؤہم پر۔زندگی کے نام پربدترین موت۔کبھی دوپل نہیں سوچتے کہ کب تک ایساہوتارہے گا،کب تک بھیک ما نگیں گے!شرم وحیاکالفظ ہی ہماری لغت سے غائب ہوگیاہے،ہمیں بھیک چاہیے،دیتے جاؤ،ہمارے ساتھ جوچاہےکرلوہاں جوچاہے کرو۔کیاہم بھول گئے کہ بھری عدالت میں امریکی اٹارنی نے کیاکہاتھاکہ پاکستانی تودس ہزاردالرکیلئے اپنی ماں کوبھی فروخت کردیتے ہیں،اس لئے کہ ہم نے اس وقت تازہ تازہ مال عافیہ صدیقی کی شکل میں فروخت کیاتھااورآج بھی وہ مجاہدہ امریکی جیل میں ان وعدون کی تکمیل میں گزاررہی ہے جنہوں نے اقتدارسنبھالنے سے قبل عافیہ کواپنی بیٹی اوربہن قراردیتے ہوئے سارے میڈیاکے سامنے قول واقرارکئے تھے۔اقتدارکی نمک کی کان میں پہنچتے ہی سب نمک بن گئے اوراب تویہ نعرہ ہے کہ جوچاہو لے لو،بس بھیک دے دو۔لعنت ہے ایسے جینے پر۔کچھ نہیں بدلنے کایہاں کچھ بھی نہیں۔ہم خودکونہیں بدلتے توسماج کیسے بدل جائے گا!ہر ایک اپنااُلوسیدھاکرنے میں لگاہواہے۔بس آج کادن گزارناہے،اس پیٹ کے دوزخ کوبھرناہے چاہے عزت بیچنی پڑے،گالیاں سننی پڑیں بس پیٹ بھرنے کیلئےراتب دے دو۔پھرسڑکوں پرآکریہ جیوے وہ جیوے کے نعرے،کب ہوش میں آئیں گے۔
وہی عشوہ گری ہے اوروہی رسمِ عزاداری
یہاں طرزِطرب،نہ شیوئہ ماتم بدلتا ہے

کئی تلخ یادیں اورخبریں لائن میں ایستادہ کھڑی چیخ چیخ کرمطالبہ کررہی ہیں کہ ان کابھی ذکرکروں۔آپ توجانتے ہیں کہ لمحہ بھر کی خطا،صدیوں کی سزاپرجا پہنچتی ہے ۔کہیں پرکسی مظلوم پرظلم ہوتاہے اورہم سب تماشہ دیکھتے ہیں۔ہمارے ہاں ایک خبرچھپی تھی جس کی بڑی ہی خوفناک سرخی تھی”قبضہ گروپ کی چنگیزی ،مڈل کی طالبہ۔۔۔۔۔۔کوبرہنہ کرکے کھمبے سے باندھ کرسرعام تشدد،اہل محلہ کی منت سماجت کے بعدحواکی بیٹی پرچادرڈالنے کی اجازت ملی۔آپ کہتے ہیں کہ میں بہت سخت زبان استعمال کرتا ہوں۔میں نے اس وقت بھی یہ لکھاتھاکہ ایک معصوم بچی کوپورے محلے کے سامنے برہنہ کیاگیااورپورامحلہ ان کی منتیں کرتارہا۔ اسے بے غیر تی نہ کہوں توکیاکہوں!اگروہ متحدہوجاتے توکس کے باپ میں اتنادم ہے کہ وہ کسی معصوم بچی کوبرہنہ کرتالیکن جناب بہت پیاری ہے ہمیں اپنی جان،بے غیرتی کاشاہکارزندگی۔مجرموں کی بعدمیں اوران اہل محلہ کی کھال پہلے کھینچنی چاہیے کہ تم میں سے کوئی ایک بھی غیرت مند نہیں تھا، سب کے سب بے غیرتی کامجسمہ بن کریہ منظردیکھتے رہ گئے!میں کہوں گاکہ پھر ایسے بے غیرتوں کو جینے کاحق ہی نہیں ہے۔میرے ایک قاری نے مجھے یہ لرزہ خیزاطلاع دی ہے کہ تمام ملزمان شک کافائدہ دیتے ہوئے بری کردیئے گئے اورایک مرتبہ پھروہ گائوں میں گولیوں کی تڑتڑاہت میں خوشی مناتے ہوئے داخل ہوئے اورساراگا ؤ ں دبک کراپنے گھروں کے کواڑبندکرکے اپنی غیرت کوتھپکیاں دیکرسلانے میں مصروف ہوگئے۔
افلاس کی بستی میں ذراجاکرتودیکھو
وہاں بچے توہوتے ہیں مگربچپن نہیں ہوتا

حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم بن ابی طالب اہل خشیت میں سے تھے،آپ رضی اللہ عنہ کی زبان اطہرسے نکلنے والے الفاظ یاقوت وزمرداوراندھیرے میں چراغ کی مانندہیں،قرآن اورصاحب قرآن کی پہچان میں آپ کے اقوال آج بھی رہنمائی فرماتے ہیں۔ حضورنبی اکرم ﷺنے آپ کوشہرعلم کے دروازے سے تشبیہ دی،آپ رضی اللہ عنہ وہ عظیم صحابی رسول ہیں جن سے بے ساختہ محبت کااظہارایمان کی پختگی کاپیمانہ ہے۔آپ کے ارشادات بھٹکے ہوؤں کوراستہ دکھاتے ہیں،آپ جب نماز کیلئے کھڑے ہوتے تواللہ کاخوف لرزہ برآندام کردیتا،شہادت سے قبل آپ نے مسکرانابندکردیاتھا۔آپ رضی اللہ عنہ کے مختصر الفاظ میں دین،دنیا کی حقیقتیں بیان ہوئیں،صاحب نہج البلاغہ نے فرمایا”مجھے تم پرجس چیزکاسب سے زیادہ ڈرہے وہ خواہش کی پیروی اورلمبی امیدیں باندھنا ہے ،خواہش نفس کی پیروی گمراہ کردیتی ہے اورلمبی امیدیں باندھناآخرت کوبھلادیتاہے۔ایک اورجگہ ارشادفرمایاکہ اللہ تعالیِ ہرشخص کی اصلیت دنیامیں ہی ظاہرکردے گا۔

میں ابھی یہ پڑھ کراپنامحاسبہ کرتے ہوئے کانپ ہی رہاتھاکہ میڈیامیں یہ خبرچلناشروع ہوگئی کہ”اسکروٹنی کمیٹی نے پی ٹی آئی کی اصلیت قوم پرعیاں کردی، دوسروں پرچوری کے الزامات لگانے والے عمران خان خودچورنکلے۔اب ہرطرف سے یہ مطالبہ زور پکڑنے لگاہے کہ عمران خان قوم کوبتائیں 53 بینک اکاؤنٹس کیوں چھپائے تھے؟خفیہ بنک اکاؤنٹس کن مقاصد کیلئے استعمال ہوتے رہے؟رپورٹ سے ثابت ہواکہ عمران خان صادق اورامین نہیں رہے، رپورٹ سے یہ بھی ثابت ہواکہ عمران خان سمیت پی ٹی آئی ممنوعہ غیرملکی فنڈنگ میں ملوث ہے۔عمران سمیت پی ٹی آئی کوسیاست کیلئے تاحیات نااہل قراردیناضروری ہے۔

غیرظاہرشدہ فنڈزکے بارے میں اسٹیٹ بینک کی رپورٹ میں انکشاف ہواہے کہ پی ٹی آئی نے77میں سے صرف12اکاؤنٹس ظاہرکیے ۔ اسکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ میں کہاگیاہے کہ پی ٹی آئی نے اکاؤنٹس میں 1ارب33کروڑ22لاکھ 33ہزار368روپے ظاہرکیے تھے جبکہ اسٹیٹ بینک کی دستاویزات کےتحت اکاؤنٹس میں ایک ارب64کروڑ 26سے زائدرقم وصول کی گئی،پی ٹی آئی نے53بینک اکاؤنٹس اور31کروڑروپے کی رقم چھپائی گئی۔پی ٹی آئی کے2008اور 2009کے دوبینک کھاتوں کوظاہرنہیں کیاگیا۔رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی نے نیوزی لینڈاورکینیڈاکے اکاؤنٹس تک رسائی نہیں دی۔ اسکروٹنی کمیٹی نے تحریک انصاف کے2008سے2013 کے آڈٹ کی تفصیلات،بینک اکاؤنٹس پراپناتجزیہ کورپورٹ کاحصہ بناتے ہوئے کہاہےکہ 2012-13کی آڈٹ رپورٹ پرکوئی تاریخ درج نہیں ہے۔آڈٹ فرم کی فراہم کردہ کیش رسیدیں بنک اکاؤنٹس سے مطابقت نہیں رکھتیں۔آڈٹ رپورٹ منظوری کیلئے پی ٹی آئی سنٹرل ایگزیکٹوکمیٹی میں پیش کی گئی تھی۔ آڈٹ رپورٹ پرتاریخ نہ ہونااکاؤنٹنگ معیارکے خلاف ہے۔پی ٹی آئی کے خلاف اسکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ کے اہم نکات سامنے آئے جس کے مطابق مطابق اسٹیٹ بینک کی جانب سے پی ٹی آئی کے بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات میں پاکستان میں ڈالر آپریٹڈاکاؤنٹس کی تفصیلات بھی رپورٹ میں شامل ہیں۔رپورٹ میں ممنوعہ فنڈنگ سے متعلق بھارتی،فرانسیسی اورآسٹریلوی قوانین کاحوالہ بھی شامل ہے۔

ابھی دودن قبل آنے والی خبرنے بھی چونکادیاکہ ہمارے محترم وزیراعظم عمران خان نے2017ءمیں ایک لاکھ3ہزار763روپے ٹیکس دیااور 2018ءمیں2لاکھ 82 ہزار449روپے ٹیکس ادا کیا اور اب اس سال انہوں نے98لاکھ54ہزار959روپے ٹیکس اداکیاہے۔ان کے مشیرسے عمران خان کے کاروبارکے بارے میں جب سوال کیاگیاتوانہوں نے لاعلمی کااظہارکیاجبکہ اپوزیشن کے ہررہنماءکے اثاثوں اورآمدن کے پورے اکاؤنٹس انہیں ازبریادہیں۔کتنی خبریں سناؤں،قانون کی حکمرانی زندہ باد۔اوہویہ تومیں بھول گیاکہ عمران خان کی حکومت کرپشن فری پاکستان کاہفتہ منانے کا پروگرام بنارہی تھی،پتہ نہیں اب اس رپورٹ کے بعداس پروگرام کاکیابنے گا،تاہم اگرایساہواتوآپ ضرورمنائیں،میں بھلا کون ہوتا ہوں آپ کو روکنے والا،سیمینار، سیمینارکھیلیں،باتیں بیچیں،باتیں کھائیں،لیکن ذراٹھہریں مجھے عین وقت پرجوزف ہیلرکے افسانے “آشوبِ شہر”کاایک جملہ یادآگیا:
“ہمارے گھرآنے والے غربیوں کوہمارے اندازِرہائش سے لطف اٹھانے کی اجازت ہے”۔
پہلے کون رہاہے یہاں،جواب رہے گا۔کچھ بھی تونہیں رہے گا،بس نام رہے گامیرے رب کا
آپ کہتے تھے کہ رونے سے نہ بدلیں گے نصیب
عمر بھر آپ کی اس بات نے رونے نہ دیا
ایک دو روز کا صدمہ ہو تو رو لیں فاکر
ہم کو ہر روز کے صدمات نے رونے نہ دیا

اپنا تبصرہ بھیجیں